سایت شخصی ابوفاطمہ موسوی عبدالحسینی

جستجو

ممتاز عناوین

بایگانی

پربازديدها

تازہ ترین تبصرے

۰

ایران کا انقلاب اسلامی کیوں ہے ؟

 اردو مقالات انقلاب اسلامی ایران سیاسی ایران مذھبی سیاسی

ایران کا انقلاب اسلامی کیوں ہے ؟

دنیا کے سب سے مقبول انقلاب کے اجزاء کی تحقیقات؛

ایران کا انقلاب اسلامی کیوں ہے ؟

نیوزنور:اس بات پر اعتقاد  کہ اسلام تنہا  جامع اور توحیدی مکتب  ہے کہ جو  انصاف، آزادی، امن، سلامتی اور انسانیت کی روحانی ترقی کو یقینی بناتا ہے ایران کے انقلاب کی فتح میں اہم عنصر تھا. شیعہ مذہب، "شہادت" اور "غیبت خاتم اوصیای رسول اللہ عجل اللہ تعالی فرجہ الشریف" کے دو ضروری اصولوں کے استعمال کے ساتھ،  عوام کے مھم ترین فکری ارتقا اور   عوام کے نظریاتی خواہشات کے مرکزی عنصر کے طور پر ابھر کر سامنے آیا۔

عالمی اردو خبررساں ادارے نیوز نور کی رپورٹ کے مطابق ایران کے ایک معتبر پورٹل پر" ایران کا انقلاب اسلامی کیوں" کے تحت فارسی مقالہ نظرسے گذرا کہ جس کے جامع معلومات کے پیش نظر نیوزنور قارئین کے لئے تیار کرنے کا اہتمام کیا گیا ہے۔

محرر لکھتے ہیں کہ ؛کچھ جملے اور عبارتیں کہ جو تاریخی واقعات کے اوصاف بیان کرنے میں استعمال ہوتے ہیں ان کے مثبت اور منفی دونوں پہلو ہیں ۔ اس لحاظ سے کہ  کثرت استعمال  کی وجہ سے،  ایک نظریے کے مطابق واضح اور روشن لگتے ہیں ، لیکن مختلف اور بعض اوقات متضاد روایات کی آمد کے ساتھ تامل اور تدبر کے ساتھ سوچنے کی ضرورت ہوتی ہے۔ ہر تاریخی رجحان کی نام گذاری اور  بر رسی  ہمیں اس کے واقعے کے اصلی مفاہیم تک پہنچانے میں سازگار ہو سکتی ہے۔  انقلاب اسلامی ایران  انہی برجستہ تاریخی واقعات میں سے  ہے  کہ جو اخوت و برادری کے ساتھ متصل اور اس پر تاکید کرنے کی وجہ  سے صفت و موصوف ذاتی میں تبدیل ہو چکا ہے۔

نظام جمہوری اسلامی ایران کی عمر کی تین دہائیاں گذرنےکے ساتھ ساتھ اور اس بظاہر کوتاہ تاریخ کے خارجی اثرات ، اس کی ماضی کی سیاسی کامیابیاں اس کی کامیابی کو ظاہر کرنے کی دلیل ہیں ۔  ھر چند کہ اس  سلسلے میں  ملک کے داخل اور خارج میں علمی میدان میں ترقی ہوئی ہے  لیکن اس مختصر عرصے میں ہم صرف اس بات کی کوشش میں ہیں کہ ایک روشن چھار چوب کے اندر  سال1979 میں برپا ہونے والے انقلاب کو انقلاب اسلامی کا نام دے سکیں ۔

اس بات پر اعتقاد کہ اسلام تنہا جامع اور توحیدی مکتب ہے کہ جو عدالت ، آزادی ، صلح ، امنیت اور انسانی معنوی ارتقا کا ضامن ہے ، انقلاب کی کامیابی کی اصلی وجہ تھی۔  شیعہ مذہب، "شہادت" اور "غیبت" کے دو ضروری اصولوں کے استعمال کے ساتھ،  عوام کے مھم ترین فکری ارتقا اور   عوام کے نظریاتی خواہشات کے مرکزی عنصر کے طور پر ابھر کر سامنے آیا۔

