سایت شخصی ابوفاطمہ موسوی عبدالحسینی

جستجو

ممتاز عناوین

بایگانی

پربازديدها

تازہ ترین تبصرے

۰

کشمیری بجلی ہاتھی کے دانت

 اردو مقالات سیاسی کشمیر

بسمہ تعالی

کشمیری بجلی ہاتھی کے دانت

حیات کا دوسرا نام بجلی ہے ، جہاں جسقدر بجلی جتنی زیادہ مقدار میں استعمال میں لائی جاتی ہے وہاں اتنا ہی زیادہ زندگی کا معیار بلند ملتاہے ۔ امریکا ایک بڑے طاقت کے نام سے جانا جاتا ہے اور اسکی طاقت کا معیار اسکی انرجی کے استعمال سے ہوتا ہے ۔ ہندوستان نے اپنے ملک میں معیار زندگی میں بہتری لانے کے لئے ایٹمی بجلی گھر بنانے کا سلسلہ شروع کیا ہوا ہے ۔

تھرمل ، ہیڈرو اور ر نیوکلیر بجلی گھروں کا جال بچھایا جا رہا ہے ،اور ہیڈرو بجلی گھروں سے حاصل کی جانے والی بجلی کا ایک عمدہ بجلی گھر ہندوستان کے زیر انتظام کشمیر میں ہے۔ اس عمدہ بجلی گھر کی عمدہ بجلی ہندوستان کو فروخت کی جاتی ہے۔ جس سے معلوم ہوتا ہے کہ کشمیری عوام معیاری زندگی کے مالک ہیں کہ بجلی بھی پیدا کرتے ہیں اور ہندوستان کو فروخت بھی کرتے ہیں ۔ جی ہاں اسقدر معیاری زندگی کے مالک ہیں کہ کانگری اور موم بتی کے بغیر کشمیری زندہ نہیں رہ سکتا ہے ،کیونکہ ان کی زندگی کا معیار عالی ہے ۔ کینڈل ڈنر اور چمنی کا استعمال اعلی معیار کے لوگ ہی کرسکتے ہیں ۔ دنیا بھر کے ترقی یافتہ ممالک کبھی کبار شوقیہ طور اپنی بجلیاں بجھاکے کینڈل ڈنر کا مزہ لیتے ہیں اور سردیوں میں برقی بخاریوں کے بجائے کیمپ فائر سے لطف اندوز ہوتے ہیں یاچمنی والی بخاری کا کمرے میں استعمال کرکے اپنے ہاتھ گرم کرنے میں جنت جیسا سرور محسوس کرتے ہیں ، لیکن کشمیری عوام کی زندگی میں بھی تو یہی عالمی معیار موجود ہے ۔ دنیا کی معیاری زندگی کی علامت اگر یہ ہے کہ کبھی کبار بجلی بند کرکے موم بتی جلاکے کھانا کھانے سے لطف اندوز ہونا ہے تو کشمیریوں کی اکثرراتوں کا تو یہی عالم ہوتا ہے بلکہعالمی معیار سے بھی بڑکر، وہ یہ کہ جب بھی دنیا بھر کے کسی بھی ملک میں کسی گھرانے میں کینڈل ڈنر کا شوق پیدا ہوتا ہے وہ یا تو خود بجلی بند کرتا ہے یا اپنے کسی ساتھی یا ہمکار سے بجلی بند کرنے کو کہتا ہے لیکن کشمیراور کشمیریوں کے نسبت ہندوستان کی محبت اور احسان کا عالم یہ ہے کہ وہ یہ فریضہ خود ہی انجام دیتا ہے ۔ کسی کشمیری کو یہ زحمت نہیں دینا چاہتا ہے کہ وہ اٹھ کر بجلی بند کرکے کینڈل ڈنر کا مزہ لے بلکہ اس کے لئے کینڈل ڈنر کرنا ہی اسکا تقدیر بنایا ہے ۔

