سایت شخصی ابوفاطمہ موسوی عبدالحسینی

جستجو

ممتاز عناوین

بایگانی

پربازديدها

تازہ ترین تبصرے

۰

عصرحاضرمیں عزاداری کی ضرورت

 اردو مقالات اھلبیت ع مذھبی سیاسی عزاداری امام حسین علیہ السلام

عصرحاضرمیں عزاداری کی ضرورت

عزاداری کا لفظ مسلمانوں کے درمیان ایک ایسا لفظ ہے جو مفہوم عمومی رکھنے کے باوجود مفہوم خصوصی کی طرف توجہ مبزول کراتا ہے۔اگر درایت سے کام لیا جائے تو معلوم ہوگا کہ عزاداری یا ماتم کا لفظ ہر اس انسان کیلئے ایک خاص پیغام اور مفہوم ذہن میں القا کرتا ہے جو اسلام یا مسلمانوں کے بارے میں کسی حد تک معلومات رکھتا ہو ،اسکے لئے عزاداری کا پہلا مفہوم عزاداری امام حسین علیہ السلام ہے۔،اسلئے عزاداری یا ماتم کا پہلا مفہوم اور پیغام، سانحہ کربلاسے مربوط ہوتا ہے ، اس طرح غیر مسلمان کیلئے بالعموم اور مسلمانوں کیلئے بالخصوص ،عزاداری کا نام، امام حسین علیہ السلام اور یزید کے درمیان کربلا میں غیر مساوی معرکہ کی یاد تازہ کرتا ہے۔چونکہ کربلا میں طرفین مسلمان تھے اس لئے انصاف کا تقاضا بنتا ہے کہ جب ایک دوسرے کے نقیض اور حریف ایک ھدف کے پاسبان ہونے کا دعویٰ کرتے ہوں اور اپنی صداقت کو ثابت کرنے کیلئے آپس میں نبرد آزما ہو جائیںتو ظاہر سی بات ہے دونوں میں سے ایک دعویٰ صحیح ہو سکتا ہے اور اکثر دیکھا جا تا ہے کہ ایسے معاملے میں استکبار اپنا الو سیدھا کرنے کیلئے ایسے اوضاع کو مجہول بنادیتا ہے اور لوگوں کو گمراہ رکھنے کیلئے اور حقیقت سے دور رکھنے کیلئے زرخرید افراد کو ڈھونڈ نکالکر عوامی طاقت کو کمزور کرکے اپنی ساخت اور دبدبہ بنائے رکھتا ہے۔کربلا میں جو حق اور باطل کی جنگ تھی اسکو مجہول بنانے کیلئے استکبار نے یہ تجربہ بطور اتم استعمال کیا یہی وجہ ہے کہ ابھی تک مسلمانوں میں ایسے لوگ بھی دیکھنے کو ملتے ہیں جو قرانی آیات کو ڈھال بناکر ،امام حسین علیہ السلام کو مجرم قرار دیتے ہیں اور کہتے ہیں کہ قران کا دستور جب سامنے ہے» وَلاَ تُلْقُواْ بِأَیْدِیکُمْ إِلَى التَّهْلُکَةِ «(البقرہ/195) [اپنے آپ کو ھلاکت میں نہ ڈالو] وغیرہ ۔۔۔اور یزید کو خلیفہ وقت اور معاویہ کو امیر المومنین کے لقب سے یاد کرتے ہیں، جبکہ مسلمانوں کا عقیدہ ہے کہ حضرت امام حسین علیہ السلام اھل بیت اور اصحاب،حضرت ختم مرتبت محمد مصطفےٰ [صلی اللہ علیہ وآلہ]، ایک انسان کامل،جنکا قول حجت اور جن سے محبت رکھنا مسلمانی کا جزءہے۔اسکے باوجود کربلا کے بارے میں اختلاف موجود ہے۔البتہ غیر مسلمانوں کیلئے امام حسین علیہ السلام کی ذات بیسویں صدی کی آخر تک غیر متنازعہ تھی اور امام حسین علیہ السلام کو کامل حق اور یزید کو کامل باطل مانتے رہے ہیں ۔ چونکہ استکبار کو اس سے کوئی خوف نظر نہیں آتا تھایاشاید وہ لوگ کربلا کو مسلمانوں کا دا خلی معاملہ تصور کرکے اس سے صرف نظر کرتے تھے جبکہ تاریخ شاہد ہے کہ اس زمانے سے لیکر اب تک امام حسین علیہ السلام کی قیادت ہر مظلوم قوم کی دلگرمی کا وسیلہ اور امید کی کرن بنی رہی ہے۔کئی نام نہاد مسلمان حکمرانوں نے تو امام حسین علیہ السلام کے نام کو مٹانے کی ہر ممکن کوشش کی مگر ہمیشہ ناکام رہے آخر میں ۱۲ویں صدی کے حسین زمان حضرت امام خمینیؓ کی قیادت میں جو انقلاب رونما ہوا اس نے ان تمام معنوی اور مادی پہلووں کو زندہ کیا جن کا احیاءامام حسین علیہ السلام نے اپنے اور اپنے اعوان و انصار کے خون سے سینچ کر کیا تھا،اور یہ [انقلاب ثانی کربلا ،انقلاب اسلامی ایران]استکبار کیلئے وبال جان بن گیا اس لئے کربلا کی نورانی شعاوں کو ظلمت کدہ میں تبدیل کرنے کی ماضی سے کئی زیادہ انداز میں تلاش لا حاصل آغاز کی ہے۔اور اب کربلا کا موضوع مسلمانوں اور غیر مسلمانوںکے درمیاں کسی نہ کسی زاویئے سے ھدف تنقید قرار پا تا ہے ،کوئی قیام امام حسین علیہ السلام کو دہشت گردی سے تعبیر کرنے کی کوشش کرتا ہے اور کوئی اپنے آپ کو ہلاکت میں ڈالنے سے تعبیر کرتا ہے۔مجموعاً کسی نہ کسی بہانے سے قیام حسینی علیہ السلام کی رونق کوگٹھانے میں لگے رہتے ہیں۔اسی لئے شاید پیغمبر آخرزمان [صلی اللہ علیہ وآلہ] نے امام حسین علیہ السلام کی عزاداری کو احیاءدین سے تعبیر کیا ہے۔اور اسی فضیلت کو زندہ رکھنا عزاداری امام حسین علیہ السلام کاقیام کا پیغام ہے۔

