سایت شخصی ابوفاطمہ موسوی عبدالحسینی

جستجو

ممتاز عناوین

بایگانی

پربازديدها

تازہ ترین تبصرے

۰

امام خمینی رہ کے سلمان رشدی کے ارتداد کے بارے میں تاریخی حکم پر نظر ثانی

 اردو مقالات مذھبی سیاسی

امام خمینی رہ کے سلمان رشدی کے ارتداد کے بارے میں تاریخی حکم پر نظر ثانی

امام خمینی رہ کے سلمان رشدی کے ارتداد کے بارے میں تاریخی حکم پر نظر ثانی

  ایک گستاخی کی روایت مکرر،

شیطانی آیات اسلام کے خلاف اعلان جنگ کا ایک نمونہ ہے ، جس میں تخیل کے گھوڑے دوڑا کر مسلمانوں کے عقاید میں شبہ اور شک و تردید پیدا کرنے کی کوشش کی گئی  تھی اور جس کو پوری دنیا کے مسلہمانوں کے شدید رد عمل کا سامنا کرنا پڑا تھا ۔ اس تحریر میں اس گستاخانہ توہین کے خلاف اعتراض آمیز رد عمل کی تصویر کشی کی گئی ہے ۔

اس قصے کا سر آغاز،

مورخہ ۲۶ ستمبر سال ۱۹۸۸ کو لندن میں وایکینگ نام کے ایک پریس نے جس کا تعلق پنگوئن نام کے مطبوعات کے مجموعے سے تھا ، ایک کتاب منتشر کی جس نام  satanic verses یا شیطانی آیات تھا ۔ رومانی ناول ٹائپ کی یہ کتاب ۵۴۷ صفحات پر مشتمل تھی ، اس  کی جلد کے درمیان میں اور جلد کی پشت پر رستم کی سفید دیو کے ساتھ جنگ کی تصویر چھاپی گئی تھی ۔ یہ ایک ایسا نقشہ تھا جو اہل مشرق اور خاص طور سے ایران والوں کے لیے جانا پہچانا تھا ۔ سر زمین مشرق کے ایک مشہور چہرے کی تصویر کہ جو اپنے پنجے سے سفید دیو کا گلا دبا رہا تھا اور اس نے اپنے مخفی کیے ہوئے خنجر سے اس دیو کا کام تمام کر دیا تھا اس کے بائیں پاوں کو کاٹ دیا تھا اور اس کے گرز کو توڑ دیا تھا ۔ یہ وہ تصویر تھی کہ جس کو کلیو کے ایلبم سے لیا گیا تھا کہ جو ویکٹوریا اور آلبرٹ کے میوزیم میں تھی ۔ ایسا منظر کہ جس میں گویا خیر و شر کی جنگ کی منظر کشی کی گئی تھی ، یہ وہ چیز ہے جو اپنے مفہوم کے اعتبار سے توہین کی شرارت سے آلودہ ہے جس کو معصوم کا بنا کر دکھایا گیا ہے گویا ایک خوبصورت ماسک کے ذریعے اس نے معصوم کی ذات مقدس کو آلودہ کرنے کی ناپاک کو شش کی تھی ۔

اعتراضات  کی امواج ،

بعض کی گواہی کے مطابق ، لندن میں چھپنے والا مجلہ العالم سب سے پہلا نشریہ تھا کہ جس نے اسی سال ۲۲ اکتوبر کو ، ایک مضمون میں شیطانی آیات کا جائزہ لیتے ہوئے اس کو ایک تباہی مچانے والا ناول قرار دیا کہ جس میں اسلام اور اس کے مقدسات کی توہین کی گئی تھی۔ اس کے مقابلے میں روزنامہ ٹایمز لندن نے ، اسی زمانے میں مغرب کے ٹریبون کا کام کرتے ہوئے اس کتاب کو ایک انتہائی خوبصورت نمایشی بورڈ کی طرح کا  ادبی شاہکار بتایا، اور امریکہ جیسے ملکوں نے اس کو اور اس کی بیوی کو دعوت دے کر اس کتاب کی پبلسیٹی کے پروگرام رکھے اور اس کے ترجمے یورپی اور ایشیائی ملکوں جیسے پاکستان اور بنگلہ دیش میں منتشر کیے گئے ۔

