سایت شخصی ابوفاطمہ موسوی عبدالحسینی

جستجو

ممتاز عناوین

بایگانی

پربازديدها

تازہ ترین تبصرے

۰

کشمیر میں اقوام متحدہ کی نمایندگی

 اردو مقالات سیاسی کشمیر

کشمیر میں اقوام متحدہ کی نمایندگی

از قلم:عبدالحسین کشمیری


 
بسمہ تعالی
 
ہندوستان کے زیر انتظام کشمیر اور پاکستان کے زیر انتظام کشمیر میں اقوام متحدہ کا نمایندہ دفتر UNMOGIP کے نام سے موسوم ہے جس میں نو 9ممالک کے انتالیس39 نمایندہ حاضر رہتے ہیں ۔ اقوام متحدہ نے 1949 میں نو9ممالک کو کشمیر پر نظارت کرنے کیلئے معمور کیا اور ان نو 9ممالک میں ہر ایک ملک کو ایک مخصوص نمایندگی کا سہمیہ تفویض ہوا ، جس کی تفصیل یو ں ہے :

بیلجیم Belgium سے دو2 نمایندے ؛چلی Chile سے تین3 نمایندے۔؛ڈنمارک Denmark سے چھ6ے نمایندے؛فنلینڈ Finland سے سات7 نمایندے؛اٹلی Italy سے پانچ5 نمایندے؛جمہوری کوریا Republic of Korea سے پانچ5 نمایندے؛سویڈن Sweden سےآٹھ8 نمایندے؛اور اروگوی Uruguay سے تین3 نمایندے منتخب ہوئے جو کہ کشمیر کے دونوں حصوں میں اپنا فریضہ انجام دے رہے ہیں ۔

اسطرح1949 سے 2008 تک 59 سال گذر گئے ہیں لیکن مسئلہ کشمیر کو حل کرانے میں کوئی خاطر خواہ پیش رفت ظاہر کرنے سے قاصر رہے ہیں ،اور اس ضعف کی سب سے بڑی وجہ عوام میں عدم آگہی ہے کیونکہ عوام میں سیاسی شعور کی کوئی کمی نہیں ہے معلومات کا فقدان ہے ۔ ہمارے سامنے تازہ مثال موجود ہے جب یہاں ہندوستان کے زیر انتظام کشمیر میں حکومتی کارندوں نے ایک ہندوستانی ادارے کے حق میں کشمیر کے آٹھ سو کنال کی اراضی منتقلی کے احکامات صادر کئے اور خدا کی عنایت سے اس بات کی مناسب تشہیر بھی بر وقت عوام میں ہوئی، تو آنا فانا کشمیری عوام میں ، دینداری ، وطن دوستی اور مسلمانی کا جذبہ چھلکتا نظر آیا ۔