بجلی سے استعمال میں آنے والے ہربرقی وسیلے کو ٹرانسفارمر کے بغیر استعمال میں لانا ناممکن ہے ، اور ظاہر سی بات ہے عوامی سطح پر کسقدر اس کمی کو پورا کیا جاتا ہوگا اندازہ لگانا مشکل نہیں ہے۔جس سے ممکن ہوتا ہے وہ ٹرانسفارمر خرید کر اپنے برقی وسائل کو قابل استعمال بنانے کا اہتمام کرتا ہے ، اور جس کے لئے ٹرانسفارمر خریدنے کی مالی قوت نہیں ہے وہ ڈبل فیز استعمال کرنے کی کوشش کرتا ہے ۔یا کوئی اور تدبیر کرتا ہے ۔ بجلی فیس جوکہ واجب نماز کے مانند واجب کام ہے اس سے آنکھیں چرانے کا منصوبہ لوگوں کو سیکھایا جاتا ہے ۔ اسطرح کہ کبھی کشمیری عوام دل کی عمیق گہرایوں سے محسوس کرتا ہے کہ بجلی کا فیس ادا کرنا لازم ہے اور اس سے ہماری ہی سہولت فراہم ہوتی ہے اور ایڈوانس میں بھی ادا کرکے رکھتے ہیں اور جب علاقائی ٹرانسفارمر خراب ہو جاتے ہیں تو مقامی لوگ آپس میں چندہ جمع کرکے اسکے تعمیر کا اہتمام کرتے ہیں ۔ جس سے معلوم ہوتا ہے کہ کوئی بھی فرد اس کی اہمیت اور ضرورت سے ذرہ برابر بھی انکار میں نہیں ہے اور جب بھی کشمیر کی انتظامیہ نے مفاد عامہ کے تئین کوئی کام انجام دینے کا عندیہ دیا عوام نے سرتسلیم خم کرکے اسکے ساتھ تعاون کیا ہے ۔اگرچہ مفاد عامہ کا ہر منصوبہ پایہ تکمیل کو نہیں پہچتا ہے یا اپنے مقاصد کو پورا کرنے میں ناکام رہ جاتا ہے یہبجاے خود متضاد اصولوں کی زبوں حالی کاعکاس ہے اور اس وقت ہم صر ف مفاد عامہ کا روح رواں محکمہ بجلی کے ساتھ ہر کشمیری فرد کی خیا نت کی طرف اشارہ کرنا چاہتے ہیں ۔ وہ یہ کہ ہم کشمیری دور حاضر کے حیاتی عنصر کے چور کی حیثیت سے پروان چڑھایے جاتے ہیں ۔ 

ہم میں سے ہر شعوری باشندہ بجلی کا خود چور ہے یا چوری کرواتا ہے یا پھر چوری ہوتے دیکھتا ہے اور اندیکھی کرتا ہے ۔وہ اس لُے کہ یہ دنیا کے ایک معتبر اور عظیم ملک ہندوستان کے زیر انتظام میں ہے ۔ جس کا منصوبہ کشمیری عوام کی حرام کمائی سے پرورش کرنا ہے ۔ حرام کمائی سے انسانوں کی پرورش استکبار ی طاقتوں کا دیرینہ آزمودہ نسخہ ہے ۔ لقمہ حرام ہی انسان سے دین بھی چھین لیتا ہے اور غیرت بھی ۔

