سایت شخصی ابوفاطمہ موسوی عبدالحسینی

جستجو

ممتاز عناوین

بایگانی

پربازديدها

تازہ ترین تبصرے

۰

خلیج فارس ممالک کے درمیان بحران کی آگ بھڑکانے میں صہیونی حکومت سرگرم عمل

 اردو مقالات سیاسی امریکہ/اسرائیل

خلیج فارس ممالک کے درمیان بحران کی آگ بھڑکانے میں صہیونی حکومت سرگرم عمل

لبنانی عربی نیوزپورٹل"العہد"کی تشریح  ؛

خلیج فارس ممالک کے درمیان بحران کی آگ بھڑکانے میں صہیونی حکومت سرگرم عمل

نیوزنور:العہد نیوزسینٹر نے لکھا : امریکہ خلیج فارس کے علاقے کے بحران سے فائدہ اٹھاتے ہوئے صہیونی لابی کو بحران کے خط پر لا کھڑا کیا ہے تا کہ علاقے میں اسرائیل کی موجودگی کو تقویت پہنچائے ۔

عالمی اردو خبررساں ادارے نیوزنور کی رپورٹ کے مطابق قطر اور اس پر پابندیاں لگانے والے ملکوں کے مابین ذرائع ابلاغ کی جنگ خلیج فارس کے بحران کے ساتھ کہ جو اپنے دسویں مہینے میں داخل ہونے والاہے بدستور چل رہی ہے ۔

العہد نیوز سینٹر نے یہ بات بیان کرتے ہوئے لکھا ہے کہ : اس مجموعے کا آخری حصہ وہی ہے کہ جس کو سعودی عرب کی رہبری میں چار ملکوں کے گٹھ بندھن کے ذرائع ابلاغ نے صادر کیا ہے ، اور جس میں قطر پر الزام لگایا ہے کہ وہ صہیونی حکومت کے ساتھ روابط کو معمول پر لانے اور اسرائیل کے ساتھ حالات کو استوار کرنے کے ذریعے سے اپنے اوپر سے دباو کو کم کرنے کے در پے ہے ، اس طرح کہ وہ امریکہ کو مجبور کر سکے کہ وہ ان چار ملکوں پر دباو ڈالے کہ جون ۲۰۱۷ میں جو  انہوں نے دوحہ پر  پابندیاں لگائی تھیں ان کو ختم کریں۔

العہد نے لکھا : ان دو رقیب گروہوں کے مابین ایک دوسرے پر لگائے گئے الزامات مضحکہ خیز لگتے ہیں ، مثال کے طور پر سعودی عرب والے قطریوں پر دہشت گردی کی حمایت کا الزام لگاتے ہیں ، اور قطر والے بھی سعودی عرب اور امارات پر صہیونی حکومت کے ساتھ روابط کو معمول پر لانے کی کوشش کرنے کا الزام عایدکیا ہے ۔

تل ابیب کے ساتھ دونوں فریقوں کے روابط کی توسیع کے سلسلے کے تحرکات پر نظر رکھنے والے اچھی طرح جانتے ہیں کہ ان میں سے کوئی اس پوزیشن میں نہیں ہے کہ ایک دوسرے پر روابط کو معمول پر لانے کا الزام لگائے چونکہ اس حمام میں ریاض ،دوحہ ، متحدہ عرب امارات اور بحرین سبھی ننگے ہیں ۔

جب نیتن یاہو اپنی قابینہ میں عرب ملکوں کے ساتھ پہلے سے کہیں زیادہ روابط کے بہتر ہونے کی بات کرتا ہے تو اس کی مراد سعودی عرب ، متحدہ عرب امارات ، قطر ، اور بحرین ہیں ۔ قابل ذکر ہے کہ خلیج فارس کے بحران کے فریق صہیونی حکومت اور یہودی گروہوں کو یونائٹیڈ  اسٹیٹ میں ایک وسیلے کے طور پر دیکھتے ہیں کہ جس کے ذریعے انہیں امریکی حکومت کی حمایت حاصل ہوتی ہے ۔

خلیج فارس میں ایک دوسرے کے رقیب عرب ملک اچھی طرح جانتے ہیں کہ عمومی روابط اور کانگریس اور ذرائع ابلاغ میں امریکی لابیوں کا استعمال امریکہ کی حمایت حاصل کرنے کے لیے کافی نہیں ہے ، بلکہ صہیونی لابی کہ جو امریکہ میں اسرائیل کا دایاں بازو ہے وہ امریکہ کی حکومت کے فیصلوں میں ایک قویترین کھلاڑی ہے ۔

