سایت شخصی ابوفاطمہ موسوی عبدالحسینی

جستجو

ممتاز عناوین

بایگانی

پربازديدها

تازہ ترین تبصرے

۰

کشمیر:13جولائی کے شہداء اسلام کے ساتھ مذاق کی رسم؛زندہ باد

 اردو مقالات سیاسی کشمیر

بسم اللہ الرحمن الرحیم
کشمیر:13جولائی کے شہداء اسلام کے ساتھ مذاق کی رسم؛زندہ باد
از قلم:عبدالحسین کشمیری

کشمیر جو کہ 1320عیسوی میں حضرت میر سید عبدالرحمن شمس الدین موسوی بلبل شاہ کے زمانے میں اسلام کی آغوش میں آ کر اسلامی ملک بن گیا اور1586 عیسیوی تک کشمیر کے آخری آزاد اور عوامی حکمراں  جناب یوسف شاہ چک رحمت اللہ علیہ کے دور تک اسلامی ملک کی حیثیت دنیا بھر میں ایک نامی ملک کی حیثیت سے جانا جاتا رہا ہے۔ اور 965 عیسوی کو ہندوستان کے شہنشاہ اکبر نے اقتدار کیلئے سیاست ،دیانت اور انسانی اقدار کا خون کرتے ہوئے اپنے ہمسایہ ملک کشمیر کے ساتھ معادہ کرکے  اس پر عمل نہ کرنے کی رسم کی داغ بیل ڈالی جس پر ہندوستان آج تک پابند ہے۔

ہندوستان  کے حاکم نے اپنے ہمسایہ ملک کشمیر کے حاکم یوسف شاہ چک رحمت اللہ علیہ کے ساتھ دوستی کا ہاتھ بڑھا کر اسے ہندوستان آنے کی دعوت دی  جسے کشمیر کے حاکم نے قبول کیا اور ہندوستان نے اپنے ہمسایہ ملک کے حاکم  مہمان کے ساتھ ایسی مہمان نوازی کی کہ مہمان کے ساتھ معاہدہ توڑ کر اسے ہندوستان نے قید خانے کی زینت بنایا جہاں پر کشمیر کے مظلوم حاکم یوسف شاہ چک کی شہادت واقع ہوئی اور ہندوستان نے اپنے  چھوٹے سے ہمسایہ ملک کے ساتھ سامرجیت کی تاریخ رقم کرلی اورہندوستان نے 166 سال کشمیر پر غاصبانہ قبضہ کردیا۔

جب ہندوستان جیسے عظیم ملک نے اپنے چھوٹے ہمسایہ ملک کشمیر کے ساتھ ہمسایگی کے تقدس کا خیال نہیں رکھا افغانستان جیسا دوسرا ہمسایہ ملک سے کیا گلہ،اس نے بھی اپنی طاقت کا مظاہرہ کیا اور ہندوستان کو کشمیر سے نکال باہر کرکے خود کشمیر پر 67 سال تک قابض رہا۔

اتنے میں ہندوستان میں راجواڑوں کا خاکہ بنتا گیا جو کہ مغل سلطنت کی کامیابی کا اصلی راز رہا ہے اور راجواڑوں میں سیاسی استحکام نے پنجاب کو ہندوستان کے ہمسایہ ملک کشمیر پر للچائی نظروں سے دیکھنے کیلئے اکسایا کہ کیوں نہ افغانوں کو کشمیر سے نکال باہر کرتے ہیں اور خود ہی اسے زیر نگین کرتے ہیں اسطرح سکھوں نے کشمیر پر حملہ کرکے افغانوں کو کشمیر سے نکال باہر کیا اور خود 27 سال کشمیر پر غاصبانہ قبضہ کیا۔

اور ایسے میں جو کچھ ہندوستان نے اپنے کمزور ہمسایہ ملک کشمیر کے ساتھ سلوک کیا وہی سلوک وقت کی عظیم سیاسی طاقت برطانیہ نے ہندوستان کے ساتھ دوستی کا ہاتھ بڑھا کر اسکے پیٹ پر خنجر مار کر ہندوستان  کے تمام راجواڑوں کو ایک ایک کرکے اپنے زیر نگین کرلیا۔اب جب ہندوستان کے بعد کشمیر کی طرف بڑھنے لگا سکھوں کو کشمیر سے نکال باہر کیا اور خود قابض بننا چاہا لیکن جب انگریزوں نے کشمیر پر حکومت کرنا دشوار سمجھا اسلئے اپنی کمزوری کو چھپانے کے بجائے انگریزوں نے اپنے چہرے سے نقاب اُتار کر بندر ہونے کا ثبوت دیتے ہوئے بندر بانٹ کی رسم ادا کی اور اسطرح 75لالکھ نانک شاہی سکہ رائج الوقت کے بدلے میں جموں کے ایک  ڈوگرہ تاجر گھرانے کو کشمیر بیج دیا اور یہ تاجر گھرانہ برطانیہ کے آشرواد کے ساتھ کشمیر پر حاکم ہوا اور یہ جابرانہ ،آمرانہ ،غیر انسانی اور غیر اصولی حکومت کشمیر پر ایک سو سال تک آمریت کے کرتب دکھاتی رہی اور جب کشمیری عوام ان کرتبوں کا نظارہ کرتے کرتے تھک گئے اور انصاف نام  کی امدیں نا امیدی میں بدل گئی تو انہوں نے ہمت کا کمر باندھ کر صدای احتجاج بلند کیا۔