ہر سیاسی کارکن اور ہر سیاسی جماعت عوامی لہر کے سامنے جھکتی نظر آئی ، اسطرح کشمیری عوام نےایک کم نظیر باب رقم کی ، جس کی مثال ڈھونڈنے پر بھی نہیں ملتی کہ عوام لیڈروں کے پیچھے دوڑنے کے بجائے ، لیڈر لوگ عوام کے پیچھے پیچھے دم ہلاتے نظر آئے،اور اس وقت نہ کسی پر پاکستانی ایجنٹ ہونے نہ ہی ہندوستانی ایجنٹ ہونے کی لیبل چسپان کی گئ ، بلکہ ہر ایک فرد کشمیری بنا رہا ، وہ عام تھا یا خاص ، ہندوستان کا حامی تھا یا پاکستان کا حامی ، اپنے اپنے سیاسی نظریاتی عقیدے کو بھلا کر کشمیری بنا رہا اور ایسا جذبہ ہی کشمیر کو خدا کے فضل و کرم اورعوام کے مضبوط ارادے سے نجات دلا سکتا ہے! کیونکہ متذکرہ عوامی تحریک میں دینداری ، وطن پرستی اور سب سے مقدس عنصر مسلمانی کا جذبہ حاکم تھا ، ہر دیندار کے دین کا لحاظ و احترام رکھا گیا ، ہندوستان سے آئے مہمان یاتریوں کی مہمان نوازی کا مثالی عمل دیکھنے کو ملا ، اپنے اپنے تنخواہوں کی پروا کئے بغیر سیاست داں کشمیریت کی بات کرتے رہے اور وطن فروشی کے بجائے وطن دوستی کا برملا اظہار کرتے رہے ۔ اور سب سے عظیم جذبہ مسلمانی کا جذبہ کہ ہر ایک کشمیری ،ایک دوسرے کے دکھ درد کو اپنا دکھ درد احساس کرنے لگا ۔ کشمیر کا ہر فرد ، اس مسئلے کو اپنا ذاتی مسئلہ احساس کرنے لگا ۔ ان دنوں کی بات ہے میں تازہ سفر سے لوٹ آیا تھا اور اپنی عمر رسیدہ نانی کے پاس بیٹھا خبریں دیکھ رہا تھا،انہوں نے مجھ سے پوچھا کہ کیا ہندوستان ہمیں اپنی زمین واپس نہیں دے گا۔ میں چونک گیا اور انہیں ہنس کے کہا؛ نانی کیا آپ بھی سیاسی بن گئیں ، انہوں نے رو کے جواب دیا کہ ، ایک تو ہماری زمین چھین لی گئ اور اوپر سے دیکھو {ٹی وی کی طرف اشارہ کرتے ہوئے} کس طرح ان جوانوں کو زد وکوب کررہیں ہیں۔اس بات سے میرے ذہن میں جو سوالات پہلے سے ہی موجود تھے ان کو تقویت ملی کہ کشمیر کی آزادی کے بنیادی حقائق کو عوام پر عیاں نہیں کیا گیا ہے اگر ان آٹھ سو کنال اراضی کے موضوع کی طرح ،آزادی کشمیر کی حقیقت بھی بیان کی جاتی بچوں سے لیکر بوڑھوں تک جذبے میں کوئی فرق نظر نہیں آتا ۔

