سایت شخصی ابوفاطمہ موسوی عبدالحسینی

جستجو

ممتاز عناوین

بایگانی

پربازديدها

تازہ ترین تبصرے

۰

مولانا شوکت احمد شاہ کی شہادت کو میرا سلام

 اردو مقالات کشمیر

مولانا شوکت احمد شاہ کی شہادت کو میرا سلام

بسمہ تعالی

مولانا شوکت احمد شاہ کی شہادت کو میرا سلام

از:عبدالحسین کشمیری

مولانا شوکت احمد شاہ صاحب کے شہادت کی خبرنہ صرف کشمیری عوام کیلئے نہایت ہی دکھ کی خبر تھی بلکہ عالم اسلام میں مولانا کو جاننے والوں کیلئے اس سے کئ زیادہ تکلیف دہ خبر رہی ہے۔میں نے  کئ بار عالمی ادارے تقریب مذاہب اسلامی کی خبر رساں ایجنسی تقریب نیوز کیلئے ان کا مصاحبہ لیا ہے اورامت اسلامی کے تئین مولانا کی دلسوزی نے نہ صرف مجھے بلکہ جس کسی نے بھی تقریب مذاہب اسلامی سے جڑے محققوں  نے پڑھا ،امت اسلامی میں عملی  اتحاد کی امید کی کرن کے طور سے یاد کیا گیا۔مولانا کہتے رہے ہیں کہ شیعہ ، سنی آپس میں بھائی ہیں  اگرچہ آپس میں مسلکی اختلاف ہے لیکن ہم سب کی بنیا د ایک ہے۔

میں نے  22 نومبر 2010 میں جمعیت اہل حدیث کے مرکزی دفتر پر مولانا سے تقریب مذاہب  کے حوالے سےپہلامصاحبہ کیا تھا جس نے مجھے کافی متاثر کیا اور میں نے مولانا شوکت صاحب کے اقتدا میں نماز جمعہ میں شرکت کی خواہش ظاہر کی اورمولانا شوکت صاحب نےاس بات کا استقبال کیا اور اسطرح 3 میں ڈسمبر کو مسجد جمعیت اہل حدیث میسومہ گیا اور جمعہ کی نمازوہاں ادا کی اور میں نے دیکھا کہ مولانا شوکت صاحب نے  نمازیوں کیا خوب تربیت کی ہے۔ شیعہ عالم کے لباس میں اس طالبعلم کو اہل حدیثی حضرات نے اپنے  شانہ بہ شانہ پا کر خوشی کا اظہار کیا اور ماننا ہے کہ امت اسلامی کو سب سے زیادہ اس قسم کی تحمل مزاجی کا  اہتمام کرنے کی ضرورت ہے ۔ اس بات کو بالعموم سجمھنا اور جان لینا ہےکہ  اسلام میں مسلکی اختلاف ایک علمی موضوع ہے اوراس میں اسلام کا حسن ہے جس کو بعض مفادپرست  لوگ اختلاف کے طور پر بیان کرتے ہیں اور ضرورت پر ایکدوسرے کے دست بہ گریبان کردیتے ہیں۔اسلامی مسالک کا وجود علمی رقابت کا نام ہے، اور میں سمجھتا ہوں کہ مولانا شوکت صاحب نے اس بات کو بخوبی درک کیا ہوا تھا  اور اسلوب کے بدولت  پوری دنیا میں جمعیت اہل حدیث کشمیر کو ایک  ممتاز مقام حاصل ہوا ہے۔

مولانا شوکت شاہ صاحب کے قریبی دوست بخوبی جانتے ہیں کہ شیعہ سنی اتحاد کے لئے کسقدر کوشاں تھے۔ انہوں نے کبھی بھی شیعہ سنی اتحاد کے نام پر  سیاست نہیں کی ہے بلکہ ایمان اور اعتقاد کے ساتھ اپنے اپنے مسلک پر رہ  کر دوستی اور پیار سے رہنے کے قائل تھے  ۔ جب ان سے اپنے ساتھیوں نے کہا کہ اگر بار آپ نے تشیع کے  دفاع میں کچھ کہا ہے کافی بار بار اس موضوع پر تاکید نہ کریں تو مولانا نے جمعیت اہل حدیث کی صدارت چھوڑنے کا اظہار کیا کہ اور جس بات کو صحیح سمجھیں اسے بیان کریں گے ، مصلحت پسندی سے کام نہیں لیں گے۔اور خود میرے سامنے کئ ایسے واقعات انہوں نے بیان کئے ہیں۔ اور میں اس بات کا قائل ہوں کہ پاکستان جیسی برادر کشی کی کیفیت اور شیعہ سنی اختلاف کی وبا کو کشمیر میں  پھیلنے سے روکنے میں مولانا شوکت احمد شاہ صاحب مرحوم نے  کلیدی رول ادا کیا ہے جس کے لئے انہیں ہمیشہ یاد کیا جائے گا۔

