سایت شخصی ابوفاطمہ موسوی عبدالحسینی

جستجو

ممتاز عناوین

بایگانی

پربازديدها

تازہ ترین تبصرے

۰

صدر احمدی نژاد کا اقوام متحدہ میں بیان مسلمانیت یا منافقت !

 اردو مقالات انقلاب اسلامی ایران

صدر احمدی نژاد کا اقوام متحدہ میں بیان مسلمانیت یا منافقت !

باسمہ تعالی

اقوام متحدہ کی جنرل اسمبلی کے سالانہ اجلاس کے 64ویں اجلاس میں مسلمان قائدین میں سے جنہوں نے ابھی تک تقریریں کی ہیں اور انصافا ہر ایک قائد نے مھم اور حقیقت پر مبنی عناوین کا تذکرہ ضرور کیا جسے پورے دنیا کا میڈیا بلافاصلہ منعکس کررہا ہے۔ ان میں سے لیڈرانہ بیان سے بالاتر جس قائد کا بیان تبصرہ نہیں بلکہ ظالموں پر محاصرہ تھا۔ ظالموں کا تذکرہ کے ساتھ مظلوموں کا مرثیہ تھا ، عنوان نہیں بلکہ مظلومیت کا طوفان تھا ۔ مسلمان کے کرداری خد و خال کا عکس تھا ، وہ کردار اور رفتار کا غازی اور عالم اسلام کا قابل فخر سیاست داں جناب ڈاکٹر محمود احمدی نژاد (حفظ اللہ) تھے جنہوں نے چھے نقاط بر مبنی اپنی تقریر میں خداپرست اور خدا ترس مسلمانوں کا سر اونچا کیا ، لیکن افسوس کہ پرنٹ میڈیا کے اکثر اخبارات نے ان باتوں کو مھم نہیں سمجھا جنہیں صدر جمھور صاحب نے اپنے بیان کے پہلے نقطے میں مخصوص طور پر بیان کیا جس سے نہ صرف مسلمانوں بلکہ ھر انصاف پسند انسان کو اپنے انسان ہونے پر ناز ہوتا ہے۔

کیا مسلمانوں سے وابستہ پرنٹ میڈیا کو اسلامی جمھوریہ ایران کے صدر ڈاکٹر محمود احمدی نژاد کے چھے نقاط پر مبنی بیان میں سے پہلے نقطے میں مندرجہ ذیل جملات جوکہ اسلامی ایران کے لئے نہایت ہی مشکل آفرین ثابت ہو رہے ہیں البتہ عالم اسلام اور عالم انسانیت کی مظلومیت کی تلخ ترین حقیقت ہے کو پرنٹ میڈیا میں مخصوص طور پر نقل کرنے کی جرئت پیدا نہیں ہوئی ہے ۔یا یہ کہ ان مھم نقاط کو غیر ضروری سمجھا ہے اور » اوباما ایران کو دشمن نہیں دوست سمجھیں» کو شہہ سرخی کے طور پر منعکس کیاگیا ۔ میں یہاں پر احمدی نژاد صاحب کے 3224 الفاظوں پر مشتمل بیان میں صرف پہلے نقطے کے ایک پیراگراف کا ترجمہ کرکے قارئین خاص کر ایڈیٹر صاحبان کو دعوت فکر دیتا ہوں کہ اس آئیں اس پر غور کرتے ہیں کہ کیا احمدی نژاد صاحب کی باتیں مسلمانیت ہے یا منافقت ، انسانیت ہے یا حیوانیت ، سچ ہے یا جھوٹ اور اپنے عقیدے اور رائے کے مطابق موقف اختیار کریں۔

صدر جمھور نے اپنے چھے نقاط پر مبنی بیان کے پہلے نقطے میں کہا کہ:

«۔۔۔ کون تصور کرسکتا ہے کہ فلسطین میں غیر انسانی سیاست کو تھوپ کر جاری رکھنا ممکن ہوسکتا ہے ؟

یہ جو ایک قوم کو تمام انسانی قدروں کے خلاف ، ہتھیاروں کے زور پر اور جھوٹے تبلیغات کے ذریعے 60 سال سے زائد عرصے سے اپنے گھروں سے بے گھر کیا جانا، غیر انسانی طریقوں اور میزائلوں اور حتی غیر قانونی ہتھیاروں کے ساتھ ان پر حملے کئے جاتے ہیں اور اس کے مقابلے میں ان سے اپنے حق کا دفاع کرنے کا بھی حق چھینا جاتا ہے اور اس سے بھی عجیب بات یہ کہ دنیا کے حیران کن آنکھوں کے سامنے غارتگروں کو » صلح کے طلبگار» اور » حقدار» اور ستم کی چکی میں پسنے والوں کو «دھشتگرد» کہا جاتا ہے۔

