سایت شخصی ابوفاطمہ موسوی عبدالحسینی

جستجو

ممتاز عناوین

بایگانی

پربازديدها

تازہ ترین تبصرے

۰

کشمیر کے ناجائز عقد الحاق کو جائز بنانے کی ہندوستانی خوش آیند پیش کش

 اردو مقالات سیاسی کشمیر

باسمہ تعالی

کشمیر کے ناجائز عقد الحاق کو جائز بنانے کی ہندوستانی خوش آیند پیش کش

از : عبدالحسین کشمیری

 ہندوستان کا کہنا کہ آزادی سے کمتر کشمیری سب کچھ مانگ سکتے ہیں، ہندوستان کی طرف سےایک مدبرانہ سلیقہ اختیار کرنے  کی نشاندہی کررہا ہے  لیکن یہاں قیادت کے صفوں میں کھڑے ہونے والے حضرات نے اپنی سنت بنائی ہے کہ اپنے حریف کی مخالفت کے لئے کھڑے ہو جائیں  چاہے وہ ہندوستان الحاقی سیاستمدار ہوں  یا پاکستان الحاقی سیاستمدار ،یا اعتدال الحاق سیاستمدار ہوں یا الحاق مخالف سیاستمدار سب کے سب ایک ہی سلیقہ کو ظاہر ا ایک سیاسی اصول کے طور پر سیاست کررہے ہیں ۔یہی وجہ ہے کہ نہایت ہی سادہ اور آسان مسئلہ  ، مسئلہ کشمیر بن کر رہ گیا ہے۔

          میں نے گرچہ علوم سیاسی بھی پڑھی ہے لیکن اصل میں اسلامیات کا طالب علم ہوں اور میری کوشش یہی رہتی ہے کہ کسی بھی موضوع کو اسلامی تعلیمات کی روشنی میں سیکھوں  اور سمجھوں۔مسئلہ کشمیر کے بارے میں جس قدر بھی غور فکر کرتا ہوں اسے صرف ایک  قانونی انسانی مسئلہ پاتا ہوں نہ کہ کوئی اسلامی یا مذھبی مسئلہ ۔ مسئلہ کشمیر کو ایک اسلامی مسئلہ یا مسلمانوں کا مسئلہ عنوان کرنے کے بدلے اسےصرف ایک قانونی انسانی مسئلہ قرار دینے سے میری مراد یہ ہے کہ کشمیر کو مذھبی رنگ دینے کی کوئی ضرورت نہیں ہے ،کیونکہ مذھبی رنگ دینے سے اس مسئلہ  کو حل کرنے کے لئے نہ  آسانی ہوتی ہے نہ ہی پیچیدگیاں بڑتی ہے  بلکہ مذھبی رنگ اسکا طبیعی رنگ ہے ۔ کیونکہ یہ پیرء وار ہے ۔ کشمیر میں جس کسی مذھب کے ماننے والوں کی اکثریت ہوتی مسئلے کو اسی مذھب کا نام دیا جاسکتا تھا ۔ ہندو ہوتے ہندوں کا مسئلہ کہلاتا ، سیکھ ہوتے سیکھوں کا مسئلہ کہلاتا، بودھ ہوتے ، بودھوں کا مسئلہ کہلاتا ۔ ۔ ۔ ۔ اب چونکہ یہاں اکثریت مسلمانوں کی  ہے اس لئے اسے ایک اسلامی اور مسلمانوں کا مسئلہ عنوان کرنا  نہ شدت پسندی ہے نہ ہی انتہا پسندی بلکہ عقلی اور منطقی عنوان ہے ۔

آپ مسئلہ کشمیر پر غور کریں جو کہ ایک عقد کے سوا کچھ نہیں اور آپ  اسے ایک نکاح سے تعبیر کریں ، اور نکاح کو اپنے اپنے سلیقے کے ساتھ کسی بھی مذھب کے آداب و رسوم  کے ذاویے سے پرکھ لیں کہ ہندوستان کا کشمیر کے ساتھ عقد کے علاوہ  کوئی اور عنوان دیا جاسکتا ہے جسے سیاسی لوگ الحاق کہتے ہیں اورمیں اسے عقد کہتا ہوں ،کیا آپ کو ان  دو لفظوں میں کوئی فرق نظر آتا ہے؟۔اگر فرق نظر نہیں آتا تو اس غیر قانونی اور ناجائز عقد اور اس شادی کے بارے  انصاف دیں ، اور بتائیں کہ کون سا مذھب کون سی عقل  اس شادی کو قانونی اور جائز شادی قرار دیتا ہے ۔ ایک آزاد گھر میں  ایک کنواری لڑکی اس گھر کی مالکن بن بیٹھی ہے جبکہ سب گھر والے اسکے گھر کی مالکن بننے سے راضی نہیں ہیں اور اس پر اعتراض کا اظہار کرنے پر تلے ہوئے ہیں  ۔اسی دوراں ایک ہمسایہ اس کے گھر پر حملہ کرتا ہے اور وہ لڑکی چلا کر دوسرے ہمسایہ سے کہتی ہے کہ مجھے پناہ دو، اور  ہمسایہ پناہ دیتا ہے ۔اس حالت میں اس لڑکی کا پناہ مانگنا کس عقلی یا مذھبی دلیل سے جائز عقد اور شادی ،قبول کیا جائے ۔

 کشمیر کا مہاراجہ خود سرانہ کشمیر کے تاج و تخت کا مالک بن بیٹھا تھا اور لوگ اس سے تاج و تخت چھیننے کے لئے کمر بستہ ہوئے تھے ، اس بیچ پاکستان کی طرف سے قبائلوں نے حملہ کیا مہاراجہ نے ہندوستان سے پناہ مانگی ، ہندوستان نے پناہ دے کے اسے بعد میں الحاق کا نام دیا ! کیا یہ عقد الحاق جائز ہے؟۔

