سایت شخصی ابوفاطمہ موسوی عبدالحسینی

جستجو

ممتاز عناوین

بایگانی

پربازديدها

تازہ ترین تبصرے

۰

مسئلہ کشمیر کیلئے خود فکری اور عملی استقلال؛ مسئلہ!

 اردو مقالات سیاسی کشمیر

مسئلہ کشمیر کیلئے خود فکری اور عملی استقلال مسئلہ!

فکری یا عملی استقلال کے لئے لازم ہے کہ انسان اپنے اھداف کو شفاف طریقے سے متعین کرے تاکہ اسے اپنی مقصود حاصل ہو سکے۔ ایسے امر کے لئے لازم ہوگا کہ فکر کو ایک جہت دے کر خاص اور موثر قوانین کی روشنی میں تجزیہ و تحلیل کرنے کا سلسلہ شروع کیا جائے اور اس سلسلہ کو جس حد تک قید و بند کرنے میں کامیاب ہوتے ہیں، نتائج اتنے ہی زیادہ مفید سامنے آنے کے امکانات بڑھ سکتے ہیں ۔ اگرچہ اس بات سے انکار نہیں کیا جاسکتا کہ فکر کے لئے استقلال عنوان کرنا فکر کو محدود کرنے کا نام ہے ، کیونکہ فکر جتنی مستقل طور پر عمل کرنا شروع کرے گی اتنی ہی منفی اثرات سامنے آجا‏ئیں گے کیونکہ فکر میں ٹھراو  نہیں آسکتا ہے اس لئے ضرورت اس بات کی آن پڑے گی کہ فکر کو کسی متعین ھدف کے دائرے میں قید اور محدود کرکے ان قیود اور محدویتوں کے اندر آزاد چھوڑ دیں جو کہ ظاہرا ضدونقیض امر ہے لیکن اگر انسان اپنے باطنی نبی (عقل) سے رجوع کرے تو کوئی ضدو نقیض والا امر عملا پیش نہیں آئے گا، کیونکہ نظم اور بد نظمی کی نشاندہی عقل ہی کرتی ہے انسان میں جسقدر عقلی ارتقا حاصل ہوتا ہے وہ اتنا باریکی کے ساتھ نظم کا زیادہ قائل ہوجاتا ہے ۔

اگر انسان کو لامحدود فکری استقلال حاصل ہوگا وہ بد نظمی کا شکار بن جائے گا اور جب بدنظمی کا خود شکار ہوجائے تو کچھ مفید نتائج حاصل کرنے سے قاصر رہ جائے گا ۔ تو معلوم ہوتا ہے استقلال کا کلمہ در اصل محدود دائرے میں لامحدود حد تک جانے کا نام ہے  ظاہر سی بات ہے کہ ایسا کلی امر کسی بھی دائرے کار کے لئے مخصوص نہیں ہو سکتا ہے ۔ یعنی اگر استقلال کو غلامی کا نام دیں گے کچھ مغالطہ نہ ہوگا البتہ ایسا مغالطہ لفاظی اور نقادی کی دنیا کے شایان شان ہوگا۔ کیونکہ جب ضدونقیض تحلیل کرنا چاہیں گے اس میں بھی مقصد صاف و شفاف ہونا چاہئے کہ دونوں کا مدعی و مقصد سمجھ میں آجائے نہ کہ ان میں سے ایک یا دونوں کے بارے میں تردد اور غلط فہمی کے شکار بن جائیں ۔

ابھی جب ہم فکری استقلال کی بات کرنا چاہتے ہیں اس میں بھی ضدو نقیض لگ رہا ہے کہ ایک طرف پوری آزادی کے ساتھ فکر کرنے کی بات کی جاتی ہے اور دوسری طرف اسے غلامی کا نام دیا جاتا ہے ۔ اصل میں ہر ضدونقیض والی بات تقریبا ایسی ہی ہوتی کہ بات ایک ہی ہوتی ہےلیکن ترازو کے دو  حصوں میں نقطہ میزان سے آنکھیں چرا کے صرف ایک حصے یا دوسرے حصے کی بات کی جاتی ہے ۔ اور ایسا انداز یا ذاویے کے اعتبار سے نہیں ہوتا ۔ جسے نقطہ نگاہ بھی کہا جاتا ہے لیکن یہاں پر نقطہ نگاہ کے بارے میں بحث کرنا مقصود نہیں ہے کیونکہ نقطہ نگاہ کا اطلاق سوچ اور فکر پر ہی اور وہ فکر متضاد اور مختلف ہوا کرتی ہیں ۔ جس کی وجہ سے ایک دیکھنے والے کا بیان دوسرے کے بیان کے ساتھ مختلف ہوتا ہے ۔

