سایت شخصی ابوفاطمہ موسوی عبدالحسینی

جستجو

ممتاز عناوین

بایگانی

پربازديدها

تازہ ترین تبصرے

۰

گیارہ فروری روز کامیابی انقلاب اسلامی وَکَانَ حَقًّا عَلَیْنَا نَصْرُ الْمُؤْمِنِینَ کا پرتو

 اردو مقالات انقلاب اسلامی ایران

بسمہ تعالیٰ

گیارہ فروری  روز کامیابی انقلاب اسلامی  وَکَانَ حَقًّا عَلَیْنَا نَصْرُ الْمُؤْمِنِینَ کا پرتو

ازقلم: عبدالحسین

اسلامی انقلاب کی سالگرہ مبارک ہو

گیارہ فروری ایرانیوں کی خوشی کا دن نہیں ہے بلکہ مسلمانوں کی شادمانی کا دن ہے ،کیونکہ اسلام صرف ایرانیوں کا نہیں ہے بلکہ مسلمانوں کا  ہے،ایران اسلام کا اکلوتا قلعہ ہے ،ایران مسلمانوں کا تاج  اور پہچان ہے ، کیونکہ یہ دنیا کا اکلوتا اسلامی ملک ہے جس  ملک کا آئین قرآن اور سنت  پر مبنی ہے۔ اکلوتا ملک ہے  جس کی سیاست اور دیانت توحیدی ہے ۔ ایک اکلوتا ملک ہے جس کا سربراہ قرآن اور سنت کا عالم مدیر اور مدبر ہے ۔ ایک اکلوتا ملک ہے جس میں نہ صرف تمام اسلامی مسالک  کا مقام و منزلت محفوظ ہے بلکہ  دیگر غیر اسلامی مذاہب کی منزلت اور مقام بھی محفوظ ہے  ، ان میں بعض  مذاہب کہ جنکے عقاید اسلامی تعلیمات کے خلاف ہیں ان کا بھی بھر پور احترام اور ان کے حقوق محفوظ ہیں ۔ایسی سیاست ایرانی نہیں بلکہ اسلامی ہے  اسی لئے ہر انصاف پسند انسان کو اس اسلامی نظام سے محبت اور انس ہے ۔

فروری سال 1979 عیسوی میں رونما ہونے والا اسلامی انقلاب جسے بیسوی صدی کا معجزہ کہا جاتا ہے جس   کے وقوع پذیر  ہونے سے عالمی سیاسی  معیار ہرج  و مرج میں مبتلا ہوگئے اور آج تک  اپنی بقا کی جنگ لڑنے میں مصروف ہیں کیونکہ اس اسلامی انقلاب نے عالمی سیاسی معیار کو یک سر مسترد کرکے الہی منشور کو کامیابی اور کامرانی کا حقیقی راز ہونے کا دعوی کیا اور آج تک عملی طور اسے ثابت کرنے مین  سرخ رو ہوتے جا رہے ہیں اور اسکے مقابلے میں ہر سال استکباری منصوبے ناکام ہوتے نظر آرہے ہیں اور ہر ایک ناکامی کے بعد پہلے ناکامی کو چھپانے کے لئے نیا منصوبہ پیش کرکے پیہم مشکلات سے دچار ہو رہے ہیں اور دوسری طرف  ہر مستضعف طبقے میں ایک نئ جان پیدا ہورہی ہے اور عوامی طاقت کا آفاقی مظاہرہ دنیا کے  سامنے مسلسل آر رہا ہے ۔اس طرح قرآنی بشارت «وَنُرِیدُ أَن نَّمُنَّ عَلَى الَّذِینَ اسْتُضْعِفُوا فِی الْأَرْضِ وَنَجْعَلَهُمْ أَئِمَّةً وَنَجْعَلَهُمُ الْوَارِثِینَ.»( سورهقصصآیه 5) کی تفسیرہوتینظرآرہیہے۔کیوں نہ ہو کیا اللہ نے اپنے اوپر واجب نہیں کیا کہ مومنین کو نصرت عطا کرے گا۔وَلَقَدْ أَرْسَلْنَا مِن قَبْلِکَ رُسُلًا إِلَى قَوْمِهِمْ فَجَاؤُوهُم بِالْبَیِّنَاتِ فَانتَقَمْنَا مِنَ الَّذِینَ أَجْرَمُوا وَکَانَ حَقًّا عَلَیْنَا نَصْرُ الْمُؤْمِنِینَ۔