کلاسیکل سہ بعدی تبدیلیوں کی روشنی میں انقلاب کا اسلامی ہونا

دنیا کے مختلف ماہرین اور مکاتب فکریہ نے انقلاب کی مختلف تعریفیں کی ہیں کہ ان سب کو یہاں رقم کرنا ممکن نہیں ہے۔تھوڑے سے غور و فکر کے ساتھ ،  ایک  چار چوب کے اندر ایک اجتماعی حرکت کہ جو  رضاکارانہ سوچ رکھتی ہو اور ایک مضبوط رھبری کے زیر نظر موجودہ نظام کو اپنے مطلوبہ نظام کے ساتھ تبدیل کرنے کی قوت رکھتی ہو ، کو ان تعریفوں کی وجہ بتایا جا سکتا ہے۔

ایک اجمالی بات سے پرہیز کرنے کے لئے ، انقلاب ایران کے  کیونکر اسلامی ہونے کی بحث میں موجودہ تبدیلیوں کو اس طرح بیان کیا جا سکتا ہے ۔ ایک نگاہ میں ، تین عناصر ، قیادت ، تنظیم بندی ، اور رضا کارانہ آئیڈیا لوجی کو ایک انقلاب کے اساسی ترین عناصر میں سے مانا جاتا ہے ۔ (1) اس تحریر میں بھی یہ  انقلاب کے عمومی اور کلاسیکل عناصر ، ایران کے انقلاب کے اسلامی ہونے کے متعلق جانچ پڑتال میں بروے کار لائے جائیں گے۔ 

الف: انقلاب کی رھبری / امام خمینی (رہ): مرجعی انقلابی

جیسا کہ آغاز سے لے کر اپنی کامیابی تک کا انقلاب اسلامی کا سفر اس بات کی نشاندھی کرتا ہے ، انقلاب میں امام خمینی کی شخصیت کا اثر ایک رھبر سے کہیں زیادہ تھا ۔1960 کی دہائی میں  اور اس تحریک کے آغاز کے ساتھ ، امام ایک آگاہ مرجع تقلید اور امر بہ معروف اور نھی عن المنکر کے سہارے میدان میں وارد ہوتے ہیں اور حکومت کے انحرافات کے متعلق لوگوں کو ہوشیار کرتے ہیں۔   

امام کا مذھب کی ایک نئے رخ سے تعریف کرنا امر بالمعروف اور نھی عن المنکر کو ایک انفرادی عمل سے ایک اجتماعی اور شرعی فریضے کی طرف تبدیل کرنے کا باعث بنا ۔ اسی اعتقاد کی بنیاد پر کہ سال1962 میں اسد اللہ علم دربار شاہی کے وزیر اور ایران کے وزیر اعظم کی حکومت کی جانب سے علاقائی اور حکومتی انجمنوں کی تصویب کے بعد خواتین کو حق انتخاب دینا ، اور انتخاب کرنے والوں اور منتخب ہونے والوں کے متعلق اسلامی احکامات کا پاس و لحاظ نہ کرنا اور قرآن کی جگہ بقیہ آسمانی  کتابوں کو قابل سوگند قرار دینا  امام خمینی کی نگاہوں سے نہیں بچ سکا اور امام  اپنے مطلوبہ نتیجے کی حصول یابی تک اس کے لئے کوشش کرتے ہیں (2) ۔ امام شاہ کے نام اپنے ایک ٹیلیگراف میں کہتے ہیں : حتیٰ کہ میں نے اسد اللہ علم کو اس بدعت پر کہ جسے وہ لاگو کرنا چاہتا ہے اسے تنبیہ کی ہے ، اور اس کے نقصانات کو اس کے گوش گذار کیا ہے لیکن  اس نے نہ تو قانون الٰھی کا پاس و لحاظ کیا ہے اور نہ ہی بنیادی اور پارلیمانی قانون کی رعایت کی ہے اور نہ ہی عوامی رائے کا خیال کیا ہے۔ (3)