ایسا کیسے ممکن ہو رہا ہے کہ کچھ غارتگر بے دفاع بچوں ، عورتوں، اور ان کے گھر و بار ، مدرسوں اور شفاخانوں پر تاپڑ توڑ حملے کرتے ہیں وہ کسی بھی قید و شرط کے بغیر کچھ حکومتوں کی مکمل حمایت میں رھتے ہیں اور مظلوم مرد اور عورتیں اپنے گھر اور وطن کا دفاع کرنے پر سخت ترین محاصرے میں رکھے جا رہے ہیں اور ان پر غذائی ، پانی اور دائیوں کی پابندیاں عاید کرکے ان کی نسل کشی کی جاتی ہے۔ یہاں تک کہ ان کے رھنے کی جگہیں جو کہ صھیونیوں کے 22 دنوں کے وحشی حملوں سے تباہ ہوچکے ہیں تعمیر کرنے نہیں دیا جاتا ہے، وہ بھی سردیوں کے موسم میں! ، انہیں اپنے سر چھپانے کی جگہ تعمیر کرنے سے روکا جاتا ہے ۔ اور ان پر غارت گری کرتے وقت خود غارت گر اور انکے حامی حقوق انسانی کے تحفظ کی صدائیں بلند کرتے ہیں اور دوسروں کو اس بھانے سے مشکلات میں گھیر دیتے ہیں ۔ یہ سب اب برداشت نہیں کیا جاسکتا ہے کہ ایک معمولی سی اقلیت کے ایک پیچیدہ نیٹورک اور غیر انسانی منصوبوں کو دنیا کے مھمترین حصوں کے اقتصاد،سیاست اور فرھنگ پر حاکم کیا جائے، غلامی کی نئ طرز عمل کو چلایا جائے اور اقوام کی پوری حیثیت کو حتی امریکی اور یورپی اقوام کو اپنی نسل پرستی کے جذبے کے نذر کیا جائے ۔

ایسا قابل قبول نہیں کہ کچھ لوگ ھزاروں کلومیٹر دور سے آئیں اور مشرق وسطی میں  فوجی مداخلت کریں اور قتل و خون ، جنگ ، دھشتگردی ، دھمکی اور غارتگری کو ساتھ لائیں لیکن جب علاقے کے لوگ اپنے مستقبل اور اپنی ملی امنیت کے بارے میں بے انصافیوں اور حرمت شکنی کے خلاف فریاد بلند کرتے ہیں اور اپنے مظلوم ھم وطن اور ھم دین لوگوں کی حمایت کرتے ہیں تو انہیں صلح کے دشمن اور دوسروں کے کاموں میں دخل دینے کا نام دیا جاتا ہے۔

عراق اور افغانستان کے حالات کو دیکھئے ۔ اب تو دھشتگردی کے خلاف جنگ ، ڈرگس کے خلاف جنگ کے نام پر ملکوں پر فوجی حکومتیں قائم کی جاتی ہیں لیکن ڈرگس کا بازار کئ گنہ بڑ جاتا ہے  اور دھشتگردی کا دائرہ کئ گنہ بڑ جاتا ہے اور ھزاروں بے گناہ لوگ مارے جاتے ہیں ، زخمی اور آوارہ ہو جاتے ہیں ۔ بنیادی انفراسٹرکچر کو تباہ و برباد کیا جاتا ہے  ، علاقے کی سلامتی خطرے میں پڑ جائے اور ایسے مھلک جنگ کے اصلی کارندے مسلسل دوسروں پر الزام تراشیاں کرتے رہتے ہیں ۔ اقوام کے ساتھ دوستی اور ھمدمی کے نام پر دنیا بھر میں حتی لاتینی امریکا تک فوجی چھاونیوں کا جال بچھایا جاتا ہے ۔ ایسے حالات چلنے والے نہیں ہیں ۔ اب توسعہ طلبی اور ضد انسانی سیاست کو فوجی منطق کے ساتھ آگے نہیں لیا جاسکتا ہے۔ دھونس دباو کے منطق کا انجام بہت برا ہوتا ہے اور موجودہ مشکلات میں اضافہ کرتا ہے ۔

