سایت شخصی ابوفاطمہ موسوی عبدالحسینی

جستجو

ممتاز عناوین

بایگانی

پربازديدها

تازہ ترین تبصرے

۰

ایران کے خلاف امریکی پروپگنڈے کی آگ پر میری لینڈ یونیورسٹی نے ڈالا ٹھنڈا پانی

 اردو مقالات انقلاب اسلامی ایران سیاسی ایران

ایران کے خلاف امریکی پروپگنڈے کی آگ پر میری لینڈ یونیورسٹی نے ڈالا ٹھنڈا پانی

 ایران کے خلاف امریکی پروپگنڈے کی آگ پر میری لینڈ یونیورسٹی نے ڈالا ٹھنڈا پانی

نیوزنور:ایک ایگزیٹ پول کے نتائج کہ جو  میری لینڈیونیورسٹی نے ایران کے حالیہ فتنوں کے بارےمیں منتشر کیے ہیں  اس  فضاسازی کے پیکر پر ٹھنڈا پانی پھیر دیا ہے جو مغربی ملکوں اور امریکہ نے ایران کے حالیہ فنتوں کے بارے میں تیار کی تھی ۔

عالمی اردو خبررساں ادارے نیوزنورکی رپورٹ کے مطابق ایک ایگزیٹ پول کے نتائج کہ جو  میری لینڈیورسٹی نے ایران کے حالیہ فتنوں کے بارےمیں منتشر کیے ہیں  اس  فضاسازی کے پیکر پر ٹھنڈا پانی پھیر دیا ہے جو مغربی ملکوں اور امریکہ نے ایران کے حالیہ فنتوں کے بارے میں تیار کی تھی ۔

"ہم خاموش نہیں رہیں گے ،فریب کاری پر مبنی اس خاطر انجام پانے والی کوششیں کہ اعتراض کرنے والوں کو بیرونی طاقتوں کی کٹھ پتلی قرار دیا جائے حقیقت کو بدل نہیں سکتیں ۔ ایران کے لوگ حقیقت کو جانتے ہیں اور ہم بھی حقیقت سے آگاہ ہیں ۔"

یہ وہ جملے ہیں جو نیکی ھیلی نے اقوام متحدہ میں امریکہ کے نمایندے نے سلامتی کونسل کے اجلاس سے پہلے06جنوری2018 کو ایران کے کچھ شہروں میں جو اکا دکا اعتراضات ہوئے تھے ان کا تجزیہ کرتے ہوئے کہے تھے ۔

سلامتی کونسل نے ایسی حالت میں اس روز بالکل انوکھے انداز میں امریکہ کی درخواست پر اپنی ذمہ داری کے دائرے سے باہر قدم رکھتے ہوئے ایک ملک کے اندرونی مسئلے کے بارے میں جانچ پڑتال کرنے کی خاطر اجلاس منعقد کیا کہ جب وہ امریکہ کی شیطانی چالوں اور خراب کاریوں کا کہ جو اس کی اصلی ذمہ داری کے دائرے میں آتی ہیں جیسے ایک لمبے عرصے تک فلسطین پر قبضہ کر کے رکھنا اور سعودی عرب کے فوجی اتحاد کی طرف سے یمن پر اندھا دھند بمباری کرنے جیسے مسائل کے بارے میں جانچ پڑتال کرنے میں ناکام ہو چکی تھی ۔

امریکہ اور سلامتی کونسل کی یہ کوشش اس اعتبار سے بھی انوکھی شمار ہوتی ہے کہ اس کے کسی بھی رکن ملک نے امریکہ ،برطانیہ ، فرانس اور جرمنی کی پولیس کی طرف سے پر امن اعتراضات کو شدت کے ساتھ کچلے جانے کے باوجود اس طرح کا اجلاس منعقد کرنے کی درخواست نہیں کی ۔

امریکہ میں لاس اینجلیس میں سال ۱۹۹۲ میں ایک سیاہ پوست امریکی باشندے راڈنی کینگ کو وحشیانہ طور پر خونی جھڑپوں کے بعد پیٹا گیا مگر سلامتی کونسل نے اجلاس نہیں بلایا ، ویکو کے واقعے میں ایف بی آئی نے دسیوں مردوں اور عورتوں کا قتل عام کیا ، مگر سلامتی کونسل نے اجلاس منعقد نہیں کیا ، سال ۲۰۱۱ میں وال اسٹریٹ پر قبضہ کرنے والی تحریک کے اعتراضیوں کو پولیس نے بری طرح کچل ڈالا مگر سلامتی کونسل کا اجلاس نہیں ہوا ، نہتے سیاہ پوست شہریوں کا قتل عام کیا گیا اور اس کے بعد بڑے پیمانے پر مظاہرے ہوئے اور اسی نوعیت کے دسیوں واقعات رونما ہوئے مگر کبھی سلامتی کونسل کا اجلاس نہیں ہوا ۔