فروری  1979 نے  غلامی کی زنجیر وں میں جگڑے  مستضعف لوگوں کے حوصلے بلند   کئے  اور تحریک آزادی اور ظلم ستیزی کی صدائیں دنیا بھر کے ہر گوشے کنارے سے نئ آب و تاب کے ساتھ بلند ہونے لگیں  خاص کر فلسطین ، کشمیر  ، لبنان ، افغانستان ، الجزائر ، مصر  وغیرہ میں اس کے نمایاں آثار نظر آنے لگے۔ مستضعفان عالم کے درمیاں بالعموم اور عالم اسلام میں بالخصوص اخوت اور برادری کی لہر دوڑ نے لگی اور یہ اسلامی انقلاب کی سب سے بڑی نعمت مانی جاسکتی ہے کہ جس سے سب سے زیادہ خائف  عالمی استکبار ہے اور وہ مسلسل انصاف پسند لوگوں میں خاص کر مسلمانوں کے درمیاں یکجہتی دیکھنا برداشت نہیں کرتا ہے اور نفاق و تفرقہ قائم رکھنے سے اپنے سیاسی دن گزارنے میں اپنی خیر سمجھتا ہے ۔البتہ فروری 1979 نے عالمی بڑی طاقتوں کو بکھرنے کی گتنی سویت یونین کے بکھرنے سے شروع کی ہے   اور مظلوم قوموں کو آزادی اور اپنے حقوق ملنے کی شروعات ہوئی ہے ۔

یہاں پر پوچھا جا سکتا ہے کہ اس اسلامی انقلاب میں ایسی کیا خوبی موجود ہے کہ اسکے اثرات اسقدر جامع بتائے جاتے ہیں ۔ جی ہاں ایرانی  اسلامی انقلاب کسی دوسرے انقلاب کے ساتھ قابل مقایسہ نہیں ہے ۔ دنیا نے کئ انقلاب دیکھے ہیں لیکن ایک قرآن شناس ، حدیث شناس علوم اسلامی کا ماہر استاد کی قیادت میں وقوع پذیر ہونے والا استثنائی انقلاب ہے ۔صرف اور صرف اسلامی تعلیمات کی روشنی میں پیدا ہونے والا عالم دین کی قیادت میں رونما ہونے والا انقلاب تاریخ اسلام کا ایک نیا باب ہے ۔ایران میں وقوع پذیر ہونے والا اسلامی انقلاب دنیا کے کسی بھی انقلاب کے ساتھ قابل مقایسہ نہیں ہے ۔دنیا نے صنعتی انقلاب دیکھا ۔ روسی انقلاب دیکھا ، فرانسیسی انقلاب دیکھا ۔ چینی انقلاب دیکھا اور کئ قسم کے انقلاب دیکھے لیکن ہر ایک انقلاب نے اپنے ملک یا آس پاس تک اثرات مرتب کئے لیکن  ایران میں رونما ہونے والے انقلاب  سے نہ صرف ملک میں تحول پیدا ہو گیا یا قرب و جوار کے ملکوں پر اثرات مرتب  ہوئےبلکہ پوری دنیا کو تحت الشعاع میں لایا کیونکہ یہ اسلام شناس ماہر عالم ربانی کی قیادت میں اسلامی انقلاب برپا ہوا تھا  اور چونکہ قرآن اور سنت کی تعلیمات کی روشنی میں رونما ہوا  ہے اس لئے نہ صرف مسلمانوں پر اثرات مرتب کرنے میں کامیاب ہوا بلکہ غیر مسلمانوں میں  اسلامی آفاقی تعلیمات کی طرف راغب کر گیا ۔ اس سے بڑ کر  اللہ اکبر کے نعرے کی  عظمت کو  بیان  کرنے اور اس کا عامیانہ تفسیر بیان کرتے ہوئے عالمی  استکبار کو ذلیل اور نا تواں کرتا رہا ہے ۔ مغرب اور مشرق کی سیاست کو ٹھکراکر  قرآنی سیاست نہ ظلم کرو نہ ظلم سہو"لاَ تَظْلِمُونَ وَلاَ تُظْلَمُونَ"(بقرہ 279)  کو اپنا نصب العین بنایا اور قرآن آئے روز اسکی عزت کو حیثیت کو چار چاند لگاتا رہا ہے ۔اسلامی ایران کےسابق صدر جمہور ڈاکٹر محمود احمدی نژاد کے بقول»دومدمقابل حرکتیں ہیں، جن میں ایک اپنی مادی منفعت کو دوسروں پر ترجیح دے رہا ہے ، نا برابر توسیع اور ستم ، غریبی اور مفلسی ، انسانوں کی تحقیر ، غارتگری اور جارحیت اور دوکھہ دھی سے ، دنیا پر تسلط جمانے کا ارادہ رکھتے ہیں اور اپنے ارادوں کو اقوام عالم پر تحمیل کرنے کے درپے ہیں اور نتیجے کے طور پر انسانیت کے سامنے نا امیدی اور تاریکی کو ترسیم کرتے ہیں ۔اسکے مقابلے میں ایک اور حرکت جو ایک خدا پر ایمان رکھتے ہیں اور انبیاء الھی کے تعلیمات کی پیروی کرتے ہیں ، انسان کی کرامت کا احترام کرتے ہیں اور بشریت کے عاشق ہیں، سلامتی سے لبریز دنیا چاہتے ہیں ،ہر ایک کے لئے انصاف اور معنویت پر مبنی آزادی ، پایدار امن اور آسایش کے لئے کوشاں ہیں۔ ایک ایسی حرکت جو ہر ایک انسان ، ہر ایک قوم کے ارزشمند علاقائی ، قومی اور انسانی فرہنگ اور ثقافتوں کے احترام کے قائل ہیں ۔ دنیا میں نا برابری کا خاتمہ چاہتے ہیں اور امکانات کا استفادہ کرنے، علم سیکھنے ، انسانی کمال اور ترقی کے خاطر انصاف پر مبنی قانون کے سامنے مساوات چاہتے ہیں اور پر امید مستقبل ترسیم کرتے ہیں ۔»(23ستمبر 2009 میںاقواممتحدہ میںتقریرسےاقتباس)

