سایت شخصی ابوفاطمہ موسوی عبدالحسینی

جستجو

ممتاز عناوین

بایگانی

پربازديدها

تازہ ترین تبصرے

۰

اقوام متحدہ میں احمدی نژاد کی تقریر

 اردو مقالات انقلاب اسلامی ایران

اقوام متحدہ میں احمدی نژاد کی تقریر

اقوام متحدہ کی جنرل اسمبلی کے سالانہ اجلاس کے 64ویں اجلاس میں 23 ستمبر 2009 کو اسلامی جمھوریہ ایران کے صدر ڈاکٹر محمود احمدی نژاد کے تقریر کا ترجمہ:


بسم الله الرحمن الرحیم

الحمدلله رب العالمین و الصلوه و السلام علی سیدنا و نبینا محمد و آله الطاهرین و صحبه المنتجبین

اللهم عجل لولیک الفرج و العافیه و النصر و اجعلنا من خیر انصاره و اعوانه و المستشهدین بین یدیه

گذشتہ چھار سالوں سے دنیا کے سامنے موجود بنیادی چالشوں ، انکے بنیادی علل و عوامل اور مقتدر لوگوں کے فکر اور عمل پر نظر ثانی کرنے کے بارے میں اور اسی طرح نئے ضرورتوں کے بارے میں آپ سے گفتگو کر چکا ہوں ۔

دو مدمقابل حرکتیں:

دو مد مقابل حرکتیں ہیں، جن میں ایک اپنی مادی منفعت کو دوسروں تر ترجیح دے رہا ہے ، نا برابر توسیع اور ستم ، غریبی اور مفلسی ، انسانوں کی تحقیر ، غارتگری اور جارحیت اور دوکھہ دھی سے ، دنیا پر تسلط جمانے کا ارادہ رکھتے ہیں اور اپنے ارادوں کو اقوام عالم پر تحمیل کرنے کے درپے ہیں اور نتیجے کے طور پر انسانیت کے سامنے نا امیدی اور تاریکی کو ترسیم کرتے ہیں ۔اسکے مقابلے میں ایک اور حرکت جو ایک خدا پر ایمان رکھتے ہیں اور انبیاء الھی کے تعلیمات کی پیروی کرتے ہیں ، انسان کی کرامت کا احترام کرتے ہیں اور بشریت کے عاشق ہیں، سلامتی سے لبریز دنیا چاہتے ہیں ،ھر ایک کے لئے انصاف اور معنویت پر مبنی آزادی ، پایدار امن اور آسایش کے لئے کوشاں ہیں۔ ایک ایسی حرکت جو ھر ایک انسان ، ھر ایک قوم کے ارزشمند علاقائی ، قومی اور انسانی فرھنگ اور ثقافتوں کے احترام کے قائل ہیں ۔ دنیا میں نا برابری کا خاتمہ چاہتے ہیں اور امکانات کا استفادہ کرنے، علم سیکھنے ، انسانی کمال اور ترقی کے خاطر انصاف پر مبنی قانون کے سامنے مساوات چاہتے ہیں اور پر امید مستقبل ترسیم کرتے ہیں ۔ دنیا اور انسان کو دیکھنے کے زاویہ نگاہ کو بنیادی طور بدلنے کی ضرورت اور انصاف پر مبنی نظامات قائم کرنے اور تابناک مستقبل بنانے کے لئے نئے انسانوں کی ضرورت کے بارے میں بات کر چکا ہوں ۔

دوستو اور ساتھیو؛

آج میں ، تغیر و تحول کہ جن کا وجود میں آنا لازمی ہے کو جاری رکھتے ہوئے چند نکات عرض کرتا ہوں۔

پہلا نکتہ:

دوہرا معیار اور دوغلی پالسی کے خاتمے کی ضرورت:

بہت روشن ہے کہ دنیا پر موجودہ صورت حال کو جاری رکھنا ممکن نہیں ہے ۔ اس وقت کے نامطلوب اور ایکطرفہ شرایط،انسانی فطرت کے خلاف ہیں اور خلقت جھان اور انسان کے مقصد خلاف ہے۔

اب جھوٹی کاغذی آمدنی بنانے سے، اربوں ڈالروں کی غیر حقیقی ثروت کی رقم کو عالمی اقتصاد میں ڈال کر اور بجٹوں میں زبر دست کمی کرنے سے ؛ اقتصادی اور اجتماعی بحران اور مشکلات کو دوسروں میں منتقل کرنے اور دوسروں کی ثروت کو کچھ خاص حکومتوں کے اقتصاد میں منتقل کرنے سے کام نہیں چلے گا ۔