جب کوئی مسئلہ ایران سے مربوط ہوتاہے تو فرق صرف اتنا نہیں رہ جاتا کہ اس کو بڑا کر کے دکھایا جاتا ہے اور سلامتی کونسل کا اجلاس بلایا جاتا ہے ۔ بلکہ مغرب والے اپنی خواہشوں کو عملی جامہ پہنانے کے لیے ایران میں اٹھنے والے ہر اعتراض  یا مطالبے کو عمومی مسئلہ قرار دے کر  یہ کہتے ہیں کہ یہ جمہوری اسلامی کے نظام کی مخالفت ہے یا حکومت کی بنیادی ترین سیاست کی مخالفت ہے ۔

مغربی ممالک کے ماہرین ، ذرائع ابلاغ اور حکام کی باتوں اور تحلیلوں  میں اس طرح کی باتیں بہت زیادہ دیکھنے کو ملتی ہیں کہ جمہوری اسلامی کو مجبورا دو میں سے  ایک چیز کا انتخاب کرنا پڑے گا یا اسے اپنی سر نگونی قبول کرنا پڑے گی یا اپنی کلی سیاستوں سے دست بردار ہونا پڑے گا ۔

مثال کے طور پر امریکہ کے صدر ڈونالڈ ٹرامپ نے کہ جو ان چند دنوں میں اپنی صبح کا آغاز ایران کے بارے میں ٹویٹ سے کرتا تھا پہلی جنوری کو لکھا :" ایران اس وحشتناک سمجھوتے کے باوجود کہ جو اوباما کی حکومت نے اس کے ساتھ کیا تھا ہر سطح پر بکھر رہا ہے "۔

اس نے پہلے ملت ایران کو دہشت گرد کہا تھا اور انہیں مخاطب قرار دیتے ہوئے کہا تھا کہ وہ امریکہ کی سر زمین پر قدم نہ رکھیں اس بار کہا :" ایران کی عظیم عوام کو کئی سال سے کچلا جا رہا ہے وہ غذا کے بھوکے اور آزادی کے پیاسے ہیں ۔ انسانی حقوق کے علاوہ ایران کے لوگوں کی ثروت کو غارت کیا جارہا ہے ۔ اب تبدیلی آنے کا وقت آ گیا ہے "۔

اس روایت کے دوسری جانب جمہوری اسلامی کے حکام کہتے ہیں کہ :"فتنوں کا آغاز معیشت کے اوپر اعتراضات سے ہوا تھالیکن رفتہ رفتہ دشمن اور مشکوک گروہوں کے نفوذ سے ان میں سیاسی رنگ آ گیا اور ان اعتراضات نے بنیادی ڈھانچے کو توڑنے کی شکل اختیا ر کر لی ۔ لیکن لوگوں کو جیسے ان گروہوں کے بارے میں پتہ چلا تو انہوں نے اپنی صفوں کو ان سے الگ کر لیا "۔

ایران کے حکام نے اس کے باوجود لوگوں کے اعتراضات کے حق اور مطالبات کے بیان اور حکام کی طرف سے ان پر توجہ کی ضرورت پر تاکید کی ۔

اب رہ گیا یہ مسئلہ کہ ان میں سے کونسی روایت حقائق کے ساتھ زیادہ سنخیت رکھتی ہے ، یہ جاننے کے لیے اس مشترکہ ایگزیٹ پول کے نتائج پر توجہ مرکوز کرنا پڑے گی کہ جن کو میری لینڈیونیورسٹی اور ایگزیٹ پول کے مرکز ایران پول نے  جمعہ کے دن منتشر کیا ہے، اور یہ توجہ اہمیت کی حامل ہے ۔

اس ایگزیٹ پول سے پتہ چلتا ہے کہ ایران کے لوگوں کی اکثریت قاطع  نے اقتصادی اور معیشتی مطالبات کے باوجود ایران کے نظام کی کلی سیاستوں کے ساتھ موافقت کی ہے اور وہ سیاسی نظام کو بدلنے کے حق میں نہیں ہیں ۔