جب امام کو قابل اطمینان نتائیج نہیں ملتے ہیں ، تو امام اس مرتبہ ایک نئے لہجے میں  اسداللہ علم کو خطاب کرتے ہوئے کہتے ہیں : معلو ہوتا ہے کہ تم علمائے اسلام کی نصیحتوں کو کہ جو ناصح ملت ہیں کسی قابل نہیں سمجھتے ہو ،  تو میں پھر سے تمہیں نصیحت کرتا ہوں کہ اطاعت خداوندی اختیار کرو اور اسلام کے بنیادی قوانین کے مقابلے میں سر تسلیم خم کر لو  ، اور قرآن اور علما و زعمائے اسلام  کے احکامات کی خلاف ورزی سے باز آ جاو اور جان بوجھ کر بغیر کسی وجہ کے اپنی حکومت کو خطرے میں مت ڈالو ، وگرنہ علمائے اسلام تمہارے متعلق اپنی حتمی رائے پیش کرنے سے اجتناب نہیں کریں گے (4) امام نے ایسے حالات میں اسلامی  تعلیمات کا سہارا لیا کہ جب انقلابی تحریک شروع نہیں ہوئی تھی  اور انہوں نے اپنے حکومت اسلامی کے مطلوبہ نظریے کی معرفی نہیں کروائی تھی۔

بعد کے حالات اور امام کو نجف جلا وطن کرنے کے بعد انہوں نے اسلامی حکومت کا نظریہ پیش کیا۔ اسلامی حکومت کا نظریہ پیش کرنے کے ساتھ ہی اس اسلامی تحریک کی حقیقت روشن تر اور واضح تر ہو گئی۔ امام کی جانب سے منتشر ہونے والے پیغامات اور اعلانات اسلامی نظریات کی نشاندھی کرتے ہیں ۔ انقلاب کی کامیابی کے بعد بھی امام اس بات کے معتقد تھے کہ یہ انقلاب سیاسی یا نیم سیاسی نہیں تھا بلکہ مکمل طور پر ایک اسلامی انقلاب تھا ۔ (5) ۔ امام کی نظر میں اس ٹیکنولوجی کے دور میں واحد انقلاب کہ جو الٰھی  انقلاب تھا وہ انقلاب اسلامی ایران ہے۔ (6)

ب) آئیڈیا لوجی/ مذھب: مطلوب روشن مستقبل کا محرک

ایک آئیڈیا لوجی میں  ایسی دور اندیشی کا ہونا لازمی ہے کہ   جو اجتماعی صورت میں انسانی اقدار کی بنیاد پر ہو  اور جس میں عوام ، اس آئیڈیالوجی کو پیادہ کرنے کی قوت رکھتے ہوں ۔فرانسیسی فلاسفر  ریمون آرون نے تبدیلی کے معنیٰ میں آئیڈیا لوجی کی تعریف کی ہے اور اجتماعی طور پر آئیڈیالوجی کی تعریف کرتا ہے  کہ جو اقدار کی ضامن ہو اور چند دیگر اصلاحات کا استعمال کرتے ہوئے کہتا ہے  کہ جس میں چند وحشتناک یا پر امید اتار چڑھاو پائے جاتے ہوں ۔(7) انقلاب میں ایک سیاسی آئیڈیا لوجی کی ضرورت ہوتی ہے کہ جو ایک معاشرے کی فکر کو ایک نظام کے بجائے دوسرے نظام کی طرف مائل کرنے کی قدرت رکھتی ہو۔  موجودہ تفاسیر اور بیانات کے مطابق سیاسی آئیڈیالوجی ، موجودہ حالات کی کامیابی کے لئے ایک مطلوبہ صورتحال کی ایک مثالی تصویر پیش کرتی ہے، اور بالآخر معاملات کی مطلوبہ حالت کو حاصل کرنے کے لئے لازمی حکمت عملی پیش کرتی ہے.(8)

انقلابی آئیڈیا لوجی اگر چہ ممکن ہے کہ اس کی بنیاد فکری اور فلسفی پیمانوں پر رکھی ہو ، لیکن بنیادی طو ر پر یہ ایک عملی چیز ہے۔  آئیڈیا لوجی کا اصلی نظریہ، تحریک ایجاد کرنا اور اسے آگے بڑھانا ہے۔   اس بنا پر چاہے کسی بھی انداز سے قوت رسانی کی جائے اس کے ضامن وہی عناصر ہیں کہ جو ایک حرکت کی تشویق کا باعث ہوتے ہیں ، اور جمود و سکون والے عناصر کو اس میدان سے خارج کرتے ہیں۔ (9)

