سایت شخصی ابوفاطمہ موسوی عبدالحسینی

جستجو

ممتاز عناوین

بایگانی

پربازديدها

تازہ ترین تبصرے

۰

سیاسی و انتخابی منشور

 اردو مقالات سیاسی کشمیر

سیاسی و انتخابی منشور

مسئلہ کشمیر کو منطقی بنیادوں پر گامزن کرنے کی ضرورت

ارشاد الٰہی ہے:

 بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِیمِ۔

أَفَمَن یَمْشِی مُکِبًّا عَلَى وَجْهِهِ أَهْدَى أَمَّن یَمْشِی سَوِیًّا عَلَى صِرَاطٍ مُّسْتَقِیمٍ 

(سورہ ملک آیت 22)

 بھلا جو شخص اوندھا اپنے منہ کے بل چلے وہ زیادہ ھدایت یافتہ ہوگا یا وہ شخص جو کہ سیدھا برابر راہ راست پر چل رہا ہو۔

               ہر صاحب عقل وخرد صحیح راستے کو ہی انتخاب کرنا چاہتا ہے صرف لفظ صحیح کی تعبیر اور تفسیر میں انداز جدا ہوتا ہے اور یہی تکلیف شرعی بھی ہے۔[ خدا کسی کو اسکی طاقت سے زیادہ تکلیف نہیں دیتا](قرآن)۔اس لئے ہر کوئی اپنا استدلال پیش کرنے اور اپنا راستہ اختیار کرنے میں آزاد ہے اور ہرماہر فن اھل ذکر ,اس استدلال کو ٹھکرانے یا اسکی تائید کرنے کا جواز رکھتا ہے۔ اولیاء اللہ کی سرزمین کشمیر کی بازیابی کیلئے حقوقی اور حقیقی تحریک چلانے کی ضرورت ہے جو یہاں کے سیاسی افق کو روشن کرسکے اور اس سلسلے میں ہمارا منشور حسب ذیل حقائق کی روشنی میں دعوت فکر پیش کرتا ہے۔

کان الکشمیر لسکانھا                    جنت عدن ھی للمؤمنین
قد کتب ﷲ علی بابھا                     من دخله کان من الامنین

               اس شعر میں شیخ شہاب الدین سندی ؒ فرماتے ہیں کشمیر و ہ جنت ارضی ہے جس میں اھل ایمان کیلئے باغات میں نہریں بہہ رہی ہیں۔ بے شک اﷲ نے اس کے دروازے پر لکھا ہے جو اس میں داخل ہوا ،اس نے امان پا لی۔

 بہشت ارضی کشمیر کی تاریخ گواہ ہے کہ:

الف :       بہشت ارضی کشمیر انبیاء الہی کا  مسکن رہا ہے جس کا سلسلہ ابو البشر حضرت آدم علیہ السلام و مادر حوا علیہا السلام سے شروع ہوا ہے اور بعد میں حضرات سلیمان و موسی علیہم السلام کے مبارک قدموں سے بھی یہ سرزمین متبرک ہو ئی ہے نیز یہاں "روضہ بل" ہے جس کو مورخین نے  مدفن "یوز آصف" اور بعض نے "یسوع مسیح" لکھا ہے۔البتہ مستند تاریخ259 قبل مسیح ؑ  سے لیکر اب تک محفوظ ہے جس سے کشمیر کی اپنی مخصوص ملکی،ثقافتی،تہذیبی،ادبی اور علمی تاریخ اورتاریخ کی عظمت چھلکتی اور کشمیری عوام کی دینداری کی حکایت بیان ہوتی ہے۔

ب:         " راجہ اشوکا " کے دور حکومت سے لیکر 1346 عیسوی تک غیر اسلامی حکومتیں اس سرزمین پر حکم فرما رہی ہیں۔

ج:          1346 ء مطابق747 ہجری قمری میں وصی رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) شاہ ولایت و خلیفہ چہارم حضرت علی ابن ابیطالب علیہم السلام کی اولاد میں سےایک ولی خدا حضرت میر سیدشرف الدین موسوی بلبل شاہ قدس سرہ (متوفی 726 ہجری قمری مطابق 1326عیسوی) کی تبلیغ سے دین  مبین اسلام کا سورج کشمیر میں طلوع ہوا اور آنحضرت کے تیسرے وصی حضرت امام حسین علیہ السلام کی ذریت میں سے حضرت میر سید علی حسینی ہمدانی  رحمت اللہ علیہ(متوفی 786 ہجری قمری مطابق 1384ء) اورآنحضرت (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے ساتویں وصی حضرت امام موسی کاظم علیہ السلام کی ذریت میں سے حضرت میر سید محمد شمس الدین موسوی عراقی  قدس سرہ شریف (متوفی 932 ہجری قمری مطابق 1526ء)کی سربراہی میں اسلام کی ترویج ہوئی اور اسطرح1326ء سے 1586ء  تقریبا تین صدیوں تک کشمیر اسلامی ملک رہا ہے۔

د:            1586ء سے لیکر 1947ء تک سرزمین کشمیر آمروں کے  ہاتھوں میں آ گئی۔ جس دوران کشمیر پر کئی ملکوں نے حکومت  کی از جملہ:

·       :             ہندوستان نے 166 سال کشمیر پر حکومت کی ۔

·       :             افغانیوں نے ہندوستان کو کشمیر سے نکال باہر کیا اور 67 سال کشمیر پر حکومت کی ۔

·       :             پھر سکھوں نے کشمیر پر حملہ کرکے افغانوں کو کشمیر سے نکال باہر کرکے 27 سال کشمیر پر حکومت کی۔