سب سے پہلے رد عمل کے طور پر پانچ اکتوبر ۱۹۸۸ کو راجیو گاندھی کی حکومت نے اس کتاب پر پابندی عاید کر دی ۔ ھندوستان کی حکومت نے اس کی دلیل یہ بتائی کہ اس کتاب کے مضامین خطر ناک اور مذہب کے خلاف اعلان جنگ جیسے ہیں ۔ اس کے بعد پاکستان نے بھی اس کتاب کی بکری پر پابندی لگا دی ۔ اس کے فورا بعد بنگلہ دیش ، سوڈان ، اور جنوبی افریقہ نے اور اس کے بعد سری لنکا نے بھی اس کتاب کو ممنوع قرار دے دیا ۔ سال ۱۹۸۹ کے اوایل میں اس کتاب کو برطانیہ اور پاکستان میں مسلمانوں کی آتش غیض و غضب کے چلتے کئی بار نذر آتش کیا گیا اور اس کے اوراق راکھ کے ڈھیر میں تبدیل ہوکر رہ گئے ۔ کتاب سوزی کے یہ مناظر پوری دنیا میں مختلف پہچان رکھنے والے مسلمانوں کے غیظ و غضب کا نمونہ تھے جو اس توہین کے مقابلے میں متحد ہو کر سامنے آ گئے تھے اور ایک جنگی اقدام کے مقابلے میں رد عمل دکھا رہے تھے ۔

نمونے کے طور پر14جنوری 1989 کے دن برطانیہ کے شہر براڈ فورڈ کے مسلمانوں نے مظاہروں کے دوران شیطانی آیات کے نسخوں کو جلانے کا اقدام کیا ۔ اسی سال ۱۲ فروری ۱۹۸۹ کو پاکستان کے مسلمانوں نے بھی اسلام آباد میں مظاہرے کیے اور امریکہ ،برطانیہ اور شیطانی آیات کے مصنف کے خلاف نعرے لگاتے ہوئے امریکہ کے ثقافتی مرکز کی جانب بڑھنے لگے ۔ ان مظاہروں پر امریکہ کے ثقافتی مرکز کی عمارت کے اندر سے مسلح افراد نے گولیوں کی بوچھاڑ کر دی ، جس کے نتیجے میں چھ افراد جانبحق اور سو سے زیادہ زخمی ہو گئے ۔ ھندوستان میں مظاہروں کے دوران بیس افراد زخمی ہوئے ۔ مظاہرین کو کچلنے کے پولیس کے اس اقدام کے بعد پاکستان کی قومی پارلیمنٹ کے نمایندوں نے حکومت پر اعتراض اور لوگوں کے ساتھ اس کی جھڑپ پر اعتراض کے طور پارلیمنٹ کے اجلاس کو ترک کر دیا ۔

رشدی نے اپنی ایک کتاب میں اٹلی کے مسلمانوں کے ہاتھوں اس کی کتاب کے اٹلی کے مترجم کے موت کی سرحد تک زخمی ہونے اور جاپانی مسلمانوں کے حملے کے نتیجے میں اس کے جاپانی مترجم کے ہلاک ہو جانے  کی طرف اشارہ کرتے ہوئے ، جس دن اس کی کتاب کے ناروے کے نشر کو قتل کیا گیا تھا اس دن کے بارے میں یوں لکھا ہے ؛ جس روز میرے ناروے کے ناشر کو گولی ماری گئی وہ میری زندگی کا سب سے برا دن تھا ۔

لیکن اس طرح کے شدید رد عمل کے باوجود امریکہ اور برطانیہ کی حکومتوں نے اسلام کے خلاف لکھی گئی اس کتاب کے انتشار اور اس کی تقسیم اور پیغمبر اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی توہین کے سلسلے کو جاری رکھا ۔ حقیقت یہ ہے کہ انہوں نے اس کام کو جاری رکھتے ہوئے یہ پیغام دینے کی کوشش کی کہ وہ عمومی افکار اور خاص کر دنیا کے مسلمان سماج کے احساسات  کی کوئی پرواہ نہیں کرتے ، اور اسلامی اور مغربی پہچان کے اس سرحدی خط پر ہمیشہ کی دشمنی کا سلسلہ جاری رہے گا ۔ گویا صلیبی جنگوں کا جو کینہ ان کے حلقوم میں اٹکا ہوا تھا وہ کھل کر سامنے آ گیا تھا اور یہ کتاب مغرب کی حقارت کے زخموں پر مرہم کا کام کر رہی تھی ۔