اس بات پر اعتقاد کہ اسلام تنہا جامع اور توحیدی مکتب ہے کہ جو عدالت ، آزادی ، صلح ، امنیت اور انسانی معنوی ارتقا کا ضامن ہے ، انقلاب کی کامیابی کی اصلی وجہ تھی۔  شیعہ مذہب، "شہادت" اور "غیبت" کے دو ضروری اصولوں کے استعمال کے ساتھ،  عوام کے مھم ترین فکری ارتقا اور   عوام کے نظریاتی خواہشات کے مرکزی عنصر کے طور پر ابھر کر سامنے آیا اور ایک عظیم تاریخی واقعے کے ابھرنے کی وجہ بنا ۔  انقلاب ایران نے دینی ساختار کو ایک سیاسی دائرہ کار میں داخل کرنے کی کوشش کی ہے۔ (10)

امام کی ھدایات کے زیر اثر  حکومت پہلوی کے اختتام کی آخری دو دہائیوں کے دوران علمااور روشن فکر مسلمانوں کی کوششیں انقلاب اسلامی کی آئیڈیالوجی کے ابھرنے کا باعث بنیں ۔  یہ آئیڈیالوجیک تلاش و کوشش  تین  چیزوں پر استوار تھی:

·         1۔ اسلام کے خلاف اٹھنے والے سیاسی اور فلسفی شبھات کا جواب دینا  اور حکومت اور مارکسیست کی جانب سے علم و دین کے تعارض کے شبھے کا جواب دینا۔

·         2۔  مفاھیم دیدنی ، مانند انتظار ، عاشورا ، تقیہ ، عدالت وغیرہ کی انقلابی  اور محرک آمیز تفسیر کرنا۔

·         3۔  نجف میں اسلامی نظریات کے متعلق  امام خمینی (رہ) کی تعلیم پر مبنی حکومت کے لئے ایک سیاسی دستاویز کی تدوین کرنا۔

ایک کلی نگاہ میں ، درج ذیل عوامل نے انقلاب اسلامی کی آئیڈیالوجی کی مقبولیت میں ایک مھم کردار ادا کیا :

·         1۔ ایرانی عوام کی تاریخی اسلامی ثقافت کے ساتھ متمسک ہونا۔

·         2۔ اسلامی گروہوں کی جانب سے  عوامی اذہان کے  ابتدائی تصورات کو دور کرنے اور اسلامی تصورات کے حقیقی معنی کو ڈیزائن کرنے کی کوششیں.

·         3۔ امام خمینی کی شخصیت ، ان کے افکار ، ان کی عالمانہ سوچ اور لائحہ عمل۔

·         4۔ عوام اور چیدہ افراد کا امام خمینی کی روحانیت اور ان کی فکر پر مکمل اعتماد کرنا۔

 ایران کا اسلامی انقلاب  ایک ایسی حالت کی طر ف پلٹا کہ  جس نے  اسلام کو  "خالص ثقافت" سے الگ کر کے   اس کے نظریات کو "نظریاتی اسلام" کے طور پر تبدیل کر دیا.

 ج) تنظیم بندی/ انقلابی علما اور مساجد کا نیٹورک

مذہبی تحرک ، دیگر محرکات  کے مقابلہ میں، لوگوں کو  بڑے پیمانے پر متحرک کرنے اور منظم کرنے کی قابلیت رکھتا ہے.یہ امر البتہ مساجد کے نیٹورک اور علما سے استفادہ کرتے ہوئے امام خمینی کی اعلیٰ قیادت کے توسط سے انجام پایا۔

 البتہ شیعہ معاشرہ انقلاب اسلامی میں مذہب کے کردار کو بیان کرنے میں کامیاب ہوا ؛  کیونکہ مذہب شیعہ کے علما کے پاس ایک مضبوط اور منسجم  نیٹورک موجود ہے  اور اس وقت یہ اس معاشرے کی مثبت خصوصیت بن چکی ہے۔ تحریک انقلاب کے دوران مساجد  محاذ جنگ میں تبدیل ہو چکی تھیں  اور انقلابی علما اس نیٹورک سے استفادہ کرتے ہوئے امام کے پیغامات کو عوام تک پہنچاتے تھے۔