ہم آزادی کا نعرہ دیتے ہیں لیکن نہ اسکا مفہوم معلوم ہے نہ ہی راستہ ، کیونکہ کبھی اس آزادی کے نعرے سے الحاق پاکستان ظاہر کیا جاتا ہے ، تو کبھی اسلام ، جو بجائے خود متضاد تعبیریں ہیں ، الحاق کیلئے آزادی انصافا کیسی آزادی ہو سکتی ہے اور آزادی برای اسلام؛ تو کہاں پابندی ہے،یہ کہنا کہ آزادی کا مطلب کیا لا الہ الا اللہ دونوں (کلمہ طیبہ اور آزادی)کا مذاق ہے ۔ غرض آزادی کشمیر کے سلسلے میں عوامی نا آگاہی عیاں ہے اور اس لئے طول تاریخ میں آزادی کی گونج نعروں تک ہی محدود رہی اور حقیقی حرکت نہیں کے برابر رہی ہے۔

جب کبھی بھی عوام پر واضح ہو جائے کہ ایک طرف اقوام عالم ان کی آزادی کے مطالبے کے حق میں ہے اور سیاسی اعتبار سے اقوام عالم نے بیلجیم ، چلی ، ڈنمارک ، فنلینڈ ، اٹلی ، جمہوری کوریا، سویڈن ، اور اروگوی جیسے ممالک سے نمایندے منتخب کرکے ساٹھ سال سےہماری آزادی کی امید لگائے بیٹھے سرینگر اور مظفر آباد میں خیمہ زن ہیں اور دوسری طرف عالم اسلام کا گوشہ گوشہ جنوب مغربی ایشیاء کے سولہ16ممالک{افغانستان ،ایران ، اردن ، بحرین ،ترکی ، سعودی عرب ، شام ، عراق ، عمان ، فلسطین ، قبرص ، قطر ، کویت ، لبنان ، متحدہ عرب امارات اور یمن} وسطی ایشا کے چھے 6ممالک {آذربائیجان ، ازبیکستان، تاجکستان ، ترکمانستان، قزاخستان اور کرگیزیا}اور جنوبی و جنوب مشرقی ایشیا کے چھے 6ممالک {انڈونیشیا ، بنگلہ دیش ، برونائی ، مالدیپ ، ملیشیا اور پاکستان} شمالی افریقہ کے پانچ 5ممالک {الجزائر ، تیونے ، لیبیا ، مراقش اور مصر} مشرقی افریقہ کے سات 7ممالک{اتھوپیا ، تنزانیہ ، جبوتی ، سوڈان ، کومرو ، صومالیہ ، اور یوگنڈ} مغربی اور وسطی افریقہ کے تیرہ 13ممالک{بالائی وولٹا ، چاڈ ، سیرالیونا ، سینیگل ، کیمرون ، گنی ، گنی بساو ، گیبن ، گیمبا ، ماری ٹینیا، مالی ، نائجر اور نائجیریا } کشمیر پر نظریں جمائے ہیں کہ کب کشمیریوں کے ارادے پختے ہوں اور ان میں استقلال اور آزادی کا حقیقی عمل دیکھنے کو ملے ۔

ان ترپن53 ممالک پر مشتمل اسلامی کانفرنس تنظیم مجموعی طور جدوجہد آزادی کشمیر کو رسمی طور قبول کرکے حریت کانفرنس کو اپنا مبصر تسلیم کر چکی ہے لیکن افسوس کہ حریت اس منصب کے ساتھ انصاف کرنے سے قاصر رہی ہے۔ جہاں تک کشمیر میں مستقر اقوام متحدہ کے دفتروں کا تعلق ہے اور کسی حد تک انہیں نام نہاد دفتر تصور کیا جانےلگا تھا لیکن جب اس سال ہندوستان نے اقوام متحدہ سے درخواست کی کہ کشمیر سے اپنے مبصر واپس بلا ئیں اور اس پر اقوام متحدہ کے سیکٹری جنرل جناب بان کی مون نے صراحتا انکار کیا ہے،جس سے اندازہ ہوا کہ اقوام متحدہ کشمیر کے سلسلے میں خاموش نہیں ہے ، بلکہ انہیں کشمیر میں اپنا دفتر فعال اور موثر نظر آتا ہے ۔

اس بیچ جو بات سامنے نظر آتی ہے وہ یہ ہے کہ یا تو کشمیری عوام پر سیاسی سحر کیا گیا ہے جو وہ اپنا نفع نقصان سمجھنے سے قاصر نظر آرہی ہے یا کشمیری عوام پر حقائق کو چھپایا جا رہا ہے ۔اسکے باوجود کہ اقوام متحدہ بطور عام اور عالم اسلام بطور خاص کشمیری عوام کے نسبت فکر مند نظر آتی ہیں کہ کشمیریوں کو اپنے حقوق کی ضمانت حاصل ہونی چاہئےلیکن افسوس کہ خود عوام میں پاکستان یا ہندوستان کی منفعت کی پاسداری کرنے کی ترغیب وتعلیم دی جاتی ہے۔کیا یہ امر غور طلب نہیں کہ آٹھ سو کنال اراضی کا موضوع عوام کے ہر طبقے کے سمجھ میں آسکتاہے جو کہ ایک باریک اور معمولی سیاسی نقطہ ہے لیکن پورےکشمیر کو ہمسایہ ممالک کے درمیاں بانٹنے کی بات سمجھ نہیں سکتے یہ کیسے ممکن ہے۔
 