اس کتاب کی بڑے پیمانے پر ذرائع ابلاغ کے شور شرابے اور ہزاروں مسلمانوں کا مونہہ چڑھانے کے انداز میں تقسیم باعث بنی کہ اس کے خلاف وسیع پیمانے پر اعتراضات شروع ہو گئے ۔ ایک طرف اس کے ناشروں کو دھمکیاں ملنے لگیں تو دوسری جانب اس رد عمل نے قانونی پہلو بھی اختیا ر کر لیا اور کتاب کے نشر و انتشار پر پابندیاں لگنے لگیں اور رشدی کی مذمت کے انبار لگ گئے ۔ اس کے ساتھ ہی اس کتاب پر تنقیدیں بھی منظر عام پر آئیں ۔ ان اقدامات کے مقابلے میں مغرب والوں نے بھی اپنے تبلیغات کے دائرے کو بڑھا دیا ۔ یہاں تک کہ اس کتاب کو ادبی جوائز و انعامات کے لیے پیش کیے جانے کے مقدمات فراہم ہونے لگے ۔

اس کتاب کو تقسیم کرنے کے لیے ایک بڑے چینل نے بہت سارے یورپی ، امریکی اور ایشیائی ملکوں میں اس کے ترجمے اور اس کی تقسیم کے لیے بڑی بڑی قرار دادیں منعقد کرنے کی کوششیں شروع کر دیں ۔ اور تبلیغات کے میدان میں اس کی حفاظت کے حلقے ایجاد کر کے اس کی کھل کر حمایت شروع کر دی ۔ ان اقدامات اور مسلمانوں کے لگاتار رد عمل کے نتیجے میں عمومی افکار اس کتاب کی جانب متوجہ ہوئے ۔ امام خمینی رہ نے ۲۴ فروری ۱۹۸۹ مطابق ۲۵ بھمن ۱۳۶۷ ہجری شمسی کو ایک بے مثال اقدام کے تحت سلمان رشدی کے ارتداد اور اس کے قتل کیے جانے کے جواز کا فتوی صادر کر دیا اور اس کے قتل کے لیے انعام کا بھی اعلان کر دیا ۔

اعتراضات کی تائیید ،

امام خمینی رہ کے حکم نے سلمان رشدی کی مخالفت میں ایک نئی موج کو جنم دیا ۔ سلمان رشدی کے قتل پر مبنی امام کے فرمان کے بعد کچھ لوگ اس حکم کو عملی جامہ پہنانے کے لیے کمر بستہ ہو گئے ۔ جن میں سے ایک لبنانی جوان" مصطفی مازح" تھا کہ جو سب سے پہلے فرانس کے پاسپورٹ کے ذریعے جس ہوٹل میں رشدی ٹھہرا تھا اس میں داخل ہونے میں کامیاب ہو گیا ، لیکن واقعے کے دن جو بمب اس نے سلمان رشدی کے لیے رکھا تھا اس کے وقت سے پہلے پھٹ جانے کی وجہ سے وہ اپنے مقصد میں کامیاب نہیں ہو پایا اور شہید ہو گیا ۔

اسی طرح ایران کے مسلمان عوام نے برطانیہ کے سفارتخانے کے سامنے مظاہرے کیے اور حکومت نے بھی ھندوستان اور پاکستان کے شہیدوں کے ساتھ ہمدردی کا اظہار کرتے ہوئے عام عزا کا اعلان کیا ۔ اس کے علاوہ دینی مدارس بھی چھٹیوں کا اعلان کر کے مخالفت کی امواج کے ساتھ مل گئے ۔اسلامی کانفرنس تنظیم کے ۴۵ ملکوں کے وزرائے خارجہ نے بھی15مارچ 1989 کو اپنی اختتامی قرار داد میں سلمان رشدی کی کتاب کو ایک کفر آمیز کتاب قرار دیا اور سختی کے ساتھ اس کی مذمت کی ۔ اس قرار داد نے امام خمینی رہ کی پیروی میں سلمان رشدی کو مرتد قرار دیتے ہوئے ناشرین کے مراکز سے مطالبہ کیا کہ جتنی جلدی ہو سکے اس کتاب کو بازار سے سمیٹ لیں اور اسلامی ممالک ان تمام مراکز کے ساتھ کہ جو اس درخواست کا احترام نہ کریں بائیکاٹ کریں ۔ غیر وابستہ تحریک کے ملکوں کی اطلاع رسانی اور ثقافتی امور کی وزارتوں کے وزراء نے بھی ایک اجلاس کے دوران تہذیب و ثقافت اور معنوی قدروں کی ہر طرح کی توہین اور حرمت شکنی کی مذمت کی اور اس کو دنیا میں روح تفاہم و دوستی کے خلاف عمل قرار دیا ۔