روز نامہ ھا آرتص نے گذشتہ ماہ یہودی اور صہیونی ایجینسیوں کے رہبروں کے دوحہ کے سفر کی ایک رپورٹ منتشر کی ہے کہ جن میں سے ایک امریکہ کی صہیونی تنظیم کا سر براہ مورٹین کلین ہے کہ جس نے گذشتہ جنوری کے اوائل میں دوحہ کا سفر کیا تھا اور وہاں کے امیروں سے ملاقات کی تھی ۔ اس نے ھا آرتص سے بات چیت کرتے ہوئے کہا تھا کہ اس نے ستمبر ، اکتوبر ، نومبر اور دسمبر میں  دورہ کرنے کے لیے قطر کی دعوتوں کو رد کیا تھا ۔

کلاین کے سفر سے پہلےامریکی ۔صہیونی شخصیتوں کے ایک بڑے گروہ نے گذشتہ مہینوں کے دوران دوحہ کا دورہ کیا تھا ، کہ جن میں سے کچھ یہ ہیں ، مایک ھوکابی ، الان دیر شویتز ، مالکولم ھوینلن ، جو بڑی یہودی ۔ امریکی تنظیموں کی کانفرنس کے اجرائی رئوساء ہیں اور خا خام مناحیم جیناک ، جو آرتھوڈیکس یہودیوں کی اتحادیہ کا سربراہ ہے اور مارٹین اولینر جو امریکہ میں مذہبی صہیونیوں کی تنظیم کا سربراہ ہے ۔   

ان دوروں کےعلاوہ دوحہ نے بھی  اپنے خاص ایلچی کو گذشتہ گرمیوں میں واشنگٹن روانہ کیا تا کہ وہ امریکی حکام اور دائیں بازو کے صہیونیوں کے قریبی افراد سے ملاقات کرے ۔

گذشتہ بیس دسمبر کو مرکری نام کی ایک کمپنی نے جو واشنگٹن میں قطر کی لابی سازی کا  گروہ ہے امریکہ کی وزارت عدلیہ کو ایک رپورٹ پیش کی جو ایک بیٹھک کے بارے میں تھی کہ جو ۱۲ جولائی ۲۰۱۷ عیسوی  کو دہشت گردی کے خلاف جہاد کے امور میں قطر کے وزیر خارجہ کے خصوصی ایلچی ، مطلق قحطانی اور چار امریکی ریسرچ اسکالرز کے درمیان جو امریکہ میں صہیونی لابی کے ساتھ رابطے کے عنوان سے مشہور تھے کہ جن میں سب سے زیادہ نامور ، مشرق نزدیک کی سیاست کے لیے واشنگٹن کے ادارے کا مشہور محقق میٹیو لفٹ ہے ، ہوئی تھی۔

بیٹھک کے آغاز میں قحطانی نے جمہوریتوں کے دفاع کے ادارے کی کانفرنس کی طرف اشارہ کیا  کہ جس نے قطر پر دہشت گردی کی حمایت کرنے کا الزام لگا کر اس پر تنقید کی ، یہ بیٹھک اسی روز منعقد ہوئی تھی کہ جس روز خلیج فارس کا بحران شروع ہوا ، اس نے تاکید کی کہ امارات اور سعودی عرب نے جمہوریتوں کا دفاع کرنے والے ادارے کو قطر پر حملہ کرنے کے لیے اجیر کیا ہے اور یہ ادارہ اسرائیل کی لیکوڈ پارٹی کے ساتھ رابطہ رکھنے کے لیے مشہور ہے ۔

جو کچھ قحطانی اور امریکی محققین کے ساتھ بیٹھک میں ہوا وہ اس زمانے میں ذرائع ابلاغ میں منتشر نہیں ہوا اور یہ چیز اس وقت سمجھ میں آ سکتی ہے کہ جب وہ سمجھ میں آ جائے کہ جس کی طرف قطری ڈیپلومیٹ نے اس بیٹھک میں اشارہ کیا تھا ۔

اس جلسے میں امریکہ کے خزانہ داری کے سابق وزیر کے نائب ڈینیل گلیزر نے کہ جس کا تعلق دہشت گردی کو مال فراہم کرنے کے خلاف جنگ کے امور سے ہے نے قحطانی سے پو چھا کہ قطر نے اسرائیل سے کہا ہے کہ وہ غزہ کی پٹی میں کام کرنے کے بدلے میں دوحہ کے تشکر کے طور پر بیان صادر کرے ، تو قطر کے اس ڈیپلومیٹ نے جواب دیا کہ اگر ہم ان سے یہ مطالبہ نہ کرتے تو بعد میں ہمیں انہیں ایسا کہنا پڑتا ۔

اس نے مزید کہا : اسرائیل سے  تعریف وصول کرنا ہمارے لیے شرم آور نہیں ہے ، بلکہ جب تک ہم اچھے کام کرتے ہیں ، اس کا استقبال کرتے ہیں ۔