پاکستان اگر کشمیری عوام کے ساتھ استحصال کرتا ہے وہ مذہبی جذبات کا سہارا لے کر اپنے مذموم عزائم میں رنگ بھرنا چاہتا ہے ۔ اسلامی جمہوریہ پاکستان کو ابھی تک اپنے نام کی لاج رکھنی نہیں آئی تو کشمیری عوام کی کیا لاج رکھ سکتے ہیں ۔ پاکستان میں نہ پاکیزگی کا ماحول ملتا ہے اور نہ اسلامی تعلیمات کا بول بالا نہ ہی جمہوری اقتدار کی پاسبانی کا امکان ، وہ اپنے زیر انتظام کشمیر کے ساتھ کیا سلوک روا رکھ رہے ہیں اس کا اندازہ پاکستان کے زیر انتظام کشمیر کے عوام کو ہوگا ۔ ہندوستان کے زیر انتظام کشمیر کے ساتھ پاکستان کایہی زخم کافی ہے کہ قبائیلی حملہ کرکے آمریت کے خلاف کشمیری عوام کی تحریک کو نابود کردیا اور ہمیں ہندوستان کی جھولی میں بھرنے کا کام کیا ہے اور رہی کمی کو عسکری دور کا آغاز کرکے حرام بازاری کا ماحول گرم کیا ہے۔ جس سے اندازہ ہوتا ہے کہ دونوں ممالک مختلف طریقوں سے ایک ہی نسخہ آزما رہے ہیں وہ یہ کہ کشمیری عوام کے شکم میں حرام کا لقمہ جاتا رہے جس سے انکا دین اور غیرت دونوں متاثر ہو جائے ۔

 اسطرح کشمیری عوام کے درمیاں غلط صحیح اورحقیقی نفع نقصان میں خاص فرق محسوس نہ ہو سکے ۔ اگر پاکستان کشمیری جدوجہد آزادی کو تحریک آزادی کشمیر کہتا ہے لیکن اس کا مفہوم پاکستان کے سیاسی مقاصد کی تکمیل ہے نہ کہ کشمیری عوام کے سیاسی حقوق کی ضمانت ۔ ہندوستان اگر اپنے زیر انتظام کشمیر کو اپنا اٹوٹ انگ کہتا ہے اس لئے نہیں کہ کشمیریوں کا خیر خواہ ہے بلکہ اپنے منفعت کی ضمانت برقرار رکھنے کی جدوجہد کرتا ہے جسکی سب سے عمدہ مثال یہاں کی بجلی ہے ۔ اگر ہندوستان کبھی کشمیری عوام کا خیر خواہ رہا ہوتا اس نے کشمیرکو خود کفائی کے ذخائر کی حفاظت اور استعمال کا راستہ سامنے رکھا ہوتا جو کہ کشمیر کے ساتھ ساتھ ہندوستان کی منفعت کا مصداق ثابت ہوتا ، لیکن اسکے برعکس پاکستان کی طرف کہنا کچھ اور کرنا کچھ کے اصولوں کے خاکوں میں رنگ بھرتا آیا ہے ۔ کشمیر کی ترقی کے حوالے سے آئے روز اقتصادی پکیج کا اعلان سننے کو ملتا ہے جس سے عوامی اذہان حقیقت جاننے سے کوسو دور رہ جاتی ہیں۔ ہندوستان اگر حقیقت میں کشمیریوں کوانسان تسلیم کرتا تو ان سے ان کے لئے حیاتی عنصر بجلی کو ہاتھی کے دانت نہ بناتا ۔ بجلی کشمیر میں تولید ہوتی ہے اور کشمیری خود بجلی سے محروم رکھے جاتے ہیں کیونکہ ہم ہندوستان کے زیر انتظام میں رہتے ہیں ۔ریل کشمیر میں لائی گئی اور اسے عوام کی سہولیت کا نام دیا گیااور یہ ایک حقیقت ہے کہ اس سے عوام کے لئے سہولت فراہم ہوئی ہے ۔ جبکہ دیکھا جائے یہ کشمیری پسماندگی کا جیتا جاگتا ثبوت ہے کہ کشمیری دنیا سے صرف ایک صدی سے زیادہ عرصے کے فاصلے پر ہے ۔ دنیا بارہ دہایوں سے زیادہ عرصے سے ریل کا استعمال کرتی آئی ہے اور کشمیر اب اس فہرست میں شامل ہوا ہے جبکہ یہ ایک اقتصادی کام ہے جس کا فائدہ ہر حال میں ہندوستان کو ملناہے کشمیر کی مکمل آزادی کی صورت میں بھی ان تمام سرمایہ کاری کے کاموں کو یاتو آپ سے خریدنا ہے یاتو مشترکہ طور چلانا ہے یعنی ایسے کاموں میں آپ کبھی نقصان میںنہیںرہنے والے ہیں ، اسکے باجود بھینصف صدی اس بات کو سمجھنے میں لگ گیا ہے ۔

