سایت شخصی ابوفاطمہ موسوی عبدالحسینی

جستجو

ممتاز عناوین

بایگانی

پربازديدها

تازہ ترین تبصرے

۰

بغداد میں رمی جمرات

 اردو مقالات سیاسی عراق

بغداد میں رمی جمرات

image_2007118437678


muntazir4


بسمہ تعالی

ہر سال مکہ معظمہ میں حجاج کرام کا رمی جمرات کرنے کی تصاویر روح پرور ہونے کے ساتھ ساتھ بعض لوگوں کے لئے سوال بر انگیز بھی ہوتے ہیں ۔ لیکن جب اس سال حجاج کرام نے رمی جمرات ختم کیا ہوا تھا بغداد میں اس عہد کا اعادہ دیکھنے کو ملا جو کہ نہ صرف بعض لوگوں کے لئے دلچسپ اور سوال بر انگیز تھا بلکہ ہر دیکھنے والے کیلئے معنی خیز تھا ۔

جب عراقی صحافی منتظر زیدی نے مظہر شیطان پر اظہار برائت کرکے اپنے جوتے سے بش کے ہاتھوں سے ظلم کی چکی میں پسنے والوں کی آہ کا اظہار کیا نہ صرف مکہ معظمہ میں حجاج کا، کیا رمی جمرات کا عرفان کی شکل اختیار کر گیا بلکہ یہ تو مظلوموں کے معراج کی جھلک ابھر کے آنے کا منظر تھا ۔جہاں پر بعض لوگ منتظر زیدی کے اس کارنامے کو غیر مہذب کہتے ہیں وہاں اس بات کا بھی انکشاف ہوتا ہے کہ ان کے اصول ہی کچھ ایسے ہی ہیں کہ جب خود انسانوں کا خون بہانا چاہتے ہوں تب حقوق انسانی کا نعرہ دیتے ہیں ، یاجب کشور گشائی کا ارادہ رکھتے ہیں تو اسے جمہوری اقتدار کا پاسبانی کہتے ہیں۔جب تہذیبوں اور ثقافتوں کو نابود کرنا چاہتے ہوں تب ترقی کا نام دیتے ہیں۔در واقع ظالم ترین حکام اور ڈکٹیٹروں کا ٹولہ ہیں ۔اس لئے ان کی رضایت حاصل کرنا ہمارا مطلوب و مقصود نہیں ہونا چاہئے ۔ ہمیں ہمیشہ یہ دیکھنا چاہئے کہ ہم جو کام کرتے ہیں اس بارے میں ہمارے پیغمبر اسلام صلی اللہ علیہ وآلہ کیا فرماتے ہیں ، کل جب حوض کوثر پر ان کے ساتھ ملاقات کریں گے اپنے افعال کی صفائی کس طرح پیش کر سکیں گے ۔اپنے حقوق کا مطالبہ کرنا ہر انسان کا حق ہے ،اس سلسلے میں آنحضرت کا فرمان ہے :<< من ارید ماله بغیر حقّ فقاتل فهو شهید>>. جس شخص کا مال چھینا جائے اور وہ اسے واپس حاصل کرنے کے لئے جدوجہد کرے اور اگر وہ اس دوران مر جائے وہ شھید ہے۔( کنز المعال، ج4، ص429، حدیث11201) اسی طرح ایک اور فرمان میں فرماتے ہیں :<< من قاتل دون نفسه حتّی یقتل فهو شهید و من قتل دون ماله فهو شهید و من قاتل دون اهله حتّی یقتل فهو شهید و من قتل فی جنب الله فهو شهید.>> جو کوئی اپنی جان ، مال، اھل و عیال کے دفاع میں جدوجہد کرے اور اس دوران مارا جائے وہ شھید ہے ۔ اور جو کوئی قرب الھی حاصل کرنے کی جدوجہد میں مارا جائے وہ شھید ہے ۔( کنز المعال، ج4، ص420، حدیث11236)۔ علی ابن الحسین علیہم السلام سے روایت ہے کہ: <<من اعتدی علیه فی صدقه ماله فقاتل فقتل فهو شهید۔>>جس کسی پر ظلم کرکے اس کا مال اس سے چھینا جا‏‏‏ئے اور وہ اسے حاصل کرنے میں جدوجہد کرتے مارا جائے وہ شھید ہے ۔( وسائل الشیعه، ج11، ص93، حدیث11) ۔ امام جعفر صادق علیہ السلام فرماتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ نے فرمایا: <<من قتل دون عیاله فهو شهید.>>جو کوئی اپنوں کے دفاع کرتے کرتے مارا جائے وہ شھید ہے ۔( وسائل الشیعه، ج11، ص91، حدیث5) ان احادیث کی روشنی میں بھی معلوم پڑتا ہے کہ اپنے حق کا مطالبہ کرنا ہر کسی کا حق ہے البتہ یہ دیکھنا ضروری ہے اپنے حق کا مطالبہ کس موضون وقت پر اور کس طرح کیا جائے ۔ چونکہ منتظر زیدی ایک عاشق حسین علیہ السلام ہے اس نے حسینی درس کو بخوبی سمجھ لیا تھا ۔ حسین علیہ السلام کے پیغاموں میں ایک عمدہ پیغام وقت شناسی ہے ۔ حسین علیہ السلام مدینہ منورہ میں ہی عاشورا برپا کرسکتے تھے۔ یا پھر مکہ معظمہ میں، انہوں نے ایسا نہ کیا بلکہ جدوجہد کا ایک منظم راستہ اختیار کرکے ایک منشور رقم کیا اور وقت شناسی کا درس دیا جس پر عمل کرکے انسان زندہ رہے تو کامیاب ہے مرجائے پھر بھی کامیاب ہے ۔ منتظر زیدی کے کارنامے میں ہمیں دونوں مقصد ملتے ہیں کہ اگر زندہ رہ جائے وہ کامیاب ہے اور اگر وہ اس حالت میں مر جائے پھر بھی وہ کامیاب ہے ۔ ہم نے دیکھا کہ اسکا غیر مہذب اقدام (جوتا پھینکنا) ایک مستحسن عمل بن کر ابھر گیا ۔جس کا بنیادی معجون پاک نیت اور سنجیدہ فکر ہو سکتا ہے۔ایک اھل قلم کے معصوم عمل نے اس کے غیر مہذب ہونے کا موضوع کو بدل کر رکھ دیا۔ اس امر کی طرف ہمارے فقہی اصول بھی ملتے ہیں کہ جب کسی عمل کا موضوع بدل جائے حکم بھی بدل جاتا ہے ۔ ہم امام خمینی رضوان اللہ تعالی کے رسالے میں شطرنج کے بارے میں پڑھتے ہیں کہ شطرنج حرام ہے اور جس گھر میں شطرنج ہو، اسکی شدید ممانعت کے ساتھ روایات بیان کی گئ ہیں اور جب ہم ان سے چس{ جو کہ شطرنج کی اقسام میں سے ایک ہے} کے بارے میں کئے گئے استفتاء کو دیکھتے ہیں جس میں سوال کیا جاتا ہے کہ چس اس وقت جواریوں کا آلہ قمار نہیں رہا ہے بلکہ اس وقت دنیا میں علمی اور فکری کھیل کے طور پر ابھر کر آیا ہے؟ ۔ امام نے جواب میں لکھا ہے کہ جب موضوع بدل گیا ہے اس کا حکم بھی بدل گیا ہے اس لئے جائز ہے ۔ اس طرح ظاہر ہوتا ہے کہ منتظر زیدی نے صاف و پاک نیت کے ساتھ مظلوموں کی آہ کو مظلومانہ انداز میں صحیح وقت پر اظہار کرنے کا ارادہ کرکے اس پر ڈٹے رہاہے جس سے اس پاک نیت کی صدای باز گشت پوری دنیا میں سننے کو ملتی ہے ۔ اور اس عمل کو صرف مہمان کی اہانت کرنے سے تعبیر نہیں کیا گیا بلکہ مظلومیت کا مظاہرہ قبول کیا گیا ہے ۔میرے لئے منتظر زیدی کے امریکی صدر جمہور جارج بش صاحب پر جوتا پھینکنا اتنا چونکا دینے والا نہ تھا جتنا کہ غدیر فاونڈیشن کے سیکریٹری جنرل حضرت آیت اللہ خز علی مدظلہ العالی نے اس جوتے کے بارے میں فرمایا : <<میں عراقی صحافی کے اس جوتے کو چومتا ہوں کہ جسے اس نے بش پر دے مارا>>۔اور اس عمل کو <<شیطان اور شیاطین پر جوتے مارنے سے تعبیر کیا>>۔اس پر مجھے حضرت بلال کی عظمت ذہن میں گونجی کہ اسکی صداقت خلوص اور ایمان نے اسے کہاں پہنچایا ہے جس کی ایک مثال یہ ہے کہ پیغمبر اسلام صلی اللہ علیہ وآلہ حضرت بلال کے سین کو عربوں کے شین پر فضیلت دیتے تھے ۔ جناب بلال اذان میں اشھد کے بجائے اسھد پڑھا کرتے تھے کیونکہ ان سے شین ادا نہیں ہو پاتا تھا اور جب نبی آخر الزمان صلی اللہ علیہ وآلہ سے پوچھا جاتا کہ بلال شین کے بدلے سین پڑھتے ہیں تو آنحضرت فرماتے کہ میں اسکے سین کو آپکے شین پر ترجیح دیتا ہوں کیونکہ وہ نہایت خلوص اور ایمان کے ساتھ اسے ادا کرتے ہیں ۔ اور اسی قسم کا خلوص اور پاک نیت منتظر زیدی کے عمل میں نظر آیا کہ آیت اللہ خز علی جیسے عمر رسیدہ عالم دین حتی اس جوتے کو چومنے کا ارادہ ظاہر کرتے ہیں ۔