سرمایہ داری اقتصاد کی گاڑی، غیر منصفانہ تنظیمات کی وجہ سے ختم اور بیکار ہو چکی ہے اور یہ ایکطرفہ معیار اب زیادہ دیر چل نہیں سکتا ہے ۔

بی عاطفہ سرمایہ داری افکار اور سلیقہ، اور ایک خاص جماعت کی برتری کو دنیا پر تحمیل کرنے کا دور ، دنیا کے تعمیر نو کے نام پر دنیا پر غلبہ پانا اور امپراطوری کا زمانہ ختم ہو چکا ہے ۔ اقوام کی تحقیر اور دوغلی اور کئ معیار والی سیاست کو تھوپنے کا زمانہ گزر گیا ہے ۔

یہ جو کچھ حکومتوں کے نتایج دلخواہ ہونے کا معیار صرف نام کی آزادی اور جمھوریت قرار دیتے ہیں اور آزادی کے نام پر دوکھوکہ دھی کی منفور ترین حربے اور دھونس دباو کے ساتھ جمھوریت کا ڈھونگ رچاتے ہیں اور ڈیکٹیٹروں کو جمھوری کہتے ہیں،یہ سب بہت برے اور مشروعیت سے خالی حرکتیں ہیں  ۔ اب وہ زمانہ گذر گیا کہ کچھ لوگ صرف اور صرف اپنے آپ کو ہی جمھوریت اور آزادی کا مصداق قرار دیں اور اس کا معیار صرف خود بنکے رہ جائیں ، جبکہ خود ہی اسکی خلاف ورزی کرنے والے ہیں ، خاص حالات میں خود ہی وکیل اور خود ہی قاضی بن جاتے ہیں اور عوام پر منحصر  اور حقیقی جمھوریت والی حکومتوں کے خلاف جنگ کرتے ہیں ۔ عالمگیر آزادی اور اقوام کی بیداری اب اس ناصواب شراب کی اجازت نہیں دیں گے ۔ اسی وجہ سے اکثر عوام از جملہ امریکی عوام وسیع اور عمیق تبدیلی کے منتظر ہیں اور تبدیلی کی بات کا استقبال کیا ہے اور کرتے ہیں۔

کون تصور کرسکتا ہے کہ فلسطین میں غیر انسانی سیاست کو تھوپ کر جاری رکھنا ممکن ہوسکتا ہے ؟

یہ جو ایک قوم کو تمام انسانی قدروں کے خلاف ، ہتھیاروں کے زور پر اور جھوٹے تبلیغات کے ذریعے 60 سال سے زائد عرصے سے اپنے گھروں سے بے گھر کیا جانا، غیر انسانی طریقوں اور میزائلوں اور حتی غیر قانونی ہتھیاروں کے ساتھ ان پر حملے کئے جاتے ہیں اور اس کے مقابلے میں ان سے اپنے حق کا دفاع کرنے کا بھی حق چھینا جاتا ہے اور اس سے بھی عجیب بات یہ کہ دنیا کے حیران کن آنکھوں کے سامنے غارتگروں کو » صلح کے طلبگار» اور » حقدار» اور ستم کی چکی میں پسنے والوں کو «دھشتگرد» کہا جاتا ہے۔