امام نے مارچ1976 میں  سہم امام زماں (عج) کا ایک تہائی حصہ کتب اسلامی کے خریدنے اور انہیں نشر کرنے کے متعلق خرچ کرنے کا صریحی فتویٰ دیا۔  یہ امر اس بات کا باعث بنا کہ مساجد کی تبلیغی فعالیت اور اطلاع رسانی میں اضافہ ہوا ، اور امام (رہ) ، اور بزرگ مراجع کے بیانات اور فرمودات زیادہ سے زیادہ منتشر ہوئے۔ (12)

مساجد کی حیثیت کو بحال کرنے کے علاوہ  مذھبی تحرکات کی قوت میں اضافے کا دوسرا بڑا سبب امام خمینی کی مذہبی شہرت تھی ؛ بالخصوص امام کے شاگردوں کا وہ گروہ کو صف اول میں امام کے ساتھ موجود تھا۔  امام نے انقلاب سے کئی سال پہلے ایسے مورد اعتما د شاگردوں کی تربیت کی کہ جنہوں نے  مختلف شہروں اور علاقوں میں انقلاب کے لئے عوامی رضاکار تیار کرنے اور انقلابی نظریات کو پھیلانے کا ذمہ اپنے سر لیا۔  

اگر چہ ظاہری طور پر انقلاب کی کوئی سیاسی پارٹی نہیں تھی ، لیکن عملی طور پر اور ملکی سطح پر ، امام کے حامیوں کا ایک نیٹورک  ایک انقلابی اور طاقتور تنظیم بنانے میں مشغول تھا۔ (13) مساجد کو مظاہروں کے مراکز میں تبدیل کرنا  اور پورے ملک میں علما کا نیٹورک  کہ جو سب انقلاب میں امام کی رھبری پر مبنی تھا ، اس نے ایک  قدرتمند تنظیم بندی کی کہ شاہ کی حکومت اور اس کے حامی اسے نا قابل توجہ اور بے بنیاد سمجھتے تھے ۔ جب کہ بیشتر مخالف قوتیں ، فقدان رھبری ، ضعف تشکیلاتی ، اور عدم اتحاد کی وجہ سے تفرقے کا شکار ہوئیں  ، لیکن روحانی تحریک امام کے وجود کے ساتھ اور سارے ملک میں انقلابی جوانوں اور علما کا نیٹورک ایک خصوصی امتیاز کا حامل تھا۔ (14)  

اجتماعی اور اقتصادی نیٹورک کہ جو سنتی اسلامی قوتوں کے ہاتھ میں تھا ، وہ بھی انقلاب کے پیغام سے متاثر ہو کر اس میں شریک ہو گیا۔  سیاسی مسائل کے متعلق بازاروں اور گھروں میں منظم طریقے سے ہفتگی جلسے کئے گئے ، اور دوسری جانب ، سیاسی قیدیوں اور ان کے گھر والوں کی اقتصادی کمک کی گئی۔ (15)

 اختتام سخن

سال1979کے انقلاب کا اسلامی ہونا مختلف زاویوں سے قابل بر رسی ہے ۔  ان ابعاد میں سے ہر ایک شواھد سے مزین ہے کہ جو اس دعوے کو رقیب کے سامنے واضح کرتا ہے۔ اس تحریر میں ان دلائل کی تین تبدیلیوں کے دائرے میں بر رسی کی گئی ہے، رھبری ، نظریات اور تنظیم بندی۔  ان حالات میں1970 کی دہائی میں کسی متفکر اور ماہر نے اسلامی بنیادوں اور اصولوں پر واقع ہونے والے انقلاب کی پیش بینی نہیں کی تھی ۔ایک ایرانی تحلیل گر   محسن میلانی کے مطابق ، اسلام بہت کم ایک سیاسی طاقت کے طور پر ابھر کر سامنے آیا ہے اور سب سے رائج نظریہ یہ تھا کہ یہ ایک پائینی طاقت ہے۔  یہ وہ نکتہ ہے کہ جسے انہوں نے ماہرین کے نظریاتی ضعف کے عنوان سے یاد کیا تھا۔ (16)

