سایت شخصی ابوفاطمہ موسوی عبدالحسینی

جستجو

ممتاز عناوین

بایگانی

پربازديدها

تازہ ترین تبصرے

۰

عزاداری امام حسین علیہ السلام کیلئے مطلوب ضوابط کا مقدمہ

 اردو مقالات مذھبی سیاسی عزاداری امام حسین علیہ السلام

مطلوب ضوابط پیغام کا مقدمہ

عزاداری دل اور جذبات کا آئینہ دار ہوا کرتی ہےانسان جب پیدا ہوا اور اسے موت کا سامنہ کرنا پڑا تب سے ہی اسے اس غم و حزن کی حالت سے آشنا ہونا پڑا ہے ۔ کیونکہ انسان ہمیشہ اپنی نابودی سے ڈرتا رہا ہے اور اپنے آپ کو بچانے کی ہر ممکن کوشش کرتا رہا ہے مگر چونکہ موت سے باگ نہ سکا ہے اس لئے اپنے عزیزوں کے موت پر رونے اور عزاداری کرنے سے اس غم اور جدائی کے صدمے پر قابو پانے کی کوشش کرتا ہے ۔ اور یہ رسم ہر معاشرے میں مختلف اندازوں میں مرسوم ہے ۔ ہمارے معاشرے میں بھی عزاداری کے رسم کے کئی انداز دیکھنے کو ملتے ہیں اور ان میں سے بعض طریقوں کے بارے میں ہمارے دینی پیشواؤں کی سفارشات بھی موجود ہیں ۔ قرآن مجید میں بھی اس بارے میں ارشاد ہوا کہ :» لا یُحِبُّ اللّه الجَهرَ بِالسُّوء مِن القَولِ اِلاّ مَن ظُلِمَ (سورہ نساء آیت 48)» اﷲ کو ناروا فریادیں پسند نہیں مگر جو ظلم کے خلاف ہو ں۔اس سے صاف ظاہر ہوتا ہے کہ عزاداری کرنا واویلا کی صدائیں بلند کرنا تب جایز ہے جب یہ عزاداری ظلم اور ظالم سے بیزاری کا اعلان کا انداز اختیار کرے ۔ اور ہمیں اس بات پر فخرہے کہ ہمارے پاس حسین بن علی علیہم السلام کی یاد ہے جو یاد ہمیں ہر مصیبت اور غم کے موقعہ پر خدا خدا کرنےاور خدا کی راہ میں مصیبتیں جھیلنےوالوں کا ذکر کرنے سے اپنے غم اور مصیبت کو اس عظیم یاد کی طرف متوجہ کرتا ہے اور ہمارے غم و حزن کا مرحلہ عبادت کا رخ اختیار کرتا ہے جسکا خریدار خود خدا ہوتا ہے ۔ ہمارے معاشرے میں جب کوئی مرتا ہے تو ہم اپنے مرنے والے کے غم میں نہیں روتے بلکہ مرثیہ خوانی کرتے ہیں اپنا غم بھول جاتے ہیں اور ظالم کے ظلم کے خلاف صدائیں بلند کرتے ہیں جس پر قرآن بھی ہمیں داد تحسین دیتا ہے ۔