استکبار کے خلاف بر سر پیکار حذب اللہ نے منتظر زیدی کے اقدام پر تبصرہ کرتے کہا ہے کہ یہ کام عراق میں مارے گئے لوگوں کےیتیموں اور بیواؤں کی نمایندگی میں عکس العمل تھا جو کہ قابل ستایش ہے ۔دوسری طرف عراق میں امریکی غاصبیت کے خلاف مقتدا صدر کی جماعت نے شدید رد عمل ظاہر کرتے ہوئے کہا ہے کہ نوری مالکی کے سامنے امریکی فوجیوں کا عراقی صحافیوں کی زد و کوب کرنا عراقی حاکمیت کی توھین ہے ۔اس بات سے صرف نظر کہ منتظر زیدی کے بعض افراد خانوادہ مقتدا صدر کی جماعت کے عہدہ داروں میں سے ہیں اور خود منتظر زیدی مقتدا صدر کے زبر دست حامی ہیں، اس وقت دنیا بھر کے انصاف پسند لوگ ایک صف میں اسکے دفاع میں کھڑے ہوئے نظر آتے ہیں۔ابھی تک عراقی اور بین الاقوامی سطح کے دو سو وکلا نے منتظر زیدی کے دفاع کے لئے اپنی قانونی خدمات کی پیش کش کی ہے ۔شاید اس مختصر منظر کشی سے رمی جمرات کے فلسفے کے بارے میں کوئی ایک گوشہ ضرور اٹھا ہوگا ۔ جس سے معلوم پڑتا ہے کہ اپنے حقوق کا مطالبہ کرنے کیلئے سنجیدہ ، منظم اور بر وقت انتخاب سے معمولی اقدام بھی عظیم کام کرجاتا ہے۔ خود کشی ، قتل خون دھماکے یہ سب یزیدی عمل ہیں ان سے پرھیز کرنا چاہئے۔ آج اگر منتظر زیدی نےمظہر شیطان امریکی صدر پر جوتے مار کرعراقی عوام کی بش کے نسبت ناراضگی کو ظاہر کیا ہے۔ ایک منفرد اور مستحسن عمل ہے اسکا مطلب یہ نہیں کہ اس کام کو ایک فیشن بناکے ہر کسی پر جوتے مار کر غیر مہذب ہونے کا ثبوت دیں بلکہ نیت کو الہی بناکے چلنا چاہئے کہ جو کام انجام دیں اسے اللہ کی بارگاہ اور رسول صلی اللہ علیہ والہ کے حضور میں دلیل بنا سکیں اور خدا و رسول صلی اللہ علیہ وآلہ کی خشنودی حاصل کرنے کے مستحق بنیں ۔

اے اللہ ہمیں خلوص نیت اور قیامت کے دن پیغبمر اسلام صلی اللہ علیہ وآلہ کی خدمت میں حوض کوثر پر حاضر ہونے کا ایمان راسخ عطا فرما۔ اے اللہ ہمیں رمی جمرات کا مقصد سمجھنے کی توفیق عطا فرما تاکہ ہمیں استکبار اور شیاطین کے خلاف صدای احتجاج کرنے کا حوصلہ عطا ہو۔ آمینعبدالحسین 

‏جمعرات‏، 18‏ دسمبر‏، 2008


تبصرے (۰)
ابھی کوئی تبصرہ درج نہیں ہوا ہے

اپنا تبصرہ ارسال کریں

ارسال نظر آزاد است، اما اگر قبلا در بیان ثبت نام کرده اید می توانید ابتدا وارد شوید.
شما میتوانید از این تگهای html استفاده کنید:
<b> یا <strong>، <em> یا <i>، <u>، <strike> یا <s>، <sup>، <sub>، <blockquote>، <code>، <pre>، <hr>، <br>، <p>، <a href="" title="">، <span style="">، <div align="">
تجدید کد امنیتی