اسی طرح امام خمینی رہ کے فتوے نے رشدی سے امن و چین کو چھین لیا ۔ کتاب کے کچھ مترجمین کا قتل اور رشدی کا برطانوی محافظین کی حمایت میں بھاگنا امام خمینی رہ کے فتوے کا نتیجہ تھا ۔ مسلمانوں اور ادیان الہی کی حرمت کا دفاع کرنے والوں کے مظاہرے مہینوں سے یورپ ، امریکہ اور ایشیا کے مختلف علاقوں میں بدستور جاری رہے اور ان میں سے کچھ اجتماعات کے دوران کچھ لوگ جان گنوا دیتے تھے یا زخمی ہو جاتے تھے ۔

اس کے مقابلے میں مغرب کی طرف سے کتاب کی اشاعت کا سلسلہ جاری رہا ، چنانچہ انتشارات کے فرانس کے  ایک مرکز کریسٹین بورژوا نےجولائی1989 میں مسلمانوں کے اعتراضات کے باوجود ایک بار پھر اس کتاب کا ترجمہ کر کے اسے منتشر کیا ۔ امریکہ میں بھی رشدی کی موجودگی میں وسیع تبلیغات نے مخالفتوں کے دائرے میں اضافہ کر دیا ۔ یہاں تک کہ ایک مشہور گلوکار پاپ کٹ اسٹیونس کہ جو مسلمان ہو گیا تھا اس نے امام خمینی رہ کے فتوے کی حمایت کر کے اعتراضات کے مجموعے پر بہت مثبت اثر ڈالا ، اور کتاب کی فروخت کو محدود کرنے کے  میدان میں اچھے نتائج حاصل کیے ۔ اس طرح کہ دنیا کی کچھ بڑی اور معتبر دوکانوں نے  حملوں کے خوف سے یا مسلمانوں کے عام افکار کے احترام میں ، شیطانی آیات نام کی کتاب  کو اکٹھا کیا اور اس کو فروخت کرنے سے اجتناب کیا۔اسپین میں بھی مخالفوں کی موج کے خوف سے  کتاب کی طباعت کو روک دیا گیا ۔

دنیا کے بہت سارے ملکوں میں آیات شیطانی کی تقسیم کے مراکز پر لوگوں نے حملے کیے اور بعض ناشروں پر خدا کا حکم جاری ہوا اور انہیں سزا ملی ۔ مثال کے طور پر اٹلی میں جب مونڈاوری نام کے پریس نے اس کتاب کا ترجمہ کر کے اسے منتشر کیا تو مسلمانوں کے غصے کی آگ بڑھک اٹھی اور شہر پادوا میں جتنی کتابوں کی دوکانیں تھیں ان کو انہوں نے نذر آتش کر دیا ۔ مسلمانوں کے اسی غصے کا ڈر تھا کہ جس کی بنا پر جنوا کی نمائشگاہ کتاب نے اس کتاب کی نمائش سے اجتناب کیا ۔ اسی طرح رفتہ رفتہ ،کینیا ، تھائی لینڈ، تنزانیہ ،انڈونیشیا ، سنگاپور اور آخر کار  وینزوئیلا میں اس کتاب پر پابندی لگ گئی ۔

شیطانی آیات کا ترجمہ کرنا اور اسے منتشر کرنا گویا اس زخم پر نمک چھڑکنے کے مترادف تھا جو اس کی پہلی بار طباعت  سے لوگوں کے دلوں پر لگا تھا ۔وہ زخم کہ جو اگر چہ سخت اور دردناک تھا لیکن اس کی وجہ سے مسلمانوں میں اتحاد پیدا ہو گیا اور مخالفتوں نے مسلمانوں کی خفتہ پہچان کو بیدار کر دیا ۔

