سایت شخصی ابوفاطمہ موسوی عبدالحسینی

جستجو

ممتاز عناوین

بایگانی

پربازديدها

تازہ ترین تبصرے

۰

ابوظبی ایک عربی ویٹنام بننے کی دہلیز پر

 اردو مقالات سیاسی سعودی عرب ابوظبی

ابوظبی ایک عربی ویٹنام بننے کی دہلیز پر

ابوظبی ایک عربی ویٹنام بننے کی دہلیز پر

نیوزنور:بعض تجزیہ نگاروں کا کہنا ہے کہ جب مشرق وسطی /مغربی مشرق کا شیطان یمن کے اخوان المسلمین کے ساتھ مذاکرات اور سمجھوتے کے لیے تیار ہو جائے گا تو اس کا مطلب یہ ہوگا کہ یمن ابوظبی اور ریاض کے لیے ایک عربی ویٹنام میں تبدیل ہونے والا ہے ۔

عالمی اردو خبررساں ادارے نیوزنور کی رپورٹ کے مطابق خلیج فارس امور کے ماہر مہمان تجزیہ نگار سید کاظم صادقی نے ابوظبی کے سیاسی حالات کا تجزیہ پیش کرتے ہوئے لکھا ہے کہ ؛ سعودی عرب کے ولی عہد ، محمد بن سلمان اور امارات کے ولی عہد محمد بن زاید کی ۱۵ دسمبر ۲۰۱۷ کو ریاض میں التجمع الیمنی للاصلاح ،(جو یمن میں اخوان المسلمین کی شاخ ہے )  کے جنرل سیکریٹری اور سربراہ عبد الوہاب احمد الانسی اور محمد الیدومی کے ساتھ ملاقات ، یہ  ایک اہم ملاقات تھی، اور اس ملاقات کے سلسلے میں بہت ساری تحلیلیں اور رپورٹیں منتشر ہوئی ہیں ۔

اگر چہ امارات  کی وزارت خارجہ کے ٹویٹر کے ترجمان انور قرقاش نے دعوی کیا ہے کہ اصلاح پارٹی نے اخوان المسلمین کی یمنی شاخ کے عنوان سے اخوان سے بیزاری کا اظہار کر دیا ہے ، لیکن سبھی لوگ اچھی طرح جانتے ہیں کہ اس ملاقات کے دوران ، امارات نے  پابندی  کو توڑا اور یمن میں ایک فوجی رکاوٹ سے نکلنے کے لیے ایک عملی اقدام کرتے ہوئے  اپنے  سیاسی دشمن نمبر ایک کے ساتھ مذاکرات اور سمجھوتے کے لیے آمادگی کا اظہار کر دیا ، وہ ایسی رکاوٹ تھی کہ جسے آج کل ابوظبی اور ریاض کے لیے عربی ویٹنام کا نام دیا جارہا ہے ۔

امارات کے حکام نے گذشتہ تین برسوں میں اپنی حکمت عملی کی بنیاد سیاسی اسلام کے خلاف جنگ اور خاص طور سے اخوان المسلمین کے خلاف جنگ پر رکھی ہوئی ہے ، اور ٹیونس ، لیبیا ، مصر اور قطر  اور دوسرے علاقوں میں وہ اخوانیوں کے خلاف کھڑے ہیں ۔ اور خود کو مقابلے کے نیزے کے نوک بتا رہے ہیں ۔ اب پہلے سے بغیر کسی تبلیغات کے ان کے ساتھ براہ راست مذاکرات کر رہے ہیں ۔

ابوظبی کہ  جس کے یہاں   سو سے زیادہ سیاسی قیدی ہیں اور جن پر اخوان المسلمین کے ساتھ رابطہ رکھنے کا الزام ہے اور وہ اخوان کی حمایت کی وجہ سے قطر کا دشمن ہو گیا ہے اب اخوان کے ساتھ سمجھوتے اور تعاون کی بات کر رہا ہے ۔ امارات والوں کو اپنے اس یو ٹرن کی دنیا والوں کو معقول وجہ بتانا پڑے گی ، لیکن ان کے پاس ہر جگہ اور اپنی ہر غلطی کے لیے صرف ایک وجہ ہے جو ہمیشہ ان کی جیب میں رہتی ہے اور وہ ہے ایران ۔ یمن کی مستعفی حکومت کے سابقہ وزیر خارجہ  کے نائب مصطفی نعمان نے اسی سلسلے میں ایک امریکی نشریے بلومبرگ کو بتایا کہ محمد بن سلمان اور محمد بن زاید نے اب تک کسی بھی اخوانی سے ملاقات نہیں کی تھی ، اب امارات اس بات کے لیے تیار ہے کہ اصلاح پارٹی کو یمن میں ایک میدانی فوج کے طور پر استعمال کرے ۔