عزاداری امام حسین علیہ السلام کو عصر حاضر میں در پیش مقابلوں کو ملحوظ رکھتے ہوئے خالص ترین ادا اور مخلصانہ ترکیب کے ساتھ انجام دینا وقت کی ضرورت ہے ۔ عزاداری کا مفہوم غالباًسانحہ کربلا سے جوڈ کردیکھا جاتا ہے اور ہمارا مقصود بھی وہی عزاداری ہے یعنی عزاداری حضرت امام حسین علیہ السلام ،ہمارے درمیاں یہ روایت زبان زد عام و خاص ہے » من بکا او ابکا او تباکا وجبت لہ جنہ» یعنی جس کسی نے امام کی مظلومیت پر رویا ، یا رلایا ،یارونے والوں کی حالت بنائی اس پر جنت واجب ہے۔جبکہ پوری روایت یوں ہے :قال الصادق علیہ السلام» مامن احد قال فی الحسین شعرافبکیٰ و ابکی بہ الا اوجب اﷲ لہ الجنہ و غفر لہ»(امام صادق علیہ السلام نے فرمایا:کوئی ایسا نہیں ہے جو امام حسین ں کے نام شعر لکھے ،روئے یا رلائے اور اس پر خدا جنت واجب نہ کرے۔یقینا یہ اسلئے ہے کہ انسان کی ھدایت کے لئے یہ عمل مؤثر ثابت ہے)[رجال کشی ص ۹۸۲]۔ اگر دقت کی جائے اس جملے میں عزاداری امام حسین علیہ السلام کا پیغام بخوبی آشکار ہوجاتا ہے کہ عزاداری امام حسین ادبیات قرآن کے ساتھ انسان کو جوڈتا ہے جنت کیونکہ قرآن کا لفظ ہے اور قرآن نے ایسے انسان کے صفات بیان کئے ہیں جو جنت کے حقدار ہیں،[ تِلْکَ الْجَنَّةُ الَّتِی نُورِثُ مِنْ عِبَادِنَا مَن کَانَ تَقِیًّا] (مریم/63)(یہی وہ جنت ہے جس کا وارث ہم اپنے بندوں میں متقی افراد کو قرار دیتے ہیں) اس اعتبار سے عزاداری امام حسین علیہ السلام تقویٰ کے ساتھ مشروت ہے۔عزاداری میں رونے کا عنصر اولویت میں قرار پاتا ہے کیونکہ رونا فطری امر ہے اوراس کے اپنے اقسام ہیں مثلاً :

