سایت شخصی ابوفاطمہ موسوی عبدالحسینی

جستجو

ممتاز عناوین

بایگانی

پربازديدها

تازہ ترین تبصرے

۰

حق خود ارادیت کشمیر حقیقت یا فسانہ

 اردو مقالات سیاسی کشمیر

بسم اللہ الرحمن الرحیم

حق خود ارادیت کشمیر حقیقت یا فسانہ

میرے لئے یہ بات نہایت ہی حیرت انگیز تھی کہ جب میں نے نبی آخر الزمان صلی اﷲعلیہ و آلہ کی حضرت یعقوب علیہ السلام سے متعلق حدیث پڑھی کہ آپ فرماتے ہیں کہ :" غلط بات کی تلقین نہ کیا کرو کیونکہ پھر بھگتنا پڑتا ہے "، یعقوب کے اولاد نہیں جانتے تھے کہ بھیڑیا انسان کو کھا جاتا ہے یہاں تک کہ ان کو اپنے باپ نے ایسا کہا۔ حضرت علی علیہ السلام اس ذیل میں  فرماتے ہیں کہ حضرت یعقوب نے کہا : ڈرتا ہوں کہ اگر یوسف کو کھیلنے لے جاو، وہاں پر کنہی بھیڑیا اسے کھا نہ جائے ۔ اور جب وہ لوٹے، اور کہا: اسے بھیڑیے نے کھایا۔ امیرالمومنین فرماتے ہیں کہ اگر ان کا باپ، اس بات  کو کہ" بھیڑیا انسان کو کھاتا ہے" انکے ذہن نشین نہ کرتا، ان کے ذہن میں یہ بات نہ آتی، کیونکہ ان کومعلوم نہ تھا کہ انسان کو بھیڑیا کھاتا ہے ۔

 اس سے معلوم پڑتا ہے کہ اگر نبی جیسا معصوم جو کہ گناہ کر ہی نہیں سکتا وہ بھی اگرنامناسب مثال کو استعمال کرتا ہے تو اسے اس کی مار پڑتی ہے ۔ تو سوچیئے ہمارا[کشمیری عوام کا] کیا حشر ہو گا ۔جو جھوٹ کے سایے میں پروان چڑائیں جاتے ہیں۔

کیا  اگر ایک معصوم نبی بھی ، نا مناسب مثال بیان کرنے سے پٹ سکتا ہے تو جھوٹ بولنے والوں کا حشر کیا ہو گا۔

 آخرکشمیری عوام کو کون جھوٹ کے ماحول میں پروان چڑھانا اور خود اعتمادی سلب کرنا چاہتا ہے۔

 جھوٹی تعریفیں کرکے کیوں کشمیری عوام کی ضمیر کو سلایا گیا ہے ۔

کیا کوئی شعوری طور کشمیریوں کی معصومیت کے ساتھ کھلواڑ کرتا ہے یا یہ کہ ہم خود ہی ناداں ہیں ۔

آخر وہ بھی کشمیری ہے جو ہندوستان کے ساتھ وفاداری کی بھی قسمیں کھاتا ہے اور وہ بھی کشمیری ہے جو پاکستان کے ساتھ وفاداری ثابت کرنے کیلئے جان کی بازی بھی لگاتا ہے ۔

 کیا واقعی ان دونوں ممالک نے کشمیری عوام کو ایسا کچھ دیا ہے کہ جس کے لئے انہیں اپنے وطن ، دین اور غیرت سے وفاداری ثابت کرنے کے بجائے ان ہمسایہ ممالک کے ساتھ وفاداری ظاہر کرنے یا ثابت کرنے میں لگے رہتے ہیں ۔

وہ بھی کشمیری ہے جو ہندوستان سے کہتے ہیں کہ ہم تو آپ کے ساتھ ہیں ، وہ بھی کشمیری ہے جو پاکستان سے کہتے ہیں کہ ہم بس آپ کے ساتھ ہیں اور وہ بھی کشمیری ہیں جو اپنے آپ کے ساتھ کہتے ہیں کہ ہم نہ پاکستان کے ساتھ ہیں نہ ہی ہندوستان کے ساتھ ۔

کیا قرآنی تعلیمات کی رو سے ایسا کرنا منافقت نہیں ہے !