کشمیر میں اقوام متحدہ کے مبصروں کے ساتھ ساتھ عالم اسلام کے مبصروں کا حضور اس بات کا بیّن ثبوت ہے کہ مسئلہ کشمیر ، پہلے کشمیری عوام کا اپنا تاریخی اور سیاسی مسئلہ ہے پھر پاکستان اور ہندوستان کی سیکورٹی کا مسئلہ ہے۔ اگرکشمیر، ہندوستان کا اپنا داخلی مسئلہ ہوتا تو ہندوستان کے زیر انتظام کشمیر میں اقوام متحدہ کی موجودگی کا کوئی جواز نہیں بنتا ، کیونکہ ہندوستان خود اقوام متحدہ کی اکائی ہے ۔ اسی طرح اگرکشمیر، پاکستان کا داخلی مسئلہ ہوتا تو پاکستان کے زیر انتظام کشمیر میں اقوام متحدہ کی موجودگی کا کوئی جواز نہیں بنتا ، کیونکہ پاکستان بھی خود اقوام متحدہ کی اکائی ہے ۔

اس سے صاف ظاہر ہوتا ہے کہ کشمیر ایک بین الاقوامی سطح کا قانونی مسئلہ ہے اور بین الاقوامی قوانین کے اعتبار سے دونوں ممالک غیر قانونی طور کشمیر پر قابض ہیں۔جس کا حل و فصل عوام کی رائے میں مضمر ہے ۔البتہ اقوام متحدہ کا مجوزہ حق خود ارادیت کا تبصرہ قابل عمل نہ ہونے کے باوجود محترم اور کشمیر کی آزادی کا مقدمہ ضرور ہے ۔اب ہم کشمیری عوام کیلئے بالعموم اور لیڈروں کیلئے بالخصوص دو شعاروں حق خود ارادیت{وطن فروشی}اور آزادی{وطن دوستی}کو تفکیک کرنے کی اشد ضرورت ہے ۔جب تک نہ ہم صرف ایک راستہ «ہم کیا چاہتے آزادی » کیلئے منافقانہ کے بجائے مسلمانہ عمل اختیار نہیں کرتے ، اقوام عالم بھی ہماری آزادی کی کھل کر حمایت نہیں کرسکتے۔ خطے کیلئے بالعموم اور کشمیر کیلئے بالخصوص امن اور ترقی صرف کشمیر کی ہند ، پاک اور چین سے آزادی سے ہی ممکن ہے ۔ کشمیر کو خود مختار ملک کی حیّثیت کے ساتھ زندہ و پایندہ رہنے کا حق بھی ہے اور امکانات بھی موجود ہیں۔

کشمیر ہند ، پاک اور چین کا حصہ نہیں بلکہ اقوام عالم کا حصہ ہے ۔اسکا حصول ہر کشمیری کا سیاسی ، مذہبی ،سماجی اور قومی فریضہ بنتا ہے ۔ اب کشمیر میں اقوام متحدہ کے صرف نو9 ممالک کی موجودگی کافی نہیں ہے بلکہ اب اقوام عالم کی سفارتیں کشمیر میں مستقر ہونے اور ہر ملک میں کشمیر کی سفارتخانوں کے قیام کا دور شروع ہونے کی ضرورت ہے ۔اس سلسلے میں ہندوستان کے زیر انتظام کشمیر اور پاکستان کے زیر انتظام کشمیر میں اقوام متحدہ کے دفتروں میں نو9 منتخب ممالک کے نمایندوں کے ساتھ تنظیم اسلامی کانفرنس اور کشمیر کی نمایندگی کا حصول،عسکریت ، ہرتال ، احتجاج ، بائیکاٹ اور مظاہروں سے بڑکر تعمیری عمل ہے جس سے خون خرابہ کے امکانات کم اور مدبرانہ حل نکلنے کے امکانات روشن بن سکتے ہیں۔

منگل‏، 18‏ نومبر‏، 2008
 

 

تبصرے (۰)
ابھی کوئی تبصرہ درج نہیں ہوا ہے

اپنا تبصرہ ارسال کریں

ارسال نظر آزاد است، اما اگر قبلا در بیان ثبت نام کرده اید می توانید ابتدا وارد شوید.
شما میتوانید از این تگهای html استفاده کنید:
<b> یا <strong>، <em> یا <i>، <u>، <strike> یا <s>، <sup>، <sub>، <blockquote>، <code>، <pre>، <hr>، <br>، <p>، <a href="" title="">، <span style="">، <div align="">
تجدید کد امنیتی