اس وقت عوامی حکومت اقتدار میں ہے جن کا ماننا ہے اور بار بار دوہرانا ہے کہ دور حاضر میں حکومت سازی اور مسئلہ کشمیر کا حل دو مختلف موضوع ہیں ۔ تعمیر و ترقی کا کام حکمراں قیادت انجام دے گی اور کشمیر کے مسُلہ کو حل کرنے کا کام علیحدگی قیادت انجام دے گی ۔ نہایت ہی منصفانہ اور منطقی اور صاف و شفاف بات ہے موقف ہے ۔ میں نے انتخابات سے پہلے بھی انتخابات اور مسُلہ کشمیر کے عنوان سے اپنے مقالے میں اسی فکر اور صحیح حکمت عملی کی طرف اشارہ کیا تھااوراس حوالے سے عوام اور عسکریت پسند حلقوں نے بھی دور اندیشی کا مظاہرہ کیا تھاجبکہ علیحدگی پسند قیادت کو اس موضوع پر اجتہادی غلطی سرزد ہوئی ہے ۔ حکمران قیادت کس حد تک اپنے موقف کی پاسبانی کرتے ہیں اس کی قضاوت وقت ہی کرے گا ۔ 

اس ضمن میں یہ کہنا چاہوں گا کہ اگر حکمران قیادت ہندوستان کو بجلی کے حوالے سے کئے گئے مسودے پر نظر ثانی کرانے میں کامیاب ہوتی ہے تو معلوم ہوگا کہ اپنے موقف کی حقیقی پاسبانی کرنے کا ارادہ رکھتے ہیں ۔ نظر ثانی سے مراد یہ ہے کہ ہندوستان کو اس بات پر راضی کیا جائے کہ جب تک نہ کشمیرکی بجلی کی ضرورت مکمل ہوتی ہے تب ہندوستان کو بجلی فروخت نہیں کی جاسکے گی، اور اس ضمن میں ہندوستان سے حاصل کئے گئے قرضے کی ادائیگی کا معقول تدبیر کے ساتھ اہتمام کیا جائے جس میں عوامی مالی تعاون بھی شامل ہو ۔ ہندوستان کے زیر انتظام کشمیر کے حکمرانوں کو کچھ تو ہندوستانی حکام سے سیکھنا چاہئے ۔ بجلی کے نام پر ہندوستانی حاکموں نے امریکا کے سامنے ہندوستان کو گروی رکھا ہے اپنی انفرادی شناخت پر سوالیہ نشان لگنابھی قبول کیا ہے جبکہ ہندوستان کے سامنے یہ بات ثابت ہے کہ امریکا کسی کا نہ دوست ہے نہ کسی کا دشمن بلکہ وہ صرف اپنے مفادات کا دوست اور اپنے نقصانات کا دشمن ہے ۔ اگرچہ اسی اصول کی آبیاری کرنے میں ہر ملک جدوجہد کرتا نظر آتا ہے لیکن ایسے لوگ کم ملیں گے جن کے اصول اور قوانین آپس میں ملیں گے ۔ جبکہ ہم دیکھتے ہیں کہ ایک ملک میں داہنیں ہاتھ چلنا قانون اور بائیں ہاتھ چلنا جرم ہے اور دوسری ملک میں اسی کے برعکس ملتا ہے ۔ یعنی ایک ملک میں انجام پانے والا کام صحیح اور وہی کام اگر دوسرے ملک میں انجام دیا جائے تو اسے مجرم کہا جائے گاجس کے لئے اس کو سزا مل سکتی ہے ۔ جس سے بخوبی اندازہ لگایا جاسکتا ہے کہ ہندوستان نے امریکا کے سامنے سرتسلیم خم کرکے اپنی طاقت پر کس قدر سوالیہ نشان لگایا ہے لیکن بجلی کا مسئلہ اتنا ضروری ہے اور عصر حاضر کا حیاتی عنصر ہے اسکی ضرورت پورا کرنے کے لئے ایٹمی بجلی گھر بنانے کے غرض سے امریکا کے سامنے سرتسلیم خم ہونا قبول کیا ہے ۔ لیکن خود کو کشمیر کا ہمدرداور خیر خواہ کہنے والا اوربندوق سے نہیں بلکہ بات چیت سے مسئلہ کشمیر حل کرنے کی معقول اور منصفانہ طریقہ کار کی وکالت کرنے والا کشمیری لیڈر صاحب ہندوستان کے ساتھ بات چیت کرتا ہے کہ کشمیر میں بجلی گھر بنانے کی صلاحیت موجود ہے آپ ہمیں قرضہ دیں ہم اپنے آبی وسائل کا معقول استعمال کرنا شروع کریں گے اور ہیڈرو بجلی گھر تاسیس کریں گے ۔ بات چیت کی خاصیت ہی یہی ہے کہ دلیل کے ساتھ مدمقابل کو قائل کریں ۔

