سایت شخصی ابوفاطمہ موسوی عبدالحسینی

جستجو

ممتاز عناوین

بایگانی

پربازديدها

تازہ ترین تبصرے

۰

شہادت امام حسن عسکری علیہ السلام

 اردو مقالات اھلبیت ع حضرت حسن عسکری علیہ السلام ربیع الاول

باسمہ تعالی

آٹھ ربیع الاول امام حسن عسکری علیہ السلام کی شہادت کے مناسبت سے عرض تسلیت اور آغاز امامت ختم ولایت کے مناسبت سے تبریک و تہنیت عرض ہے ۔

آسمان امامت و لایت کے گیارویں ستارے اور تیرہویں معصوم حضرت امام حسن عسکری علیہ السلام کی ولادت ،دوسو بتیس ہجری کو مدینہ منورہ میں ہوئی اور آٹھ ربیع الاول دو سو ساٹھ ہجری کو سامرہ میں درجہ شہادت پر فائز ہوئے ۔

امام حسن عسکری علیہ السلام دوسوچپن ہجری کو منصب امامت پر فائز ہوئے ۔امام کی بابرکت عمر شریف قریب انتیس برس کی رہی جنہیں تین حصوں میں تقسیم کیا جاتا ہے۔پہلا حصہ مدینہ منورہ میں گذرا تیرہ سالہ دور اور دوسرا سامرا میں امامت سے پہلے کا دس سالہ دور اور تیسرا حصہ امامت کے چھے سالہ دورہم یہاں پر صرف امامت کے آخری ایام کا مختصر خاکہ قارئین کے نذر کرتے ہیں ۔حضرت امام حسن عسکری علیہ السلام کواپنے چھے سالہ دورامامت کے تین سال قید میں گذارنے پڑے ہیں اوراس دوران بنی عباسی خلیفوں نے امام پر ظلم روا رکھنے کا ہرحربہ آزمایا ہے۔ گیارہویں امام کا دور اگرچہ اھلبیت علیہم السلام کے چاہنے والوں کے لئے نہایت کٹھن تھالیکن بارہویں امام حضرت مھدی عجل اللہ تعالی فرجہ الشریف کی غیبت کا بھی مقدمہ تھا ۔ امام حسن عسکری علیہ السلام کے چھے سالہ دور امامت میں آنحضرت کے شاگردوں کو امام سے دور رکھا گیالیکن اس میں بھی ایک حکمت پوشیدہ رہی ہے۔ ابوعلی احمد بن اسحاق اشعری کا قم میں رہنا اور ابو اسماعیل نوبختی کابغداد میں(۱رہنا نیابت کا پیش خمیہ رہا ہے۔ اس طرح پیروان ولایت کا حجت خدا امام کے ساتھ براہ راست ربطہ میں رہنے کے بجائے ان کے نواب کے ذریعے سے رہنمائی صاصل کرنے کا سلسلہ بھی شروع ہوا ہے۔ بارہویں امام کی غیبت صغرا کے وقت نواب خاص کا عنوان باب بن گیا اور اور غیبت کبری کے بعد نیابت عامہ کا سلسلہ شروع ہوا جو کہ امام کے ظہور تک جاری رہے گا۔

گیارہویں امام کے دور امامت میں قرآنی تعلیمات اور نشر احکام الہی کی تشہیر کے ساتھ ساتھ کلامی مناظرات میں بھی تجدید پیدا ہوئی اور شیعہ معاشرے میں فلسفہ اور علم کلام کے یعقوب بن اسحاق کندی جسے عالم پیدا ہوئے ۔عرب کا عظیم فلسفی یعقوب بن اسحاق کندی ،ابونصر فارابی کے شاگرد تھے اورامام حسن عسکری علیہ السلام کے ساتھ مناظرہ کرنے سے ان کے شاگردی کا شرف حاصل کیا اور قرآن کے رد میں جو کتاب لکھی تھی اسے جلایا اور امام کے دوستوں اور شیعوں کے صف میں شامل ہوا ۔

