سایت شخصی ابوفاطمہ موسوی عبدالحسینی

جستجو

ممتاز عناوین

بایگانی

پربازديدها

تازہ ترین تبصرے

۰

اسلامی انقلاب کی تیسویں سالگرہ

 اردو مقالات انقلاب اسلامی ایران

بسم اللہ الرحمن الرحیم

اسلامی انقلاب کی تیسویں سالگرہ

ایران میں اسلامی انقلاب کا وجود بقول بانی اسلامیہ جمہوری ایران حضرت آیت اللہ العظمی سید روح اللہ موسوی خمینی رضوان اللہ تعالی علیہ محرم اور صفر کی برکات کاما حصل ہے اور اس اسلامی حکومت کو حضرت علی ابن ابیطالب علیہ السلام کی حکومت کے بعد پہلی اسلامی حکومت کا قیام کہا جاتا ہے ۔

خدا اور اسکے رسول صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے فرمان کے مطابق انسان خدا کا خلیفہ ہے اور اس پر حکومت کا فریضہ حجت خدا کو حاصل ہے ۔ مسلم نے اپنی صحیح میں پیغمبر اسلام صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے احادیث نقل کئے ہیں جن میں آنحضرت کا اپنے بعد بارہ ائمہ متعارف کرنے کا اعتراف موجود ہے از جملہ : جابر بن سمرہ نقل کرتے ہیں کہ میں نے رسول خدا صلی اللہ علیہ والہ وسلم کو فرماتے سنا کہ: اسلام ہمیشہ عزیز رہے گا جب تک میرے بارہ خلیفہ ان پر حکومت کرتے ہیں ۔ اسکے بعد کچھ اور کہا میں سمجھنے سے قاصر رہا میں نے اپنے والد سے پوچھا آنحضرت نے یہ کیا فرمایا: تو انہوں نے کہا کہ آنحضرت نے فرمایا کہ وہ سب قریش سے ہوں گے (صحیح مسلم ،ج۶، ص۳، کتاب الامارہ) ۔

ہمارے زمانے میں گیارویں امام حضرت امام حسن عسکری علیہ السلام کے فرزندامام مھدی عجل اللہ تعالی فرجہ الشریف پردہ غیب میں ہیں اور اس دوران انکے نائب دینی رھبری کی زمہ داری کا فریضہ نبھاتے آئے ہیں البتہ حکومت کی بھاگ دوڈ امام علی ابن ابیطالب علیہ السلام کے بعد ائمہ معصومین علیہم السلام میں کسی ایک نے نہیں سنبھالی اور ائمہ معصومین علیہم السلام میں سے کسی ایک نائب نے بھی حکومت نہیں کی اور ہمارے زمانے میں بارہویں امام کے نائب حضرت آیت اللہ العظمی سید روح اللہ موسوی خمینی رضوان اللہ تعالی علیہ نے اسلام دوست عوام کی حمایت سے اسلامی حکومت کا قیام عمل میں لایاجس سے غدیر خم کی تفسیر اوریزید بن معاویہ کے خلاف حسین بن علی علیہ السلام کی کربلا میں معرکہ آرائی کی تعبرسامنے آنے لگی ۔