۔ شوق کے آنسوں،

۔ عشق کے آنسوں،

۔ فراق کے آنسوں،

۔ انتظار کے آنسوں،

۔ تاسف کے آنسوں،

۔ حسرت اور پشیمانی کے آنسوں،

۔ اپنے عزیزوں کے موت میں کے آنسوں،

۔ خوف خدا اور مناجات کے آنسوں،

۔ پٹائی کے آنسوں،

۔ بچے کا ماں کیلئے اپنی بھوک بتانے کے آنسوں،

۔ جذبات اور احساسات کو ابھارنے کے آنسوں،

۔ دوکھہ دہی،یا مذاق کے آنسوں،

اگر ان عنوان کو عامیانہ طور بیان کریں :

۔ اگر کوئی بچہ شیطانی کرے اور اسکو تادیب کیا جائے اسکے آنکھوں سے بھی آنسوں جاری ہونے کو رونا کہتے ہیں۔

۔ اگر پیاز کاٹیں تو آنکھوں سے آنسوں جار ی ہونے کو بھی رونا کہتے ہیں۔

۔ اگر بچے کو تادیب کرنے کے بجائے بے مورد ٹوکا جا ئے ا سکے آنکھوں سے بھی آنسوں جار ی ہونے کو رونا کہتے ہیں۔

۔ اگر کسی قسم کی مصیبت انسان کے وجود کو متاثر کرے اسکے آنکھوں سے بھی آنسوں جار ی ہونے کو رونا کہتے ہیں۔

۔ اگر کوئی صاحب معرفت خدا کے ساتھ مانوس ہوتا ہے اور جس وقت اس کی چاشنی کو لمس کرتا ہے تو اسکے آنکھوں سے بھی آنسوں جار ی ہونے کو رونا کہتے ہیں۔ وغیرہ ۔۔۔

اسی طرح کئی مثالیں ہیں جو کہ رونے کی کیفیت کو بیان کرتے ہیں اس لئے عزاداری امام حسین علیہ السلام میں رونے کی کیفیت کو ملحوظ نظر رکھنا ضروری ہے کہ کس قسم کا رونا انسان کو جنت کی بشارت دیتا ہے۔امام زمان [عج] اس ضمن میں ارشاد فرماتے ہیں» و ابکین لک بدل الدموع دمائ[بحار انوارج ۸۹ص۰۲۳]«(اگر امام مظلوم سید الشہدا علیہ السلام کی یاد میں ،روتے روتے میرے آنسوں خشک ہو جائیں میں خون کے آنسوں روں گا)۔رونا ایک فطری ہتھیار ہے جو نا گفتہ حلات کی تفسیر بیان کرتا ہے اور یہ حالت جسقدرمخلصانہ ہو اتنا اثر انداز ہوتی ہے۔ پیغمبر اسلام[صلی اللہ علیہ وآلہ] ابو ذر ؓسے مخاطب ہو کر ارشاد فرمایا ہے:

» یا ابا ذرّ: من استطاع ان یبکی فلیبک و من لم یستطع فلیشعر قلبہ الحذن و الحزن ولیتباک،انّ القلب القاسی بعید من اﷲ تعالی ولکن لا یشعرون»(ای ابوذر: جو چاہئے رو لے،جو رو نہ سکے وہ رونے کی حالت بنانا سیکھے،کیونکہ جو رونے قاصرہو قصی القب ہے وہ خدا سے دور ہے،مگر وہ اس مطلب کو نہیں سمجھ سکتے)[سفینة البحار،ج ۱،ص ۷۹]

عزاداری امام حسین علیہ السلام کو رونے کا ساتھ انجام دینا ،رسم عزاداری کے سرفہرست میںملتا ہے۔اس لئے پہلے رونے اور پھر عزاداری کے دیگر رسوم کی طرف اشارہ کریں گے تاکہ عصر حاضر میں عزاداری کی ضرورت جو کہ ہمارا موضوع بحث ہے کو نتیجے کے طور بیان کریں گے۔

غبار غم برود حال خوش شود حافظ

تو آب دیدہ ازین رھگذر دریغ مدار

والسلام

عبدالحسین 

تبصرے (۰)
ابھی کوئی تبصرہ درج نہیں ہوا ہے

اپنا تبصرہ ارسال کریں

ارسال نظر آزاد است، اما اگر قبلا در بیان ثبت نام کرده اید می توانید ابتدا وارد شوید.
شما میتوانید از این تگهای html استفاده کنید:
<b> یا <strong>، <em> یا <i>، <u>، <strike> یا <s>، <sup>، <sub>، <blockquote>، <code>، <pre>، <hr>، <br>، <p>، <a href="" title="">، <span style="">، <div align="">
تجدید کد امنیتی