سایت شخصی ابوفاطمہ موسوی عبدالحسینی

جستجو

ممتاز عناوین

بایگانی

پربازديدها

تازہ ترین تبصرے

۰

واٹیکان سٹی اور کشمیر

 اردو مقالات سیاسی کشمیر

واٹیکان سٹی اور کشمیر

از قلم: عبدالحسین کشمیری


بسمہ تعالی
کشمیر کا اگرچہ واٹیکان سیٹی سے موازنہ نہیں کیا جاسکتا ہے کیونکہ دنیا کا سب سے چھوٹا ملک ہونے کے ساتھ ساتھ ایک مخصوص مذھبی سٹیٹ ہے البتہ اس میں دلچسپ بات یہ ہے کہ روم اور اٹلی کے درمیاں یہ ملک کہ جسکی مساحت صفر اشاریہ دو 0.2 مربع میل ہے اور دنیا میں صرف ھندوستان نے اس ننے ملک کی سفارت کو دھلی میں قائم کیا ہے۔جبکہ اس ننے ملک کی آبادی 770 سے زائد نفوس پر مشتمل ہے ۔ چونکہ ہم ھندوستان کے زیر انتظام کشمیر میں رہ رہیں ہیں ہمارے لئے یہ بات بہت معنی رکھتی ہے اور ھندوستان کے نسبت مثبت سوچ رکھنے کی ترغیب دیتی ہے کہ اگر کوئی جائز اور صحیح بات ہو ھندوستان کو اسکا بھر پور احترام اور اعزاز دینے میں کوئی قباحت محسوس نہیں ہوتی ہے ۔ ھندوستان نے واٹیکان کی سفارت کو دھلی میں قائم کرکے اپنی بزرگی کا مظاہرہ کیا ہے کہ دیگر کئ ممالک کی طرح کسی مسلمہ ملک کو اسکے چھوٹے یا بڑے ہونے کے معیار پر پرکھ کر مقام نہیں دیتا بلکہ حقیقت کو تسلیم کرتا ہے ۔ ھندوستان کی ایسی سیاست صرف واٹیکان کیلئے مخصوص نظر نہیں آتی ہے کہ چونکہ واٹیکان ایک مذھبی ملک ہے اور عیسائیوں کو خوش کرنے کے لئے اسے اتنا اعزاز دیا ہو، نہیں؛ بلکہ ھندوستان نے دیگر چھوٹے چھوٹے ممالک از جملہ موناکو Monaco جیسے ملک، کہ جسکی کل مساحت صفر اشاریہ سات 0.7 میل مربع ہے اور جس کی آبادی تیرہ ھزار سے زائد نفوس پر مشتمل ہے اسکی سفارت کو بھی دھلی میں قائم کرنے کا اعزاز دیا ہے ۔ ھندوستان ایک منطقی اور اصولی ملک نظر آتا ہے۔ کیوں نہ ہم بھی منطقی اور اصولی موقف اختیار کرکے ھندوستان کے سامنے رکھتے ہیں ۔ ہمیں آزادی تب تک نصیب نہیں ہو سکتی جب تک نہ ہم اصولی موقف اختیار کرتے ہیں۔


