سایت شخصی ابوفاطمہ موسوی عبدالحسینی

جستجو

ممتاز عناوین

بایگانی

پربازديدها

تازہ ترین تبصرے

۰

گلگت بلتستان کو عید سے پہلے عیدی مبارک !

 اردو مقالات سیاسی کشمیر

باسمہ تعالی

گلگت بلتستان کو عید سے پہلے عیدی مبارک !

حسب روایت سیاسی پارٹیاں کسی بھی حکومتی اقدام کو صحیح یا غلط ہونے سے صرف نظر ، حمایت یا مخالفت میں بیانات داغتے رہتے ہیں تاکہ اپنے زندہ ہونے کا ثبوت پیش کر سکیں ۔ اس بار حکومت پاکستان نے جب گلگت بلتستان کو گلگت بلتستان کہنے کے لئے قانونی مسودہ بنا کے اعلان کیا تو جس پر پہلے مرحلے میں ہر انصاف پسند انسان کو داد تحسین دینا چاہیئے تھا کہ جس خوبصورت تاریخی علاقے کا نام مسخ کیا گیا تھا اسکی اصلاح کرنا ایک مستحسن عمل ہے اور اس محروم علاقے کے حقوق کو عوام کے لئے تفویض کرنے کے لئے مطلوب رھنما اصولوں کی نشاندھی کی جاتی لیکن اس کے بر عکس بعض نے اسے مسئلہ کشمیر سے جوڑ کر گلگت بلتستان کے حقوق صلب کرنے کے سامان فراھم کرنے کی کوشش کی ہے جو کہ ایک غیر دانشمندانہ عمل ہے ۔

 گلگت بلتستان کو اپنی شناخت واپس دی جا رہی ہے اس بات پر کس قسم کی مخالفت! ۔ کیا یہ ایک مھذھب قوم کو زیب دیتا ہے کہ کسی ایک تاریخی علاقے کا نام مسخ کرکے پیش کیا جائے ۔ گلگت بلتستان کا اپنا خوبصورت تاریخی نام ہے اس کو مسخ کرکے شمالی علاقہ جات رکھا گیا تھا جسے کسی بھی اعتبار سے منصفانہ نہیں کہا جاسکتا ہے ۔ کیونکہ شمالی علاقہ جات کہنے سے تو محروم رکھنے کا منظم ارادہ نظر آتا ہے اور حقیقت میں بھی اس بات کے زمینی شواھد موجود ہیں کہ ساٹھ سالہ دور میں پاکستان نے گلگت بلتستان کو کسقدر محروم رکھا ہے اور ان کے لئے مظلومانہ زندگی بسر کرنا ان کا مقدر بنایا گیا تھا ۔ اب اگر اس ظلم کا ازالہ کرنا مقصود نظر آئے اس پر کس بات کی مخالفت!۔

          گلگت بلتستان کو جموں و کشمیر کا حصہ ماننا یا نہ ماننا بلکل الگ موضوع ہے ۔ کیونکہ ابھی تک کشمیر کی جدوجہد آزادی قیادت اس بات کو صاف نہیں کر سکی ہے کہ کس کشمیر کی آزادی کے لئے جدوجہد کر رہے ہیں ۔ کشمیر تو اپنی تین ھزار سالہ تاریخی سیر و سلوک میں حدود اربعہ کو بدلتا دیکھاتا آیا ہے ۔ اگر پچھلے دو صدیوں کی تاریخ کی طرف ہی نظریں دوڑائیں تو معلوم پڑے گا کہ کشمیر کے لئے سیاسی جغرافیہ کس قدر بدلتا رہا ہے ۔ جدوجہد آزادی کرنے والوں کے لئے یہ بھی مشخص کرنا ہوگا کہ کشمیر کے کس حکمران کے سیاسی جغرافیا پر اپنے جان مال آبرو اور حیثیت کو داو پر لگانے کا ارادہ رکھتے ہیں ۔ البتہ جموں و کشمیر کہنے سے معلوم ہوتا ہے کہ ہم ڈوگرہ راج کے سیاسی جغرافیا پر مر مٹنے کی بات کررہے ہیں جس پر ھر کسی کا متفق ہونا ضروری نہیں ہے ۔ اگرچہ اس ڈوگرہ راج کے سیاسی خاکوں میں رنگ بھرنے کے لئے عسکری جدوجہد بھی شروع کرکے اسے جھاد فی سبلیل اللہ کہا گیا یعنی جھاد فی سبیل ڈوگرہ راج کو جھاد فی سبیل اللہ کہا گیا اور ظاھر سی بات ہے اس خد خال سے جھاد کم جھالت اور دھشتگردی زیادہ حاکم رہی ہے ۔ جس کا پاکستان نے کئ بار دبے الفاظ  میں اظہار بھی کیا اور خود صدر صاحب جناب آصف علی زرداری نے تو ایک بار کمال جرئت اور دیانتداری کے ساتھ اس بات کا اظہار کیا تھا لیکن پھر انہیں مصلحت سے کام لینے کا مشورہ دیا گیا جو کہ بجاے خود کشمیر اور کشمیر کے مستبقل کے لئے ظلم ہے ۔