·       ط:           انگریزوں نے ہندوستان کو اپنے زیر نگین کیا لیکن کشمیر پر حکومت کرنے سے عاجز رہے تو  ڈوگرہ تاجر گھرانے کے ہاتھوں کشمیرکو حقیر مبلغ کے عوض انسانیت اور سیاست پر بدنما داغ رقم کرکے فروخت کر دیا اور ڈوگرہ راج 101سال کشمیر پرمسلط رہ کر اپنا سود حاصل کرتا رہا۔

ان تمام سیاسی اتار چڑھاو کے باوجود کشمیر مجموعی طور پر 259قبل مسیح سے لیکر 1947 ءتک یعنی دو ہزار برسوں سے زائد عرصے تک ایک خود مختار دیندار ملک  رہا لیکن اس کے بعد کشمیر کے سیاسی افق پر بھیانک سیاسی بادل سایہ فگن رہے جس کا اجمالی خاکہ یوں کھینچا جاسکتا ہے:

 3 جون1947 کو برصغیر دو غیر مساوی حصوں میں تقسیم ہوا اور جسکے بعد کشمیر جوکہ راجہ گلاب سنگھ کے زمانے میں جموں و کشمیر کہلایا  جغرافیائی طورپر دو حصوں میں تقسیم ہو گیا ایک حصے کو دنیا نے پاکستان کے زیرانتظام کشمیر اور دوسرے کو ہندوستان کے زیر انتظام کشمیر  کے نام سے یاد کرنا شروع کیا اور بعد میں معلوم پڑا کہ چین کے زیرانتظام کشمیر بھی ہے لیکن کشمیر کے تینوں حصوں کو بنانے میں کشمیری عوام کا کوئی عمل دخل نہیں رہا ہے ۔کشمیری عوام نے خود پر مسلط آمر حکومت کے خلاف بغاوت کا علم بلند کیا تھا جس کے معراج کا دن 13جولائی1931 تھا اور اس علم کو ہمیشہ دفن کرنے کی ہر ممکن کوشش اب تک جاری ہے اور برصغیرکے سیاسی انقلاب کہ جس میں کشمیر کا کوئی کردار نہیں تھا اور1947 میں کشمیر کی خودمختار ملکی حیثیت کو جشن آزادی ہندوستان اور پاکستان کی نذر کرنے کی ناکام کوشش شروع کی گئی۔

·       یہی وہ زمانہ تھا جب دنیا میں جمہوریت کے نام پر غلام قومیں آزاد ہونا شروع ہوئیں لیکن کشمیر کی تاریخ ایک منفرد انداز میں رقم ہونا شروع ہوگئی۔البتہ بر صغیر ہند و پاک کی تقسیم اور کشمیر میں ایک مماثلت ضرور پیدا ہو گئی وہ یہ کہ ہندوستان دوغیر مساوی   حصوں میں تقسیم ہوا توپاکستان بن گیا۔۔کشمیر بھی دو غیر مساوی  حصوں میں تقسیم ہوا توآزاد کشمیر وجود میں آگیا۔برصغیر کے ، لوگ تقسیم ہوئے ،رشتہ داریاں تقسیم ہوئیں، بیچ میں سیاسی لکیریں کھینچ دی گئیں مگر بے قرار دل ایکدوسرے کیلئے پھر بھی دھڑکتے رہے۔نئے باب کھلتے گئے نئی محاذ آرائیاں شروع ہوگئی ،کشمیر کے لوگوں کی تقسیم کے ساتھ ساتھ گھر بھی تقسیم ہوئے، لوگ تقسیم ہوئے ،رشتہ داریاں تقسیم ہوئیں، بیچ میں سیاسی لکیریں کھینچ لی گئیں مگر بے قرار دل ایکدوسرے کیلئے پھر بھی دھڑکتے رہے۔نئے باب کھلتے گئے نئی محاذ آرائیاں شروع ہوگئی ۔ساتھ ہی کشمیر دونوں ملکوں کے درمیاں فسادات کی جڑبن گیا۔ پاکستان اور ہندوستان نے کشمیر پر اپنا اپنا حق جتانا شروع کر دیاالبتہ اس تلخ حقیقت سے آنکھیں نہیں چرائی جا سکتیں کہ اس معاملے میں پاکستان نے جارح کا رول ادا کیا۔

·       22 اکتوبر 1947 کو پاکستان نے ایک خود مختار ملک ( جموں و کشمیر) پرحملہ کیا اور کشمیر کے راجہ نے اپنے تاجر ہونے کا برملا ثبوت دیا اور وہ اس معاملے پر سودا بازی پر اتر آیا اور ہندوستان کے ساتھ سودا بازی کرکے جموں و کشمیر کے عوام سے پوچھے بغیر ہندوستان کے ساتھ  ناجائزالحاق کر دیا۔ جبکہ کشمیر ی فوج پاکستانی فوج کا ڈٹ کر مقابلہ کر رہی تھی مگر مہاراجہ نے اپنی فوج اور عوام پر بھروسہ نہیں کیا (جوکہ آمروں کے اوصاف میں سے ایک ہے)اور  کشمیر کو ہندوستان کے فوجی ہاتھوں میں سونپ دیا جبکہ اس بارے میں کشمیری عوام کی روح کو خبر نہ تھی اسطرح جنگی ماحول کشمیر کا مقدر بن گیا۔