کبھی کشمیری عوام کو یہ باور کرایا جاتا ہے کہ کشمیر اپنی ملکی حیثیت سے قائم نہیں رہ سکتا ، اگر یہ بات درست ہے تو واٹیکان اور موناکو جیسے چھوٹے ممالک کس طرح دنیا میں وجود میں آئیں ہیں اور دنیا نے انہیں تسلیم کیا ہے ۔جب ایک طائرانہ نظر ان ننھے ممالک پر دوڑائیں تو واٹیکان اور موناکو کے علاوہ دیگر ممالک بھی آزاد اور خود مختار نظر آتیں ہیں از جملہ : آٹھ اشاریہ پانچ میل مربع پر مشتمل ملک ناوروNauru کہ جس کی آبادی تیرہ ھزار نفوس پر مشتمل ہے ۔ توالو Tuvaluجو کہ نو میل مربع پر مشتمل ہے ۔سین مارینوSan Marino جو کہ چوبیس میل مربع پر مشتمل ہے اور جسکی آبادی انتیس ھزار نفوس پر مشتمل ہے اور یورپ کے قدیم ترین ملک ہونے کا دعوی کرنے کے ساتھ اسکی تاریخی حیثیت کو محفوظ رکھنے میں کامیاب رہیں ہیں ۔ باسٹھ میل مربع پر مشتمل ملک لچٹنسٹن Lichtenstein کہ جس کی آبادی چونتیس ھزار ہے جو کہ سویزرلینڈ اور آسٹریلیا کے درمیاں واقع ہے ۔جزیرہ مارشلMarshall Islands جو کہ ستھر میل مربع پر مشتمل ہے اور جس کی آبادی قریب ساٹھ ھزار نفوس پر مشتمل ہے ۔سینٹ کٹز نیوزSaint Kitts and Nevis یہ ملک ایک سو چار میل مربع پر مشتمل ہے اور اسکی آبادی قریب چالیس ھزار نفوس پر مشتمل ہے ۔اسی طرح Seychelles سیچلس نامی ملک ایک سو سات میل مربع پر مشتمل ہے اور اسکی آبادی اسی ھزار سے زائد نفوس پر مشتمل ہے ۔ھندوستان کی ھمسایگی میں ایک سو پندرہ میل مربع رقبے پر آباد ملک مالدیوس Maldives کہ جس کی آبادی ساڑھے تین لاکھ سے زائد نفوس پر مشتمل ہے۔مالٹاMalta یہ ایک اور ملک ہے جو کہ ایک سو بایس میل مربع پر مشتمل ہے جس کی آبادی چار لاکھ سے زائد ہے ۔گرناداGrenada کی مساحت ایک سو تینتیس میل مربع ہے اور ایک لاکھ کے قریب لوگ آباد ہیں ۔سینٹ ونسنٹ و گرینیڈنس Saint Vincent and the Grenadines ایک سو پچاس مربع میل پر مشتمل ہے اور جہاں قریب ایک لاکھ بیس ھزار لوگ آباد ہیں ۔ایک سو چھیسٹھ میل مربع پر مشتمل ملک بارباڈوس Barbados جہاں کی آبادی قریب تین لاکھ ہے ۔انتیگوا و باربودا Antigua and Barbuda نامی ملک ایک سے ایکتہر میل مربع پر مشتمل ہے جہاں قریب ستھر ھزار لوگ آباد ہیں ۔ اندورا Andorra جسکی مساحت ایک سو اسی میل مربع ہے اور جہاں کی آبادی ستھر ھزار ہے ۔ دوسو جزیروں پر مشتمل پالو نامی ملک جو کہ 1994 میں آزاد ہوا اور اسکی کل مساحت ایک سو اکانوے مربع میل ہے اور یہاں پر صرف بیس ھزار نفوس آباد ہیں ۔یہ سب دنیا کے ستھرہ چھوٹے آزاد ممالک ہیں ، اگر ان سبھوں کو جمع کیا جائے دو سو چھیالیس مربع میل بنتے ہیں تب بھی یہ ستھرہ آزاد ملک کشمیر سے چھوٹے پڑتے ہیں ۔ اس حوالے سے ہمیں دشمن کی اس تلقین کی طرف دھیان نہیں دینا چاہئے کہ ہم ایک آزاد ملک کے طور سے زندہ نہیں رہ سکتے بلکہ ھندوستان اور پاکستان کے رحم وکرم پر ہی ہمیں زندگی گذارنی ہے ۔ایسا بلکل ایک فریب اور بہت بڑا ظلم ہے ۔

ہمیں خود میں اعتماد زندہ کرنا ہوگا اور اپنے پیروں پر کھڑا ہونے کاحوصلہ پیدا کرنا ہوگا اور اپنی بات دنیا کے سامنے رکھنے سے پہلے ھندوستان اور پھر پاکستان کو اعتماد میں لینا ہوگا ۔اسلئے ہمیں پہلے خود کو سمجھنا چاہیئے کہ ہم کس طرح اپنے ملک کو ادارہ کرسکتے ہیں اور اپنے ھمسایہ ممالک ھندوستان ، پاکستان اور چین کو کس طرح سکیورٹی کا اطمنان فراھم کر سکتے ہیں۔ضمانت فراھم کرسکتے ہیں ۔میرا عقیدہ ہے کہ اگر ہم اپنی اصولی بات کو ھندوستان کو سمجھانے میں کامیاب ہوئے ، یقینا اسی میں پاکستان اور چین کی ضمانت بھی شامل ہوگی ۔ہمیں امپورٹڑ شعار چھوڑ کر اپنی منزل طے کرنے کا منصوبہ خود مرتب کرنا ہوگا ۔آزادی کا مطلب آزادی مان کے چلنا ہوگا اور اسے کسی ایک مکتب فکرسے محدود نہیں کرنا ہوگا ۔ اپنے وطن کی آزادی کا صحیح اور منطقی تعبیر بیان کرکے سبھوں کو ایک ساتھ لے کے چلنا ہوگا ۔