 فرض کریں ۔ اگر کسی بڑے ہال میں ایک تاجر داخل ہوگا تو وہ کہے گا کہ یہ جگہ انبار کے لئے مناصب ہے اور اگر ایک پرنسپل دیکھے گا تو وہ کہے گا یہ جگہ امتحان لینے کے لئے مناسب ہے اور اگر کوئی کھلاڑی دیکھے گا کہے گا کہ یہ ورزش کے لئے مناسب نہیں ہے وغیرہ ، غرض ھر صنف کا صاحب نظر اپنے دائرہ فکری کے میزان کے مطابق اپنی رائے ظاھر کرے گا اس کا مطلب یہ نہیں کہ ہر کسی کی بات ضد و نقیض ہیں ، نہیں بلکہ مستقل تعبیر ہیں متضاد نہیں ۔ ایسے موارد کو ضد و نقیض عنوان  کرنے کے بجائے اگر ہم رائے کو صاحب رائے کے فکری میزان کے اعتبار سے عنوان کریں گے، مناسب ہوگا ۔ کیوں! کیونکہ اکثر دیکھا جاتا ہے کہ دلکش الفاظوں سے ہی فریب دیا جاتا ہے ۔ جب کسی کو نماز نہیں پڑھنی تھی اس نے کہا کہ آو شراب اور شباب کی محفلیں سجاتے ہیں کیونکہ اللہ نے قرآن میں شراب اور شباب کی محفلیں سجانے والوں کے لئے ویل نہیں کہا ہے بلکہ نمازیوں کے لئے ویل للمصلین کہا ہے ۔ (نمازیوں پر ویل ہو) اس طرح نماز نہ پڑھنے کے لئے بھی نماز کے آمر کی زبان سے ہی اسکی نھی کرنے کی دلیل پیش کی ۔ اور یہ مستکبروں کی دیرینہ حکمت عملی ہے کہ جب بھی کسی دلیل کو  اپنے مفادات کے خلاف پاتے ہیں اسی کی بات سے اس طرح بات نکالتے ہیں اور اسکے خلاف استعمال کرنے کی کوشش کرتے ہیں کہ کمزور ارادے والا طرف پشیمان ہوجاتا ہے کہ آخر میں نے اس بات کو بیان ہی کیوں کیا تھا ۔

 غرض استقلال اور آزادی فکری ہو یا عملی غلامی ہے اور ایسی غلامی کو  ایمان ، عقل، فکری ارتقا اور علم کا نام دینا چاہئے، کیونکہ جب تک آزادی کو غلام  نہیں بنایا جاتا وہ درندگی کے سارے حدیں پار کر جاتا ہے ۔ اس اعتبار سے اگر کوئی استقلال اور آزادی حاصل کرنے کی تمنا ظاھر کرے اور اسے یہ کہہ کر کہ استقلال اور آزادی در اصل غلامی ہے کیوں کر غلامی کی تمنا لئے گھومتے ہو پست ھمت بنانے کی بھی کوشش کی جاسکتی ہے لیکن اگر درایت اور عقلمندی کا مظاھرہ کیا جائے اور  کہا جائے  کہ حد بندی کے بغیر استقلال اور آزادی رکھنے والا موجود حیوان یا درندہ کہلاتا ہے ہمیں اس زمرے میں آنے کی کوئی خواہش نہیں ہے ہم جذبے کی نہیں حقیقت کی ترجمانی چاہتے ہیں ہم استقلال بھی چاہتے ہیں اور غلامی چاہتے ہیں ، استقلال وہ چاہتے ہیں جس میں قید و شرط ہو اور قید و شرط وہ چاہتے ہیں جس میں استقلال اور آزادی ہو ۔

اس مقدمے سے قارئین محترم متوجہ ہوئے ہوں گے کہ کلیات کی طرف اشارہ کرنے کے ساتھ ساتھ یہاں پر میں کیا کہنے جا رہا ہوں ، جی ہاں ، میں اپنے عزیز ترین موضوعات میں سے عمدہ مطلب کو بیان کرنا چاہتا ہوں یعنی کشمیری عوام کو سیاسی استقلال اور آزادی حاصل کرنے کا حق ۔

 میرا ماننا ہے کہ  اگر کشمیر کی اکثریت بھی اس بات کی حامی بن جائے کہ کشمیر کو سیاسی استقلال اور آزادی کا حق نہیں ہے وہ کشمیر پرھندوستان کے شاطرانہ اور مستکبرانہ طریقہ کار کے ساتھ مسلط ہونے پر راضی ہیں تب بھی ھر انصاف پسند انسان  کشمیری عوام کو سیاسی استقلال اور آزادی طلب کرنے کا حق محفوظ مانے گا ۔ چہ بسا کہ اکثریت قریب بہ اتفاق اور ایک جائزے کے مطابق اسی فیصد عوام کشمیر پر ھندوستان کے شاطرانہ اور مستکبرانہ قبضے سے ناراض ہیں ۔ اور ھندوستان سے بین الاقوامی قوانین کے دائرے میں مسئلہ کشمیر کو دائمی طور حل کرنے پر مسر ہیں ۔ اس میں ھر کشمیری اپنے اپنے طرز عمل میں اس ایک ہی حقیقت یعنی مسئلہ کشمیر کے دائمی حل کی وکالت کرتے رھتے ہیں ۔