امام حسن عسکری علیہ السلام ہمیشہ سے فرعونیا ن زمان کی طرف سے زیر نظر رہے، کیونکہ روایات کے رو سے حضرت رسول خدا صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی فرمایش رہی ہے کہ نرگس خاتون کے بطن سے امام حسن عسکری علیہ السلام کا بیٹا ہوگا جس کا لقب مھدی آخر الزمان ہوگا اور وہ رسول خدا صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کا ہمنام ہوگا اور دنیا میں ظلم و جور کا خاتمہ کرکے عدل و انصاف قائم کرے گا۔ اس لئے طاغوتی قوتیں اس جستجو میں رہتے تھے کہ امام حسن عسکری علیہ السلام کے ہاں اگر بیٹا پیدا ہوتا ہے تو اسے نابود کردیں گے ۔حق تو یہ ہے کہ نمرود اور فرعون کی کہانی تازہ ہوئی تھی جو حضرت ابراہیم علیہ السلام اور حضرت موسی علیہ السلام کو نابود کرنا چاہتے تھے ۔ لیکن جس کی حفاظت کرنے والا خود خدا ہو تو اسے کون مار سکتاہے۔آخر وہ حجت خدا امام مھدی عجل اللہ تعالی فرجہ الشریف دوسوپچپن ہجری میں پیدا ہوئے اور امام حسن عسکری علیہ السلام نے اپنے خواص (جن کی تعداد چالیس بتائی گئ ہے) کو دکھایا اور اپنے بعد لوگوں کا امام اور حجت خدامتعارف کرایا اور یہ بھی کہا کہ آج کے بعد آپ لوگ اس کو نہیں دیکھ سکو گے اس لئے ان کے نائب عثمان بن سعیدکی اطاعت کریں(۲)