ابھی اسلامی انقلاب کو کامیاب ہوئے35سال  ہو گئے  ہیں، عالمی استکبار 1979 سے لیکر آج تک  ہر روز نئے تدبیروں  کے ساتھ اسلامی انقلاب کو ناقص نظام ثابت کرنے میں کھلم کھلا میدان میں نبرد آزما ہے  اور ہر سال پہلے سال سے زیادہ  یہ عالمی استکباری طاقتیں ذلیل اور حقیر پڑتی جارہی ہیں اور اسلامی انقلاب پہلے سے زیادہ طاقتور اور سرخ رو ہوتا نظر آتا ہے ۔یہ سب صرف اسلام کی برکات ہیں ۔ اسلام کی تعلیمات پر ایمان کا نتیجہ ہے ۔ غیروں سے وابستگی توڑنے اورایک خدای واحد پر ایمان اور اسلامی تعلیمات پر یقین کامل  رکھنے کا نتیجہ ہے ۔

گیارہ فروری ایرانیوں کی خوشی کا دن نہیں ہے بلکہ مسلمانوں کی شادمانی کا دن ہے ،کیونکہ اسلام صرف ایرانیوں کا نہیں ہے بلکہ مسلمانوں کا  ہے،ایران اسلام کا اکلوتا قلعہ ہے ،ایران مسلمانوں کا تاج  اور پہچان ہے ، کیونکہ یہ دنیا کا اکلوتا اسلامی ملک ہے جس  ملک کا آئین قرآن اور سنت  پر مبنی ہے۔ اکلوتا ملک ہے  جس کی سیاست اور دیانت توحیدی ہے ۔ ایک اکلوتا ملک ہے جس کا سربراہ قرآن اور سنت کا عالم مدیر اور مدبر ہے ۔ ایک اکلوتا ملک ہے جس میں نہ صرف تمام اسلامی مسالک  کا مقام و منزلت محفوظ ہے بلکہ  دیگر غیر اسلامی مذاہب کی منزلت اور مقام بھی محفوظ ہے  ، ان میں بعض  مذاہب کہ جنکے عقاید اسلامی تعلیمات کے خلاف ہیں ان کا بھی بھر پور احترام اور ان کے حقوق محفوظ ہیں ۔ایسی سیاست ایرانی نہیں بلکہ اسلامی ہے  اسی لئے ہر انصاف پسند انسان کو اس اسلامی نظام سے محبت اور انس ہے ۔