عزاداری کے جلسہ و جلوس پیغمبر اسلامﷺ اور اھل بیت علیہم السلام سے تمسک رکھنے اور اسلام کی بقاء کے سلسلے میں جدوجہد کرنے کا نام ہے ۔عزاداری اجر رسالت «قل لا اءسئلکم علیه اءجرا الا المودة فى القربى .»{ سوره شورى ، آیه 22.} اور اھل بیت اطہار «انما یرید اللّه لیذهب عنکم الرجس اهل البیت و یطهرکم تطهیرا» {سوره احزاب ، آیه 42.} جو کہ ہر عیب اور ناپاکی سے پاک ہیں سے محبت کا اعلان اور خدا اور پیغمبر اسلامﷺ سے محبت کی سند ہے۔ آنحضرت نے فرمایا ہے:» حسین منى و انا من حسین . احب اللّه من احب حسینا» «حسین مجھ سے ہے اور میں حسین سے ہوں ۔ خدا کا محبوب وہ ہے جو حسین سے محبت رکھتا ہو» ۔{ صحیح ترمذى ص 307 ج 2} حسین بن علی بن ابیطالب علیہم السلام کا حق ہم سب پر اتنا زیادہ ہے جسے مجھ جیسا ناداں طالب علم بیاں کرنے سے عاجز ہے ۔ حسین بن علی علیہ السلام محسن اسلام ہے کہ جس نے سن 61 ہجری میں اﷲ کے حبیب پیغمبر آخر الزمان حضرت محمدﷺ کے دین اور کلام خدا قرآن مجید کو مسخ ہونے سے بچایا ہے جب یزید جیسا شخص خلیفۃ المسلمین جانشین پیغمبراسلام بنا ہوا تھا جو کہ رحمانی لباس میں شیطان زماں تھا جسے نہ پیغمبر اسلام ﷺ کی رسالت پر ایمان، نہ قرآن کے وحی الھی ہونے پر یقین تھا بلکہ وہ دین مبین اسلام کا منکر تھا۔ جسطرح اس نے اپنے ایک شعر میں اس کا اعتراف بھی کیا ہے۔ یزید کا یہ شعر معروف ہے جس میں وہ کہتا ہے :

لَعِبَتْ هاشِمُ بِالْمُلْکِ فَلا

خَبَر جاءَ وَ لا وَحْیٌ نَزَلْ

لَسْتُ مِنْ خِنْدِفَ انْ لَمْ اءَنْتَقِمْ

مِن بَنى اءَحْمَدَ ما کانَ فَعَلْ

{بنی ھاشم کو حکومت کرنے کا شوق ہوا تھا ، جبکہ نہ کوئی رسول خدا تھا نہ کوئی وحی نازل ہوئی تھی۔۔ ۔ ۔ } ، یہ حال تھا اسلام کا کہ آل ابوسفیان اسلام کے حاکم بنے تھے جن کے بارے میں پیغمبر اسلامﷺنے پہلے ہی خبردار کیا تھا کہ خلافت آل ابی سفیان پر حرام ہے «قال الحسین (ع):و لقد سمعت جدى رسول الله (ص ) یقول : الخلافة محرمة على آل سفیان «{مقتل مقرم / 133. مقتل خوارزمى 1 / 184. لهوف / 20. مثیرالاحزان / 25. مقتل عوالم 17 /175. لهوف / 11 و بحارالنوار 44 / 326.}ہمیں اس بات پر غور کرنا چاہئے کہ اگر حسین بن علی علیہ السلام یزید جیسے منافق کے خلاف علم بغاوت بلند نہیں کرتےتو معاذاﷲ کل کو ہم ہی کہتے کہ شاید پیغمبراسلامﷺ بھی یزید کے مانند شخص تھے ۔ امام حسین علیہ السلام نے کہا تھا کہ ایسے اسلام سے دور باگو جس اسلام کی امامت یزید جیسا انسان کررہا ہو «على الاسلام السلام اذا بلیت الامة براع مثل یزید، » حسین بن علی علیہ السلام نے یزیدی اسلام اور محمدیﷺ اسلام کو ایک دوسرے سے جدا کیا اور ان دو اسلاموں میں فرق کی نشاندہی کی ، اسلئے ہم پر یہ بات لازم ہے کہ حسین بن علی علیہ السلام کی شھادت کو ائمہ نور کی ھدایت کی روشنی میں قائم کریں ۔ ایسے امام و رھبر جو ہمیں خدا کے احکامات پر عمل کرنا سکھائیں ۔