 آخر کشمیریوں کو  کون منافقت کا دسترخوان اور مکر و فریب کے پکوان  سامنے رکھ  رہا ہے۔اگر کشمیریوں کے پاس اپنا دینی سیاسی ثقافتی وجود اور تاریخ ہے تو اس کی حفاظت کرنے کے بجائے ، غلامی کی زنجیر میں جکڑ کر رہنا شعوری یا غیر شعوری طور  کیوں پسند کر رہا ہے ۔

تاریخ شاہد ہے کہ کشمیر ہمیشہ اپنے ہمسایہ ممالک کے لئے ہمیشہ نیکی کرتا رہا لیکن ، ہمسایوں نے کبھی بھی کشمیر کے نسبت نیک جذبہ بروی کار نہیں لایا ۔ تو اس کشمیری خصلت کو کیوں ناکارہ بناکے رکھ دیا گیا ہے ۔

 کشمیریوں کو اپنے مفادات کو بھولنے اور دوسروں کا آلہ کار بننے کی کیوں کر تربیت دی جاتی ہے ۔

 کشمیر کے ہر مکتب فکر سے تعلق رکھنے والے سے سوال کیجئے کہ کیا آپکی ہندوستان سے دشمنی ہے ۔ جواب ملے گا نہیں ۔ کیا آپ کو پاکستان کے ساتھ دشمنی ہے جواب ملے گا نہیں ، کیا آپ کو چین کےساتھ دشمنی ہے جواب ملے گا نہیں۔اور جب آپ جواب سننے سے پہلے اس کو اس طرح سوال پوچھو کہ کیا جس ہندوستان نے آپ کی سرزمین پر قبضہ کیا ہے اور اپنے فوجیوں کو آپ کے ساتھ حیوانوں سے بھی بد تر سلوک کرنے کے اختیارات دیئے ہیں کیا آپکو وہ پسند ہیں ، یقینا جواب منفی ملے گا ۔ اسی طرح  پاکستان کے بارے میں جب جواب کا سافٹویر پہلے اس طرح فیڈ کیا جائے کہ کیا جس پاکستان کی وجہ سے یہاں قبرستانو ں کے قبرستان سج گئے ، سکول اور پل جلائے گئے آپ کو اسکے ساتھ محبت ہے یقینا جواب منفی ملے گا ۔اور ایسا ہی الفاظوں کا کھیل ، کھیل کر کشمیر دشمن عناصر اپنا الو سیدھا کرتے رہتے ہیں۔

کوئی تو انصاف دے  اگر ہندوستان پر انگریز قابض ہوتا ہے تو ہندوستانی عوام اپنے وطن دوستی کے جذبے کے سہارے غیرت کا مظاہرہ کرتے ہیں اور انگریزوں کو نکال باہر کرتے ہیں ، لیکن نکلتے نکلتے انگریزی حکام اپنی غلطیوں کو چھپانے کیلئے ہندوستان کےدینداروں اور غیرت مندوں کے درمیاں ایسی زہر اگل کر برصغیر کی عظیم انسانی طاقت کو بکھر کر رکھ دیتا ہے ، تو انگریزوں کی گناہ کی سزا کشمیریوں کو کیوں دی جاتی ہے۔

الحمدﷲ کشمیر کا ہندوستان پر نہ انگریز راج نہ ہی ان سے آزادی حاصل کرنے میں اور نہ ہی پاکستان کے وجود میں آنے میں کوئی عمل دخل رہا ہے تو پھر  کشمیریوں کو کس جرم کی سزا سنائی جاتی ہے  ۔

کشمیری عوام تو کھبی مغلوں کے استکباری حربوں سے بچنے اور کبھی سکھوں کے راج سے نجات پانے اور کبھی افغانوں کے ظلم و بربریت سے چھٹکارا پانے کی جدوجہد کرنے میں اپنی نرالی تاریخ رقم کرتے گئے ۔

 انگریزوں نے جب ہندوستان کو اپنے زیر نگین کرلیا اور کشمیر یوں پر حکومت کرنے کو اپنے توان سے خارج پایا تو اسکی سزا ، کشمیریوں کے لئے ایسی ذلت بھری تاریخ رقم کی، کہ جس کی کوئی نظیر نہیں ملتی ۔ جس پر ساری دنیا میں صرف ایک انسان جناب علامہ اقبالرہ مرثیہ خواں نظر آئے تھے ۔