ایسا قابل قبول نہیں ہے کہ کچھ ملکوں کا فوجی خرچہ باقی دنیا بھر کے ملکوں کے فوجی خرچے سے کئ گنہ زیادہ ہے، ھر سال سیکنڑوں بلین ڈالر کا فوجی ساز و سامان صادر کیا جاتا ہے ۔ کیمکل ہتھیار ، بیولژیکل اور اٹیمی ہتھیار کے گودام رکھے جاتے ہیں، دنیا بھر کے مختلف جگہوں پر فوجی چھاونیاں اور فوج رکھی جاتی ہے اور ایسے میں دوسروں کو فوجی کاروائیاں کرنے کا الزام عاید کیا جاتا ہے اور عالمی سطح کے امکانات کا غلط استعمال کرکے اور ہھتیاروں کی دوڑ روکنے کا جھوٹا نعرہ دے کر تمام ملکوں کی علمی ترقیوں کی روکا جاتا ہے۔

ایسا قابل قبول نہیں کہ اقوام متحدہ اور سلامتی کونسل کہ جسے ھر قوم اور ملک کا نمایندہ ہونا چاہئے اور انکے فیصلے عوامی اور جمھوریت کے بنیادوں پر ہونا چاہئے ، کچھ ملکوں کی ایجارداری اور انکی منفعت کی خدمتگذاری کے لئے ہو ۔ اصولی طور جس دنیا میں فکر ، فرھنگ اور عمومی افکار تعیین کرنے کے عامل ہوں وہاں ایسے حالات کا جاری رھنا ناممکن ہے اور بنیادی تبدیلی ایک غیر قابل اجتناب ضرورت ہے ۔ ہم دنیا بھر میں ایک نئے نظام کی امید رکھتے ہیں ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ «

خال خال کسی اخبار نے ان نقاط نقل کرنے کی ضرورت محسوس کی ہے ۔ فلسطین کا مسئلہ اب صرف عالم اسلام کا مسئلہ نہیں ہے ، یہ انصاف کی کسوٹی کا مسئلہ ہے ۔ اخباروں سے وابستہ اھل قلم حضرات ہر وقت سچائی کو سامنے کی کوشش کرتے رہتے ہیں اور جن لیڈروں کے قول و فعل میں تضاد پایا جاتا ہو انکی خاصی خبر لی جاتی ہے اس بیچ اگر کوئی لیڈر قول و فعل میں سچا ہے تو اس کے بارے میں ٹیڑی آنکھ کیوں ۔

ماہ مبارک رمضان کے آخری جمعہ کہ جسے 7، اگست 1979 میں امام خمینی (قدس سرہ) نے روز قدس منانے کی اپیل کی تھی اور الحمدللہ آج ایک عالمی تحریک میں تبدیل ہو چکی ہے لیکن اس بارے میں بھی جو مسلمانوں سے وابستہ اخبارات سے توقعات کی جانی چاہئے تھی قابل تحسین نہ تھی ۔ روز قدس کی مناسبت سے فلسطین کے حالات کو بیان کرنے کے لئے مایوس کن مضامین سامنے آئے ۔ جب اھل قلم حضرات انصاف سے آنکھیں چرانا چاہیں گے تو جن کے ہاتھوں پر بھی تالے اور زبان پر بھی تالے چڑے ہیں ان سے کیا امید کی جا سکتی ہے ۔

کسی لیڈر نے کوئی جذباتی بیان دیا اسے دیوانہ وار منعکس کرنے میں ہمارے اکثر اخبارات  پیش پیش نظر آتے ہیں جبکہ کچھ دن بعد اسی لیڈر سے اس بیان کے بارے میں پوچھا جائے اس کو خود کو بھی معلوم نہیں ہوتا ہے کہ اس نے ایسا کیا کچھ کہا تھا ، لیکن اس کے برعکس جو قول و فعل سے حق گوئی کا حق ادا کرتا ہے اس کے نسبت قومی ، لیسانی ، سیاسی ، یا کوئی اور تعصب کا عینک لگا کے دیکھتا ہے ۔

اے اللہ ہم سب کو سچ سمجھنے سچ بولنے اور اسکے ضد کے خلاف ضد پر رہنے کی توفیق عنایت فرما۔ ظلم اور ظالم کو نابود فرما ، منجی عالم بشریت کے ظہور میں تعجیل فرما۔ (آمین یا رب العالمین)

آغا عبدالحسین کشمیری

‏جمعرات‏، 24‏ ستمبر‏، 2009

 

تبصرے (۰)
ابھی کوئی تبصرہ درج نہیں ہوا ہے

اپنا تبصرہ ارسال کریں

ارسال نظر آزاد است، اما اگر قبلا در بیان ثبت نام کرده اید می توانید ابتدا وارد شوید.
شما میتوانید از این تگهای html استفاده کنید:
<b> یا <strong>، <em> یا <i>، <u>، <strike> یا <s>، <sup>، <sub>، <blockquote>، <code>، <pre>، <hr>، <br>، <p>، <a href="" title="">، <span style="">، <div align="">
تجدید کد امنیتی