سید الشھداء حسین بن علی علیہم السلام کی عزاداری کا اہتمام کرنے کے سلسلے میں ولی فقیہ حضرت آیت اﷲالعظمی السید علی خامنہ ای مدظلہ العالی نے علماء کے عظیم مجموعے میں اپنے ایک خطبے میں جن رہنما اصولوں کی نشاندہی کی تھی ، اسکا کشمیری ترجمہ قارئین کے نظر کر رہا ہوں ۔ کوشش یہ کی گئ ہے کہ کسی کیلئے اس موضوع پر مزید ابہام نہ رہ پائے اسلئے خطبے کو اصلی فارسی عبارت کے ساتھ ترجمہ کیا گیا ہے تا کہ اگر کوئی ترجمہ سے مطمئن نہ ہوں تو اصل عبارت دیکھ کر اطمنان حاصل کر لیں اور خود قضاوت کریں کہ ہمیں کس کی رہنمائی پر چلنا چاہئے کیونکہ قرآن نے جگہ جگہ ہمیں تدبر اور خود فیصلہ لینے کی دعوت دی ہے از جملہ : » قُلْ هَلْ مِن شُرَکَآئِکُم مَّن یَهْدِی إِلَى الْحَقِّ قُلِ اللّهُ یَهْدِی لِلْحَقِّ أَفَمَن یَهْدِی إِلَى الْحَقِّ أَحَقُّ أَن یُتَّبَعَ أَمَّن لاَّ یَهِدِّی إِلاَّ أَن یُهْدَى فَمَا لَکُمْ کَیْفَ تَحْکُمُونَ «{سورہ یونس آیت 35}› کہو کیا آپ کے شریکوں میں ایسا کوئی ہے جو حق کی ھدیت کرے ؟ کہو ؛ اﷲ حق کی طرف ھدایت کرتا ہے ، کیا جو حق کی طرف رہنمائی کرتا ہے فرمانبرداری کے قابل ہے یا وہ جو خود ھدایت کا محتاج ہے ؟ تم لوگوں کو کیا ہوا ہے ، کیسی قضاوت کرتے ہو’۔ ہمیں ایسی شفاف اور روشن تعلیمات کے ہوتے ہوئے بھی شک و تردید میں مبتلا نہیں ہونا چاہئے ۔ قرآن نے امام نور اور امام نار کی نشاندہی کی ہے تو ہمیں اس امام نور اور امام نار کو سمجھ لینا چاہئے ۔اور اگر ہم اچھا کرتے ہیں تو ہم اچھائی سے افضل مرتبہ حاصل کرتے ہیں اور اگر ہم برائی کریں تو ہم برائی سے برے بن جاتے ہیں ۔ جیسا کہ حضرت امیر علیہ السلام نے فرمایا ہے : «فَاعِلُ الْخَیْرِ خَیْرٌ مِنْهُ، وَ فَاعِلُ الشَّرِّ شَرُّ مِنْهُ «{نہج البلاغہ حکمت 31}

رھبر معظم کے خطبے کا مطالعہ کرکے ہمیں دیکھنا ہوگا کہ کیا ہم ان تین اصولوں کی جنکی رھبر معظم نے نشاندہی کی ہے کو عزاداری کے دوران رعایت کرتے ہیں کہ نہیں! ۔ کیا یہ تین اصول شیطانی اصول ہیں یا رحمانی اصول ! کیا اس خطبے میں کسی ابھام کی گنجایش باقی رہتی ہے! کیا یہ کہنا صحیح ہوگا کہ رھبر معظم نے تو قمہ زنی کو خلاف شرع کام قرار دیا ہے ہم تو زنجیر زنی کرتے ہیں !۔اس خطبے سے ہمیں خود سے پوچھنا ہوگا کہ کیا وہ حضرات جو رھبرمعظم کی رہنمائی پر نہ چلنا اسلام شناسی اور حسین شناسی جتلاتے ہیں امام نور ہیں یا امام نار ! ۔اس خطبے کو پڑھ کر قارئین سمجھ جائیں گے کہ رھبر معظم نے صرف خون کا ماتم کرنا ہی ناجائز قرار نہیں دیا بلکہ اس سے بھی کئ زیادہ امور کی طرف اشارہ کرتے ہوئے ان زمہ داریوں کو رعایت نہ کرنے کو غضب الھی اور رنج حسین بن علی کے باعث ہونے سے خبردار کیا ہے ۔