ان انگریز بھیڑیوں نے جو اپنے آپ کو مہذب کہتے ہیں اس بات پر کبھی بھی کشمیری عوام سے معافی مانگنا گوارا نہیں کیا ہے ان انسان نما انگریز بھیڑیوں نے کشمیریوں کو ایک تاجر کو فروخت کرکے نہ صرف کشمیریوں کی اہانت کی ہے بلکہ انسانیت پر طمانچہ مارا ہے  ، جس سے چھٹکارا پانے کیلئے کشمیری عوام جدوجہد کررہے تھے۔ اور اس جدوجہد کی تاریخ 13 جولائی کے شہیدوں کی قبروں پر ابھی بھی رقم ہے ، زندگی رہی تو انشااﷲ اس موضوع پر  الگ سے ایک تجزیہ قارئین کے نذر کروں گا ۔ابھی کشمیری عوام ڈوگرہ راج کے خلاف جنگ لڑ  رہی تھی کہ ادھر سے ہندوستان آزاد ہوا ، پاکستان نامی ملک دنیا میں وجود میں لایا گیا۔ جب حقیقت سے دیکھا جائے پاکستان کا وجود اسلامی تعلیمات کے رو سے وجود میں نہیں آیا ہے  ،  اگر ایسا ہوتا  تو اسلامی جمہوریہ پاکستان نامی ملک کا حاکم  اعلی، قرآن اور احادیث کا عالم ہوا کرتا ، اسلام شناس مدیروں کو صدارت کے منصب پر فائز کیا جاتا جبکہ انہیں اس منصب سے دور رکھنے کی ہر ممکن کوشش ہوتی رہتی ہے آخر کیوں!اگر اسلامیہ جمہوریہ ہے تب تو قرآن اور حدیث حاکم ہونا چاہئے نہ کہ قرآن اور حدیث کے حریف۔پاکستان میں عربستان سعودی کی طرح سیاست اور دیانت کو آپس میں جدا بھی نہیں کیا جاتا اور نہ ہی سیاست اور دیانت کو ایک ساتھ چلنے دیا جاتا ہے۔آخر کیوں !آخر صرف کشمیر کے نام پر اسلام یاد کیوں آتا ہے۔

انگریزوں کے خلاف جنگ جیتنے کے بعد بر صغیر کے عوامی طاقت کو توڑ دیا گیا ، جب کہ اس میں کشمیر کا نہ مستقیم نہ ہی غیر مستقیم طور کوئی بھی واسطہ تھا تو کیوں کشمیر اور کشمیریوں کو سیاسی عسکری آزمایشگاہ میں تبدیل کیا گیا ۔

پاکستان نے کشمیر پر قبائلی حملہ کرکے ایک سنگین تاریخی جرم کیا ہے ۔ آخر کیوں اسلام کے نام پر ہمیں [کشمیری عوام کو]اپنے زیر نگین کرنا چاہتا تھا، وہاں تو اسلامی تعلیمات کی کوئی ایسی مثال قائم نہیں کی گئ ہے کہ کسی بھی مسلمان کو ان تعلیمات سے حاصل ہونے والی برکتوں میں شامل ہونے کی تمنا پیدا ہو ۔اگر کشمیر میں جاری ڈوگرہ راج کے خلاف عوامی تحریک کو  قبائیل حملے سےمتاثر نہ کیا جاتا ،ہندوستان کے زیر انتظام کشمیر اور پاکستان کے زیر انتظام کشمیروجود میں نہ آتے،کشمیر کی تاریخ مسخ نہ ہوتی۔اقوام متحدہ کی طرف رجوع کرنی کی نوبت نہ آتی بلکہ خود اقوام متحدہ کشمیر کی نجات کیلئے کہ کہنی ہندوستان اور پاکستان کی آپسی سیاسی رنجش کا شکار کشمیر نہ ہو جائے جو اپنی جمہوری جنگ لڑنے میں مصروف عمل ہیں ، کشمیرجیسے کمزور ملک کیلئے سپر بن کے سامنے آجاتی جو اسکا اصولی موقف بھی بنتا تھا ، لیکن وہ بھی ایسا نسخہ تجویز کر گئ کہ جس سے بر صغیر میں ایک اور خون چکان داستان رقم ہونے کا عندیہ ملتاہے ۔