فروری سن 1979 کی پہلی تاریخ کو امام خمینی (رح)چودہ برسوں کی جلا وطنی کے بعد ایران تشریف لائے ایرانی عوام نے دین شناسی کی فقید المثال نمونہ دنیا کے سامنے پیش کیا۔ جس دنیا نے انبیاءمرسلین اور ائمہ ھدی علیہم السلام کی ھدایت کونہ صرف ٹھکرایا اور ان سے مطلوب فائدہ حاصل کرنے سے انسانیت کو محروم رکھا بلکہ ان پر طرح طرح کے مظالم روا رکھے لیکن ایرانی عوام نے نائب امام کی اطاعت کو امام زمان کی اطاعت سمجھ کر عملی مسلمان ہونے کا ثبوت دیااور ایران کے شہنشاہی ملک کو اسلامی جمہوریہ کے نام سے موسوم کیا۔ اگر چہ اسلامی ممالک کے درمیاں اسلامی جمہورکے نام سے موسوم ممالک کی تعداد کئی ہے لیکن عملی اسلامی جمہوریہ ایران کے سوا کوئی اور نہیں ہے ۔ ایسا کہنا نہ مبالغہ ہے نہ طرفداری بلکہ ایک زندہ و جاوید حقیقت ہے ۔ اسلامی ممالک میں سے ایران کے بغیر جس ملک کو اسلامی جمہوریہ کے نام سے یاد کیا جاتا ہے اس اسلامی جمہوریہ کو چلانے والاحاکم کوئی ماہر اسلام شناس عالم و عامل مفتی یا مجہتد نہیں ہوتا ہے بلکہ ایک نام نہاد مسلمان جس کے بارے میں تارک الصلاة ہونے کا بھی معلوم ہوتا ہے ۔ایسے اسلامی جمہوریہ کا آئین قرآن اور سنت سے لیا ہوا ہونا ضروری ہے لیکن اس کے برعکس قرآن اور سنت سے لینا تو دور کی بات غیر مسلمانوں کے مسلمہ قوانین کو رائج کیا جاتا ہے ۔ اسلامی ممالک کا امتیاز یہ ہونا چاہئے کہ ملک کا آئین قرآن اور سنت سے ماخذ ہو اور اگر اس درمیاں سنت نقل کرنے والوں کے نسبت اختلاف ہوتا کہ مثال کے طور کسی کے لئے علی ابن ابیطالب سے منقول حدیث قبول ہوتی تو کسی دوسرے کو ابوہریرہ کی حدیث قبول ہوتی یا کوئی فاطمة الزھرا سلام اللہ علیہا سے منقول حدیث قبول کرتا تو کوئی ام المومنین حضرت عایشہ سے منقول حدیث قبول کرتا تو اسطرح اسلامی معاشرہ اسلامی تعلیمات کا عکاس ہوتا جو کہ نہیں ہے البتہ ایرانی قوم کی دینی بصیرت کو سلام کہ جنہوں نے اسلام شناس کی رہنمائی پر چلتے ہوئے قرآنی بشارتوں کو اپنے لئے مخصوص کرلیا ۔ عالم اسلام میں ایسے اسلامی جمہوریہ کے باشندے ہونے کا شرف حاصل کیا جہاں کا آئین قرآن اور سنت پر مبنی ہے ۔

ایران کے اسلامی انقلاب کی کامیابی کاراز خود بانی اسلامی جمہوریہ ایران حضرت آیت اللہ العظمی سید روح اللہ موسوی خمینی رضوان اللہ تعالی علیہ نے یوں بیان فرمایا ہے :(این قیام ، قیام حق برباطل بود ، قیام عبودیت بر طاغوت بود، قیام انسانیت برتوحش بود۔ رمز پیروزی ما در این بود کہ نہضت ما جنبہ معنوی و اسلامی داشت۔۔۔)(یہ انقلاب، باطل پر حق کا انقلاب تھا، طاغوت پر عبودیت کا انقلاب تھا، انسانیت کا وحشی گری پر انقلاب تھا۔ ہماری کامیابی کا راز یہ تھا کہ ہماری تحریک میں معنوی اور اسلامی پہلو تھا ۔ ۔ ۔)۔