لہذا ان تمام عاشقان حسین بن علی سے استدعا ہے کہ وہ خود اس خطبے کا مطالعہ کرکے خود فیصلہ کریں کہ جو لوگ زنجیر زنی کا ماتم کرانے پر شاباشی دیتے ہیں وہ خود کس قدر حسین بن علی اور عاشورا کے پاسبان ہیں ۔ انہوں نے کس طرح دنیا پر حسین بن علی کا فلسفہ قیام واضح کیا ہے ۔ کیا رھبر معظم کے ارشادات کو قبول نہ کرنا اور قبول نہ کروانا اسلام کی خدمت ہے یا امریکہ کی ؟ جو یہ چاہتا ہے کہ مکتب اھل بیت امامت اور رھبری کی نعمت سے محروم ہو جائے ، بے شک ایسا کرنا صرف امریکہ اور اسرائیل کی خدمت ہے ۔ رھبر معظم کی مخالفت کرنا کسی بھی اعتبار سے جائز نہیں ہے یہ بات میں نہیں کہتا ، علماء ربانی ایسا کہتے ہیں ۔ مرجع تقلید حضرت آیت اﷲ العظمی السید علی السیستانی مدظلہ العالی سے جب اس سلسلے میں سوال کیا گیا معظم لہ کے دفتر سے جواب موصول ہوا کہ :» بہ نظر حضرت آیت اﷲ سیستانی حکم فقیہ عادل مقبول نزد عامہ مؤمنین در اموری کہ نظم جامعہ بر آن مبنی است نافذ است حتی در حق مجتہدین دیگر» ۔یعنی حضرت آیت اﷲ سیستانی کا ماننا ہے کہ فقیہ عادل مقبول کا معاشرے کے نظم سے متعلق حکم تمام مؤمنین حتی باقی مجتہدین پر بھی نافذ ہے» ۔ تو آپ خود بھی اندازہ لگا سکتے ہیں کہ جو حضرات رھبر معظم کے حکم کی مخالفت کرارہے ہیں وہ ہم سے کون سا گناہ کروارہے ہیں ؟

قارئین محترم میں سے جنہوں نے امریکہ کی خفیہ ایجنسی سی آئی اےCIA کی طرف سے شیعیت کے خلاف سازش کے بارے میں سنا یا پڑھا ہوگا میں اسکا خلاصہ جوکہ انٹرنٹ پر انجمن صدائے عزا، شمالی امریکہ روزنامہ جمہوری اسلامی اور ہفتنامہ افق کی خدا پسند کاوشوں سے دستیاب تھا نذر کرتا ہوں تاکہ رھبر معظم انقلاب اسلامی اور امریکی سازش کو آپس میں موازنہ کرکے عزاداری کی اہمیت اور اسکے ولایت کے دائرے میں قایم کرنے کی اہمیت کو زیادہ سمجھ سکیں۔

ملت جعفریہ کے خلاف عظیم شازش کا انکشاف

امریکہ میں چھپنے والی کتاب A Plan to divide and destroy the theology میں سی آئی اے CIA کےسابق چیف باب دوڑورڈ «Bab Woodward» کے دست راست اور CIAکے شیعہ سیکشن کے اہم رکن ڈاکٹر مائیکل برانٹ Dr. Micheal Brant کا ایک تفصیلی انٹرویو شائع کیا ہے جس میں اس نے چشم گشا انکشافات کئے ہیں اور شیعیت کے خلاف مختص ہونے والے نو سو ملین ڈالر $900Million میں CIAکے اہل کاروں پر خردبرد کا الزام لگاتے ہوئے کہا ہے کہ CIA نے کولمبیا اور افغان ڈرگ ٹریڈز سے بھی اس مد میں بھاری رقم اینٹی ہے ۔ یاد رہے کہ مائیکل برانٹ کو جو کہ طویل عرصہ سے مذکورہ سیکشن میں کام کررہا تھا گذشتہ دنوں مالی بد عنوانی اور اختیارات کے ناجائز استعمال کی بنیاد پر معزول کرتے ہوئے اس سے مراعات واپس لے لیں تھے جس پر ڈاکٹر مائیکل برانٹ نے انتقاما بہت سارے خفیہ معاملات سے پردہ اٹھایا ۔ ہم اس طویل انٹرویو کے کچھ حصہ کا ترجمہ پیش کررہے ہیں تاکہ عوام اپنے خلاف ہونے والی سازشوں سے آگاہ ہو سکیں ۔