القحطانی نے اسی طرح اخوان المسلمین کے ساتھ رابطے کے بارے میں سوالوں کے جواب دیے اور کہا : جب تک اقوام متحدہ اخوان کو دہشت گرد مانتی ہے دوحہ بھی ان کو دہشت گرد مانتا رہے گا ۔

قطر کے اس ڈیپلومیٹ نے ان کے ملک کی طرف سے ایران کے ساتھ روابط بڑھانے کو رد کیا اور کہا : اگر دبئی نہ ہوتا تو ایران واشنگٹن اور بین الاقوامی پابندیوں سے عبور نہیں کر سکتا تھا ۔

القحطانی نے اس سمجھوتے کی تحریر کے بارے میں کہ جس پر جولائی کے آخر میں دوحہ اور امریکیوں نے دستخط کیے تھے نیز اس کی کچھ شقوں کے مخفیانہ ہونے کی طرف اشارہ کرتے ہوئے کہا: قطر کے حکام ایک خاص زمانے تک اس کے مضمون کو فاش نہیں کر سکتے لیکن کچھ حساس اطلاعات امریکی جاسوسی ایجینسیوں کو منتقل کی گئی ہیں ۔

اس کے مقابلے میں  کہ جو ملاقاتیں اور بیٹھکیں دوحہ نے پابندیاں لگانے والے چار ملکوں کے حملوں کی تخریب کے لیے منعقد کی تھیں  واشنگٹن میں کوششیں  کی گئیں  جو امریکہ اور قطر کی گفتگو  پر منتہی ہوئیں وہ گفتگو جو واشنگٹن میں دو ہفتے پہلے ہوئی تھی ۔

اس گفتگو کے ساتھ کہ جس میں قطر کے وزرائے دفاع اور خارجہ موجود تھے محمد بن عبد الرحمن آل ثانی نے بھی ایک سیمینار میں شرکت کی جس کو امریکہ کے پروجیکٹوں کے ادارے نے کہ جو صہیونیوں کے ساتھ قوی رابطہ رکھنے کے لحاظ سے مشہور ہے منعقد کیا تھا ۔

جب یہ گفتگو ہو رہی تھی اسی وقت امریکہ کی مرکزی فوج کے ہوائی وینگ نے کہ جس کا مرکز قطر میں ہے اپنے ٹویٹر کے صفحے پر خبر دی کہ پہلی بار قطر کی بادشاہی کا ایک بڑا ہوائی جہاز سی ۱۷ جو فوجی امداد سے بھرا ہوا تھا افغانستان بھیجا گیا ہے جس کا  مطلب ہے کہ قطر علاقے سے باہر امریکہ کی جنگ میں براہ راست شامل ہو چکا ہے ۔

ان تبدیلیوں سے پتہ چلتا ہے کہ امریکہ نے خلیج فارس کے  علاقے کے بحران  سے مختلف سطوح پر ناجائز فائدہ اٹھایا ہے اور بلا شبہ بحران کے خط میں صہیونی لابی کے شامل ہونے سے خلیج فارس کے علاقے میں غاصب اسرائیل کی موجودگی کو تقویت ملے گی خاص کر ایسے میں کہ جب اسرائیل اور سعودی عرب کے درمیان چوری چھپے گفتگو کی علامتیں دن بدن واضح تر ہو رہی ہیں اور حال ہی میں محمد بن سلمان سعودی عرب کے ولی عہد نے کوشش کی ہے کہ تل ابیب کی سعودی عرب کے جوہری پروگرام کے ساتھ موافقت کو حاصل کر سکے اس لیے کہ ریاض چاہتا ہے کہ اس سلسلے میں ایک قرار داد تک دستیابی کے بعد کہ جو احتمالا محمد بن سلمان کے آیندہ ماہ کے واشنگٹن کے سفر میں  منعقد  ہو گی۔ جس میں واشنگٹن سے مطالبہ ہو گا کہ سعودی عرب میں جوہری تنصیبات کی تعمیر کا کام شروع کرے ۔     

تبصرے (۰)
ابھی کوئی تبصرہ درج نہیں ہوا ہے

اپنا تبصرہ ارسال کریں

ارسال نظر آزاد است، اما اگر قبلا در بیان ثبت نام کرده اید می توانید ابتدا وارد شوید.
شما میتوانید از این تگهای html استفاده کنید:
<b> یا <strong>، <em> یا <i>، <u>، <strike> یا <s>، <sup>، <sub>، <blockquote>، <code>، <pre>، <hr>، <br>، <p>، <a href="" title="">، <span style="">، <div align="">
تجدید کد امنیتی