ایرانی قوم نے جس قدر اپنی دینی بصیرت کا مظاہرہ کیا اور مسلمانی کا عملی تاج اپنے سر پر رکھ دیا ہے اور صرف قرآن اور سنت کے حکم کے سامنے سر تعظیم خم ہونے کاعملی ثبوت پیش کیا ہے جس پر قرآن اور سنت کا ہروہ عاشق جو زمین کے جس گوشے میں بھی زندگی کرتا ہے ان پر رشک کرتا ہے اوراپنے آپ کو اس انقلاب کا معنوی طور شریک تصور کرتا ہے ۔البتہ یہ بات واضح رہے کہ ایسا تصور نہ کیاجائے کہ ایران میں ہر کوئی قرآن اور سنت کی تعلیمات کا پیکر ہے اور ملکوتی صفات کے حامل ہیں، نہیں ایسا بلکل نہیں ہے ۔ ایران میں آپ کو جس قدر دین کے شیدائی ملیں گے شیطان کو بھی مات دینے والے وہی ایران میں آپ کو ملیں گے ۔ ایران میں دین و آخرت سے بے خبر بھی اچھی تعداد میں ملیں گے جن کے سامنے شیطان بھی زانوے ادب تہہ کرکے کچھ سیکھنے کی فراق میں رہتاہو گا۔زاھدانہ انداز میں شیطان کے استاد ملیں گے ۔ علم کے پیکر میں جہل مرکب ملیں گے ۔ روشن فکری کے نام پر حیوانیت کے مبلغ ملیں گے لیکن ان کی تعداد اللہ کے عاشق بندوں کے سامنے حقیر ہے ۔اسلامی ایران کا امتیاز کہ کہ کلمة اللہ ھی العلیا(توبہ40) کا عملی خاکہ حاکم ہے ۔

ایران میں چونکہ اصل قانون قرآن اور سنت سے ماخوذ ہے اس لئے نا قابل شکست ہے ۔ کیونکہ قرآن اور سنت لازوال ہیں ۔ اس کی پناہ میں رہنے والا کبھی زوال سے روبرو نہیں ہوسکتا ہے ۔ یہی وجہ ہے کہ ہم آج تیس سال کے عرصے میں ایران کی حیران کن ترقی کا مشاھدہ کرتے ہیں ۔ ساری دنیا ان کے خلاف ہے طرح طرح کی پابندیاں عائد ہیں لیکن غدیر خم میں پیغمبر اسلام صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے ہاتھ پر بیعت کرنے والوں کے لئے اللہ نے صرف فتح و ظفر تقدیر بنایا ہے ۔

آنحضرت صلی اللہ علیہ نے اپنے بعد اللہ کی رسی کی نشاندہی کی ہے اور اسی رسی کا نام ولایت ہے اور جب ولایت کے ہاتھوں میں عوام نے حکومت تھمائی تو مختصر دور میں امام علی ابن ابیطالب علیہ السلام نے رہتی دنیا تک حکومت کرنے کا منشور سامنے رکھا جو کہ نہج البلاغہ میں درج ہے ۔ پھر امام حسن مجتبی علیہ السلام نے ترکتک لصلاح الامہ کے عنوان سے اسلامی معاشرے کے اقدار کی حفاظت کی اور پھر امام حسین علیہ السلام نے کربلا میں ہیہات من لزلہ کی علم بلند کرکے قرآن اور سنت کا عملی دفاع کرکے قربة الی اللہ حاصل کرنے کی نیت سے انجام پانے والی عمل کو سدا بہار اور لا زوال ہونے کا ثبوت پیش کیا کہ کلمة اللہ ہی العلیا(توبہ40) پر گامزن ہونے والا اپنے مقصد کو حاصل کرنے میں جیتے گا تو کامیاب ہے اور اگر ہارے گا تو بھی کامیاب ہے ۔

اسطرح ولایت کا سلسلہ جاری رہا، بارہویں حجت کا دور آیا، غیبت کبری کا سلسلہ شروع ہوا اور ختم ہو کر غیبت کبری کا دور آیا جس میں ولایت عامہ کا عہدہ مجتہد جامع الشرایط پر عائدہوئی اور 1979 میں ولایت خاصہ کا نیا باب ولایت فقیہ کے عنوان سے کھل گیااور اسی ولایت کوتھامنے والے ایرانی قوم ہیں جنہوں نے فقیہ عادل کی حکومت میں زندگی بسر کرکے دین دنیا کی بھلائی کا مفہوم ہم پر واضح کردیا۔