کشمیری عوام کی انصاف کیلئے پہلی اجتماعی آواز کو جس دن شہیدوں کے خون سے رنگ کر دفنایا گیا وہ13جولائی 1931 کا دن تھا جب کشمیری عوام نے اپنے اسلامی ملک کی بازیابی کیلئے اپنی تحریک کا پودا لگا اور اسکو اپنے خون سے سیر آب کردیا۔

13جولائی 1931کو جس پودے کوشہدای اسلام نے اپنے خون سے سینچا اور یہ پودا آج 2013 میں کس قدر تنومند درخت ہونا چاہئے تھا کہ جس کے فوائد سے چار سو سبھی مستفید ہوا کرتے لیکن یہ ابھی تک درخت نہیں بنا ہے یہ تو ابھی  پودا ہی ہے۔کیونکہ اسے ایک جگہ پنپنے نہیں دیا گیا۔کوئی اس درخت کو ایک جگہ سے نکال کر دوسری جگہ لگاتا گیا تو کوئی اسکی شاخیں کاٹ کر اسے اپنے اپنے باغ میں لگانے بیٹھا ہے۔

13جولائی1931ء کی تحریک کے پودے کو اگراپنا پودا یا درخت جان کر اسکی جگہ بدل دی جاتی، شاخ تراشیاں کی جاتی یا اپنے اپنے باغوں میں سجھایا جاتا تو بات تھی اسے کبھی ہندوستان کا درخت برطانیہ کا تحفہ سمجھا جاتا رہا ہے ظلم پرظلم یہ کہ اس درخت کو  ایسے ملک کے ساتھ نسبت دی جاتی ہے جسکا حمل بھی 1931 میں نہیں ٹھہرا تھا۔

    کشمیر کا مسئلہ 13جولائی 1931 کا مسئلہ ہے ،کشمیر کا مسئلہ اسلام کا مسئلہ ہے۔ جس کی آبیاری کیلئے ابتک مسلمانوں کا خون ابتک بہایا جارہا ہے۔چونکہ کشمیر کے بچاو کیلئے  اب تک صرف مسلمانوں  نیاپنی جانی مالی  قربانی دینی پڑی ہے اسلئے اسلامی مسئلہ ہے اگر کشمیر کے غیر مسلمان شہری بھی کشمیر کو اپنا ملک سمجھتے اور اسکے بچاو کیلئے اپنا کردار نبھاتے تب کشمیر کا مسئلہ اسلامی نہیں بلکہ جمہوری مسئلہ ہوتا اور جو لوگ مسئلہ کشمیر کو بندوق کے ذریعہ حل کرانے کی ترجمانی کرتے ہیں چونکہ انہوں نے اپنے اذہان و افکار کو کرایہ پر دے رکھا ہے وہ انصاف سے کام نہیں لے پاتے ہیں۔ نہیں سمجھتے ہیں کہ 13جولائی کے شہیدوں کے پاس کوئی بندوق نہیں تھی بلکہ ایک اتحاد تھا اور ایک مقصد کی نشاندہی تھی جس کے بدولت انکی تحریک کے ساتھ جسقدر بھی استحصال کیا جاتا ہے پھر بھی انکی تحریک زندہ و جاوید ہے۔ 

تبصرے (۰)
ابھی کوئی تبصرہ درج نہیں ہوا ہے

اپنا تبصرہ ارسال کریں

ارسال نظر آزاد است، اما اگر قبلا در بیان ثبت نام کرده اید می توانید ابتدا وارد شوید.
شما میتوانید از این تگهای html استفاده کنید:
<b> یا <strong>، <em> یا <i>، <u>، <strike> یا <s>، <sup>، <sub>، <blockquote>، <code>، <pre>، <hr>، <br>، <p>، <a href="" title="">، <span style="">، <div align="">
تجدید کد امنیتی