ڈاکٹر برانٹ کہتا ہے گذشتہ کئ صدیوں سے عالم اسلام مغربی حکومتوں کے زیر اثر رہا ہے ہر چند گذشتہ صدی میں اکثر ممالک نے آزادی حاصل کرلی لیکن ان کی آزادی ، استقلال ، سیاست ، تعلیم اور کلچر پر مغرب کی گرفت مضبوط تھی ۔ خصوصا ان ممالک کا سیاسی اور اقتصادی نظام ہمارے کنٹرول میں تھا ، آزادی کے بعد ان ممالک نے اپنی تعلیم ، تہذیب اور ثقافت پر قابل ذکر توجہ نہ دی اور مغربی نظام کو اپنے معاشروں میں جاری رکھا۔ 1979ء میں ایران کے اسلامی انقلاب سے ہماری طویل حکمت عملی کو بڑا دھچکا لگا ۔ ابتدا میں ہمارے لوگوں کا یہ خیال تھا کہ یہ شاہ ایران کے ناقص پالیسیوں ، تشدد اور بے انتہا جبرو گھٹن کی وجہ سے عوامی رد عمل ہے جس سے مذہبی عناصر بھی فائدہ اٹھارہے ہیں ۔ شاہ ایران کے ہٹنے کے بعد ہم اپنے منظور نظر لوگوں کو لے آئیں گے جو ہماری پالیسیوں کو جاری رکھیں گے ۔ ابتدائی دو تین سالوں میں امریکہ کواٹھائی جانے والے حزیمتوں (امریکی سفارتی عملے کو یرغمال بنانے اور صحرائے طبس میں جہازوں کی تباہی ) کے بعد اور دنیائے اسلام میں بڑھتی ہوئی اسلامی بیداری ، مغرب کے خلاف نفرت اور خصوصامختلف ممالک جیسے لبنان ، عراق ، کویت ، بحرین یا پاکستان میں شیعوں کے بڑھتے ہوئے انقلابی اثرات اور جوش و خروش کو دیکھتے ہوئے بالاخر CIA کی ہائی کمانڈ کا 1983ء میں اہم اجلاس منعقد ہوا جس میں لندن سے مشہور زمانہ برطانوی سیکریٹ سرویس MIX کا نمایندہ بھی شامل ہوا(کیونکہ برطانیہ کو اسلامی ممالک میں کام کرنے کا وسیع تجربہ حاصل ہے ) اس اجلاس میں فیصلہ ہوا کہ ایران کا انقلاب محض شاہ ایران کی پالیسیوں کا جذباتی رد عمل نہیں ہے بلکہ اس کے پیچھے اور بھی حقائق اور عوامل کارفرما ہیں جس میں سب سے مضبوط عامل شیعہ اسلام میں مذہبی سپریم اتھارٹی(مرجع تقلید) کے لئےسیاسی قیادت کا حصول اور 1400سال قبل پیغمبر اسلام کے نواسے حسین کی شھادت ہے ۔جس کی عزاداری شیعہ صدیوں سے بڑے گہرے رنج و غم اور جذبات کے ساتھ مناتے ہیں ۔ یہی دو عنصر ایسے ہیں جن کی وجہ سے شیعہ باقی مسلمانوں کی نسبت زیادہ متحرک اور فعال نظر آتے ہیں ۔

اس میٹنگ میں طے ہوا کہ شیعہ اسلام کو سمجھنے اور اس پروجیکٹ کی منصوبہ بندی اور عمل در آمد کے لئے اسے ایک علیحدہ اورمستقل شعبہ بنایا جائے ۔ اس طرح سی آئی اے نے شیعہ شناسی کا ایک شعبہ قایم کیا جس کا ابتدائی بجٹ چار کروڑ امریکی ڈالر $40Million تقریبا انیس کروڑ روپیہ مختص کیا گیا۔

ڈاکٹر مائیکل برانٹ کے مطابق منصوبہ بندی کے تحت اس پروجیکٹ کو مکمل کرنے کے لئے تین مراحل رکھے گئے ۔

٭پہلا مرحلہ : معلومات کا حصول Data Collection مکمل سروے اور اعداد و شمار اکھٹا کرنا ۔