مولانا شوکت صاحب نے میرے سامنے فخر کے ساتھ بیان کیا کہ وہ  نصرت الاسلام کے طالبعلم رہے ہیں اور انکے باب دادا سبھی حنفی مسلک سے تعلق رکھتے تھے اور خود اہل حدیثی ہیں اور بارہ سالوں سے جمعیت اہل حدیث کی صدارت سنبھالے ہوئے ہیں۔اے کاش ہم سب اس بات کو سمجھ جاتے کہ مسلمان جس مسلک پر ایمان رکھتا ہے اس کے نسبت وفادار ہے اور دوسرے مسلک کے نسبت احترام کا قائل ہے۔ایک جعفری شیعہ تبھی شیعہ ہے جب وہ تمام مسالک سے بہتر جعفری  فقہ کو مکمل اور صحیح ہونے پر اعتقاد رکھتا ہے اور اس کے مقابلے میں دیگر مسالک کو  غیر صحیح ہونے کا اعتقاد رکھتا ہے ۔ یہی حال حنفی سنی کا ہے وہ تمام مسالک سے بہتر حنفی سنی فقہ کو مکمل اور صحیح ہونے پر اعتقاد رکھتا ہے اور اس کے مقابلے میں دیگر مسالک کو غیر صحیح ہونے کا اعتقاد رکھتا ہے۔اور شافعی ، مالکی ، حنبلی اور اہل حدیث کا بھی یہی حال ہے ۔اگر اختلاف کی نظروں سے دیکھیں یہ سب اختلاف سے بھرا ہوا ہے اور اگر اسے حسن کے طور پر دیکھا جائے سب حسین نظر آئے گا۔ اگر  ایک گھرانے کواخلاف کی نظروں سے  دیکھیں کہ باپ اپنی ملکیت کا کتنا حقدار ہے  اس میں اسکی بیوی کتنے کی وارث ہو سکتی ہے اور بیٹی کتنی ، بیٹا کتنا اور موضوع کو مو شگافی کرنے بیٹھیں تو گھر ، گھر نہیں کباڈخانہ نظر آئے گا۔

جہاں تک جمعیت اہل حدیث کے علمی کارواں کی بات ہے یہ کارواں نہایت ہی مقدس کارواں ہے اسلام کے تئین عظیم خدمت کرتے ہیں میں نے دس پندرہ سال پہلے جمعیت اہل حدیث کے تدریسی خدمات سے متعلق میں ایک کتاب  کا «خدمات تدریسی جمعیت اہل حدیث در ہند بنگلادیش و کشمیر»کے نام سےفارسی میں ترجمہ کیا تھا جس میں خود  اہل حدیث کی خدمات سے آشنا ہوا تھا۔ لیکن اس بیچ اہل حدیث کے نام سے مسالک اسلامی کو ایکدوسرے سے دور رکھنے کی شعوری  یا غیر شعوری سلسلہ شروع ہوا جس کا اثر خاص کر برصغیر میں بخوبی دیکھنے کو ملا لیکن مولانا شوکت احمد شاہ صاحب کا جمعیت اہل حدیث کا صدر منتخب ہونے کے بعد سے کشمیرمیں جمعیت اہل حدیث نے الگ مقام قائم کیا،جس میں دوطرفہ احترام کا پرچم بلند نظر آرہا ہے اور جمعیت اہل حدیث کشمیر دنیا بھر میں خدمات انجام دینے والے اپنے دوسرے جمعیت اہل حدیث  کے  اداروں کیلئے قابل تقلید ادارہ بن کر ابھر رہا تھا۔