·       22 اکتوبر 1947 کو ہندوستان نے کشمیر میں اپنا فوجی جماوڑا شروع کیااور کشمیر کی اپنی ایک فریق کی حیثیت متاثر ہونا شروع ہوئی اور ایک آزاد ملک کی جغرافیائی تصویر کو مسخ کرنے کا باب کھول دیا گیااور جمہوریت کی قبا تار تار ہونے لگی، جس کی لاٹھی اس کی بھینس کا کھیل شروع ہوگیا۔ایکطرف پاکستان دو مہینے تک صرف جنگ میں مصروف رہا دوسری طرف ہندوستان نے اپنی سیاسی جنگ بین الاقوامی محاذ پر شروع کی ۔

·       ہندوستان نے جنوری1948 میں اقوام متحدہ کے چارٹر نمبر35 کے تحت پاکستان کے خلاف کیس درج کیا اس کے ساتھ ہی ہندوستان کے وزیر اعظم نے دنیا کو یقین دلایا کہ کشمیری عوام خود فیصلہ کرے گی  کہ وہ کس کے ساتھ رہنا چاہتے ہیں اور اسطرح کشمیر کی خودمختاری اور آزادی کے دروازوں کو بھی بند کردیا گیا۔یکم جنوری 1948 کی رات کو اقوام متحدہ کی کاوشوں سے جنگ بندی کا اعلان ہوا۔ کشمیر کا ایک حصہ تو 24اکتوبر1947 میں ہی پاکستان کے انتظام و انصرام میں دے دیا  گیا تھا۔اور دوسری طرف ہندوستان نے 3 دن بعدیعنی 27اکتوبر1947 میں کشمیر کے بنیادی حصے کو اپنے انتظام و انصرام میں لے لیا۔ اور ایک بار پھر کشمیر کا جغرافیائی حلیہ بدل گیا۔

·       24 اکتوبر 1947 میں پاکستان نے کشمیر کے 1680 کلو میٹر رقبے کو باقی حصے سے جدا کیا اور اسکو آزاد کشمیر کا نام دیا۔

·       27 اکتوبر1947 میں ہندوستان نے کشمیر پر فوجی قبضہ شروع کیا۔

·       1948 میں پاکستان اور ہندوستان کے درمیاں کشمیر پر خونریز جنگ ہوئی۔

·       1965 میں دونوں ملکوں کے درمیان کشمیر پر اپنا اپنا حق جتانے پر دوسری خون آشام جنگ ہوئی۔

·       1971 میں دونوں ملکوں کے درمیاں اسی موضوع پر تیسری جنگ ہوئی۔

·       1986 میں وادی کشمیر میں گورنر راج قائم ہوا۔

·       1987 میں وادی کشمیر پر فوجی حکومت کے تحت صدر راج نافذ ہوا۔

اسطرح1947کے بعد سےایک طرف ہندوستان اور دوسری طرف نو مولود ملک پاکستان کشمیر جیسے تاریخی ملک  پراپنا حق ثابت کرنے کی بھر پور کوشش کرتے رہے۔ طرفین اس پر اب تک ہر قسم کی جنگ چھیڑتے گئے ۔جسکی بدولت  کشمیر اب تین حصوں میں تقسیم ہو چلا ہے۔ ایک حصے پر ہندوستان ، دوسرے حصے پر پاکستان اور تیسرے حصے پر چین حکومت کرتا ہے اور بیچ میں کشمیری عوام بالخصوص وادی کشمیر کا نچلا طبقہ مرتا گیا لُٹتا گیا اور ساتھ ہی عالموں، فاضلوں ، ڈاکٹروں،مفکروں، دانشمندوں ، لیڈروں اوربے سروسامان عوام غرض مظلوموں کا خون بہتا گیا نتیجہ ہر کسی کے سامنے ہے۔اسلئے صحیح سمت اختیار کرنے کیلئے اس اُلجھائے گئے مسئلہ کشمیر کو ان تعصبی عناوین سے جدا کرکے دینی و سیاسی مسئلہ جان کر سرزمینِ کشمیر کو جنت ارضی ہی بنائے رکھنے کیلئے تاریخی حقایق کی بنیاد پر ایسا ذریعہ سامنے لانا ہے جسے ہندوستان کے زیر انتظام کشمیر کے تینوں خطوں( جموں، لداخ کرگل اور وادی)کی عوام بلا امتیاز مذہب و مسلک یا زبان و قوم قبول کریں۔ اور اس طرح پاکستان کے زیر انتظام کشمیر بھی اپنا فیصلہ سنا سکے گا اور پھر چین کے زیر انتظام کشمیر بھی اپنی حقیقت کو پا لے گا۔

یہ امر غور طلب ہے کہ جب1990 میں ہندوستان کے خلاف عوامی بغاوت کا تجدید حیات کے ساتھ آغاز ہوا اورپاکستان نے عوامی آواز کو دبا کر فوجی دور کا آغاز کیا  اور جنت ارضی، مظلوموں، بے گناہوں، عالموں ، مفکروں اور غریبوں کے خون سے رنگین ہونا شروع ہوئی اور اب تک صرف جانی، مالی بلکہ ہر نقصان سے کشمیری عوام ہی نہیں سرزمینِ کشمیر کی بوٹی بوٹی دوچار رہی اور فائدہ صرف لیڈر صاحبان اور لمبے ہاتھ والوں کا ہوااور جو ترقی کا زینہ علم ،اقتصاد وثقافت ہوتا ہے اسے ہر طرف سے متاثر کیا گیاجس کے ساتھ نہ ہندوستان، نہ پاکستان اور نہ ہی لیڈر صاحبان انصاف کر پاتے ہیں۔اور وقت ثابت کر دکھائے گا کہ جو جو لیڈر کشمیر میں فوجی دور کو صحیح ٹھہراتے ہیں یا اسے مسئلہ کشمیر کو اجاگر کرنے کا زینہ بتاتے ہیں وہ کشمیری عوام کے حقیقی مجرم ثابت ہوں گے اور تاریخ اسکا ضرور فیصلہ کرے گا۔ اس بات سے انکار نہیں کیا جاسکتا کہ فوجی دور نے جموں و کشمیر کو ہندوستان کا اٹوٹ انگ بنانے میں اہم رول ادا کیا ہے اگر فوجی دور نہ آتا ہم کم سے کم پتھر ما ر مار کر،کانگڑیاں توڑ توڑ کر اپنا حق مانگنے کیلئے اس آواز کو زندہ رکھتے مگر فوجی دور نے کشمیر کو ایک دوسرے سے جدا کرنے کا آخری موقع فراہم کردیا  ہے۔