ایسا کیسے ممکن ہو رہا ہے کہ کچھ غارتگر بے دفاع بچوں ، عورتوں، اور ان کے گھر و بار ، مدرسوں اور شفاخانوں پر تاپڑ توڑ حملے کرتے ہیں وہ کسی بھی قید و شرط کے بغیر کچھ حکومتوں کی مکمل حمایت میں رھتے ہیں اور مظلوم مرد اور عورتیں اپنے گھر اور وطن کا دفاع کرنے پر سخت ترین محاصرے میں رکھے جا رہے ہیں اور ان پر غذائی ، پانی اور دائیوں کی پابندیاں عاید کرکے ان کی نسل کشی کی جاتی ہے۔ یہاں تک کہ ان کے رھنے کی جگہیں جو کہ صھیونیوں کے 22 دنوں کے وحشی حملوں سے تباہ ہوچکے ہیں تعمیر کرنے سے روکا جاتا ہے، وہ بھی سردیوں کے موسم میں! ، انہیں اپنے سر چھپانے کی جگہ تعمیر کرنے سے روکا جاتا ہے ۔ اور ان پر غارت گری کرتے وقت خود غارت گر اور انکے حامی حقوق انسانی کے تحفظ کی صدائیں بلند کرتے ہیں اور دوسروں کو اس بہانے سے مشکلات میں گھیر دیتے ہیں ۔ یہ سب اب برداشت نہیں کیا جاسکتا ہے کہ ایک معمولی سی اقلیت کے ایک پیچیدہ نیٹورک اور غیر انسانی منصوبوں کو دنیا کے مھمترین حصوں کے اقتصاد،سیاست اور فرھنگ پر حاکم کیا جائے، غلامی کی نئ طرز عمل کو چلایا جائے اور اقوام کی پوری حیثیت کو حتی امریکی اور یورپی اقوام کو بھی خود غرض نسل پرستی کے جذبے کے نذر کیا جائے ۔

ایسا قابل قبول نہیں کہ کچھ لوگ ھزاروں کلومیٹر دور سے آئیں اور مشرق وسطی میں  فوجی مداخلت کریں اور قتل و خون ، جنگ ، دھشتگردی ، دھمکی اور غارتگری کو ساتھ لائیں لیکن جب علاقے کے لوگ اپنے مستقبل اور اپنی ملی امنیت کے بارے میں بے انصافیوں اور حرمت شکنی کے خلاف فریاد بلند کرتے ہیں اور اپنے مظلوم ھم وطن اور ھم دین لوگوں کی حمایت کرتے ہیں تو انہیں صلح کے دشمن اور دوسروں کے کاموں میں دخالت کرنے کا نام دیا جاتا ہے۔

عراق اور افغانستان کے حالات کو دیکھئے ۔ اب تو دھشتگردی کے خلاف جنگ ، ڈرگس کے خلاف جنگ کے نام پر ملکوں پر فوجی حکومتیں قائم کی جاتی ہیں لیکن ڈرگس کا بازار کئ گنہ بڑ جاتا ہے  اور دھشتگردی کا دائرہ کئ گنہ بڑ جاتا ہے اور ھزاروں بے گناہ لوگ مارے جاتے ہیں ، زخمی اور آوارہ ہو جاتے ہیں ۔ بنیادی انفراسٹرکچر کو تباہ و برباد کیا جاتا ہے  ، علاقے کی سلامتی خطرے میں پڑ جائے اور ایسے مہلک جنگ کے اصلی کارندے مسلسل دوسروں پر الزام تراشیاں کرتے رہتے ہیں ۔ اقوام کے ساتھ دوستی اور ھمدمی کے نام پر دنیا بھر میں حتی لاتینی امریکا تک فوجی چھاونیوں کا جال بچھایا جاتا ہے ۔ ایسے حالات چلنے والے نہیں ہیں ۔ اب توسعہ طلبی اور ضد انسانی سیاست کو فوجی منطق کے ساتھ آگے نہیں لیا جاسکتا ہے۔ دھونس دباو کے منطق کا انجام بہت برا ہوتا ہے اور موجودہ مشکلات میں اضافہ کرتا ہے ۔

ایسا قابل قبول نہیں ہے کہ کچھ ملکوں کا فوجی خرچہ باقی دنیا بھر کے ملکوں کے فوجی خرچے سے کئ گنہ زیادہ ہے، ھر سال سیکنڑوں بلین ڈالر کا فوجی ساز و سامان صادر کیا جاتا ہے ۔ کیمکل ہتھیار ، بیولژیکل اور اٹیمی ہتھیار کے گودام رکھے جاتے ہیں، دنیا بھر کے مختلف جگہوں پر فوجی چھاونیاں اور فوج رکھی جاتی ہے اور ایسے میں دوسروں کو فوجی کاروائیاں کرنے کا الزام عاید کیا جاتا ہے اور عالمی سطح کے امکانات کا غلط استعمال کرکے اور ہھتیاروں کی دوڑ روکنے کا جھوٹا نعرہ دے کر تمام ملکوں کی علمی ترقیوں کی روکا جاتا ہے۔

دوسرا نکتہ؛

طریقہ کار اور طرز عمل میں بنیادی تبدیلی کی ضرورت:

طریقہ کار اور طرز عمل میں بنیادی طور نظری تبدیلیوں کے ساتھ ساتھ عملی تبدیلیاں لانا ضروری ہے ۔ ایسا ممکن نہیں ہے کہ جس طرز عمل سے دنیا بھر میں انسانوں کے لئے مشکلات پیدا کئے ہوں ان سے دنیا میں دلخواہ تبدیلیاں لائی جائیں ۔ لبرلزم کا نظریہ اور سرمایہ داری کی ایجارہ داری انسان کو اخلاق اور آسمان سے جدا کرتے ہیں ، نہ یہ کہ سعادت نہیں لاتی ہیں بلکہ بدبختیوں ، جنگوں ، فقیری اور محرومیت کا عامل اور محرک ہے ۔

سب شاھد ھیں کہ کس طرح ایک طرفہ اقتصاد کو سیاسی جھتگیری سے اقوام کے منافع کو چند بد اخلاق سرمایہ داروں کے قدموں میں رکھ کر برباد کردیا ہے ۔ ایسے منصوبے حالات کی اصلاح نہیں کر سکتے ہیں ۔

دوسرے علمی جنگ کے بعد سیاسی اور اقتصادی منصوبے جو کہ دنیا پر حکومت کے جذبے سے بنائے گئے ہیں عدالت اور مستحکم سلامتی کا قیام عمل میں نہیں لا سکتے ہیں ۔ ایسے حکام جن کا دل انسانوں کے لئے نہیں تڑپتا ہے اور اپنے اندر عدل و انصاف کے مادے کو قربان کر چکے وہ ھرگز انسانوں کے لئے امن و سلامتی کا تحفہ نہیں لا سکتے ہیں ۔ خدا کے فضل سے جس طرح مارکسیزم تاریخ کا حصہ بن کر رہ گیا ، توسعہ طلب سرمایہ داری بھی تاریخ کا حصہ بن کر رہے گا کیونکہ سنت الھی کے تحت کہ قرآن کریم اسے ایک اصول کے طور پر یاد کرتا ہے ۔ باطل پانی کے بلبلے کے مانند ختم ہونے والا ھے اور جو کچھ انسانی معاشرے کے لئے مفید ہے وہ ھمیشہ کے لئے باقی رھے گا ۔

سب کو ھوشیار رھنا چاہئے کہ استعماری مقاصد ، تبعیض آلود اور غیر انسانی مقاصد کا صرف نام بدلنے اور نئی بستہ بندیوں کے ساتھ قبول نہیں کیا جائے گا ۔ دنیا کو بنیادی تبدیلیوں کی ضرورت ہے اور سب کو اس کی مددکے لئ آگے آنا چاہئے اور تعاون دینا چاہئے تا کہ یہ تبدیلیاں صحیح راستے میں اور صحیح طریقے کے ساتھ انجام پائیں اور اس کے ذیل میں کوئی بھی حکومت ان تبدیلیوں میں مستثنی اور دوسروں سے بڑا نہیں کیا جانا چاہئے اور دنیا کی ھدایت اور رھبری کا دعوی کے سایہ تلے اپنے آپ کو دوسروں پر تحمیل کرنے کے فراق میں رہنا نہیں چلے گا۔

تیسرا نکتہ؛

الھی انبیاء کی تعلیمات سے دوری دنیا میں مشکلات کا سبب:

دنیا کے مشکلات کا رمز و راز کچھ حکام کا اخلاق ، انسانی اقدار ، اور انبیاء الھی کی تعلیمات سے دوری کی وجہ سے پیدا ہوئے ہیں ۔ افسوس کہ بہت سارے عالمی اصول اور معیار الٹ پھیر ہوئے ہیں ، دوسروں کی نجات اور سعادت کے لئے فداکاری کرنا، انصاف اور انسانی فضیلت پر پافشاری کرنا تبدیل کی گئ ہیں اور خود غرضی ، زیادہ طلبی ، سیری ناپذیر اور بے انتہا انفرادی لذتجوئی میں تبدیل ہو چکی ہے ۔ ایک خدا کی پرستش کے مقام کو خود خواھی میں تبدیل کیا گیا ہے ۔ کچھ نے تو اپنے آپ کو خدا کی جگہ بٹھایا ہے اور انسانی صلاحیت حاصل کئے بغیر چاہتے ہیں اپنے افکار اور خواھش کو دنیا پر مسلط کریں ۔ جھوٹ کو سچ کی جگہ بٹھایا ہے ، دوغلے پن کو صداقت کی جگہ پر رکھا ہے ، خود غرضی کو فداکاری کی جگہ پر بٹھایا گیا ہے ۔ تعاملات میں دھوکہ دھی کو درایت اور سیاستمداری کا نام دیا گیا ہے اور دوسروں کی ثروت کو ھڑپ کرنا وسیع مقاصد کا نام دیا گیا ہے ۔ اقوام کی زمینوں کو زیر نگین کرنے کو آزادی کا تحفہ اور جمھوریت کا قیام کہا جاتا ہے اور بے دفاع اقوام کو سرکوب کرنا حقوق بشر کا تحفظ کو رائج کرنا کہا جاتا ہے ۔