ولایت فقیہ کی برکات سے آج تیس سالہ جدوجہد کے بعد ایران میں ہر مہینے ایک ہزار ایجادات عمل میں آتے ہیں اور زمین کے مدار میں بھی اپنی کامیابی کا دریچہ کھول دیا ہے۔ ہمیشہ مسلمان نوجوانوں کے لئے یہ بات سوال بر انگیز ہوا کرتی کہ اگر اسلام ایک جامع مذہب ہے تو پھر انسان کی آسایش کا ہر آلہ کیوں کر غیر مسلمانوں کے ہاتھوں سے ایجاد ہوا ہے ۔ جبکہ حقیقت یہ ہے کہ اسلام صرف ایک سالم معاشرے کے لئے ضمانت فراہم کرتا ہے دنیا آباد رکھنے کے ساتھ ابدی زندگی کی مفصل رہنمائی کرکے وہاں کی الہی نعمتوں سے بہرہ مند ہونے کا ذریعہ بتاتا ہے جبکہ کسی اور مذہب کے پاس ایسا دستور العمل موجود نہیں ہے۔ رہا سوال انسان کی ضرورتوں کو پورا کرنے کے لئے غیرمسلمانوں کی بالا دستی اور پیش قدمی کا، وہ اسلامی حکام کی اسلامی تعلیمات سے دوری کی سزا ہے۔

جب ایڈسن نے بجلی ایجاد کی اس نے اللہ کی رسی کو تھام کر قربة الی اللہ کے جذبے سے وہ کام انجام نہیں دیابلکہ ضرورت کو پورا کرنے اور اپنے ذہن میں پوشیدہ سوالوں کا جواب کھوجنے سے حاصل کیا اور اسے دنیا میں بھی اسکا بھر پور اعزاز حاصل ہوا اور یہی حال دوسرے غیر موحد سائنس دانوں کا ہے ۔ جس کسی نے جس کے لئے کام انجام دیا وہ اس کی طرف سے اس کا اعزاز بھی دریافت کرتا رہتا ہے ۔ کسی کا کام ضایع نہیں ہوگا جو دنیا کے لئے کام کرے گا اسے دنیا میں اسکا اعزاز ملے گا اور جو آخرت کے لئے کام کرے گا اسے آخرت میں جزا ملے گا اور جو دونوں دنیا اور آخرت کے لئے کام کرے گا اسے دونوں کا اعزاز حاصل ہوگا ۔اللہ نے بھی اپنے پیارے بندوں کے طرف سے اللہ کی بارگاہ میں دست بہ دعا ہوتے وقت استعمال میں لانے والے الفاظوں کو قرآن میں ذکر کیا ہے کہربنا آتنا فی الدنیا حسنہ و فی الآخرة حسنة )(بقرہ201)اے پالنے والے ہمیں دنیا اور آخرت میں نیکی عطافرما۔دین اور دنیا کونیکی کے ساتھ حاصل کرنے کے لئے دین اور دنیا کے استاد سے سیکھنے سے حاصل ہوتا ہے ۔ایسا صرف پیغمبر آخر الزمان صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی ھدایت و رھبری سے ہی ممکن ہے ۔

آنحضرت نے اپنے بعد قرآن اور اھل بیت سے متمسک رہنے کی سفارش کی ہے ۔ امام خمینی (رح)نے اسی اصول کی روشنی میں اپنے قوم کو ہی نہیں بلکہ تمام مسلمانوں کو سرفراز کیااور آج مذکورہ اصول کی برکات کئ اعتبار سے دیکھنے کو ملتی ہیں ۔