  یہاں پر ، جو بات  میں خود  بھی سمجھنا چاہتا ہوں وہ یہ ہے کہ کشمیری عوام کے سامنے اقوام متحدہ  کی حق خود ارادیت کے حصول کی جھوٹی تلقین کیوں کرائی جاتی ہے۔ کیا حصول حق خود ارادیت کا معنی ہندوستان کے ساتھ  الحاق کرکے اسکا حصہ بننے یا پاکستان کے ساتھ الحاق کرنے اور اسکا حصہ بننے کے بغیر کچھ اور بھی ہے ۔بلکل نہیں۔ حق خود ارادیت یعنی ہندوستان یا پاکستان کے ساتھ الحاق کرنا ہے۔ کیا یہ منطقی نعرہ ہے ۔

 فرض کریں کہ کشمیر  میں اقوام متحدہ کا مجوزہ حق خود ارادیت کا تبصرہ نافذ کرنے کیلئے اقدامات کئے جاتے ہیں تو اسے کیسے عملایا جا سکتا ہے ؟

س:1۔ کیا پوری کشمیری قوم پاکستان کے ساتھ ملحق ہونے کو تیار ہے۔

 ج: نہیں ، کیوں ، کیونکہ جنہوں نے ہندوستان کے ساتھ وفاداری کی قسم کھائی ہے اور ہندوستان سے انعامات حاصل کرنے کے ساتھ حریفوں کی طرف سے سزا بھی جھیلے ہیں ، قتل و خون سے دوچار ہوئے ہیں ،وہ نہ پاکستان کے ساتھ جانے کی حمایت کر سکتے ہیں نہ پاکستان کے ساتھ ملحق ہونے کے بعد آرام کی زندگی گذار سکتے ہیں  ۔

س:2۔ کیا پوری کشمیری قوم ہندوستان کےساتھ ملحق رہنے کو تیار ہے ۔

 ج: بلکل نہیں ۔کیوں، کیونکہ جنہوں نے پاکستان کے ساتھ وفاداری کی قسم کھائی ہے اور پاکستان سے انعامات حاصل کرنے کے ساتھ ساتھ حریفوں کی طرف سے سزا، اذیت و آزار کے کئ مرحلوں سے گذارے ہوں وہ کیوں کر ہندوستان کے حامی بن سکتے ہیں اور اگر بن بھی جائیں ، مشکوک رہیں گے اور آرام کی زندگی گذارنے سے قاصر رہیں گے ، جسکا نتیجہ خانہ جنگی کا سلسلہ بن سکتا ہے ۔

میرا ماننا ہے کہ جسطرح انتخابات کے دنوں وفاداریاں بدلنے اور ٹریڈنگ کا بازار گرم ہو جاتا ہے ویسا ہی سماں حق خود ارادیت کو حصول کے سلسلے میں دیکھنے کو مل سکتا ہے ایک عمدہ فرق کے ساتھ کہ اس وقت دونوں ممالک کی خفیہ ایجنسیاں کھل کر اپنا لوہا منوانے کا مظاہرہ کرنے میں لگیں گے ۔ جس کا نتیجہ قتل و خون کا بازار ہوگا ۔اور مرنے والا کشمیری کے سوا کوئی اور نہ ہوگا ! کشمیری جی ہاں کشمیری۔ جسطرح ابھی ان ساتھ دہایوں میں صرف کشمیریوں کو مارا گیا  ۔ ہندوستان اور پاکستان تو صرف اپنی اپنی منفعت حاصل کرتے رہے۔