میں نے تہران میں 19سے21 فروری 2011  کو منعقدہ  چوبیسویں بین الاقوامی وحدت کانفرنس کے لئے  »وحدت عملی مسلمانان کشمیر»کے عنوان سے ایک مستند مقالہ پیش کیا تھا جس کو کانفرنس میں خوب سراہا اور ایوارڈ سے بھی نوازا گیا۔ دنیا بھر سے آئے محقق علمای اسلام کے سامنے میں نے وحدت کی عملی تصور کو کشمیر ثابت کردیا کہ جہاں  955 سے1289 ہجری تک تقریبا ہر پچاس سال کے بعد  برادر کشی کا حادثہ پیش آتا آج ہر میدان میں وہاں کا مسلمان شیعہ ہو یا سنی ایک دوسرے کے شانہ بہ شانہ میدان میں ہیں اور جمعیت اہل حدیث کہ جسے معمولا شیعوں کے حریف کے نام سے جانا جاتا ہے کشمیر میں ایکدوسرے کے شانہ بہ شانہ نظر آئیں گے۔ اور اس بات کو  بیان کرنے میں میرے سامنے  ملانا شوکت احمد شاہ صاحب کی محاہدانہ شخصیت  مجسم تھی۔ ملانا شوکت احمد شاہ صاحب کی شہادت کی خبر سے جیسے میری کمر ٹوٹ گئ ۔ مولانا کی وحدت اور تقریب کے حوالے کاوشوں نے مجھے انکا مرید بنایا تھا ۔ مجھے لگ رہا تھا صرف مولانا شوکت احمد صاحب کشمیر کی تحریک آزادی کو مکمل کشمیری بنانے میں کامیاب رہیں گے اور کشمیر کی تحریک آزادی پر اسلام کے بغیر کوئی اور رنگ چڑنے نہیں دیں گے۔ اور یہی سبب انکی شہادت کا ہوسکتا ہے۔

ہمارے کشمیر میں کاغذی پہلوان بہت زیادہ ہیں جو  اب مولانا  شوکت احمد کے قاتلوں کو ظاہر کرنے کی بات کرنے لگے ہیں ،یہ سب ڈرامہ بازی ہے۔ جاننے والے بخوبی جانتے ہیں کہ اس قسم کا بزدلانہ کھیل کون کھیل رہے ہیں ۔ یہ اسلام دشمن طاقتوں کے آلہ کار ہیں جو  امت اسلامی کو بکھرنے اور انکی صلاحیتوں کو ناکارہ بنانے کے لئے استعمال میں لائے جاتے ہیں ۔ کشمیری عوام اگر خود حرکت میں آتی ہے  متحد ہوکر حضرت میر شرف الدین بلبل شاہ کے کشمیر کی آزادی  اور حضرت میر سید علی ہمدانی کے کشمیر کی آزادی کا نعرہ لگا تے ہیں جس میں اسلام  اور کلمہ توحید کی سربلندی سب پر عیاں ہویقینا  جاں لیں کے کشمیر کی آزادی کی ضمانت خود اسلام دے گا۔ ابھی تک جو نعرے دئے گئے ، قائد اعظم کا خواب ، چاچا نہرو کا وعدہ  وغیرہ اس میں دنیا   اور آخرت  دونوں برباد ہیں اور دنیای کی بربادی کشمیری عوام بخوبی محسوس کرتے آئے ہیں  اس لئے  ایسا رنگ اختیار کرنا ہے جس میں دنیا اور آخرت آباد ہو اور وہ بلبل شاہ کا رنگ ، ہمدانی  کا رنگ جس میں کامیابی ہی کامیابی ہے یعنی اسلامی رنگ جس میں ناکامی نام کی چیز موجود نہیں ہے۔

اللہ کی بارگاہ میں دعا ہے کہ مولانا شوکت احمد کی شہادت قبول فرمائے اور ہمارے  لیڈران حضرات کو حق و صداقت کے ساتھ کشمیر کی آزادی کیلئے دوگانگی اور چند گانگی کو چھوڑ کر ایک واضح موقف اور جہت اختیار کرنے کی توفیق عطا  فرما  ،تاکہ کشمیری عوام کو اپنا روشن ماضی(بلبل شاہ کا دور) بحال ہوسکے اور  استعماری آلہ کاروں کا بازار بند ہوسکے ۔

عبدالحسین کشمیری

‏10‏/04‏/2011

تبصرے (۰)
ابھی کوئی تبصرہ درج نہیں ہوا ہے

اپنا تبصرہ ارسال کریں

ارسال نظر آزاد است، اما اگر قبلا در بیان ثبت نام کرده اید می توانید ابتدا وارد شوید.
شما میتوانید از این تگهای html استفاده کنید:
<b> یا <strong>، <em> یا <i>، <u>، <strike> یا <s>، <sup>، <sub>، <blockquote>، <code>، <pre>، <hr>، <br>، <p>، <a href="" title="">، <span style="">، <div align="">
تجدید کد امنیتی