 آزادی پسند محاذ والے اپنے انداز کے ساتھ اور مصلحت پسند حکومت ساز جماعتیں اپنے انداز کے ساتھ ۔ اگر یہ وکالت مسئلہ کشمیر کے حل کرنے کی ہے تو اس میں ھر کشمیری کا جدوجہد ایک ہی مقصد کی آبیاری کرتا ہے اور ھندوستان کا ھم نوا بننے والا یا پاکستان کا ھم نوا بننے والا بھی اسی ایک مقصد کی آبیاری کرتا ہے جو کہ بظاھر ضد و نقیض لگتا ہے کہ ایک حکومتی عہدے سبھال کے عیش و عشرت کی زندگی گذارتا ہے اور دوسرا جیلوں میں مصیبت جھیل رہا ہے کس طرح قابل مقایسہ ہیں ۔ اتفاقا یہ ضد و نقیض بلکل آزادی کو غلامی کہنا اور غلامی کو آزادی کہنے کے مترادف ہے کہ استقلال اور آزادی کہنے والا اعلان کرتا ہے کہ میں ایک طریقہ کار کا پابند بننا چاہتا ہوں یا یوں اعلان کرے کہ میں ایک طریقے کار میں ہر کام کرنا چاہتا ہوں تو دونوں کا ما حصل ایک ہی ہوگا ۔

 استقلال اور آزادی ، غلامی اور حصار بندی مساوی نظر آئیں گے ۔ جب ہم کہتے ہیں کہ ہم مسلمان ہیں یعنی ہم اپنی غلامی کا اعلان کرتے ہیں اور اس غلامی میں کہا جاتا ہے خلق اللہ حرا (اللہ نے آپ کو آزاد خلق کیا ہے) حریت (آزادی) اور غلامی ایک ہی مفھوم بیان کرتے ہیں ۔ ان دونوں باتوں کا تبھی ماحصل ایک نکلتا جب دونوں باتوں ایک ہی مقصد متعین ہے ۔ مسلمان بننا یعنی اسلام کے اصول و ضوابط کو قبول کرنے اور اصول و ضوابط میں قید ہونا یعنی غلام بننا اور اس غلامی میں آزاد بننا یعنی صرف ایک خالق کا بندہ بنکے رہنا ہے ۔

اگر کشمیر کی سیاسی جماعتیں بلا امتیاز طرفداری پاکستان یا ھندوستان کشمیری عوام کے خیر خواہ ہوں گے وہ عوام کی بہبودی کے لئے جو بھی قدم اٹھائیں گے وہ از حد متضاد ہونے کے با وجود ایک ہی مقصد کی آبیاری کریں گے وہ ہے عدالت اور انصاف کہ جس کا عملا نھایت ہی فقدان ہے ۔ کہتے ہین «من جد وجد»(جس نے ڈھونڈا اس نے پایا) اگر ہماری سیاسی جماعتیں مسئلہ کشمیر کو حل کرنے کے لئے اپنے اپنے طرز عمل میں خلوص بھی شامل کریں گے مسئلہ کشمیر حل ہو کے رہے گا اور اس کے مفید ثمرات سے،کشمیر اور کشمیریت کا ہر دوست و دشمن بھرہ مند ہو جائے گا۔ 

اللہ کی بارگاہ میں دست بدعا ہوں کہ ہمیں کشمیر کو امن و امان کا گھوارہ بنانے کے لئے متحد طور پر اغیار کے قیود سے کشمیر کو نجات دلانے کی توفیق عطا کرے تاکہ ہمیں دنیا اور آخرت کی نیکیاں حاصل ہو ۔ آمین یا رب العالمین۔

عبدالحسین 

‏پیر‏، 10‏ اگست‏، 2009

تبصرے (۰)
ابھی کوئی تبصرہ درج نہیں ہوا ہے

اپنا تبصرہ ارسال کریں

ارسال نظر آزاد است، اما اگر قبلا در بیان ثبت نام کرده اید می توانید ابتدا وارد شوید.
شما میتوانید از این تگهای html استفاده کنید:
<b> یا <strong>، <em> یا <i>، <u>، <strike> یا <s>، <sup>، <sub>، <blockquote>، <code>، <pre>، <hr>، <br>، <p>، <a href="" title="">، <span style="">، <div align="">
تجدید کد امنیتی