روزنامہ واشنگٹن پوسٹ نے اس تحقیق کے نتیجے کے بارے میں ایک خلاصہ وار  وضاحت میں لکھا ہے : یہ ایگزیٹ پول کہ جس کو جمعہ کے دن مریلنڈ یونیورسٹی کے مطالعات کے مرکز  اور ایران پول نے انجام دیا تھا یہ بتاتا ہے کہ ایران کے بہت کم لوگ ایران کے سیاسی نظام کی تبدیلی یا اسلامی قوانین میں رعایت برتنے کے حق میں ہیں ، ساتھ ہی نتائج سے یہ بھی پتہ چلتا ہے کہ ایران کی شام اور عراق میں جو خارجی سیاست ہے تمام ایرانی اس کی حمایت کرتے ہیں ۔

اس کے علاوہ اس ایگزیٹ پول سے یہ بھی معلوم ہوتا ہے کہ ایران کے ۸۵ فیصد لوگ امریکہ کے بارے میں بہت ناپسندیدہ رائے رکھتے ہیں جب کہ صرف ایک فیصد لوگ امریکہ کے بارے میں اچھی رائے رکھتے ہیں ۔

اس پیمائش کے نتیجوں سے ٹرامپ اور اس کے اتحادیوں کی تمام تبلیغاتی فضا سازیوں کے باوجود یہ معلوم ہوتا ہے کہ ایران کے سیاسی نظام میں بنیادی تبدیلی کے حق میں صرف ۴۔۹ فیصد لوگ ہیں ، صرف ۸۔۸ فیصد لوگ ایران کی فوجی تنظیموں پر جو خرچ ہورہا ہے اس میں کٹوتی کے حق میں ہیں ۔ ۱۱۔۳ فیصد لوگوں کی اقلیت کا یہ کہنا ہے کہ حکومت ان کی زندگی میں مداخلت کرتی ہے ۔ ۱۷۔۲ فیصد شام اور عراق میں ایران کی موجودگی کو قومی مفادات کے حق میں نہیں سمجھتے ، اور ۱۲۔۵ فیصد یہ چاہتے ہیں کہ ایران شام اور عراق میں اپنے اخراجات میں کمی کرے ۔

ان نتائج سے البتہ یہ بھی معلوم ہوتا ہے کہ ایران کے عام لوگوں کے مطالبات فساد کے خلاف جہاد کے سلسلے میں ۸۵۔۲ فیصد ، موادغذائی پر اخراجات میں کٹوتی کے سلسلے میں ۸۱۔۳ فیصد ،ایندھن پر اخراجات میں کٹوتی کے بارے میں ۷۳۔۲ فیصد ، اور گھریلو امداد کی نقدی رقم ختم نہ کرنے کے بارے میں ۶۹۔ ۲ فیصد لوگوں کی طرف سے  ہیں ۔

اب یہ کہنے کی ضرورت نہیں ہے کہ ایران کے بارے میں حقائق اور نیکی ھیلی کے دعوے میں کتنا فرق ہے ۔

اگر ھیلی اور اس کے ساتھیوں کی یہ غلط معلومات ان کے علم میں کمزوری کی وجہ سے ہیں تو یہ امید کی جا سکتی ہے کہ یہ ایگزیٹ پول اور اس جیسی تحقیقات ان کے ایران کے سماج کے نزدیک ہونے میں مدد گار ہو سکتے ہیں ۔

لیکن اگر انہوں نے جان بوجھ کر حقائق سے چشم پوشی کر رکھی ہے تو نہ یہ شواہد اور نہ کوئی دوسرے عینی گواہ ان کے لیے کارساز نہیں ہو سکتے ایران اور امریکہ کے روابط کی تاریخ دوسرے احتمال سے زیادہ میل کھاتی ہے ۔  

تبصرے (۰)
ابھی کوئی تبصرہ درج نہیں ہوا ہے

اپنا تبصرہ ارسال کریں

ارسال نظر آزاد است، اما اگر قبلا در بیان ثبت نام کرده اید می توانید ابتدا وارد شوید.
شما میتوانید از این تگهای html استفاده کنید:
<b> یا <strong>، <em> یا <i>، <u>، <strike> یا <s>، <sup>، <sub>، <blockquote>، <code>، <pre>، <hr>، <br>، <p>، <a href="" title="">، <span style="">، <div align="">
تجدید کد امنیتی