گیارہ فروری ایرانی انقلاب نہیں ہے اسلامی انقلاب ہے اگر ایرانی انقلاب ہوتا  ایران کی اسلامی حکومت  اپنی ولادت کے ساتویں مہینے میں مسئلہ فلسطین  کو اجاگر کرنے کے لئے سر بہ کف نہیں ہوتا ۔ سات فروری 1979 کو بانی انقلاب اسلامی حضرت آیت اللہ العظمی حاج سید روح اللہ موسوی امام خمینی رضوان اللہ تعالی علیہ  یہ کہہ کر »۔میںعالماسلامکےہرایکمسلماناور اسلامی حکومتوں سے چاہتا ہوں کہ غاصب اسرائیل اور اس کے حامیوں کے ہاتھوں کو کاٹنے کے لئے آپس میں متحد ہوجائیں اور تمام مسلمانوں کو دعوت دیتا ہوں کہ ماہ مبارک رمضان کے آخری جمعہ کو، جو کہ «ایامقدر»ہےاورفلسطینیعوامکے مستقبل کے حوالے سے موثر بھی ثابت ہو سکتا ہےکو«روزقدس»انتخاباور مسلمانوں کے بین الاقوامی اتحاد اور مسلمانوں کے قانونی حقوق کے لئے مظاہروں کا اہتمام کرنے کی اپیل کرتا ہوں ۔ «۔( صحیفہامامجلد 9ص267معلوم ہوتا ہے کہ اسلامی حکومت اپنے آپ کو ایرانی حکومت کے عنوان سے جدا  کرنے کا اعلان کر رہی ہے  کیونکہ ایسا  روڑ میپ سامنے رکھنے سے ایران اپنے ملکی مفادات کو بالای طاق رکھ رہا ہے اور اسلام کے گہرے زخم کی مرحم  کرنے کے لئے مرثیہ خواں بن کر اسلامی مفادات کی ترجمانی کرتا ہے ۔اسی طرح اسلام اور مسلمین سے وابستہ ہر مسئلہ کو اجاگر کرنے میں ایران کی اسلامی حکومت پیش گام رہتی ہے ۔ اسی وجہ سے اسلام اور انصاف کے ساتھ محبت رکھنے والا انسان اس اسلامی حکومت کے ساتھ محبت رکھتا ہے اور ان کے کاموں میں اپنے آپ کو شریک تصور کرتا ہے ۔ ان کی خوشی اور ان کے غم میں اپنے آپکو برابر شریک سمجھتا ہے ۔

ایران میں قوم پرست جماعتیں  بھی موجود اور فعال  ہیں جو صرف قومی مفادات کو  مد نظر رکھ کر اپنے ملک کی ترقی اور آرام زندگی کے طالب ہیں  جن کی پشت پناہی عالمی استکبار خاص کر امریکہ اور اسرائیل کرتے ہیں ۔ پچھلے صدارتی انتخابات میں ایسی طاقتیں متحرک ہوئی تھیں  جس سے امریکا کی امیدیں بڑنے لگی تھیں ، لیکن ایران کی اکثریت نے قوم پرست نعروں کو ٹھکرا دیا اور  اعلان کیا کہ ہمارے لئے اسلام عزیز ہے قوم نہیں۔ہم نے انقلاب اللہ اکبر ، اور یاحسین کی صدائیں بلند کرکے حاصل کیا ہے ۔ وطن پرستی کے جذبے سے نہیں ۔ ایران میں قوم پرست جماعتیں چاہتی ہیں کہ ایران میں جمہوریہ ایران رہے اسلام حذف کیا جائے ۔  یعنی اسلامی جمہوری ایران کے بجائے اسلامی ایران رہ جائے لیکن وہاں کی باغیرت مسلمان عوام نے اس بات کو ٹھکرادیا کہ ہم صرف اسلام کے نام پر جینے مرنے کے لئے تیار ہیں ، قوم ، ترقی اور خوشحالی کے نام پر نہیں ۔