رھبر معظم انقلاب اسلامی حضرت آیت اللہ العظمی سید علی خامنہ ای مدظلہ العالی ایرانی قوم اور انقلاب اسلامی کی یوں تعبیر فرماتے ہے ہیں : (مردم ایران عاشق قرآن ہستند وانقلاب اسلامی راہ را برای پیوستن جوانان و نوجوانان بہ کاروان عاشقان قرآن کریم گشودہ است و امروز ، روح قرآنی حاکم پر کشور است و جاذبہ قرآن کریم ، جوانان و نواجوانان را مجذوب محافل قرآنی کردہ است ۔ ایران اسلامی متکی بہ معارف قرآن است و نظام اسلامی در تلاش است کہ معارف قرآنی در سطح عموم مردم گسترش یابد؛ زیرا در این صورت ایران اسلامی شکست ناپذیر خواھد بود ۔)(ایرانی عوام قرآن کے عاشق ہیں اور اسلامی انقلاب نے جوانوں اور نوجوانوں کےلئے راستہ کھولا ہے اور آج ملک پر قرآنی روح حاکم ہے اور قرآن کریم کے جاذبے نے جوانوں اور نوجوانوں کو اپنی طرف مجذوب کیا ہوا ہے ۔ اسلامی ایران قرآنی معارف پر متکی ہے اور اسلامی نظام کوشش کررہا ہے کہ قرآنی معارف کو عمومی سطح تک پھیلائے ؛ کیونکہ اس سے اسلامی ایران شکست ناپذیر بن جائے گا )۔ان الفاظ سے بھی بخوبی اسلامی ایران کی سیاست اور مقاصد کا شفاف عندیہ ملتا ہے ۔ کیونکہ یہ اسلامی ایران کے حاکم کا بیان ہے کسی مبلغ کا تبلیغی بیان نہیں ہے ۔

اسلامی انقلاب کے حامیوں کے بارے میں بھی خود انہیں کا بیان ہے کہ(حامیان اصلی انقلاب اسلامی طبقہ محرومند کہ باید مورد توجہ خاص برای خدمت قرار بگیرند، بہ دو دلیل: اولا ، چون احتیاجات شان بیشتر است و عد این را اقتضا می کند و ثانیا چون آنھا پشتیبانی شان از نظام جدی تر و ہمیشگی تر استو از اول این جور بودہ است ۔ توی جبھہ ہا چہ کسانی بودند؟ نسبت ہا را ملاحظہ کنید، خیلی از این پولدارہا از این مرفہین جامعہ ،از این بی دردہا و بی احساس ہا، ہشت سال چنگ آمد ورفت و این ہا جنگ را حس نکردند۔ ھمان غذا ، ھمان راحتی ، ھمان آرامش؛ و چھار روز ھم اگر شھر مورد تھاجمی بود، سوار ماشین شان می شدند و می رفتند یک جای دیگر و راحت استراحت می کردند و نھمیدند بر سر این مملکت چہ گذشت)(انقلاب اسلامی کے اصلی حمایتی بچھڑا طبقہ ہے جن کی خدمت کا خاص خیال رکھا جائے ، اسکی دو وجوہات ہیں ایک یہ کہ ان کی ضروریات زیادہ ہیں اور عدل کا تقاضابھی ہے ،دوسری یہ کہ یہ لوگ ہمیشہ سے اس حکومت کے زیادہ حامی اور زیادہ طرفدار رہیں ہیں ۔ محاذ پر کون زیادہ تھے؟موازنہ کریں ۔ معاشرے کے ان بہت سارے امیروں اور آرام و آسایش کی زندگی کرنے والوں ، ان بے دردوں اور بے احساس لوگوں کو دیکھیں ، آٹھ سالہ جنگ آیا اور گیاانہوں نے جنگ محسوس نہیں کیا۔ وہی کھانا وہی آرام وہی آسایش؛ اگر شھر میں چار دن حملہ ہوتا تواپنی گاڑیوں میں سوار ہوکے وہاں سے چلے جاتے اور آرام کرتے اور اس ملک پر کیا کیا بیتی اس کے بارے میں نہیں جانتے ہیں )۔ انقلاب اسلامی کے رھبر کی اس فرمایش کواس لئے یہا ں پر بیان کیا تاکہ ہمیں بھی ایران اور دیگر اسلامی ممالک کے درمیان فرق نظر آئے ۔