 آپ نے معقول بات سامنے رکھی اسکا جواب بھی آسنناہے ۔ اب کون اپنے مفادات کا تحفظ کرنے میں کامیاب ہوتا ہے وہ مذاکرات میں شریک طرفین کی بصیرت کا عکاس ہوتا ہے ۔ ہندوستان آپ سے کہتا ہے کہ آپکا مشورہ بہت ہی نیک ہے ہم ہر قسم کا تعاون دینے کے لئے تیار ہیں ، صرف ایک چھوٹی سی گذارش ہے کہ بجلی گھر سے پیدا ہونے والی بجلی کے خریدار ہم رہیں گے ۔ کشمیری لیڈر صاحب بے انتہا خوش ہوتے ہیں کہ ہندوستان نے کسقدر دریا دلی کا مظاہرہ کیاہے ایک تو ہمیں بجلی گھر بنانے کیلئے قرضہ بھی دیتا ہے اور اسکا خریدار بھی خود ہی بنتا ہے ۔ جس سے بجلی کے حوالے سے خود بھی بے نیاز ہوجائےںگے اور اقتصاد کا چرخہ بھی چلتا رہے گا ۔لیکن ہوا کیا وہ سب کے سامنے ہے ۔ کشمیری عوام اس بجلی سے کسقدر فائدہ مند ہو رہے ہیں اسکا اندازہ کشمیری عوام کو ہے ۔ہندوستان اپنے مفادات کا لحاظ رکھے اس میں کیا غلط بات ہے لیکن کشمیری قیادت کا دعویدار کشمیر کے مفادات کو خیال نہ رکھے یہ کتنا ظلم ہے ۔ معلوم ہوتا ہے کہ کشمیرکا دشمن خود کشمیری رہا ہے غیر تو ہماری نادانی کا بھر پور فائدہ اٹھا رہا ہے اور ہم ہاتھی کے دکھانے اور کھانے والے دانتوں کے درمیاں فرق کرنے میں چوک جاتے ہیں ایک ہی بار نہیں بلکہ ہر بار چوک جاتے ہیں کیونکہ ہم ہندوستان کے زیر انتظام کشمیر میں رہ رہے ہیں ۔

 سید عبدالحسین 

منگل28جنوری2009

تبصرے (۰)
ابھی کوئی تبصرہ درج نہیں ہوا ہے

اپنا تبصرہ ارسال کریں

ارسال نظر آزاد است، اما اگر قبلا در بیان ثبت نام کرده اید می توانید ابتدا وارد شوید.
شما میتوانید از این تگهای html استفاده کنید:
<b> یا <strong>، <em> یا <i>، <u>، <strike> یا <s>، <sup>، <sub>، <blockquote>، <code>، <pre>، <hr>، <br>، <p>، <a href="" title="">، <span style="">، <div align="">
تجدید کد امنیتی