          کشمیر کے تاریخی خد و خال کو جب دیکھتے ہیں تو اسکا مکمل استقلال صرف یوسف شاہ چک کے زمانے میں ملتا ہے اور اس وقت کشمیر کا جغرافیایی حدود اربعہ معمولی سی کم و بیشی کے ساتھ صرف اس حصے کو کہا جاتا تھا جو کہ اسوقت ھندوستان کے زیر انتظام میں ہے اور کشمیر کی جدجہد آزادی میں بھی صرف وادی کشمیر کے لوگ بھر پور حصہ لئے ہوئے ہیں جس پر وادی کشمیر میں قیادتیں منتشر اور نا منظم ہیں ۔ اگر مسئلہ کشمیر کو حل کرنا ہے تو اس کے لئے سب سے بڑی زمہ واری وادی کشمیر کے عوام اور قیادت پر آتی ہے کیونکہ کشمیر کا سیاسی جغرافیایی اور اصولی مرکز ہے ۔ اس لئے گلگت بلتستان کو مسئلہ کشمیر کے حوالے سے دکانداری چلانے کے نذر نہ کیا جائے ۔ اس ضمن میں حریت کانفرنس نے منصفانہ موقف اختیار کیا اور پاکستان کے گلگت بلتستان کے حوالے سے نئے سیاسی موقف کو داد تحسین دیا ہے ۔ اب چاہئے کہ پاکستان کو گلگت بلتستان کے لوگوں کو زیادہ سے زیادہ حقوق اور اختیارات دلانے کے بارے میں حکومت پاکستان کو تشویق کیا جائے اور گلگت بلتستان کو ایک خود مختار صوبہ حاصل کرنے میں ان کی یاری کی جائے جو کہ ابھی تک وہاں کے عوام کی دیرنہ مانگ تھی کہ گلگت بلتستان کو صوبائی سیٹ اپ حاصل ہو ۔ اگر اس وقت جدوجہد آزادی کشمیر کی قیادتیں (الحاق پاکستان/ الحاق ھندوستان یا مکمل آزادی) گلگت بلتستان کو صوبائی سیٹ اپ دینے میں حمایت کرتے ہیں کل جب کشمیر کی مرکزی قیادت مسئلہ کشمیر کو حل کرنے کی طرف بڑھتی نظر آئے گی اور ایک بین الاقوامی اعتبار کا ریفرنڈم کا اھتمام ہوجائے اس وقت زیادہ موثر طریقے کے ساتھ گلگت بلتستان سامنے آ کے کشمیر کے جغرافیایی سیاسی خدوخال کو واضح کرنے اپنا فریضہ ادا کرے گا ۔

          اس وقت گلگت بلتستان کی سیاسی قیادت کے لئے بھی بڑی آزمایش کا مرحلہ ہے کہ وہ عوام کے سیاسی حقوق کو تحفظ دینے میں کس حد تک کامیاب ہوتے ہیں ۔ مرحوم شیخ محمد عبداللہ کی مثال ان کے سامنے ہے ۔انہیں اس سے عبرت حاصل کرنا چاہئے کہ اگر وہ جدوجھد آزادی کے راہ اگر تھک بھی گئے لیکن ھندوستان کے آئین میں کشمیر کے سیاسی تحفظ کا اھتمام کیا جو آج بھی  آئین دفعہ 370 زندہ ہے اور جدوجھد آزادی کی روح ہے ۔ اس طرح اگر شیخ محمد عبداللہ نے ہار مان لی لیکن تحریک جدوجہد آزادی نے دم نہیں توڑا وہ ابھی بھی زندہ اگر چہ عسکری دور چلانے سے نا قابل تلافی نقصان پہنچایا گیا ہے ۔ جس طرح آپ (گلگت بلتستان)نے طرح طرح کے مصائب جھیل لئے لیکن قانونی اور اصولی موقف کو دھراتے رہے  اور خون خرابے اور عسکری دور شروع نہیں کیا یہ بھی تحریک آزادی کشمیر کے لئے بھی لمحہ فکریہ ہے ۔ اور اس بات پر میں گلگت بلتستان کے عوام اور قیادت کو سلام پیش کررہا ہوں ۔ اگر فرض کریں کہ پاکستان آپ کے مطالبات پورے نہیں کررہا ہے پھر بھی آپ بھولے سے بھی کسی عسکری تحریک کا حصہ نہیں بننا صرف کربلائی انداز میں اتمام حجت کرتے رہنا اور اپنی بات اور مظلومیت کو پہنچاتے رہنا ہے ۔