مقصد:

ضرورت اس بات کی ہے کہ مذکورہ حقائق کے پیش نظر کشمیر کو  مذھبی و دینی تعصب کی استکباری سیاست کا توڑ کرتے ہوئے دینی و مذھبی محبت و رواداری کی ثقافت کے فروغ کے منبع و مرکز کے طور ابھار کر حقیقی معنی میں ریشی منیوں کے دیش کے قیام کیلئے ہمت کی کمر باندھنا ہوگی۔اور بحمدللہ کشمیری عوام کے درمیان ایک یکسان صفت اور جذبہ موج مارتا ملتا ہے وہ دینداری ہے وہ مسلمان ہو یا غیر مسلمان(پنڈت،سیکھ،بودھ،ہندو وغیرہ) اور ہر دین و مذھب رواداری کی تعلیم دیتا ہے ۔قرآن میں آیا ہے :

 یَا أَیُّهَا النَّاسُ إِنَّا خَلَقْنَاکُم مِّن ذَکَرٍ وَأُنثَى وَجَعَلْنَاکُمْ شُعُوبًا وَقَبَائِلَ لِتَعَارَفُوا إِنَّ أَکْرَمَکُمْ عِندَ اللَّهِ أَتْقَاکُمْ إِنَّ اللَّهَ عَلِیمٌ خَبِیرٌ

 (سورہ حجرات آیت 13)

اے لوگو ہم نے تم کو مذکر اور مونث سے پیدا کیااور تم کو جماعتوں اور قبیلوں میں بنایا تاکہ ایکدوسرے کو پہچان  سکو،آپ میں سے خداکا سب سے محترم وہ ہے جوسب سے زیادہ پرہیز گار ہے ،خداہر چیز کا علم رکھنے والا ہے۔

               اب یہ کہنا مشکل ہو گا کہ جب علامہ اقبالؒ نے قرآن کی تعلیمات کی روشنی میں کہا تھا:

مذہب نہیں سکھا تا آپس میں بیر رکھنا            ہندی ہیں ہم وطن ہے ہندوستان ہمارا

تو انہوں نے کیوں دو قومی نظریئے کی طرفداری کی۔اس کیوں کاجواب زمانے نے دیا کہ دو قومی نظریہ اصلی تعلیمات اسلامی کی عکاسی نہیں تھی بلکہ علاقائی سیاست کی ترجمانی تھی جسے زمانے نے ضعیف نظریہ ثابت کر دیا۔آجکل جبکہ علمی دنیا میں پوری دنیا کو ایک گاؤں"گلوبل ولیج" کا نام دیا جا رہا ہے کیوں کر ایک دوسرے سے جدا ہو کر رہنے کو اپنا شعار بنائیں ۔ تعلیمات اسلامی سکھاتی ہے کہ انسان اشرف المخلوقات ہے اسکے تمام حقوق کے تحفظ کی ضمانت دینا مسلمان کا فریضہ ہے اگرچہ یہ انسان غیر مسلم (کافر) یا ملحد ہو ۔اپنے ملک کشمیر کے سبھی مکاتب فکر کو حکومت سازی میں نظریاتی آزادی کے ساتھ شریک کریں اور ہر ایک کیلئے آئین میں پورے مسلکی اور مذہبی تحفظات کا خیال رکھا جائے ۔

کشمیر میں نہ صرف مسلمان بلکہ ہر دین و مذہب کا پیرو اپنے عقیدے پر قائم رہتے ہوئے ،مذہبی ثقافتی اور وراثتی رواداری کے ساتھ ایک دوسرے کو برداشت کرتے ہوئے قابل فخر نمونہ پیش کر سکتا ہے۔ایسے ملے جلے معاشرے میں مذہبی طرز حکومت تشکیل دی جا سکتی ہے جس سے حکومت اسلامی مراد نہیں ہے بلکہ ہر مذہب کی حکومت مقصود ہے"مذہبی جمہوری  حکومت"۔ ایسی حکومت کو مردم سالاری دینی کہہ سکتے ہیں جسکی ترجمانی ہندوستان کے آئین اساسی کا Articl 51 بھی کرتا ہے۔

               مذہب جب تک اعتقاد کے دائرے میں رکھا جاتا ہےامن حاکم رہتا ہے اور جب مذہب کی تعلیمات کو عقیدے سے جداکرکے ذاتی رائے میں مجسم کیا جاتا ہے تو یہ جنون بنتا ہے اور عقیدہ جب جنون بن جاتا ہے تو عقیدے کے دائرے میں نہیں رہتا کیونکہ عقیدہ ذہنی اور فکری کاوش کا نتیجہ ہوتا ہے اور جب یہ جنون بن جائے تو ذہنی اور فکری کاوشوں کے ساتھ اسکا تال میل نہیں بیٹھتاتو اسکا ہر کام جو یہ اپنے عقیدے کے مطابق اپنے مذہب اوردین کی خدمت کرتا ہے یہ سب اسکا الٹا نتیجہ دیتا ہے ۔