معلوم ہوتا ہے کہ مسئلہ کشمیر نہ تکمیل پاکستان کا مسئلہ ہے نہ ہی ہندوستان کی سالمیت کا مسئلہ ہے بلکہ عقد کا معاملہ ہےمتنازعہ عقد نکاح بن چکا ہے اور صرف عقد نکاح کا جائز یا ناجائز ہونے کے بارے میں انصاف دینا ہے ۔اگر ہندوستان کا ماننا ہے کہ کشمیر کے ساتھ کیا ہوا  عقد  الحاق جائز ہے تو کوئی انصاف دےیہ  ہندوستان کی کون سی مردانگی ہوئی کہ جس سے کشمیر کے ساتھ بقول اسکے عقد الحاق  کیا ہے ،۔ اسے بسانے کا کونسا رویہ اپنایا ہے ۔کبھی اسکے بال نوچ دیتا ہے  اور کبھی ہاتھ توڑتا ہے کبھی پاؤں توڑتا ہے ، بار بار آنکھیں دکھاتا ہے ، بات بات پر تمانچہ مارتا ہے اور جب اس(کشمیر) کے بدن کے کسی بھی عضو سے  آہ  نکلے تو اس عضو کو ناکارہ بنانے پر اتر آتا ہے شکنجے کرتا ہے وغیرہ ۔۔۔۔ اس  پردنیابھر میں  ڈنڈورا پیٹتا پھرتا رہتا ہےکہ میری جان کشمیر ، میرا تاج کشمیر  میری ملکہ کشمیر  وغیرہ ۔ ۔ ۔ کیا ایسا کرنا  دوہرا معیار نہیں ہے ؟ظلم اور ناانصافی نہیں ہے؟ ۔تو پھر آپ سب ہمارے ساتھ ہمصدا کیوں نہیں ہوتے۔  تو کیا آب بھی ظالم کا ساتھ دے کر ظالم بننا پسند کرتے ہیں ۔

ہندوستان کا اب کہنا کہ آزادی سے کم کشمیر کچھ بھی مانگ سکتا ہے ، جس سے معلوم ہوتا ہے کہ ہندوستان کہنا چاہتا ہے کہ ہم  کشمیری عقد الحاق کو جائز مان لیں اور ہندوستان سے طلاق کا تقاضا نہ کریں ۔ٹھیک  ہے یہ ایک مدبرانہ عمل ہے۔ اب اگر ہندوستان اپنے ظالمانہ  اور دوہری معیار کو چھوڑ کر ایک مثالی شوہر بننے کا ارادہ رکھتا ہے تو اسے اپنے آپ کو ثابت کرنا ہوگا ۔ جو جو وعدہ کشمیر کے ساتھ کیا ہے اس پر عمل کرکے دکھانا ہوگا۔ کشمیر کا خصوصی مقام ہندوستان کے داخلی اور خارجی امور میں تسلیم کرکے عملانا ہوگا ۔ یعنی خارجی امور میں اپنی ہر سفارت میں کشمیر  کے لئے کشمیرکونسل قائم کرنا اور کشمیر میں ہر ملک کا کونسل خانہ قائم کرنے کی اجازت دینا شامل ہو ۔ ہندوستان  اپنے  دفاع اور موصلات جیسے حساس معاملات کو چھوڑ کر کشمیر کو دنیا بھر کے ساتھ دو طرفہ  روابط قائم کرنے کا  قانون بناکر لاگو کرے ،تب جاکر ہندوستان پر کشمیری عوام دلی طور پر اعتماد کرنے کے لئے آمادہ ہوسکتی ہے ۔ نہیں تو  ہندوستان کی طرف سے کشمیر کے نسبت  دیرینہ ظالمانہ سیاست   کے بدولت ہندوستان  اسقدر بکھر جائے گا کہ پھر ہندوستان کی جغرافیائی عظمت تاریخ کی کتابوں میں ایک عبرت کے  عنوان سے تدریس کی جائے گی ۔ایسا نہ ہو کہ  ہندوستان کے لئے ایک ایسا دن آجائے جس دن ہندوستان کشمیر کو آزادی کی پیش کرنے کے بجائے پورے ہندوستان کو ہی کشمیر  کے نام سے چلانے کی دعوت دے اور پھر بھی کچھ حاصل ہو سکے ۔ کیونکہ مظلوم کی آہ میں اثر ہے ۔

اللہ کی بارگاہ میں دست بدعا ہوں کہ ہم سب کو انسانی شکل میں ہر درندہ ظالم کو سمجھنے اور اس کے خلاف نبرد آزما ہونے کی توفیق عطا فرمائے  اور مظلوموں ناصر و مددگار قرار دے۔ آمین ۔  

عبدالحسین کشمیری

‏اتوار‏، 11‏ اپریل‏، 2010

تبصرے (۰)
ابھی کوئی تبصرہ درج نہیں ہوا ہے

اپنا تبصرہ ارسال کریں

ارسال نظر آزاد است، اما اگر قبلا در بیان ثبت نام کرده اید می توانید ابتدا وارد شوید.
شما میتوانید از این تگهای html استفاده کنید:
<b> یا <strong>، <em> یا <i>، <u>، <strike> یا <s>، <sup>، <sub>، <blockquote>، <code>، <pre>، <hr>، <br>، <p>، <a href="" title="">، <span style="">، <div align="">
تجدید کد امنیتی