دوستو اور ساتھیو؛

دنیا کے مشکلات کا حل اور امن و سلامتی صرف عمومی ارادے اور سارے اقوام اور حکومتوں کے ایک ساتھ چلے بغیر ممکن نہیں ہے۔ کچھ گنے چنے حکومتوں کے نظام سلطہ سے حاصل ہونے والی قطب بندی سے دنیا پر مسلط ہونے کا زمانہ ختم ہو چکا ہے ۔

آج ہمیں چاہئے کہ ایک اجتماعی تعہد کے ساتھ ، موجودہ حالات کے خلاف قیام کریں ، تبدلیوں کی ضرورت کو سجیدہ لیں اور ایک مشارکت اور عمومی مجاھدت کے ساتھ کوشش کرنے کا عھد کریں تاکہ سبھی اخلاقی، انسانی اور فطری اقدار کی طرف لوٹ آئیں ۔ الھی انبیاء اور صلحاء آئے تاکہ انسانی حقیقت اور انسان کی انفرادی اور اجتماعی زمہ داریوں کو انکے برابر میں لا کھڑا کریں۔ پاکیزگی ، ایک خدا پر مخلصانہ ایمان اور آخرت کے حساب و کتاب اور دونوں جھانوں میں عدالت قائم ہونے ، حقیقی سعادت کو دوسروں کی سعادت میں تلاش کرنے میں ، آرام آسایش کو دوسروں کے آرام و آسایش میں ، انسانوں کا احترام اور کینہ ورزی اور خود خواھی کے بدلے مھر و محبت کو عام کرنے کی کوشش اور دوسروں پر مسلط ہونے کے بجائے ان کی خدمت کرنے کو رواج دینا ، یہ سب الھی انبیاء ،آدم سے لیکر نوح تک ، اور نوح سے لیکر ابراھیم تک اور موسی اور عیسی اور رسول خاتم حضرت محمد صلوات اللہ و سلامہ علیھم کی سر فھرست تعلیمات میں سے ہیں ۔ وہ سب آئے کہ ایسا کریں کہ جس سے جنگ نہ ہو ، تبعیض نہ ہو اور غربت کو جڑ سے اکھاڑ پھینکیں ، جھالت کو نابود کریں اور خوشبختی کو تمام انسانوں اور تمام جوامع پر حاکم کریں ۔ وہ انسانیت کے لئے بھتریں الھی تحفہ ہیں ۔

اگر خوبیوں کی حاکمیت کا نظریہ اور صالح حکومت ، عمومی تفکر میں تبدیل ہو جائے اور ایک دوسرے کے ہاتھ میں ہاتھ دے کر، دنیا کی سعادت کے لئے کوشش کریں ، اس وقت حقیقی، اور روز افزون اصلاح کی امید کی جا سکتی ہے ۔

چوتھا نکتہ؛

اقوام متحدہ کی طرف سے فوری اقدامات اٹھانے کی ضرورت:

میرا ماننا ہے کچھ مہم دستور کار ہمارے سامنے ہیں اور سکریٹری جنرل اور اقوام متحدہ کا جنرل کونسل ان کی بنیادی تقاضوں کی بنیاد پر ضروری اقدامات انجام دے کر برنامہ ریزی کریں اور اس راستے میں پیشگام بن جائیں؛