جہاں تک ہماری آزادی کے نعروں کا سوال ہے چونکہ یہ امپورٹڑ ہیں وارداتی ہیں اس لئے ان کا معنی بھی وارداتی ہیں ۔ ہم کیا چاہتے آزادی کا معنی لا الہ الا اللہ یا پاکستان سے رشتہ بتایا جاتا ہے ۔ جبکہ ہمارا نعرہ سیاسی ہے اور سیاسی اعتبار سے آزادی کا معنی استقلال اور غیر قانونی تسلط سے نجات ہے۔ اسلئے ہمیں پہلے نعروں کو لوکل اور علاقائی بنانا ہوگا ، وہ شعار جو کشمیری عوام کی دلی ترجمانی کرے جیسے؛{ہندوستان تہ پاکستان دونے لسن کاشرین سان یعنی ھندوستان اور پاکستان کے ساتھ ساتھ کشیمر بھی آباد رہے / وچھی وین سیٹھا بربادی اسہ گژھہ واپس آزادی یعنی ہم نے اب تک بہت بربادی دیکھ لی ہمیں اپنی آزادی واپس چاہئے }۔اسطرح ایک قانونی اور عوامی موقف اختیار کرکے آگے بڑنا ہوگا ۔ میرے نزدیک ھندوستان کے ساتھ تامل کے ساتھ پیش آنے اور اپنے جائز حقوق کا منطقی اصولوں پر مبنی مطالبہ کرنے سے ہمیں منطقی اصولوں پر مبنی جواب بھی حاصل ہو گا ۔ جب ھندوستان کے سامنے اصولوں پر مبنی بات رکھی جائے یقینا جواب بھی قانع کنندہ حاصل ہو گا ۔ جذبات اور جہالت سے کچھ حاصل نہیں ہونے والا ہے ۔ کشمیر کو آزاد ملک کی حیثیت سے ترقی کی منازل طے کرنے کی تاریخی اور اصولی حقیقت سے انکار نہیں کیا جاسکتا ۔نا امیدی کی کوئی گنجایش نہیں ہے ؛جب دنیا ننے ننے ممالک کو جائز طور تسلیم کرتے ہیں کشمیر جیسے عظیم اور تاریخی ملک کو اپنی تاریخی حیثیت سے تسلیم نہ کرنا کیسے ممکن نہیں ہے ۔ضرورت صرف اس بات کی ہے کہ ھم خود اسکا تقاضا کریں اور اپنے موقف پر ڈٹے رہیں ۔مسئلہ کشمیر کو نہ ھندوستان کو حل کرنا ہے نہ ہی پاکستان کو، نہ ہی اقوام متحدہ کو، نہ ہی دنیا کے کسی بھی چھوٹے یا بڑے ملک کو بلکہ کشمیر ی عوام کو خود اپنا مسئلہ آپ حل کرنے کیلئے متحد و ہمصدا ہونا ہے ۔
منگل‏، 02‏ دسمبر‏، 2008

 

تبصرے (۰)
ابھی کوئی تبصرہ درج نہیں ہوا ہے

اپنا تبصرہ ارسال کریں

ارسال نظر آزاد است، اما اگر قبلا در بیان ثبت نام کرده اید می توانید ابتدا وارد شوید.
شما میتوانید از این تگهای html استفاده کنید:
<b> یا <strong>، <em> یا <i>، <u>، <strike> یا <s>، <sup>، <sub>، <blockquote>، <code>، <pre>، <hr>، <br>، <p>، <a href="" title="">، <span style="">، <div align="">
تجدید کد امنیتی