          صدر جمھور آصف علی زرداری صاحب کی قیادت میں پیپلز پارٹی کی نیک نیتیاں نظر آرہی ہیں امید ہے کہ صدر صاحب پاکستان کے لئے ایک حکیم ثابت ہوں جو اسی طرح ماضی کی تمام غلطیوں کا ازالہ کرنے کا اھتمام کریں ، چاھے وہ خود پیپلز پارٹی سے سر زد ہوئی ہیں یا کسی اور پارٹی سے سرزد ہوئی ہوں نیک نیتی خلوص اور رضای الہی حاصل کرنے کے جذبے سے انجام دیں اور عوامی امنگوں کے ترجمان بن کے ابھر آئیں اور پاکستان میں خون خرابے ماحول ختم کرکے علم و ترقی کے لئے مناسب ماحول فراھم کریں ۔ مسئلہ کشمیر کے حوالے سے حکومت پاکستان گلگت بلتستان کو مثالی خود مختاری دے کر دنیا پر اپنی نیک نیتی ثابت کر دکھائے اور گلگت بلتستان کے عوام کو عید سے پھلے عیدی دے کر کشمیر کی آزادی کے عید کا چاند کے اعلان کرے ۔

          آخر میں اللہ کی بارگاہ میں ماہ مبارک رمضان کے دعا کے ساتھ دنیا و آخرت کی آزادی کی درخواست کرتے ہیں ۔

اَللّهُمَّ اَدْخِلْ عَلى اَهْلِ الْقُبُورِ السُّرُورَ

اے اللہ قبروں میں سونے والوں کو خوشی و خرمی نصیف فرما۔

اَللّهُمَّ اَغْنِ کُلَّ فَقیرٍ اَللّهُمَّ اَشْبِعْ کُلَّ جایِعٍ اَللّهُمَّ اکْسُ کُلَّ عُرْیانٍ

اے اللہ ھر فقیر کو غنی کردے ،اے اللہ  ھر بوکھے کو سیراب کردے، اے اللہ ھر عریان کو ڈھک دے ۔

اَللّهُمَّ اقْضِ دَیْنَ کُلِّ مَدینٍ اَللّهُمَّ فَرِّجْ عَنْ کُلِّ مَکْرُوبٍ اَللّهُمَّ رُدَّ کُلَّ غَریبٍ

اے اللہ ہر قرض دار کا قرض ادا فرما ، اے اللہ ھر غمغین کو شاد فرما ، اے اللہ ھر غریب الوطن کو وطن نصیف فرما۔

اَللّهُمَّ فُکَّ کُلَّ اَسیرٍ اَللّهُمَّ اَصْلِحْ کُلَّ فاسِدٍ مِنْ اُمُورِ الْمُسْلِمینَ

اے اللہ (ھر بے گناہ) قیدی کو رھای نصیف فرما ، اے اللہ ھر مسلمانوں میں ھر فساد کی اصلاح فرما۔

اَللّهُمَّ اشْفِ کُلَّ مَریضٍ اَللّهُمَّ سُدَّ فَقْرَنا بِغِناکَ

اے اللہ ھر مریض کو شفا عنایت فرما، اے اللہ اپنی بے نیازی سے ہمارے فقر کو روک دے ۔

اَللّهُمَّ غَیِّرْ سُوءَ حالِنا بِحُسْنِ حالِکَ

اے اللہ ہماری بد حالی کو نیک حالی میں تبدیل فرما ۔

اَللّهُمَّ اقْضِ عَنَّا الدَّیْنَ وَاَغْنِنا مِنَ الْفَقْرِ اِنَّکَ عَلى کُلِّشَىءٍ قَدیرٌ

اے اللہ ھمارے قرض کو ادا فرما فقیری سے غنی کردے کیونکہ تم ھر چیز پر قادر ہو ۔

آمین یا رب العالمین ۔

عبدالحسین 

September 2009

تبصرے (۰)
ابھی کوئی تبصرہ درج نہیں ہوا ہے

اپنا تبصرہ ارسال کریں

ارسال نظر آزاد است، اما اگر قبلا در بیان ثبت نام کرده اید می توانید ابتدا وارد شوید.
شما میتوانید از این تگهای html استفاده کنید:
<b> یا <strong>، <em> یا <i>، <u>، <strike> یا <s>، <sup>، <sub>، <blockquote>، <code>، <pre>، <hr>، <br>، <p>، <a href="" title="">، <span style="">، <div align="">
تجدید کد امنیتی