٭دوسرا مرحلہ : فوری مقاصد Short term targetsشیعوں کے خلاف غلط فہمیاں پیدا کرنا اور بڑے پیمانے پر شیعہ سنی فساد کرکے انہیں سنی اکثریت سے الجھا دینا تاکہ امریکہ کی طرف سے ان کی توجہ ہٹ جائے ۔

٭تیسرا مرحلہ : طویل مقاصد Long term targets طویل المدت منصوبوں پر عمل در آمد کرتے ہوئے شیعیت کا مکمل خاتمہ ۔

پہلے مرحلہ کے تحت دنیا بھر میں ریسرچ اسکالر بھیجے گئے جن میں سے چھ 6 اسکالر صرف پاکستان بھیجے گئے ( جن کے نام کتاب میں تحریر ہیں ان میں ڈاکٹر شوم ویل کا بھی نام ہے کہ جس نے کراچی کی عزاداری پر ریسرچ کرتے ہوئے پی ایچ ڈی مکمل کی اور کراچی کی ایک شیعہ آبادی رضوی سوسائٹی میں paying guest کے طور پر مقیم رہا اور ایک جاپانی نژاد عیسائی عورت نکومہ نے بلوچستان کوئٹہ میں ہزارہ قوم اور شیعیت پر پی ایچ ڈی مکمل کی ) ابتدائی سروے میں درج ذیل سوالات پوچھے گئے تھے ۔

#الف۔ دنیا کے کس کس علاقے میں کتنے شیعہ موجود ہیں ؟ان کے حالات ، سماجی معاشرتی ورثے ، ان کے عقائد اور اختلافات کیا کیا ہیں۔

#ب۔ شیعوں کے داخلی تضادات کو کیسے ابھارا جائے ؟

#ج۔ شیعہ سنی اختلافات کو کیسے بڑھایا جائے اور اس سے فایدہ اٹھایا جائے ؟

تمام ممالک میں ابتدائی سروے اور شیعوں کے متعلق معلومات جمع ہونے کے بعد ڈاکٹر مائیکل برانٹ کہتا ہے کہ درج ذیل مشترکہ نکات سامنے آئے ۔

1۔ شیعہ علماء اور مراجع تقلید اس مذہب کی اصل قوت ہیں ۔ جو ہر دور میں اس مذہب کی حفاظت کرتے ہیں اور اس کے اصولوں پر سختی سے کار بند رہتے ہیں انہو ں نے شیعیت کی طویل تاریخ میں کبھی کسی غیر اسلامی حاکم وقت اور ظالم کے ہاتھ پر بیعت نہیں کی ۔ ایران میں مرجع وقت آیت اﷲ شیرازی کے ایک فتوے سے برطانیہ کی سیاست کو شکست سے دوچار ہونا پڑا ، اور شاہ ایران جو کہ امریکہ کا حلیف تھا آیت اﷲخمینی نے اسکا تختہ پلٹ دیا۔ عراق میں صدام نےحوزہ علمیہ نجف کو خریدنے کی بھر پور کوشش کی مگر ناکام رہا مجبورا اسے وہ علمی مرکز کو بند کرنا پڑا اور آج تک وہاں تالے لگے ہیں ۔لبنان میں آیت ا‎ﷲ موسی صدر کی تحریک نے لبنان سے امریکہ ، برطانیہ ، فرانس اور اسرائیل کی افواج کو فرار ہونے پر مجبور کردیا اسرائیل کے قیام کے بعد اس کے لئے اب تک کی سب بڑی مزاحمت حزب اﷲ کی صورت میں پیدا کردی ۔

ان باتوں سے ہم اس نتیجہ پر پہنچے کہ شیعیت سے براہ راست ٹکرانے میں نقصان زیادہ ہے اور کامیابی کا امکان بہت کم ہے لہذا درپردہ کام کیا جائے ۔ چنانچہ پرانے برطانوی قول تقسیم کرو اور حکومت کرو کے بجائے ہم نے دوسرا اصول اپنایا کہ تقسیم کرو اور مٹادو ۔ یعنی وجود ہی ختم کردو (یہاں اس نے طویل منصوبہ بندی کا ذکر کیا ہے ہم چیدہ چیدہ نکات کا خلاصہ پیش کررہے ہیں)