ایران کے اسلامی انقلاب کی صفت ایک ایسی حالت کی طرف پلٹنا ہے کہ جس میں اسلام ایک خالص ثقافتی دائرے سے خارج ہو کر  ایک نظریاتی اسلام کے طور پر ابھر کر سامنے آتا ہے۔  (17)  

دوسری جانب  اس واقعے کی طراحی ایک ایسے شخص کی جانب سے تھی کہ جو دینی مرجعیت کے منصب کا حامل بھی تھا ، اور اس کا گفتار اور عمل  مذھبی خصوصیات سے سرشار تھا۔  ایک ایسا با کمال شخص کہ جو علما اور نوجوانوں کے ایک قدرتمند نیٹورک کے ذریعے  بہت ہی کم عرصے میں اسلام انقلابی کو حکومت پہلوی پر غالب قرار دیتا ہے  اور عوامی حمایت کے زور پر اس حکومت کے تختے کو الٹ کر رکھ دیتا ہے۔ 

حوالہ جات :

[1]. حسین بشیریه، انقلاب و بسیج سیاسی، چاپ ششم، انتشارات دانشگاه تهران، 1384، ص 6 و 7.

[2]. سید مرتضی حسینی، تحقق امر به معروف و نهی از منکر در فرآیند نظارت مردم بر دولت، ارائه‌شده در همایش «دکترین اصل هشتم قانون اساسی»، قزوین، 29 خرداد 1387.

[3]. امام خمینی، صحیفة نور، تهران، سازمان اسناد و مدارک انقلاب اسلامی وابسته به وزارت فرهنگ و ارشاد اسلامی، 1370، ج 1، ص 35.

[4]. همان، ص 41.

[5]. صحیفة نور، ج 6، ص 17.

[6]. صحیفة نور، ج 15، ص 76.

[7]. احمد نقیب‌زاده، درآمدی بر جامعه‌شناسی سیاسی، تهران، سمت، 1379، ص 46.

[8]. عباس منوچهری، نظریه‌های انقلاب، تهران، سمت، 1388، ص 82.

[9]. محسن خلیلی، پیدایی و پایایی تئوریک انقلاب اسلامی، در کتاب «آسیب‌شناسی انقلاب اسلامی»، به اهتمام کانون امید جوانان ایران اسلامی، مشهد، سنبله، 1385، ص 72.

[10].محمدرضا تاجیک، انقلاب و ناخشنودی‌هایش، در کتاب «آسیب‌شناسی انقلاب اسلامی»، ص 43.

 

[11]. امام خمینی، صحیفة امام، ج 2، تهران، مؤسسة تنظیم و نشر آثار امام خمینی، 1378، ص 23.

[12]. رضا شریف‌پور، مسجد و انقلاب اسلامی، ص 128.

[13]. صادق زیباکلام، مقدمه‌ای بر انقلاب اسلامی، تهران، انتشارات روزنه، 1375، ص 287.

[14]. یحیی فوزی، مبانی اندیشه‌ای گروه‌های سیاسی اسلام‌گرا در ایران قبل از انقلاب (قسمت اول)، ص 176.

[15]. نیکی کدی، ریشه‌های انقلاب ایران، ترجمة دکتر عبدالرحیم گواهی، تهران، انتشارات قلم، ص 361.

[16]. محسن میلانی، شکل‌گیری انقلاب اسلامی؛ از سلطنت پهلوی تا جمهوری اسلامی، ترجمة محسن عطارزاده، تهران، گام نو، 1383، ص 40 تا 42.

[17]. محسن خلیلی، همان، ص 74.

 

 

تبصرے (۰)
ابھی کوئی تبصرہ درج نہیں ہوا ہے

اپنا تبصرہ ارسال کریں

ارسال نظر آزاد است، اما اگر قبلا در بیان ثبت نام کرده اید می توانید ابتدا وارد شوید.
شما میتوانید از این تگهای html استفاده کنید:
<b> یا <strong>، <em> یا <i>، <u>، <strike> یا <s>، <sup>، <sub>، <blockquote>، <code>، <pre>، <hr>، <br>، <p>، <a href="" title="">، <span style="">، <div align="">
تجدید کد امنیتی