کیا مجھے کوئی یہ بتانا گوارا کر سکتا ہے کہ کشمیریوں کا  ہندوستان نوازی یا پاکستان نوازی میں جینا یا مرنا کس اعتبار سے دینداری اور غیرتمندی کی علامت ہے ۔  یوں تو  کئ حضرات یہ اصطلاح بنانے کی کوشش بھی کرتے رہے کہ ہند نواز جہنمی ہے اور پاکستان نواز جنتی ہے ۔جبکہ سیاسی مفتیوں (اقوام متحدہ)نے ہندنواز وں اور پاکستان نوازوں دونوں کے بارے میں حق خود ارادیت کا فتوی دے کر دونوں کو جنتی قرار  دیا ہے لیکن اسلامی تعلیمات کے رو سے ان دونوں باتوں کے برخلاف اپنے وطن کے ساتھ محبت کو ایمان کا جز قرار دیا ہے اور کشمیر یوں کا وطن نہ کبھی ہندوستان رہا ہے نہ ہی پاکستان ۔ تو پھر ہم کیوں نہ ہندنوازی اور پاکستان نوازی کے بجائے کشمیر نوازی کے علمبردار بنتے ہیں  اور کشمیر کی حقیقی آزادی کے لئے معقول موقف اختیار کرتے ہیں۔ الحاق پاکستان اور الحاق ہندوستان کا نعرہ ایک کھوکھلا نعرہ ہے جب کشمیری عوام کسی بھی صورت میں ہندوستان کی آزادی کا حصہ دار  نہ تھا تو  ان کی آزادی کے بعد والے فیصلوں کا حصہ دار کشمیری کیوں بنایا جائے گا۔ نہ پاکستان اسلامی اصولوں پر نچھاور ہونے کی تمنا دل میں لئے کشمیریوں کی حمایت کرنا چاہتا ہے ۔نہ ہندوستان ہندو توا کو کشمیر میں نافذ کرنا چاہتا ہے ۔ نہ اقوام متحدہ کی حق خود ارادیت سے کشمیریوں کے حقوق کی ضمانت ملتی ہے بلکہ یہ  ایک فسانہ ہے ۔ دلفریت فسانہ ۔کشمیری عوام اور لیڈران اپنی اپنی سطح پر جب  تک نہ ہندوستان کو وادی کشمیرسے حق حاکمیت سے دستبرداری کا اعتراف نہیں کراتے کشمیر کی آزادی کی تحریک ماضی کی طرح ڈوبتی نظر آئے گی ۔

کشمیر کی آزادی کا مقدمہ وادی کی آزادی میں ہی مضمر ہے اور اسکے بعد ہندوستان کے زیر انتظام باقی حصوں پر سے حق حاکمیت سے دستبرداری کا حصول اور اسی طرح  پاکستان کے زیر انتظام کشمیر  میں مظفر آباد اور شمالی علاقہ جات پر پاکستان کی حق حاکمیت سے دستبرداری کی نوبت پہنچ سکتی ہے ۔

کشمیر  کی آزادی کا فیصلہ صرف اور صرف ہندوستان کے زیر انتظام وادی  کشمیر  کے لوگوں کو کرنا ہوگا ۔کیونکہ بنیادی طور کشمیر جس کی اپنی ہزاروں سالہ تاریخ ہے وہ یہی وادی کشمیر ہے ہندوستان کے زیر انتظام کشمیر  میں جموں اور لداخ والوں کا رول بعد کا بنتا ہے ۔

اسی طرح پاکستان کے زیر انتظام والے کشمیر اور شمالی علاقہ جات کا ،پہلے وادی والوں کو یہ بات طے کرنی ہوگی کہ کیا وہ اپنی ملکی حیثیت سے آنکھیں چرا کر اسلام آباد اور دھلی کی غلامی میں رہنا پسند کرتے ہیں تو  اپنی ارتقا کی راہیں مسدود کرتے ہوئ ان دو ممالک پر چھوڑنا چاہئے جو ،ان کو پسند ہو وہ انجام دیں گے اور ذلت کو منافقت کے ساتھ قبول کرلیا جائے   اور لیڈر حضرات  تنخواہیں وصول کرنے کی فکر میں لگے رہیں۔ یا  تو  ایک ساتھ فیصلہ کریں کہ عزت اور وقار کی زندگی جی لیں گے تو  ہندنواز اور پاکستان نواز  کو عنوانوں کو بھول کر کشمیر نوازی کا مظاہرہ کرتے ہوئے دونوں ممالک کے ساتھ آنکھیں ملا کر باتیں  کریں پہلے مرحلے میں وادی والے ہندوستان سے بات کریں کہ جناب ہندوستان آپ  کا طاقت  اور ترقی ہماری طاقت اور ترقی  کی ضمانت ہے آیے جھوٹے لفظوں کو حقیقت میں تبدیل کریں۔