‌‌٭ ایسے لوگوں کی حمایت جنکا شیعہ مسلک کے ساتھ اختلاف نظر ہو اور شیعوں کو اس طرح کافر قرار دیا جائے تاکہ وقت آنے پر باقی مذاہب کے لوگ ان کے خلاف اعلان جھاد کردیں ۔

٭ شیعوں کے دینی رہنماؤں اور مراجع تقلید کے خلاف ایسی تبلیغ ہونی چاہئے کہ عوام میں انکی مقبولیت ختم ہو سکے ۔

٭ ایک اور عنصر جس پر محنت سے کام کرنے کی ضرورت ہے وہ عاشورا کی یاد اور شھادت کا جذبہ ہے جسے ہر سال شیعہ مناتے ہیں اور اس یاد کو زندہ رکھتے ہیں۔

اس سلسلہ میں ڈاکٹر مائیکل برانٹ لکھتا ہے شیعیت میں جو عزاداری کی رسوم ہوتی ہیں جن میں وہ کربلا کے واقعہ کی یاد میں جمع ہوتے ہیں اور ایک آدمی تقریر کرتا ہے اور کربلا کے واقعہ کو بیان کرتا ہے مجمع اسے سنتا ہے اور بوڑھے جوان سب حسین کے غم میں ماتم کرتے ہیں ۔ یہ مجلس پڑھنے والا آدمی اور یہ مجمع ہمارے لئے اہم ہیں کیونکہ اسی مجلس اور عزاداری سے شعیوں میں جوش و خروش اور حق کی خاطر باطل سے ٹکر لینے کی تمنا پیدا ہوتی ہے ۔ لہذا ہم نے کروڑوں ڈالر اپنے بجٹ میں مختص کئے ہیں کہ تقریر کرنے والے اور مجمع کو ہائی جیک کیا جائے اور یہ کام اس طرح ہونا ہے ۔

# پہلے مرحلہ میں ایسے شیعہ افراد کا کھوج لگایا جائے جو مفاد پرست ہوں ، جن کے عقائد کمزور ہوں اور جو اثر و رسوخ اور شہرت رکھنے والے ہوں پھر ان کے ذریعہ عزاداری میں اثر و رسوخ حاصل کیا جائے اور ان افراد سے مندرجہ ذیل کام لیا جائے ۔

1۔ ایسے واعظوں اور ذاکروں کو وجود میں لانا جو موجود ہیں ان کی سرپرستی کرنا جو شیعہ عقائد کی معرفت نہیں رکھتے ۔

2۔ ایسے شیعہ افراد تلاش کرنا اور ان کی مالی مدد کرنا جو تحریر کے ذریعہ شیعہ عقائد اور مراکز پر ضرب لگائیں اور شیعہ بنیادوں کو منہدم کرتے ہوئے اسے شیعہ مراجعین کی اختراع قرار دیں ۔

3۔ عزاداری میں ایسی رسومات کا اضافہ کرنا اور موجود رسموں کو تحفظ دینا جو خود شیعہ عقائد کے خلاف ہوں ۔

4۔ عام معاشرے میں عزاداری کا ایسا چہرہ پیش کرنا جس میں شیعیت کے علمی پس منظر اور خدمات کے بجائےایسا محسوس ہوکہ شیعیت جاہل اور توہم پرستوں کا ایک ٹولہ ہے جو محرم میں عام انسانوں کے لئے مشکلات پیدا کردیتا ہے اور ایسے پروگراموں کی تشہیر پر کثیر رقم خرچ کی جائے، اس طرح شیعیت جو ایک منطقی قوت رکھنے والا مذہب ہے محض منتوں اور مرادوں والا مذہب بن جائے اور اندر سے کھوکھلا ہو جائے اور اس طرح عام عوام میں نفرت اور خود شیعوں میں انتشار افتراق اور فساد پھیلے اور بالاخرہ ان پر جہادی قوتوں سےایک فیصلہ کن وار کراکر انہیں ختم کردیا جائے ۔