دنیا کے ہر گوشے میں رہ رہا صرف بچھڑا طبقہ انصاف کا طلبگار نظر آتا ہے اور منصفانہ آواز کو زیادہ تر یہی بچھڑا طبقہ لبیک کہتا ہے اور اسے اپنے دل کی بات تصور کرتا ہے اور جو حکومت اس بچھڑے طبقے کی اہمیت اور افادیت کو سمجھتا ہے وہ کامیاب رہتا ہے اور جو استبکار کے مال ومتال پر نظر رکھ کر حرکت کرتاہے وہ آخر کار پریشان اور پشیمان رہ جاجاتا ہے ۔

یہاں تین ممالک کی ذکر مٹالی طور پر بیان کرنا چاہوں گا کہ جنہوں نے اپنے عوام کی اور خاص کر اپنے بچھڑے طبقے کی اہمیت اورافادیت کو نہ سمجھا اور نہ ہی ان کی طرف کوئی توجہ کی بلکہ مغربی آقاؤں کے اشاروں پر ناچتے رہے جس کا نتیجہ کسی سے چھپا نہیں ہے ۔

اسلامی ایران کو اگر پاکستان ، مصر اور ترکی جو کہ خود بھی مسلمان ممالک ہیں اور تینوں ممالک کی آبادی بھی کسی حد تک ایک جیسی ہے ان کی طرف نظر دوڑائیں کہ پچھلے دو دہائیوں کے دوران کس نے کیا کچھ حاصل کیاجبکہ نہ جنگ سے دوچار تھے نہ ان پر اقتصادی پابندیاں عائد تھی۔ جبکہ ایران پر آٹھ سالہ جنگ تھوپی گئ اور اقتصادی پابندیاں بھی عائد ہیں اورجس سے مذکورہ ممالک نے بھر پور فائدہ بھی حاصل کیا ہے لیکن اس کے باوجود تینوں ممالک مغرب کے سامنے ہاتھ پھیلائے بیٹھے ہیں ۔

اسلامی انقلاب کے بعد جب ایران، فوجی معاہدے سنٹو سے خارج ہوااور مغربی منفعت کے بجائے ان کے لئے چلینج بن کر ابھر کے سامنے آیا ۔ امریکی اور مغربیوں نے اس خلا کو پورا کرنے کے لئے پاکستان اور ترکی کو بہت زیادہ اقتصادی اور فوجی مدد کی۔(سیامک، کاکایی، نقش ترکی در منطقہ خاورمیانہ پس از جنگ سرد) ۔ اسی طرح جب ایران اور عراق کے درمیان جنگ جاری تھی خلیج فارس تجاری راستوں کے لئے ناامن بن چکا تھا اور ترکی، دو ممالک کے لئے ٹرانزٹ بن گیا اور عربوں ڈالروں کا مفافع کمایا ۔

مصر کو صلح کا داعی کہہ کر اسرائیل کے ساتھ سازش کرنے اور اسلامی انقلاب کو روکنے کی پاداش میں امریکہ اور مغربی ممالک کی طرف سے سیاسی اور اقتصادی طور پر توجہ کا مرکز بنا رہا ۔

پاکستان کا بھی حال مصر اور ترکی کا جسیا رہا ہے۔اس کے باوجود کہ پاکستان ، مصر اور ترکی نے پچھلے دو دہایوں میں طرح طرح کے اقتصادی پیکیج دریافت کئے اور علاقے میں سیاسی بحران کا اقتصادی منافع بھی بخوبی وصول کیا لیکن پھربھی تینوں ملک اقتصادی اور معاشی بحران کے دلدل میں گرے پڑے ہیں۔

ترکی نے گذشتہ دو دہایوں میں سب سے زیادہ اقتصادی منافع کمایا اس کے باوجود اس پر 90ارب ڈالر کا قرضہ ہے اس کے برخلاف ایران ہر قسم کی خسارت سے دوچارہونے کے باوجود صرف 12ارب ڈالر کا مقروض ہے ۔(ھرایرد دکمیجیان ، جنبشھای اسلامی در جہان عرب، کیہان)۔