امام حسن عسکری علیہ السلام کی شہادت کے بارے میں مورخین نے لکھا ہے کہ خلیفہ معتمد عباسی نے امام کے کھانے میں زہر ملا کر ا نہیں مسموم کیا تھا اور پھر لوگوں گمراہ کرنے کے لئے امام کے لئے حکیموں اور طبیبوں کا اہتمام کیا تھاتا کہ لوگوں کو یہ بتاسکے کہ امام بیماری کی حالت میں وفات پاگئے ہیں اور انہیں شہید نہیں کیا گیا ہے۔ امام حسن عسکری علیہ السلام کے بعد ان کے جانشین کے بارے میں دوست و دشمن کوتلاش تھی۔ دشمن نے کوشش کی تھی کہ امام حسن عسکری علیہ السلام کافرزند امام مھدی عجل اللہ تعالی فرجہ الشریف پیدا ہونے کے ساتھ ہی قتل کئے جائیں اور عشاق ولایت ان کے دیدار کے منتظر تھے ۔ اس سلسلے میں امام حسن عسکری علیہ السلام کے خادم ابوالادیان کا بیان ہے کہ میں امام کا خادم تھا اور میرا کام امام کے خطوط کو مختلف جگہوں تک پہچاناتھا۔ امام نے اپنے حیات مبارکہ کے آخری ایام میں مجھے طلب کیا اور چند خطوط میرے حوالے کئے اور کہا کہ انہیں مدائین پہچادو۔ اس کے بعد امام نے کہا پندرہ دن بعد تم جب سامرا لوٹو گے گریہ و زاری کی صدائیں سنو گے اس وقت مجھے غسل دیتے ہونگے۔ ابوالادیان نے امام سے سوال کیا آپ کے بعد آپ کاجانشین کون ہوگا؟امام نے جواب دیا:جو تم سے میرے خطوط کا جواب دریافت کرے گا۔ ابوالادیان کا کہنا ہے کہ میں نے پھر امام سے پوچھا: کوئی اور علامت بتائیں ۔ امام نے جواب دیا :جو میرا نماز جنازہ پڑے گا۔ابوالادیان پھر سوال کرتا ہے :اس کے علاوہ کوئی اور علامت بتائیں ؟امام نے کہا: جو تمہیں بتائے کہ کس تھیلے میں کس کی امانت ہے وہ تیرا امام ہے ۔ابوالادیان کہتا ہے کہ میں نے اس سے زیادہ سوال کرنے کی جرئت نہ کی اور خطوط لے کر وہاں سے خارج ہوا اور جب پندرہ روز بعد میں واپس لوٹا اور سامرا میں صف ماتم بچھا دیکھااور جب امام کے گھرمیں داخل ہوا تو دیکھا وہاں تو امام حسن عسکری علیہ السلام کا بھائی جعفر کذاب بیٹھا ہے اور لوگ اس کو تعزیت و تسلیت کہتے ہوئے ان کی امامت پر ان کو مبارکبادی دیتے ہیں ۔ ابوالادیان چونکہ امام کے فضائل سے واقف تھا کہ امام حجت خدا ہوتا ہے اور جعفر کو بھی جانتا تھا اور اسے منصب امامت کے لایق تسلیم کرنے میں مردد تھاکہ اس الہی منصب پر فائز ہونے والے کا امتیاز صرف خاندانی امتیاز نہیں ہو سکتاہے اس طرح ابوالادیان جعفر کذاب پر نظریں جمائے حالات کا مشاھدہ کررہا ہے ۔ آگے بڑا اور جعفر کذاب کو تسلیت و تہنیت کہا لیکن نہ اس نے جواب دیا نہ ہی کوئی سوال کیا ۔ چونکہ بدن مطہر امام کو نماز جنازہ کے لئے تیار کیا گیا تھا ایک خادم جعفر کذاب کے پاس آیا اور کہا اپنے بھائی کا جنازہ پڑھیں ۔ ابوالادیان کا بیان ہے کہ جب جعفر کذاب امام حسن عسکری علیہ السلام کا نماز جنازہ پڑھنے آگے بڑا تو گندمی رنگ کا ایک خوبصورت پچہ آیا اور جعفر کذاب سے مخاطب ہوکر کہا:چچا میں نماز پڑھنے کا حق رکھتا ہوںآپ پیچھے چلے جائیں ۔ جعفر کذاب کا رنگ پھیکا پڑھ گیا۔ پیچھے چلا گیا اور اس بچے نے نماز جنازہ پڑھائی اور پھر امام حسن عسکری علیہ السلام کو امام علی النقی علیہ السلام کے پہلو میں دفن کیا گیا۔ ابوالادیان کا کہنا ہے کہ اس کے بعد آنحضرت مجھ سے مخاطب ہوئے اورفرمایا خطوط کے جواب جو تیرے پاس ہیں وہ میرے حوالہ کریں ۔ میں نے خطوط کو ان کے حوالہ کیا ۔ اس بیچ حاجزوشا نے جعفر سے پوچھا یہ بچا کون ہے ، تو جعفر نے کہا : خدا کی قسم میں تو اسے نہیں جانتا ، میں نے اسے کبھی نہیں دیکھا۔ اس دوران قم سے کچھ شیعہ حضرات آ پہنجے اور جب انہیں امام کے وفات کے بارے میں کہا اور جعفر کی طرف رہنمائی کی ، وہ لوگ جعفر کے پاس گئے اور کہا ہمارے پاس کچھ خطوط ہیں اور کچھ پیسے ہیں بتائیں خط کس کس کا ہے اور پیسے کتنے ہیں اور کس کے ہیں ؟جعفر نے کہا دیکھیں لوگ مجھ سے غیب پوچھتے ہیں !اس پر صاحب امر کی طرف سے خادم آیا اور امام کی طرف سے ان تک پیغام پہچایا کہ امام نے کہا: اے قم کے لوگوآپ کے پاس فلاں ، فلاں شخص کا خط ہے اور پیسوں کا ایک تھیلہ ہے جس میں ہزار اشرفیاں ہیں جن میں دس اشرفیوں پر سونے کی گلٹ ہے ۔قم کے شیعوں نے کہا جس نے تمہیں بھیجا ہے وہ امام زماں ہیں یہ خطوط اور تھیلہ ان کے سپرد کریں ۔اس طرح ہمارے امام زماں روحی لہ الفداءکی امامت کا آغاز دوسوساٹھ ہجری سے ہوا ہے آنحضرت پانچ سال کے تھے جب امامت کے منصب پر فائز ہوئے ہیں ۔ اہل تشیع پہلی محرم سے آٹھ ربیع الاول تک عزاداری کے ایام کے طور پر مناتے ہیں اور نو ربیع الاول کو،یعنی امام زماں عجل اللہ تعالی فرجہ الشریف کی امامت اور ختم ولایت کے آغازکا دن کہ جسے عید زہرا سلام اللہ علیہا کے نام سے یاد کیا جاتا ہے کے طور پر مناتے ہیں اس طرح عشاق رسالت و ولایت خوشیاں منانے کاآغاز کرتے ہیں ۔

عید زہرا کے حوالے سے پڑھنے والوں کی خدمت میں ہدیہ تبریک عرض کرتا ہوں ۔ اللہ کی بارگاہ میں دست بہ دعا ہیں کہ ہمیں امام زماں عجل اللہ تعالی فرجہ الشریف کے اعوان و انصار میں محشور فرمائیں ۔آمین

عبدالحسین کشمیری

‏منگل‏، 03‏ مارچ‏، 2009

تبصرے (۰)
ابھی کوئی تبصرہ درج نہیں ہوا ہے

اپنا تبصرہ ارسال کریں

ارسال نظر آزاد است، اما اگر قبلا در بیان ثبت نام کرده اید می توانید ابتدا وارد شوید.
شما میتوانید از این تگهای html استفاده کنید:
<b> یا <strong>، <em> یا <i>، <u>، <strike> یا <s>، <sup>، <sub>، <blockquote>، <code>، <pre>، <hr>، <br>، <p>، <a href="" title="">، <span style="">، <div align="">
تجدید کد امنیتی