ایران میں اسلامی حکومت ہونے کے باجود اسلام مخالف جماعتیں موجود ہیں جن کی پشت پناہی کا امریکہ رسمی طور اعلان کرتا ہے اور جمہوری اسلامی ایران کو جمہوری ایران میں تبدیل کرنے  کےلئے کروڑوں ڈالروں کے منصوبے کا رسمی اعلان کرتا ہے  اور غیر رسمی طور پر اس منصوبے پر کتنا خرچ کرتا ہوگا اندازہ لگایاجا سکتا ہے ۔ایران کی اسلامی حکومت، اسلامی تشخص اور اسلامی تعلیمات کی حفاظت کرنے کے لئے 35 سال سے  طرح طرح کی اقتصادی پابندیاں جھیل رہا ہے  لیکن اسلام دشمن طاقتوں کے سامنے نہیں جھکتا ہے اور اعلان کرتا رہتا ہے کہ اللہ ہمارا ناصر اور مددگار ہے اور دنیا شاہد ہے کہ  اکتیس سالوں سے جھیل رہے اقتصادی پابندیاں ، آٹھ سالہ مسلط کردہ جنگ ، داخلی انتشار پیدا کرنے کی انتھک کوششیں  جاری ہونے کے باجود اسلامی ایران دن دگنی رات چگنی ترقی کے منازل کس تیزی کے ساتھ طے کررہا ہے  کیا یہ سب خدا کی مدد اور عنایت کے بغیر ممکن ہے ۔  یقینا یہ اسلام اور اسلامی تعلیمات کی برکات کا نمونہ ہے   ۔

اسلامی انقلاب کی برکات کا مشاہدہ کرتے ہوئے میں یہ جاننے کی بڑی کوشش کررہا ہوں کہ کشمیر میں اسلامی انقلاب  سے دوری پیدا کرنے کی کیوں کر غیر شعوری کوشش کی جاتی ہے ۔ مجھے دوسرے  علاقوں کے بارے میں کچھ زیادہ معلوم نہیں ہے  کہ 1979 کے بعد جب اسلامی انقلاب کی کرنیں وہاں پر پڑنے لگیں تو ان کو ذائل کرنے کے لئے کیا کچھ کیا گیا  لیکن کشمیر کے بارے میں عینی شاہد ہوں کہ شعوری یا غیر شعوری طور کشمیر عوام کو جو کہ اسلامی انقلاب کے ساتھ گہری وابستگی اور محبت رکھتے ہیں کو اسلامی انقلاب سے دور رکھنے کو کوشش ہو رہی ہے  جیسے ماہ مبارک رمضان کے آخری جمعہ یوم قدس کو یوم کشمیر کا نام دے کر کشمیر کی تحریک کو اسلامی پیکر سے جدا کر کے بیان کرنا اسی طرح گیارہ فروری جو کہ اسلامی انقلاب کی کامیابی کا دن ہے اور دنیا بھر میں اسلام پسند لوگ اس دن کو خوشی کے طور پر مناتے ہوئے اپنے لئے اسلامی تعلیمات کی روشنی میں حاصل ہونے والی آزادی کے لئے دعا کرتے ہیں اس کو بھی کشمیر میں اسلامی رنگ سے جدا کرکے قومی دائرہ تک محدود کیا جانے لگا ہے ۔