مصر بھی بہت زیادہ مقروض ہے جبکہ 1990 میں خلیج فارس میں تیل کی جنگ کی خاطر عراق پر امریکی چڑھائی میں امریکہ کی حمایت کے پاداش میں اربوں ڈالر کا قرضہ معاف کیا گیالیکن اس کے باوجود مصر روز بہ روز زیادہ محتاج نظر آتا ہے۔

اس طرح جب اسلامی ایران اور دیگر اسلامی ممالک کی طرف نظر دوڑائیں کوئی ایک اپنی کمزوریوں کو بیان کرتا نظر نہیں آتا، تاکہ اس کے اصلاح کے لئے اقدامات اٹھاتے وہ اس لئے کی وہ اپنی حکومت داری میں معنوی پہلوں سے چشم پوشی کرتے ہیں ۔اسلامی انقلاب نے ابتداءسے ہی صنعتی اور اقتصادی میدانوں میں وسعت اور بنیادی مسائل کی طرف خاص خیال اور دیہاتوں کی حالات میں بہتری، امکانات کا عادلانہ تقسیم، صنعتی اور اقتصادی کاموں میں خود مختار خلاقیت کا مصمم ارادہ کیا ہے ۔ بین الاقوامی دباو ، اقتصادی پابندیاں ، آٹھ سالہ تحمیلی جنگ اور کئی مسائل کے ساتھ نبرد آزما ہونے کے باوجودہر شعبے میں حیرت انگیز ترقی کی ہے پھر بھی خود ایرانی حکام اعتراف کرتے ہیں کہ بعض غلط مدیریت کی وجہ سے ان مقاصد کو حاصل کرنے میں ناکام رہے ہیں ۔ کیونکہ حکام اپنے آپ کو نہ صرف لوگوں کے سامنے جواب دہ ہونے کا عقیدہ رکھتے ہیں بلکہ اپنے دین کے سامنے بھی اپنے آپ کو جواب دہ تسلیم کرتے ہیں ، یہی وجہ ہے کہ مشکل ترین دور میں بھی سرخ رو ہو کر باہر نکلتے ہیں ۔

جس کی بنیادی وجہ یہ ہے کہ وہ اپنے انقلاب کو اسلامی اور اسلامی طرز عمل کے عملی تعبیر کو امام حسین علیہ السلام کی قیادت میں کربلا کی معرکہ آرائی سے تعبیر کرتے ہیں جہاں کلمة اللہ ھی العلیا کی تفسیر ملتی ہے ۔کربلا میں بھی فوجی محاصرہ ہوا ، سات محرم کو ناکہ بندی ہوئی ، پانی بند ہوا اور دس محرم کو ہر قسم کا حربہ آزمایا گیا لیکن مٹھی بر حسینی مجاہدوں نے نہ فوجی محاصرے کی پرواہ کی، نہ طرح طرح کی پابندیوں سے زیر ہوئے بلکہ اللہ کی رسی کو تھامے رہے اور رہتی دنیا تک مظلوموں کی امید بن کر زندہ رہے ۔

آج اقتصادی پابندی کی بات کرکے کمزور ممالک کو زیر کیا جاتا ہے لیکن کربلا کو سرمشق بنانے والے اقتصادی پابندیوں کا مقابلہ کرنے کے لئے چھے ماہ کے بچے کی طرف دیکھتے ہیں، موجودہ دور میں جب استکبار اقتصادی پابندیوں کا حربہ استعمال کرتا ہے لیکن زندہ رہنے کے ذرایع کو اس سے مستثنا کردیتے ہیں لیکن کربلا میں چھے مہینے شیرخوار پر ایک بوند پانی کے لئے شہید کیا گیااور امام حسین علیہ السلام نے اس شیرخوار کا خون اپنے چہرے پر ملنا پسند کیا لیکن کلمة اللہ ھی العلیا پر آنچ نہ آنے دی ۔

ایران کی کامیابی کا راز بھی یہی ہے اللہ کی بارگاہ میں جھکنے والا سر غیر اللہ کے سامنے نہ جھک جائے ۔