وہ نکتہ کہ ماہرین جس کی تائیید کر رہے ہیں وہ یہ ہے کہ مذکورہ ملاقات علی عبد اللہ صالح کی موت اور انصار اللہ کی طاقت کی نمائش کے بعد واقع ہوئی ہے کہ عبد اللہ کی موت سے طاقت کے ترازو کا پلڑا انصار کے حق میں جھک گیا ہے ۔ دوسری جانب سعودی عرب اور امارات  کی رہبری والے گٹھ بندھن کے پاس ایسی فوج نہیں ہے جو میدان جنگ میں انصار اللہ کو پیچھے دھکیل سکے لہذا انہوں نے مجبور ہو کر اخوانیوں کے ساتھ سمجھوتے کے لیے مذاکرات شروع کیے ہیں ۔

محمد بن زاید کہ جس کو بعض مشرق وسطی کا شیطان کہتے ہیں ابو ظبی پر میزائل لگنے اور علی عبد اللہ صالح کو کھو دینے کے بعد اس نتیجے پر پہنچا ہے کہ یمن کے حالات دن بدن اس کے لیے اور اس کے سعودی ساتھیوں کے لیے مشکل سے مشکل تر ہو رہے ہیں ۔ دنیا کی رائے عامہ کی جانب سے دباو  میں کہ جس کی وجہ یمن میں انسانی حادثہ ہے اضافہ ہو گیا ہے اور انسانی حقوق کی محافل میں ہر روز امارات کے خلاف ایک نئی رپورٹ چھپتی ہے ۔

مشرق وسطی کے شیطان کے لیے یمن میں حالات اتنے دشوار ہو چکے  ہیں کہ وہ اپنے قسم خوردہ دشمنوں کے ساتھ مذاکرات اور سمجھوتہ کرنے کے لیے تیار ہو گئے ہیں تا کہ اس بحران سے نکلنے کے لیے کوئی راستہ مل جائے ، لیکن جو کچھ مشرق وسطی کے آج کے ناظرین کے لیے طے ہو چکا ہے وہ یمن میں سعودی اور اماراتی شہزادوں کی تباہی ہے اور یہ وہ چیز ہے کہ جو جنگ شروع ہونے سے سب کو معلوم تھی امارات والوں کی یہ روش کوئی نئی بات نہیں ہے بلکہ  وہ اور سعودیہ والے تو اپنے مفادات کی خاطر صہیونیوں کے تلوے چاٹنے کے لیے بھی تیار ہیں اور ٹرامپ نے جو قدس کو پایتخت بنانے کا فیصلہ کیا ہے اس سے انہوں نے اپنی آنکھیں بند کر رکھی ہیں اور اسرائیلیوں کے ساتھ ہر طرح کا مخفی اور ظاہری تعاون شروع کر رکھا ہے ۔ وہ چند ماہ پہلے تک عبداللہ صالح کو خائن اور چور کہتے تھے لیکن اچانک اسے ساتھی بنا لیا اور اسے ایسے راستے پر لگا دیا کہ جو اس کی موت پر ختم ہوا۔

ماکیاولیسٹی اور عہد شکنی پر مبنی سیاست اور مقصد تک پہنچنے کے لیے ہر جائز و ناجائز وسیلے کو استعمال کرنا امارات کے حکام کی سیاست کا حصہ ہے اور یہی وجہ ہے کہ دنیائے عرب کے عمومی افکار میں محمد بن زاید کا لقب مشرق وسطی کا شیطان ، یا عرب کا شیطان پڑ گیا ہے۔

 امارات کے محمد بن زاید اور اور سعودی عرب کے محمد بن سلمان کی پالیسیاں کسی بھی لمحے مغربی ایشیا   کے علاقے میں آگ لگا سکتی ہیں ۔ انہوں نے گذشتہ برسوں کے دوران نیم فوجیوں کی حمایت سے علاقے سے استحکام کو ختم کرنے کا کام کیا ہے اور اب ٹرامپ کی غیر ذمہ دارانہ حمایتوں کے ذریعے اور تل ابیب کی توجہ حاصل کر کے عملی طور پر علاقے میں قوموں کے مقابلے پر آ گئے ہیں اور قدس کے معاملے میں اپنی خاموشی کے ذریعے دنیا والوں کو بتا دیا ہے کہ اسرائیل کے ساتھ ان کے روابط بہت گہرے ہیں ۔     

 

تبصرے (۰)
ابھی کوئی تبصرہ درج نہیں ہوا ہے

اپنا تبصرہ ارسال کریں

ارسال نظر آزاد است، اما اگر قبلا در بیان ثبت نام کرده اید می توانید ابتدا وارد شوید.
شما میتوانید از این تگهای html استفاده کنید:
<b> یا <strong>، <em> یا <i>، <u>، <strike> یا <s>، <sup>، <sub>، <blockquote>، <code>، <pre>، <hr>، <br>، <p>، <a href="" title="">، <span style="">، <div align="">
تجدید کد امنیتی