بعد کے برسوں میں اعتراضات کی موج میں اور سختی آ گئی اور سال ۱۹۹۱ میں شیطانی آیات کا جاپانی مترجم ، ھیتوشی ایگاریشی چاقو کی ضربتوں سے مارا گیا ۔اس کے اٹلی کے مترجم پر بھی میلان میں حملہ کیا گیا ۔ ان امواج کے سلسلے کے جاری رہنے نے ۱۹۹۳ میں اس کتاب کے ناروے کے مترجم کو نگل لیا اور ایک مسلح حملے میں وہ مارا گیا ۔ رشدی نے اپنی ایک کتاب میں اٹلی کے مسلمانوں کے ہاتھوں اس کی کتاب کے اٹلی کے مترجم کے موت کی سرحد تک زخمی ہونے اور جاپانی مسلمانوں کے حملے کے نتیجے میں اس کے جاپانی مترجم کے ہلاک ہو جانے  کی طرف اشارہ کرتے ہوئے ، جس دن اس کی کتاب کے ناروے کے ناشر کو قتل کیا گیا تھا اس دن کے بارے میں یوں لکھا ہے ؛ جس روز میرے ناروے کے ناشر کو گولی ماری گئی وہ میری زندگی کا سب سے برا دن تھا ۔

اسی سال کتاب کے ترکی مترجم عزیز نسین پر شہر سیواس کے اہک ہوٹل میں حملہ کیا گیا ۔ اگر چہ نسین ہوٹل سے بھاگنے میں کامیاب ہو گیا لیکن ہوٹل میں آگ بھڑکنے کے نتیجے میں ۳۳ افراد کی جانیں چلی گئیں ، یہ واقعہ کشتار سیواس کے نام سے مشہور ہوا ۔

اسی طرح بعض انٹرنیٹ کے ذرائع نے اس کتاب کے فارسی ترجمے کے ناشر کے دفتر ، نشر نیما کو آگ لگائے جانے اور سلیمانیہ میں چھپنے والے مجلہء خلق کے چیف ایڈیٹر پر مسلح حملہ کیے جانے کی خبر بھی لکھی ہے کہ جس نے سال ۲۰۱۰ میں اس کتاب  کا کردی ترجمہ منتشر کیا تھا ۔

کلام کا نتیجہ ،

 شیطانی آیات کا ترجمہ کرنا اور اسے منتشر کرنا گویا اس زخم پر نمک چھڑکنے کے مترادف تھا جو اس کی پہلی بار کی طباعت  سے لوگوں کے دلوں پر لگا تھا ۔وہ زخم کہ جو اگر چہ سخت اور دردناک تھا لیکن اس کی وجہ سے مسلمانوں میں اتحاد پیدا ہو گیا اور مخالفتوں نے مسلمانوں کی خفتہ پہچان کو بیدار کر دیا ۔مغرب نے اسلامی مقدسات کی توہین کے اس مجموعے  کی حمایت کی جس کی وجہ سے ایک طرف تمییز کی لکیر کھچ گئی اور دوسری طرف مسلمانوں کی شناخت ابھر کر سامنے آئی ، یہ وہ اقدام تھا کہ جو اسلام کو طاق نسیاں کے سپرد کرنے کے لیے تھا لیکن اس کا نتیجہ الٹا نکلا اور یہ اسلام کے پہلے سے زیادہ مشہور اور درخشاں ہونے کا باعث بن گیا ۔ 

تبصرے (۰)
ابھی کوئی تبصرہ درج نہیں ہوا ہے

اپنا تبصرہ ارسال کریں

ارسال نظر آزاد است، اما اگر قبلا در بیان ثبت نام کرده اید می توانید ابتدا وارد شوید.
شما میتوانید از این تگهای html استفاده کنید:
<b> یا <strong>، <em> یا <i>، <u>، <strike> یا <s>، <sup>، <sub>، <blockquote>، <code>، <pre>، <hr>، <br>، <p>، <a href="" title="">، <span style="">، <div align="">
تجدید کد امنیتی