سایت شخصی ابوفاطمہ موسوی عبدالحسینی

جستجو

ممتاز عناوین

بایگانی

پربازديدها

تازہ ترین تبصرے

۰

غزہ کی حالت کشمیر کی تحریک آزادی کے لئے درسگاہ

 اردو مقالات سیاسی کشمیر

غزہ کی حالت کشمیر کی تحریک آزادی کے لئے درسگاہ

بسمہ تعالی

                فلسطینی عوام جب تک دنیا سے امید لگائے بیٹھے تھے کہ وہ انہیں انصاف دلادیں گے اور اعتراف کریں گے کہ صاحب مکان کو اپنے مکان میں رہنا جائز ہے اور غاصب کو ان کا مکان خالی کرکے صاحب مکان کو سونپ دینا چاہئے۔جس کا نتیجہ یہ ہوا کہ ساٹھ سال کا عرصہ بھی گذر گیا لیکن کوئی صدای بازگشت سننے کو نہ ملی البتہ اتنا کچھ ضرور ہوا کہ خود فلسطینی عوام بیدار ہوگئی اور انہوں نے اپنے امور کو اپنے ہاتھوں میں لیا۔ اپنی تحریک کو بین الاقوامی قوانین کے مسلمہ ضوابطوںکے مطابق اپنی نہ جھکنے والی نہ بکنے والی حسینی صفت اختیار کرنے والی تنظیم حماس کو عوامی اور قانونی آواز کے طور پر سامنے لایا اور آج وہ اپنی جنگ خود لڑ رہیں ہیں ۔ خدا اور اسکے خالص بندوں کی حمایت کے سوا کسی کی حمایت کے انتظار میں نہیں ہیں ۔ اپنی ہر عمل کو حسین علیہ السلام کے مانند صاف اور شفاف طور اپنے عوام کے ساتھ ساتھ دنیا کے سامنے رکھتے ہیں۔

فلسطینی عوام نے امام حسین علیہ السلام کے مانند( ھل من ناصر ینصرنا )کی صدائیں بلندکرتے ہیں لیکن صدائے باز گشت صرف امام حسین علیہ السلام کے عاشقوں کی زباں سے سنائی دی جس سے انکے حوصلے بلند ہیں اور یزید زمان اسرائیل کے ساتھ اسلامی اقدار کے خلاف کسی بھی قسم کا سمجھوتہ کرنے سے اجتناب کرتے ہیں ،اور امام حسین علیہ السلام کی فرمایش{ھیھات من لذلہ} ذلت کی زندگی سے موت بہتر ہے کو سرمشق بناے رکھا ہے ۔اس امر سے قطع نظر کہ پچھلے جمعہ میں جب خانہ کعبہ میں نمازیوں کی تعداد تیس لاکھ سے زائد کی تھی اور ہر ایک نمازی خدا کی بارگاہ میں {ایاک نعبدوایاک نستعین}(فاتحہ۵) کہنے میں محو تھے اور دوسری طرف غزہ کی سرزمین بے گناہ عوام کے خون سے سرخ ہورہی تھی لیکن امام کعبہ کو یہ محسوس نہیں ہوا کہ نمازیوں کو (ایاک نعبد)کا معنی سمجھایا جائے کہ ہم جو خدا کی بارگاہ میں کہتے ہیں کہ اے اللہ ہم سب صرف آپکی بندگی کرتے ہیںاور آپ سے مدد طلب کرتے ہیں لیکن اس دوران غزہ میں معصوم بچوں اور خواتین کا بے گناہ خون بہایا جاتا ہے اور قرآن کہتا ہے{من قتل نفسا بغیر نفس او فسادفی الارض فکانما قتل الناس جمیعا}(مائدہ۲۳) جس نے ایک بے گناہ کا قتل کیا یا فساد قائم کیا گویا اس نے ساری کائنات کوقتل کیا۔اس کے باوجود صدایے احتجاج بلندنہیں کیا۔ جہاں پر اس اسلامی مرکزسے اسلام اور مسلمانوں کی حمایت میں صدائیں بلند ہونی چاہئے تھی وہاں سکوت طاری ہے لیکن فلسطینی عوام اس حالت زار سے پس حمت نہیں ہوئی بلکہ انکے حوصلے بلندہیں ۔اگر عالم اسلام کو افیون کھلائی گئ ہے لیکن سبھوں پر اس کا اثر نہیں ہوا ہے بلکہ مسلمانوں میں حسینی کردار رکھنے والے بھی موجودہیں ۔

 اس کی مثال لبنان میں حذب اللہ اور فلسطین میں حماس کی شکل میں اسوقت دنیا کے سامنے ہیں۔ جس سے معلوم پڑتا ہے کہ کربلا اورکربلا کا جاوید منشورہمیشہ اور ہر زمانے میں رہنما ہے جس کسی نے بھی امام حسین علیہ السلام سے الہام حاصل کرکے صرف {ایاک نعبد}کا حقیقی مفہوم اختیار کیا وہ کامیاب ہے ۔ ظالم کے ساتھ نبرد آزما ہونے والا کبھی بھی ناکام نہیں ہوسکتا ہے ، اسے اگر مٹایا جائے وہ جاوید ہوتا ہے ۔یزید اپنے زمانے کا سپر پاور تھا لیکن کربلا میں چھے ماہ کے مظلوم معصوم بچے نے اپنے خون سے اس سپر پاور کو مٹی میں ملا دیا اسی طرح آج غزہ کے مظلوم بچوں کا خون یزید زمان اسرائیل کو نابود کرکے رہے گا ۔جب تک فلطینی عوام موجودہ صورت حال کے مانند تمام تر مظلومیت کے ساتھ واضح اھداف کے ساتھ اپنی جنگ لڑتے رہے گے کامیابی ان کامقدر ہے اور اسرائیل کی نابودی حتمی ہے۔