ہندوستان میں کچھ ہندومذہبی جنون رکھنے والے آجکل ہندو توا کی بات کر رہے ہیں اور ان غیر سنجیدہ لوگوں کا جنون ہی ہندوستان کے خلاف سب سے بڑا مہلک ہتھیار ثابت ہورہا ہے جو کئی اٹم بموںسے زیادہ خطرناک ثابت ہوگا۔ہمیں نہیں بھولنا چاہئے کہ ایک بار پہلے بھی ہندوستان میں مذہبی جنون مسلمانوں اورہندووں کے بیچ چلا تھا جسے یقینی طور کسی بے دین ملحد نے ہندوستان کی سرزمین میں ہوا دی تھی تو ایک عظیم عوامی طاقت کئی ملکوں میں تقسیم ہوئی،خون کی ندیاں بہہ گئی لوگوں کے دل و جسم ٹکڑے ٹکڑے ہوئے اور ایشیاءمیں عظیم عوامی طاقت بکھر گئی، لوگ ایک دوسرے کو مذہبی یا سیاسی اعتبار سے شک کی نظروں سے دیکھنے لگے۔ مسلمان ہندوستان کا تاجدار تھااور مسلمان کا جسم و روح ہندوستان کی سالمیت کی دعا کرتا رہتا تھا،اسکی ترقی کیلئے کوشاں رہتا، اور ہندوستانی ہونے پر فخر محسوس کرتا تھاجسکی ترجمانی علامہ مشرق ڈاکٹر محمد اقبال ؒ نے "سارے جہاں سے اچھا ہندوستان ہمارا" لکھ کر بیان کی تھی ۔کوئی اس بات سے انکار نہیں کر سکتا کہ ابھی تک ہندوستان کے کسی بھی غیر مسلمان نے ایسا حب الوطنی کا کلام  لکھا ہے ۔ مگر پھر مذہبی جنون نے ایسے محب الوطن علامہ کو اس سرزمین سے جدا کیا اورنئی سرزمین کے ساتھ منسوب کیا۔ مذہب کے نام سے اختلافات بڑھائے گئے اور ہندوستان تقسیم ہوا، اور پاکستان بن گیا، ایک بار پھر مذہبی جنون پر مبنی دو قومی نظریئے کا نام دے کرپاکستان نے کشمیر پر حق جتانا شروع کیا، تو پاکستان بھی تقسیم ہوا اور بنگلا دیش کے نام سے ایک اور ملک وجود میں آیا، اور اگر حقیقت اور تاریخی درایت سے دیکھاجائے پاکستان،بنگلادیش،بھوٹان، نیپال،وغیرہ ۔۔ اصل میں سارے ایک ہی ملک یعنی ہندوستان کے جدا شدہ  حصے ہیں،صرف کشمیر اس میں جدا ہے اور اسکی ایک آزاد ملک کی حیثیت سے اپنی درخشندہ تاریخ موجود ہے۔

کشمیر کے بارے میں اس حقیقت سے انکار نہیں کیا جا سکتا کہ کشمیر کے مایہ ناز سپوت اور آخری مسلمان بادشاہ جناب یوسف شاہ چک کے ساتھ اپنوں کی دغا بازی نے ملک کشمیر کو ہندوستان کے حکام مغلوں کا غلام بنایا، اور یہاں پر یہ کہاوت بجا طور صادق آتی ہے” اس گھر کو آگ لگ گئی گھر کے چراغ سے“ کبھی گھرکے چراغ حضرت یعقوب صرفی، کبھی مہاراجہ ہری سنگھ، کبھی شیخ محمد عبد اﷲ اور اب ۔۔ وغیرہ، گھر کو جلانے کا کام کر گئے اور گھر کے چراغ سے ہی گھر کو آگ لگانا کشمیر کی سیاست بنی ہے جو کہ کشمیر کے روشن فکر  رکھنے والے لوگوں کی خاموشی کا بھی نتیجہ ہے ۔

               اس عمومی تجزیہ سے یہ اندازہ لگانا مشکل نہ ہو گا کہ کشمیر پر پاکستان اور ہندوستان کا دعویٰ سو فیصد سیاسی ہے اور مذہب کانام اس میں صرف اور صرف لوگوں کا استحصال کرنے کیلئے استعمال کیا جاتا ہے۔ڈکسن پلان وغیرہ اسی سیاست کا حصہ ہے۔کشمیر پاکستان اور ہندوستان کے ہاتھ میں انکی فوجی طاقت کی وجہ سے آگیا ہے مگر اسکا حل کبھی بھی فوجی طاقت سے نہیں نکالا جائے گا بلکہ اسکا حل سیاسی اعتبار سے نکالنا ہی وقت کی ضرورت ہے۔جسکے بارے میں مذید تجزیہ کے ساتھ کئی زاویوں سے دیکھنا ضروری ہے۔

کشمیر کئی ناموں سے جانا جاتا ہے جیسے:

§       ریشی منیوں کا دیش

§       پیر و فقیروں کا دیش

§       پِرءواری اور جنت ارضی وغیرہ ۔۔۔۔۔۔

                              ان ناموں سے بہت پیغامات حاصل ہوتے ہیں از جملہ یہ کہ کئی مذاھب کی اس سر زمین کے ساتھ وابستگی فطری رنگ اختیار کر گئی ہے اور عمدہ بات یہ ہے کہ ہر نام سے دین کی عکاسی ہوتی ہے ۔چونکہ اس سر زمین کا ہر فرد (مسلمان و غیر مسلمان )دیندار ہے یہی وجہ ہے اس سر زمین کا نام جو بھی دیا گیا وہ دینی عقیدے سے جڑا ہے مگر آج یہ دنیاکے برجستہ ناسور زدہ مسائل میں سے ایک کہلاتاہے ،اور اب تو کہنے کیلئے نیوکلیر فلش پوایٹ کا بھی  نام پیدا کر گیا  ہے اور جس کا سبب بی دینی اور ناستک عوامل کا کار فرما ہونا ہے جسے سمجھنا ضروری ہے۔اس حقیقت کو تسلیم کرتے ہوئے کہ اس سرزمین کے ساتھ دنیا کے نامور ادیان کے عقیدت مندوں کی عقیدتی وابستگی ہے۔

مسلمان

                                                           

مسلمان سرزمین کشمیر کو پیغمبروں ، اولیاء ، صوفیوں کا مسکن و گہوارہ مانتے ہیں ۔ اس اعتبا ر سے عقیدتی وابستگی کا لازمی حصہ ہے کیونکہ یہاں پر پیغمبر اسلام صلی اﷲ علیہ و آلہ وسلم سے منسوب موئے مقدس درگاہ حضرت بل میں ہے،خانقاہ معلی حضرت امیر کبیر سید علی حسینی ہمدانیؓ، زیارتگاہ حضرت امیر سید شرف الدین موسوی بلبل شاہ ؓ، زیارتگاہ حضرت امیر سید محمد شمس الدین موسوی صفوی عراقی، اور اولیاءاﷲ کی خانقاہ اور زیارت گاہیں ہیں۔ پیغمبروں سے منسوب مقامات از جملہ کوہ سلیمانؑ، روضہ بل،آستانہ عالیہ خانیار اور اہل بیت اطہار علیہم السلام سے منسوب کچھ یادگاریں موجود ہیں۔

ہندو سیکھ، پنڈت اور بودھ       

               سرزمین کشمیر مسلمانوں کےساتھ ساتھ غیر مسلمانوں( ہندوں،سیکھوں،پنڈتوں ، اور بودھوں )کیلئے بھی عقیدتی وابستگی کا مرکز ہے۔یہاں پر انکی مقدس زیارتگاہیں موجود ہیں۔جہاں پر ہر سال ہزاروں اور لاکھوں کی تعداد میں عقیدت مند حاضری دہتے ہیں۔

عیسائی

               عیسائیوں کیلئے بھی یہ سرزمینِ کشمیر عقیدتی وابستگی کا مرکز ہے، کچھ عیسائی مانتے ہیں کہ وادی میں حضرت مریم علیہا السلام دفن ہیں اور اگر  ثابت ہوتا ہے تو ہر الہٰی دین کے ماننے والے کیلئے یہ بہت اہمیت رکھتی ہے۔

1981کے مطابق کشمیر میں مذھبی تقسیم بندی

ہندوستان کے زیر انتظام کشمیر

خطے کا نام

مسلمان

ہندو

بودھ

وادی

95%

4%

 

جموں

29.60%

66.30%

 

کرگل لداخ

46.10%

2.60%

50.90%

مجموعی آبادی

64.20%

32.20%

1.20%

پاکستان کے زیر انتظام کشمیر

آزاد کشمیر

99.80%

 

 

گلگت بلتستان

99.80%

 

 

مجموعی آبادی

99.80%

 

 

مجموعی آبادی

74.90%

22.60%

0.80%

 

               مذہب یعنی روح کے ابدی ہونے کا عقیدہ ، جوکہ ہر بنی نوع انسان کیلئے دعوت فکرکا نام ہے جو اس دنیا میں ہر کام اس عقیدے کے ساتھ انجام دیتا ہے کہ مرنے کے بعد بھی خالق کائنات اس کی جزا یا سزا دے گا جس طرح انسان نے اپنی روح کی پرورش کی ہو اسی طرح مرنے کے بعد اسکی روحانی ابدی زندگی ہو گی اوراس سزا و جزا کے عقیدے کی تعبیر کے ساتھ استحصال کرنے والے بھی ملتے ہیں جو مذہب کے نام پر دنیا میں فساد قائم کرتے ہیں ،ماضی پرستی کی دعوت دیتے ہیں۔

اسلئے اس موضوع پر غور و فکر کرنے کیلئے اس بات کا خیال رکھا جائے کہ کسی بھی مذہب کا تقدس پامال نہ ہونے پائے،دوسرے مذہب کے بارے میں اپنی رائے قائم نہ کی جائے اور مذہبی امور پر رائے قائم کرنا مذہب کے سربراہ اہل ذکر افراد تک محدود رکھا جائے۔مذہبی روا داری تمدنوں کا ورثہ ہے تہذیب و ثقافت کا حصہ ہے ۔سرزمینِ کشمیر پوری دنیا میں مذہبی رواداری کا جیتا جاگتا نمونہ ثابت ہو سکتا ہے، بشرطیکہ ہم سب اپنی اپنی دینی تعلیمات کو اپنا اصول بنائیں،اور جسطرح قرآن غیر مسلمانوں کو مخاطب قرار دے کر ارشاد فرماتا ہے:تمہارے لئے تمہارا دین اور میرے لئے میرا دین