1۔         اقوام متحدہ کے ڈھانچے کے اصلاح اور اسکو ایک مکمل عوامی ادارہ ، بیطرف ، آزاد ، عادل عالمی معیار کے لئے موثر ، سلامتی کونسل کے ڈھانچے کی اصلاح ، تبعیض آلود خصوصیتوں کا خاتمہ ،آزادانہ رائے شماری کے ذریعے فلسطینی عوام کو مکمل حقوق کی فوری اعطایی اور فلسطین کے مسلمانوں ، عیسائیوں اور یھودیوں کی بھائی چارے کے ساتھ زندگی گذارنے کے اسباب کی فراھمی اور عراق ، افغانستان ، وسطی ایشیا ، افریقا کے لوگوں ، لاتینی امریکا ایشیا اور یورپ کے معاملات میں دخالت ختم۔

میرے دوستو، کفر( خدای واحد کا انکار) سے حکومت باقی رہ سکتی ہے لیکن ظلم کے ساتھ کبھی بھی نہیں؛ یہ الھی پیغمبر حضرت محمد(ص) کا قول ہے ۔ ظلم اور انسانی حقوق کی پامالی، فلسطینی عوام جوکہ بیت المقدس کے رہنے والے ہیں انہیں آوارہ کرنے کا سلسلہ اور قدس کے غاصبوں کی طرف سے گھروں کی ویرانی اور افغانستان اور پاکستان میں ہوائی بمباریاں اور گوانتامو کے جیل میں جو کہ متاسفانہ ابھی تک بند نہیں ہوا ہے اور یورپ میں مخفی جیلوں کا سلسلہ ابھی تک جاری ہیں ان کا خاتمہ نہایت ضروری ہے ۔

موجودہ صورتحال کدورتوں اور خشونتوں کو تازہ کرنے کا سبب بن رہا ہے ، ظلم اور تجاوز کو روکنا ہوگا۔افسوس کا مقام ہے کہ غزہ پٹی میں صھیونی کاروایوں کو رسمی گزارشوں میں مکمل طور نشر نہیں کیا گیا ہے ۔ محترم سیکٹری جنرل اور اقوام متحدہ کے کاندھوں پر اس حوالے سے سنگین زمہ واریاں عاید ہیں جنہیں نبھانا ہوگا ۔ اقوام عالم بے صبری کے ساتھ غزہ پر حملہ آورں اور وہاں کے بے دفاع لوگوں کے قاتلوں کی عادلانہ سزا ملنے کے منتظر ہیں ۔

2۔         اقتصادی ڈھانچے کی اصلاح اور دنیا میں اخلاقی اور انسانی معیار کے اقتصاد کا قیام جوکہ حقیقی عدالت پر مبنی انسانوں کے کمال کی خدمت میں رہے ۔ایسا اقتصادی معیار جو اقوام کے استعداد اور قابلیت کو جلا بخشے اور سبھوں کیلئے آسایش کا تحفہ فراھم کرسکے اور آیندہ نسلوں کی زندگی کی ضمانت فراھم کرے ۔

3۔         بین الاقوامی سیاسی معیار کی اصلاح،روابط کو صلح اور دوستی کے بنیاد پر قائم کرنا ، ویران کن تسلیحاتی اور سیاسی مقابلوں کی بیخ کنی ، اٹمی ،کیمیایی اور بیلوژیک ہتھیاروں کا خاتمہ، اور بشریت کی ترقی کے لئے صلح آمیز اور پیشرفتہ ٹیکنولژی کو سبھوں کے لئے قابل استفادہ بنانے کے لئے میدان سازی۔

4۔         ثقافتی ڈھانچے کی اصلاح، اقوام کے علاقائی آداب و رسوم کا احترام ، اخلاق اور معنویت کی ترویج اور خوشحال گھرانوں کی بنیادوں کو سعادتمند ، پایدار اور خوشبخت معاشرے کے عنوان سے ریڑ کی ھڑی کے طور پرتقویت پہچانے کی حکمت عملی کا انتخاب۔

5۔         انسانی ماحولیاتی نظام کے تحفظ کا عمومی اہتمام اور ماحول کے تجدید ناپذیر خزانوں کو تباہ ہونے سے روکنے کے سلسے میں عالمی ضوابط اور قوانین کی پابندی کا وسیع اہتمام۔

پانچواں نکتہ؛

عالمی عدل اور سلامتی کے نفاذ کے لئے ایران کی رضاکارانہ خدمات کی پیش کش:

اب جبکہ ایرانی قوم نے نہایت ہی شاندار اور مکمل آزاد انتخابات پیچھے چھوڑے ہیں، اور عالمی معیار کے لئے قومی نکھار کا نیا باب کھولا ہے اور بھاری اکثریت کے ساتھ میرے کاندھوں پر مسئولیت کا سنگین بوج ڈالا ہے ، اعلان کرتا ہوں کہ عظیم قوم اور تمدن ساز اور اسلامی جمھوری ایران کا نظام، دنیا کے سب سے زیادہ عوامی مترقی حکومتوں میں سے ایک  ہونے کے اعتبار سے اپنی تمام ثقافتی، سیاسی اور اقتصادی توانائیوں کو انسانی مشکلات کو حل کرنے کی راہوں میں ایک اجتماعی منصفانہ اور احترام آمیز برنامہ جو کہ انسانی پریشانیوں اور مشکلات کو دور کرنے کے لئے ہوں کے لئے فعال اور موثرخدمات انجام دینے کے لئے تیار ہے ۔ایران کی فرھنگ ساز قوم دھشت گردی کا سب بڑا شکار رہا ہے اور تیس سالہ انقلاب کے پہلے دہائی میں وسیع ترین فوجی حملے جھیل چکا ہے جسے نہایت ہی مظلومانہ انداز سے دور کیا ہے۔ ہماری قوم ہمیشہ سے ان لوگوں کی طرف سے بغض اور کینے کا شکار رہی ہے جوایک دن صدام کو ایران کی سرزمین پر حملے کرنے کی بھر پور حمایت کرتے تھے اور صدام کی طرف سے کیمیایی ہھتیار استعمال کرنے کی حمایت کرتے تھے اور دوسرے دن اسی صدام کے شر سے خلاص ہونے کے لئے عراق پر لشکر کشی کی ہے ۔

یہ قوم ابھی بھی ہر ایک انسان اور قوم کے لئے شفقت بھرے دنیا کو قائم کرنے کی تمنا رکھتا ہے اور اعلان کرتا ہے کہ جس طرح قدرتمند طریقے سے اپنے مشروع اور جائز حقوق کا دفاع کرتا آیا ہے اسی طرح ہر ایک قوم کے لئے عدالت ، معنویت اور انسانی کرامت پر مبنی امن و سلامتی کے طرفدار ہیں۔

ہماری قوم ان مقاصد کو پورا کرنے کے لئے تیار ہیں ، جو ہاتھ صداقت کے لئے اٹھتے ہیں ہم ان کا والہانہ استقبال کرتے  ہیں۔ کوئی بھی قوم ترقی کی راہ طےکرنے کے لئے تغیر و تبدیل اور اصلاح کرنے سےبے نیاز نہیں ہے؛ ہم بھی حقیقی اور انسانی تغیر و تبدیل کا استقبال کرتے ہیں اور عالمی تبدیلیوں کے لئے فعال کردار نبھانے کے لئے تیار ہیں۔

ان ہی بنیادوں پر تاکید کرتے ہیں کہ:

نجات کا اکیلا ذریعہ توحید اور عدالت کی طرف لوٹنے میں ہے اور یہ ہر زمانے میں نسلوں کے لئے سب سے بڑی امید اور فرصت ہے۔ ‍ خدا پر ایمان اور عدالت قائم کرنے پر تعہد کے بغیر اور بے انصافی اور تبغیض کے خلاف مقابلہ کئے بغیر عالمی نظام قائم نہیں ہو سکتا ہے۔

انسان ، نظام ھستی کا محور ہے ۔انسان کے ممتاز ہونے کی وجہ اسکی انسانیت ہے، وہی حقیقت اور امتیاز جو انصاف ، پاکیزگی ، علم دوستی اور دوسرے تمام کمالات کا طالب ہے ۔ ان انسانی امتیازی قدروں کی حمایت ہونی چاہئے اور انہیں حاصل کرنے کے لئے ہر انسان کو حاصل کرنے کی مہلت فراہم کی جانی چاہئے۔ اس میں کسی ایک کو الگ کرنا یعنی اسکے کسی ایک انسانی حصے کو الگ کرنا ہے ۔ یہ مشترک عناصر ہیں جو کہ انسانی معاشرے کو ایکدوسرے سے جوڑتے ہیں اور امن و سلامتی اور دوستی کی بنیادوں کو وجود میں لاتے ہیں۔