                مذکورہ حالات کے پیش نظر کشمیر ی عوام کو بھی غزہ کی عوام کی طرح اپنے جائز حقوق کا مطالبہ کرنے کے لئے صرف خود جدوجہدکرنی ہوگی نہ پاکستان سے اسلام کے نام پرفریب کھانا چاہئے نہ ہندوستان سے غیر مسلمان ہونے پرخشونت اختیار کرنی چاہئے نہ ہی دنیا سے کسی انصاف کی امید رکھنی چاہئے بلکہ امام حسین علیہ السلام کی طرح اپنے موقف کوشفاف بنانا چاہئے کہ اگر ہم ہندوستان اور پاکستان سے آزادی چاہتے ہیں اسے شفافیت کے ساتھ تحریری اورتقریری طور ہر مرحلے پر بیان کریں ۔ اگر کوئی پاکستان کا حصہ بننا چاہتا ہے وہ اپنا موقف صاف کریں جس طرح وہ کشمیری کہ جن کو ہندنواز کہا جاتا ہے کشمیر کو ہندوستان کا غلام رکھنے کا عقیدہ رکھتے ہیں اور کشمیر کو ہندوستان کا حصہ تسلیم کرتے ہیں اور اس پر اپنی جان تک دے دیتے ہیں ۔

اگر آزادی موقف ہے تو فلسطینی عوام کی طرح دو ٹوک الفاظ میں کہا جائے کہ غاصبانہ تسلط سے پاک سرزمین کا حصول یعنی اسرائیل کو نکال باہر کرکے ہی دم لیں گے ۔ یا تو اس طرح کا موقف اختیار کرنا ہوگا کہ ہندوستان اور پاکستان کے جبری تسلط سے آزادی اور کشمیر کی تاریخی سیاسی موقعیت کی بحالی ۔یا کشمیر کو ہندوستان کاحصہ تسلیم کرکے اس سے ظلم و جبر کے خاتمے کی درخواست اور جان کی امان حاصل کرنی چاہئے ۔جس طرح اس وقت ہندنواز جماعتیں کرتی ہیں اور پھر ان کی ہمہ جہت حمایت کی جائے ۔ یا کشمیر کوپاکستان کا حصہ تسلیم کرکے بے غیرتی کی زندگی کرنا تسلیم کیا جائے اور جان کی امان حاصل کی جائے اور لاحاصل جدوجہد جاری رکھی جائے۔مکمل آزادی کے سلسلے میں ہندوستان اور پاکستان کے ساتھ ساتھ دنیا بھر میں رہ رہے انصاف پسند اور آزاد منش لوگ کشمیر کی مکمل آزادی کا کھل کر حمایت کرسکتے ہیں ۔کشمیر کو ہندوستان کا حصہ تسلیم کرنے کے سلسلے میں ہندوستان اپنے ہمفکر جماعتوں کی مذید کھل کرحما یت کرے گی اورکشمیر کو پاکستان کا حصہ تسلیم کرنے کے سلسلے میں پاکستان اپنے ہمفکر جماعتوں کی مذید کھل کرحمایت کرے گی ۔ اس طرح کشمیر میں سیاسی بادلوں میں موجود آلودگی میں کمی آئے گی اور کشمیری عوام کو غیر قابل پیش بینی عنوان کرنے کے بجائے فلسطینی عوام کے مانند غیر متزلزل عزائم رکھنے والے عوام کے عنوان سے یاد کیا جائے ۔اس طرح جس کسی کا موقف انصاف اور امکان پذیر طریقہ کار پر مبنی ہوگا کامیابی اسی مقصد کا مقدر ہوگی ۔

اللہ کی بار گاہ میں دست بہ دعا ہیں کہ ہمیں بھی حذب اللہ اور حماس کے حامی عوام کے مانند چشم بصیرت عطا فرمائے تاکہ کل ہم بھی رسول خدا صلی اللہ علیہ وآلہ کے حضور میں سراٹھانے کے قابل ہوں ۔

والسلام

سید عبدالحسین 

14جنوری2009


تبصرے (۰)
ابھی کوئی تبصرہ درج نہیں ہوا ہے

اپنا تبصرہ ارسال کریں

ارسال نظر آزاد است، اما اگر قبلا در بیان ثبت نام کرده اید می توانید ابتدا وارد شوید.
شما میتوانید از این تگهای html استفاده کنید:
<b> یا <strong>، <em> یا <i>، <u>، <strike> یا <s>، <sup>، <sub>، <blockquote>، <code>، <pre>، <hr>، <br>، <p>، <a href="" title="">، <span style="">، <div align="">
تجدید کد امنیتی