خوب تحقیق کرکے مرجعیت کے خلاف مواد اکھٹا کیا جائے اور پھر مفاد پرست گم نام مصنفین کو یہ مواد فراہم کردیا جائے ۔اس کی طباعت اور اشاعت پر بھر پور رقم خرچ کی جائے اور واعظین و ذاکرین اور عام شیعوں تک زیر زمین یہ مواد پھیلادیا جائے ۔ اس طرح منصوبے کے آخری مرحلہ میں مرجعیت کے خلاف خود شیعوں کی آواز بلند کرواکے 2010ء تک مرجعیت یا دوسرے لفظوں میں شیعیت کی مرکزیت کا خاتمہ کردیا جائے اور باقی ماندہ شیعوں کو تتر بتر کردیا جائے یوں مرجعیت جو آج حکمرانوں کے آگے سینہ سپر رہی ہے اس کو خود شیعوں ہی کے ہاتھوں ختم کروادیا جائے ۔

آخر میں مائیکل کہتا ہےکہ ان میں سے کچھ منصوبوں پر عمل ہوچکا ہے اور کچھ پر ہورہا ہے اور باقی پر آئندہ عمل در آمد ہوگا ۔(بشکریہ انجمن صدائے عزا شمالی امریکہ اور روزنامہ جمہوری اسلامی 5/3/1383 ہفتنامہ افق حوزہ28/2/1383)۔

قارئین حضرات کو ایسے حیران کن انکشافات کو پڑھ کر اندازہ ہوا ہوگا کہ ہمیں کتنا ہوشیار رہنا چاہئے دنیای استکبار آپ کی عزاداری سے کس قدر خائف و پریشان ہے اور ایسے حالات میں ہمیں شعوری یا غیر شعوری طور ایسا کوئی کام نہیں کرنا چاہئے جس سے اسلام کے دشمنوں کا فایدہ ہو ۔اسلام کو ائمہ معصومین علیہم السلام نے اپنے خون سے سینچا ہے سنوارا ہے بچایا ہے اور پیغبمر اسلام ﷺ کی سیرت کو داغدار ہونے سے بچایا ہے اسلئے اسکی حفاظت کا عظیم فریضہ ہم پر عائد ہوتا ہے۔ ابن زیاد نے زینب سلام اﷲعلیہا سے مخاطب ہو کر حسین بن علی علیہ السلام کی شھادت کو یزیدی اسلام کے عنوان سے یاد کرتے ہوئے کہا اﷲ کا حمد وشکر بجا لاتا ہوں کہ اﷲ نے حسین بن علی کو قتل کیا اسکے خاندان کو رسوا کیا اور اسکے باپ کے جھوٹ کو برملا کیا اس پر زینب سلام اﷲ علیہا نے جواب دیا کہ ما رائت الا جمیلا میں نے اچھائی کے سوا کچھ نہ دیکھا ۔ یہ بہت ہی باریک نقطہ ہے کہ نقلی مسلمان جس کو ذلت سمجھتا ہے اسے اصلی مسلمان عزت سمجھتا ہے ۔ کیونکہ پھر پتہ چلا کہ اس شھادت سے کس طرح اسلام کے دشمنوں کے عزایم خاک میں ملتے رہے ۔جعلنا اللّه من المتمسکین بالثقلین بکتاب اللّه و عترة نبیّه محمد صلى اللّه علیه وعلیهم

دارالمصطفے شریعت آباد بڈگام

20صفرالمظفر 1428

عبدالحسین مصطفوی موسوی 

تبصرے (۰)
ابھی کوئی تبصرہ درج نہیں ہوا ہے

اپنا تبصرہ ارسال کریں

ارسال نظر آزاد است، اما اگر قبلا در بیان ثبت نام کرده اید می توانید ابتدا وارد شوید.
شما میتوانید از این تگهای html استفاده کنید:
<b> یا <strong>، <em> یا <i>، <u>، <strike> یا <s>، <sup>، <sub>، <blockquote>، <code>، <pre>، <hr>، <br>، <p>، <a href="" title="">، <span style="">، <div align="">
تجدید کد امنیتی