الھی ادیان نے انسان کی زندگی کے ہر پہلو از جملہ خدا پرستی ، اخلاق ، عدالت اور ظلم کے خلاف جنگ ، عادل اور صالح حکومتوں کے قیام کی کوشش کی ہے ۔ توحید کے منادی حضرت ابراھیم ، نمرود کے مقابلے میں کھڑے ہوئے ، حضرت موسی ، فرعون کے مقابلے میں کھڑے ہوئے، حضرت عیسی اور حضرت محمد صلوات اللہ علیہم اپنے زمانے کے ظالموں کے خلاف کھڑے ہوئے یہاں تک کہ انہیں مارنے کی دھمکیاں دی گئیں، انہیں جلاء وطن کیا گیا۔ کھڑے ہوئے اور اعتراض کئے بغیر دنیا میں ظلم کا خاتمہ نہیں ہو سکتا ہے۔

آخری نکتہ؛

مھدی(عج) آئیں گے آئیں ان کی آمد کی تیاریاں کریں:

عزیز دوستو اور ساتھیو؛

دنیا تغیر و تحول کے دھانے پر ہے ۔بشریت کے لئے الھی وعدے کی سرنوشت ، انسانی حیات طیبہ قائم کرنے سے ہے ۔ وہ دن آنے والا ہے جس میں ہر جگہ عدل و انصاف حاکم ہوگا، ہر ایک انسان محترم اور عزیز جانا جائے گا ۔ وہ وقت ہے جب انسان کے معنوی کمال کے راستے کھل جائیں گے اور اسکی خدا کی طرف سیر  کرنے اور اسماء الھی تجلی ہوں جائیں گے ، انسان وہاں پہنچ جائے گا جہاں پر «علم اور حکمت» ، «رحمت اور رافت»، «قسط اور عدالت»،»قدرت اور خلاقیت»، اور «بخشش اور لطف» کا محور خدا ہوگا۔

یہ سب انسان کامل کی حاکمیت کے سایے ، آخری خدائی ذخیرہ، پیغمبر گرامی اسلام کی نسل میں سے ان کا فرزند یعنی حضرت مھدی(علیہ السلام)سے ہوگا جو ضرور آئیں گے اور حضرت مسیح ابن مریم(علیہم السلام) اور دوسرے صالح انسان انہیں اس عظیم عالمی ماموریت میں ساتھ دیں گے اور کہیں گے کہ یہ وہی انتظار کا نظریہ ہے۔ خوبیوں کی حاکمیت کا انتظار اور صالح حکومت کا انتظار عالمگیر نظریہ اور فطری اور دنیا کی اصلاح کے لئے قوموں کی امیدوں کا سرمایہ ہے۔

وہ آئیں گے اور مومنو اور صالح انسانوں کی مدد سے، آزادی کے تئین بشریت کے آرزو ، کمال ، ترقی ، امن و سکون و سلامتی کو ساتھ لائیں گے ۔ آئیں گے اور جنگ اور غارتگری کا خاتمہ کریں گے اور مکمل علمی کمال اور معنویت اور دوستی کا تحفہ دنیا کو دیں گے ۔

جی ہاں ،بشریت کے لئے تابناک مستقبل آنے والا ہے ۔

دوستو، آئیں اس خوبصورت زمانے کے انتظار میں، اسکے مقدمات فراہم کرنے کے غرض سے ،ایسا مستقبل بنانے کے لئے مناسب حصہ داری کے ساتھ اپنی اپنی زمہ داری سنبھالنے کی زمہ داریاں اٹھانے کے لئے اجتماعی تعہد کرتے ہیں۔ عشق و معنویت زندہ باد، صلح و امنیت زندہ باد، عدالت و آزادی زندہ باد۔

میں آپ سب کا شکریہ ادا کرتا ہوں۔

صدر جمھور اسلامی جمھوریہ ایران

ڈاکٹر محمود احمدی نژاد

مترجم:

عبدالحسین 

تبصرے (۰)
ابھی کوئی تبصرہ درج نہیں ہوا ہے

اپنا تبصرہ ارسال کریں

ارسال نظر آزاد است، اما اگر قبلا در بیان ثبت نام کرده اید می توانید ابتدا وارد شوید.
شما میتوانید از این تگهای html استفاده کنید:
<b> یا <strong>، <em> یا <i>، <u>، <strike> یا <s>، <sup>، <sub>، <blockquote>، <code>، <pre>، <hr>، <br>، <p>، <a href="" title="">، <span style="">، <div align="">
تجدید کد امنیتی