ذرا ہمیں یہ بتائیں کہ آپ نے ہمیں کیا دیا ، جب سے آپ نے کشمیر پر قبضہ کیا تب سے لیکر آپ نے کشمیر کی صنعت و حرفت کو کیا دیا ، کس شعبے میں کشمیر ارتقا کی منزل طے کی،!ہندوستان کی کسی بھی ریاست کی ترقی کا گراف آپ کے زیر انتظام کشمیر کے ساتھ قابل مقایسہ ہے ۔بلکل نہیں ۔جبکہ  آزادی سے پہلے ہندوستانی ریاستوں کا کشمیر کے بہت سارے شعبوں از جملہ ہارٹیکلچر اور پارچہ بافی وغیرہ کے ساتھ قابل مقایسہ نہیں ۔اور یہ بات تاریخی طور ثابت ہے کہ کشمیر کی سرزمین کے ساتھ ساتھ کشمیری لوگوں کے اذہان مثالی ذر خیز ثابت ہوتے رہے ہیں لیکن اپنی ترقی کی خاطر انہیں صرف آزمایشگاہ کے طور پر استعمال کیا گیا جس سے سب بنجر بنتی نظر آتی ہے۔جناب ہندوستان کیا اس کے بدلے میں آپ نے فوجی عسکری میدان میں  ایک مقام پید ا نہیں کیا ۔ جب کہ آپ جانتے ہیں کہ آپ جبرا کشمیر پر قابض ہوئے ہیں ۔  

  اس کے بارے میں نہ بڑے بڑے نعرے دینے کی ضرورت ہے نہ ہی کھوکھلے نہ ہی مجہول ۔ہمیں[کشمیری عوام کو] صرف ہم کیا چاہتے آزادی کے مفہوم کو سمجھنا پڑے گا اور ثابت قدمی کے ساتھ اس کے حصول کیلئے اقدامات کرنے ہوں گے ۔ایسا نہیں ہونا چاہئے کہ ہم [کشمیری عوام]"ہم کیا چاہتے آزادی"کا نعرہ دے کر اسکا مفہوم یوں بیان کرنے سے قاصر ہوں۔ "آزادی کا مطلب کیا لا الہ الا اللہ " کہہ کر اپنی معصومیت کا مظاہرہ کریں ۔مجھے اگر کوئی پوچھے تم کشمیری ہو بتاو ، آزادی کس سے ، کس لئے اور کیوں  چاہئے تو میں ایک پزلر میں آپ کو گھیرا پاوں گا کہ جواب پر ایک نیا سوال جنم لیتا نظر آئے گا،میں تو آزادی کا مطلب کیا "لا الا الہ اللہ" کے نعرے پر خود حیران ہوں تو دوسروں کو کیا سمجھاؤں، کیونکہ اتنا تو ضرور جانتا ہوں کہ دنیا میں کوئی ایسی جگہ موجود نہیں ہے جہاں "لا الہ الہ اللہ" کہنے کی آزادی نہ ہو ، چہ بسا ہندوستان میں جہاں عالم اسلام کی سب سے عظیم جمعیت آباد اور کلمہ طیبہ سے سرفراز ہے ۔ان سے چھٹکارا پانے کو آزادی کا ایک نعرہ قرار دوں ۔ خدانخواستہ اگر ہم کشمیریوں پر بی غیرتی کی مہر ثبت ہو کر حق خود ارادیت کو حوالے سے ہندوستان اور پاکستان کے درمیاں ایک کو انتخاب کرنے کی نوبت آئی،  میں ہندوستانی مسلمانوں پر قربان ہونے کیلئے صرف ہندوستان کے ساتھ  ہی رہنا پسند کروں گا  اور دوسروں کو بھی یہی سفارش کرتا رہوں گا ۔

اگر آغاز سخن میں بیان کی گئ حدیث پر سونچا جائے تو سزا اور جزا کے لئے  رہنما اصول موجود نظر آتے ہیں۔

والسلام

عبدالحسین عبدالحسینی‏ 

منگل‏، 11‏ نومبر‏، 2008

تبصرے (۰)
ابھی کوئی تبصرہ درج نہیں ہوا ہے

اپنا تبصرہ ارسال کریں

ارسال نظر آزاد است، اما اگر قبلا در بیان ثبت نام کرده اید می توانید ابتدا وارد شوید.
شما میتوانید از این تگهای html استفاده کنید:
<b> یا <strong>، <em> یا <i>، <u>، <strike> یا <s>، <sup>، <sub>، <blockquote>، <code>، <pre>، <hr>، <br>، <p>، <a href="" title="">، <span style="">، <div align="">
تجدید کد امنیتی