۔لَکُمْ دِینُکُمْ وَلِیَ دِینِ

 (سورہ الکافرون آیت6)۔

نیز قرآن مسلمانوں سےمخاطب ہو کر انکو خبردار کرتے ہوئے تاکید کرتا ہے کہ اپنی دشمنی اور عداوت کا معیار عدل و انصاف پر رکھو،ارشاد ہوتا ہے:اور خبر دارکسی قوم کی عداوت تمہیں اس بات پر آمادہ نہ کرے کہ انصاف کو ترک کرو، انصاف کرو کہ یہی تقویٰ سے قریب تر ہے۔

  یَا أَیُّهَا الَّذِینَ آمَنُواْ کُونُواْ قَوَّامِینَ لِلّهِ شُهَدَاء بِالْقِسْطِ وَلاَ یَجْرِمَنَّکُمْ شَنَآنُ قَوْمٍ عَلَى أَلاَّ تَعْدِلُواْ اعْدِلُواْ هُوَ أَقْرَبُ لِلتَّقْوَى وَاتَّقُواْ اللّهَ إِنَّ اللّهَ خَبِیرٌ بِمَا تَعْمَلُونَ

 (سورہ مائدہ آیت8)۔

یہاں ان تعلیمات کو عملی جامہ پہنانا بہت ہی آسان ہے کہ ایک دوسرے کے دین و مذہب کوقدر و احترام کی نگاہ سے دیکھیں اور دینی و مذہبی رواداری کو اپنا شعار بنائیں کہ جسطرح ایک پہاڑ پر ولی خدا کا آستانہ ہے تو دوسری طرف ریشی منی کا مندر ہے بیچ میں سکھوں کا گردوارہ ہے تو دارلخلافہ کے شہر کے بیچوں بیچ عیسایوں کاگرجا گھر ہے، کرگل سے لداخ تک ایک طرف مسجد ہے تو دوسری طرف بودھوں کی گپھا ہے، جموں سے لیکر پونچھ تک ایک طرف اگر مندر ہیں تو دوسری طرف مسجدیں بھی آباد ہیں،۔کشمیر کی سرزمین حقیقت میں ولیوں، پیروں ، فقیروں ، ریشی منیوں اور صوفیوں کا مسکن رہی ہے اور اس کا نام پِرءواری( یعنی صوفیوں اور درویشوں کا باغ )، اسلئے یہ خطہ جنت ارضی ہی رہنا چاہئے نہ کہ ناسور یا نیوکلیر فلش پوانٹ وغیرہ۔

               مذکورہ مختصر مذہبی رنگ کے خاکے  کے پیش نظر جو کہ دو ہزار سے زائد عرصے میں اپنے پیچھے اپنے اثرات چھوڑتاگیاہے جس کا تحفظ کرنا ہماری تہذیب و ثقافت کا ایک حصہ ہے اورجسکا دوسرا پہلو سیاست کا ہے  جو اسکی اصالت و حقیقت کو اجاگر یا مسخ کرسکتا ہے۔

کشمیرکو چونکہ تین ملکوں کے درمیان تقسیم کیا گیا ہے جس  سےخود کشمیرکا وجود  گم ہوچکا  ہے اسلئے جاننا ضروری ہے کہ کون سا کشمیر:

تین طاقتور ملکوں (ہندوستان، پاکستان اور چین )نے کشمیر کے تین حصوں کو اپنے قبضے میں رکھا ہے لیکن ہندوستان کے زیر انتظام کشمیر کی تاریخ اور حیثیت منفرد ہے اس خطے پر مغلوں ، افغانوں سیکھوں اور ڈوگروں نے مظالم کے پہاڑ ڈھانے میں کوئی دقیقہ فروگذاشت نہیں کیا ۔ سالہا سال تک آمر حکومتوں کا ظلم و ستم 1846میں کچھ نانک شاہی سکوں کے عوض اسکا سودا ،ہندوستان کے ساتھ مہاراجہ ہری سنگھ کا الحاق اور پھر جناب شیخ محمد عبداللہ کے ہندوستان کے ساتھ مہاراجہ کے الحاق کو مستحکم کرنے کے کئی معاہدے ۔ یہ سب ہندوستان زیر کے انتظام کشمیر کی تاریخ کے سیاہ ابواب ہیں  نیز کشمیر کی تاریخ کا خونین باب 1990 میں شروع ہوا جسکا مختصر تجزیہ پہلے کیا گیا البتہ متعدد فوجی و سیاسی تنظیمیں مسئلہ کشمیر کو حل کرنے کیلئے سرگرم عمل ہیں لیکن اس سیاسی سرگرمی کے بیچ کشمیرکیلئے ایک اور سیاہ باب رقم کرنے کی شعوری یا غیر شعوری سرگرمی نقطہ عروج کو چھونے جارہی ہے وہ ثقافتی جارحیت ہے جس سے کشمیر کی تہذیب و ثقافت اور اس کے مذہبی تشخص پر شدید کاری ضرب وارد لگائی  جارہی ہے اور مذہبی رواداری کا نمونہ بہشت ارضی کشمیر گناہوں کی آماجگاہ بنتا نظر آرہا ہے جس کیلئے عوام کی توجہ دلانے کے ساتھ کشمیر کی تہذیب و ثقافت کی بازیابی کیلئے عملی اقدام اٹھانا لازمی امر بن چکا ہے۔کشمیر کی متنازعہ حیثیت کا حل ہو بھی جائے لیکن ثقافتی جارحیت کی روک تھام کی نسبت آنکھیں چرانا آئیند نسلوں کے ساتھ ظلم ہوگا۔