ماہ مبارک رمضان کے آخری جمعہ  کو 1979 میں امام خمینی رضوان اللہ تعالی نے  یوم قدس کا نام دیکر مسئلہ فلسطین کو اجاگر کرنے کے لئے مخصوص کردیا جس سے فلسطینی عوام کی بھی ڈھارس بندھی اور مسئلہ فلسطین  کے بارے میں مسلمانوں کی آوازین بلند ہونے لگیں لیکن کشمیر میں  اسکا نام بدل دیا گیا ، اور یوم قدس کو یوم کشمیر کے نام پر  منانے پر زور دیا جانے لگا  ۔ جبکہ اگر کشمیری عوام یوم قدس منانے اور مسئلہ قدس کے حل ہونے میں اپنی گہری دلچسپی دکھاتے ہوئے مثالی مظاہرو ں کا اہتمام کرتے شاید کل فلسطینی عوام کسی اورایک دن کو یوم کشمیر بنانے کا اعلان کرتے کیونکہ مظلوم کو دوسرے مظلوم کی حالت بہتر سمجھ میں آتی ہے  لیکن ہم شعوری یا غیر شعوری طور پر  کسی منصوبے کے شکار ہیں جو کشمیر کو اسلام کے پییکر سے جدا کرکے دیکھنا چاہتا ہے ۔ جب ہم یوم قدس منائیں گے اور فلسطینی یوم کشمیر منائیں گے تب یہ حرکت اسلامی بن گئ  کیونکہ جسم کے ایک حصے میں تکلیف ہوتی ہے تو دوسرے حصے کو اس کے درد کا احساس ہوتا ہے ، لیکن افسوس کے ساتھ کہنا پڑتا ہے کہ جس طرح کچھ طاقتیں ایران اور دوسرے ممالک میں اسلامی رنگ کو ختم کرکے قومی اور نسلی رنگ میں دیکھنا چاہتے ہیں کشمیر کے بارے میں بھی اسلامی رنگ کو ختم کرکے قومی رنگ چڑھانا چاہتے ہیں ۔ پہلے یوم قدس کا عنوان تبدیل کرکے یوم کشمیر نام دے کر قوم پرستی کا جھنڈا بلند کیا گیا اور اب گیارہ فروری کو یوم مقبول بٹ کے نام پر منانے کا عنوان دے کر قوم پرستی کی ایک اور سنگ میل رکھی جارہی ہے۔  کیا اگر گیارہ فروری کو یوم فتح  مبین منا کر اسلامی انقلاب کی بھی قدردانی  اور ساتھ ہی مقبول بٹ کی شہادت  کا دن کے طور پر نہیں منا یا جاسکتا ہے  جس سے قوم پرستی کے ساتھ ساتھ اسلامی رنگ بھی چڑ جاتا  ؟ کیا ایسا کرنا بہتر ہے یا کشمیر کو اسلامی رنگ سے الگ کرکے قوم پرستی کے رنگ میں رنگ کر اسلام دشمن طاقتوں کو خوش کرنا  بہترہے؟ ۔ ایسے ہی کئ مسائل ہیں جو غور طلب ہیں کہ جس کشمیرکی شناخت مذہبی اور اسلامی ہے اس کو بے دینی اور غیر اسلامی  طریقوں پر پرواں چڑانے کی منصوبہ بندی نظر آتی ہے۔

اللہ کی بارگاہ میں دست بہ دعا ہوں کہ ایران سے لیکر کشمیر تک ہماری سیاست سے لیکر روز مرہ زندگی تک کو اسلامی رنگ سے الگ کرنے والی ہر سازش کو ناکام فرمادے ۔ اسلامی تشخص کے ساتھ زندگی کرنے والے دنیا کے ہر گوشے میں رہ رہے مسلمان کو  زندگی دے تو اسلامی زندگی نصیب فرما اور اگر موت دے تو شہادت نصیب فرمائیے ۔ اسلام اور مسلمین کی سربلندی اور استکبار اور غیر اسلامی شکنجوں سے نجات حاصل کرنے والی ہر حرکت اور مجاہدت کو اسلامی تعلیمات کے روسے انجام دینے کی توفیق عطا فرما ۔ مقبول بٹ شہید اور دیگر تمام شہدای اسلام کو شہدای صدر اسلام کے ساتھ محشور فرما ۔ آمین ۔

والسلام

عبدالحسین 

تبصرے (۰)
ابھی کوئی تبصرہ درج نہیں ہوا ہے

اپنا تبصرہ ارسال کریں

ارسال نظر آزاد است، اما اگر قبلا در بیان ثبت نام کرده اید می توانید ابتدا وارد شوید.
شما میتوانید از این تگهای html استفاده کنید:
<b> یا <strong>، <em> یا <i>، <u>، <strike> یا <s>، <sup>، <sub>، <blockquote>، <code>، <pre>، <hr>، <br>، <p>، <a href="" title="">، <span style="">، <div align="">
تجدید کد امنیتی