ایران تو ایک عظیم تاریخی اور سٹرٹیجکل ملک ہے لیکن ایک مٹھی بھر جماعت حذب اللہ نے ایران کی کامیابی کے معنوی پہلو کی طرف توجہ کرکے اسے اپنے لئے سرمشق قرار دیااور چھے دن میں چار عرب ملکوں کو شکست دینے والے اسرائیل کو ۳۳ دنوں میں گھٹنے ٹیکنے پر مجبور کردیا اور جب معلوم ہوا کہ اسلامی تعلیمات کے معنوی پہلوں پر یقین کامل رکھنے سے کسی کو بھی کامیابی نصیب ہوتی ہے تو حماس نے ۲۲ دن میں اسرائیل کے ساتھ ساتھ امریکہ کے بھی دانت کھٹے کئے ۔

معلوم ہوتا ہے شیعہ سنی کے عنوان سے کامیابی حاصل نہیں ہوتی بلکہ حسینی کردار سے کامیابی حاصل ہوتی ہے ۔ عالم اسلام کے مسلمان نہ ایران کی کامیابی کو ایرانیوں کی کامیابی سے تعبیر کرتے ہیں نہ حذب اللہ کی کامیابی کو لبنانیو ں کی کامیابی سے تعبیر کرتے اور نہ ہی حماس کی کامیابی کو فلسطین کی کامیابی تصور کرتے ہیں بلکہ اسلام اور مسلمین کی سربلندی سے تعبیر کیا جاتا ہے جس سے معلوم ہوتا ہے کہ مسلمان ایک ہیں متحد ہیں البتہ اسلامی حکام متحد اور ایک نہیں ہیں۔

اسلامی ممالک کے سارے حکام تب تک ایک نہیں ہوں گے جب تک نہ انہیں کلمة اللہ ھی العلیا پر یقین کامل حاصل ہو ۔ جس طرح پاکستان ، مصر اور ترکی کی مثال سامنے رکھی کہ امریکہ اور یورپ کے سہارے جینے میں عافیت سمجھتے ہیں تو معلوم ہوتا کہ دن بہ دن ذلت میں ڈوب جاتے ہیں ۔جبکہ استکبار عالم کی طرف سے انقلاب اسلامی ، حذب اللہ اور حماس کو ذلیل اور بے سہارا کرنے کی ہر ممکن کوشش کی جاتی ہے لیکن وہ دن بہ دن طاقت ور ہوتے جاتے ہیں ۔ کیونکہ وعدہ الہی ہے کہ حرکت کرو برکت دوں گا ۔إِنَّ اللّهَ لاَ یُغَیِّرُ مَا بِقَوْمٍ حَتَّى یُغَیِّرُواْ مَا بِأَنْفُسِهِمْ {رعد/11}

اے اللہ اسلامی انقلاب کی تیسویں سالگرہ، حذب اللہ اور حماس کی کامیابی کے صدقے میں ہم سب کو نماز میں السلام علینا کا مفہوم سمجھنے اور اسے دنیا پر ظاہر کرنے کی توفیق عنایت فرما اور گیارہ فروری کو جسے یوم اللہ کا نام دیا گیا ہے دنیا کے مظلوموں کو ایسا ہی یوم اللہ نصیب فرما آمین یا رب العالمین ۔

عبدالحسین کشمیری

تبصرے (۰)
ابھی کوئی تبصرہ درج نہیں ہوا ہے

اپنا تبصرہ ارسال کریں

ارسال نظر آزاد است، اما اگر قبلا در بیان ثبت نام کرده اید می توانید ابتدا وارد شوید.
شما میتوانید از این تگهای html استفاده کنید:
<b> یا <strong>، <em> یا <i>، <u>، <strike> یا <s>، <sup>، <sub>، <blockquote>، <code>، <pre>، <hr>، <br>، <p>، <a href="" title="">، <span style="">، <div align="">
تجدید کد امنیتی