یہ ایک مسلمہ حقیقت ہے کہ کشمیر  ہندوستانی راجواڑہ نہیں تھا کہ جسے چار ونا چار انڈین یونین میں شامل ہونا پڑتا بلکہ ایک خود مختار ملک تھا جس کی تائید ہندوستان کا آئین دفعہ 370 کے نام سے بھی کرتا ہے ،کشمیر کا  اپنا آئین اور اپنا قومی پرچم  تسلیم کرتاہے ۔اب جبکہ کشمیر کے لیڈر صاحبان دونوں کشمیر کو ملا نہ سکے اپنی آزاد شناخت واپس دلا نہ سکے ،کشمیر کی حد بندی کا خاکہ دنیا کے سامنے نہ رکھ سکے اورصرف سیاسی غلطیاں کرتے رہے کبھی موج کرتے رہے کبھی روٹھتے رہے اوراپنے شخصی مفادات پا تے گئے ایک جیب میں ہندوستان اور ایک جیب میں پاکستان لئے گھومتے رہتے ہیں جس سے کشمیر روز بہ روز سیاسی علمی اور اقتصادی طور پر کنگال ہوتا جارہا ہے ۔اور آج کشمیر جنت کی جگہ جہنم نما علاقہ بنکے رہ گیا ہے جسکی سیاسی جارحیت سمجھ میں آتی ہے لیکن تہذیبی اور ثقافتی جارحیت کا ہندوستان کے پاس کیا جواز ہے یہ سوال قانونی طور ہندوستان کے ایوانوں میں اٹھانا اور جواب طلبی کیلئے ہمت کا مظاہرہ کرنا لازمی امر بن چکا ہے۔کہ آخر کیوں ہندوستان کشمیرکی تاریخی تہذیبی، ثقافتی ،روحانی اورصوفیائی حیثیت مخدوش  کرنے کیلئے فوجی اور سیاسی طاقت سے بڑھ کر غیر مرئی طاقت سے کچلنے کے درپے ہے؟ ۔ پاکستان کے زیر انتظام  کشمیر  والوں کا حال وہ خود بہتر جانتے ہیں ہم ہندوستان کے زیر انتظام کشمیر والے سیاسی طور پرمحکوم رہے ہیں اور کشمیری سیاسی قیادت اس موضوع کو اپنے اپنے سلیقے کے ساتھ ابھارتی ہے اور ہندوستان بھی اپنے انداز میں اسکا جواب دیتا رہتا ہے جس سے کوئی متفق اور کوئی مخالف ضرور ہے لیکن ہندوستان سے ہر کشمیری فرد کا یہ سوال ہونا چاہئے کہ کشمیر کے خلاف تہذیبی و ثقافتی جارحیت کا کیا جواز ہے۔اور اس تہذیبی وثقافتی جارحیت کا شکار صرف کشمیر کا مسلمان نہیں بلکہ ہر دین و مذہب کا پیرو ہے!

مذکورہ حقائق کی روشنی میں کہ مسئلہ کشمیر کا حل تلاشنے کیلئے الحاق ہندوستان اور الحاق پاکستان کا سیاسی منشور رکھنے والی ایک سو سے زائد سیاسی و فوجی وغیرہ جماعتیں کشمیر میں سرگرم عمل رہی ہیں لیکن میرے انتخابی منشور میں نہ الحاق ہندوستان اور نہ ہی الحاق پاکستان کے حوالے سے کوئی غرض ہے بلکہ فوق الذکر حقائق کی روشنی میں سوالات کا انبار موجود ہے۔البتہ  مسئلہ کشمیر  کو حل کرنے کیلئے میرا مشورہ یہ ہوگا کہ  کشمیر کی کشمیریت کو زندہ کرنا ہوگا یعنی کشمیر  کی دینی و مذہبی شناخت  کی بحالی۔ کشمیر میں آباد ہر دین کے پیرو کی دینی بالادستی جسے "پیروں و ولیوں" یا" ریشی  منیوں" کا ملک کے طور پر بحال کرنے کیلئے  کشمیر کے آئین کو کشمیری اور مذھبی رنگ میں رنگنا ہوگا اور کشمیر میں لادینی کی حاکمیت نہیں بلکہ جمہوری مذھبی حاکمیت  کیلئے قانونی مسودہ تیار کرنا ہوگا۔ چونکہ کشمیر کے اپنے مجوزہ آئین کی بنیاد ٹیڑھی کشمیر یت  کے ساتھ  ترسیم کی گئی ہے اسکی عمارت بھی ٹیڑھی بنتی گئی ہے اور یہ معماری کا اصول ہے جب کسی عمارت کی بنیاد، اصول تعمیر سے ذرا مخالف تعمیر کی جائے وہ آخر تک منفی نتائج دے گی۔ صائب تبریزی نے کیا خوب فرمایا ہے:

خشت اول چون نھد معمار کج ______________تا ثریا می رود  دیوار کج

تبصرے (۰)
ابھی کوئی تبصرہ درج نہیں ہوا ہے

اپنا تبصرہ ارسال کریں

ارسال نظر آزاد است، اما اگر قبلا در بیان ثبت نام کرده اید می توانید ابتدا وارد شوید.
شما میتوانید از این تگهای html استفاده کنید:
<b> یا <strong>، <em> یا <i>، <u>، <strike> یا <s>، <sup>، <sub>، <blockquote>، <code>، <pre>، <hr>، <br>، <p>، <a href="" title="">، <span style="">، <div align="">
تجدید کد امنیتی