سایت شخصی ابوفاطمہ موسوی عبدالحسینی

جستجو

ممتاز عناوین

بایگانی

پربازديدها

تازہ ترین تبصرے

۰

اللہ اکبر اور سلم لمن سالمکم یا رسول-حرب لمن حاربکم یارسول سنی شیعہ مسلمانوں کا مشترکہ نعرہ رہے

 خبریں مسلکی رواداری

کشمیر میں منعقدہ میدان مباہلہ سے میدان کربلا کے تناظر میں 14 روزہ نورانی صحافت ورکشاپ کا اعلامیہ


اللہ اکبر اور سلم لمن سالمکم  یا رسول-حرب لمن حاربکم یارسول سنی شیعہ مسلمانوں کا مشترکہ نعرہ رہے


نیوز نور12نومبر2013:ہندوستان زیر انتظام کشمیر کے وسطی ضلع بڈگام میں 14روزہ نورانی صحافت ورکشاپ میں40 سے زائد سنی شیعہ علماء اور دانشورں  نے اپنے تحریری/ تقریری مقالے پیش کئے اور سنی شیعہ اختلافی مسائل ابھارے گئے جنکا  تشفی بخش ہرروز مہمان خصوصی دیتے رہے اور ہر روز کم سے کم 40 افراد نے مباحثے میں حصہ لیا اسطرح 28 گھنٹے کے ورکشاپ میں 600سے زائد افراد نے شرکت کی اور 5 نکاتی پروگرام ورکشاپ کا ماحصل رہا جس میں سنی شیعہ مسلمانوں کے درمیان ایک مشترک سیاسی اور مذہبی نعرہ"اللہ اکبر"۔ "سلم لمن سالمکم یا رسول"- "حرب لمن حاربکم یارسول"۔اور جسکا کشمیری ترجمہ ہوگا(صلح تس ساتھی یس ژء صلح یا رسول- لڑائی تس ساتھی یس ژء لڑائی یا رسول) ہونا اصلی محور قرار پایا۔

عالمی اردو خبررساں ادارے " نیوز نور " کے مراسلے کے مطابق روز مباہلہ اور روز واقعہ کربلا  کے نورانی درسگاہ سے  کسب فیض کی نیت سے عالمی اردو خبررساں ادارے "نیوزنورڈاٹ کام" کے زیر اہتمام  ہندوستان زیر انتظام کشمیر کے وسطی ضلع بڈگام کے ٹاون ہال میں چودہ معصومین پر مشتمل محمد و آل محمد صلوات اللہ و سلامہ علیہم اجمعین کے چودہ انوار کے ناموں سے متبرک میدان مباہلہ سے میدان کربلا تک کی کہانی میدان میں حاضر صحافیوں کی زبانی کے تناظر میں"14روزہ نورانی صحافت کار گاہ /ورکشاپ" منعقد ہوا ۔12ائمہ معصومین علیہم السلام کے نام سےمتبرک ایام تک یعنی 24 ذیحجہ الحرام 1434 ھ مطابق 30اکتوبر2013 سے 5محرم الحرام 1435ھ مطابق 10 نومبر2013 تک حسب معمول سنی شیعہ علماء و دانشوروں نے اپنے اپنے مقالات پڑھے اور ہر روز شیعہ سنی اختلافی مسائل پر تبادلہ خیال ہوا  اور ورکشاپ کے آخری دو دن بارہ دن  کئے گئے تبادلہ افکار کی جمع بندی کیلئے  مخصوص رہےجس کا خلاصہ مندرجہ ذیل ہے:
میدان مباہلہ سے میدان کربلا تک کی کہانی میدان میں حاضر صحافیوں کی زبانی پر پیش کئے گئے مقالات کا خلاصہ یوں پیش ہوا کہ 24 ذیحجہ الحرام 9 ہجری روز مباہلہ میں دو  اہل کتاب(مسلمانوں اور عیسائیوں) کے درمیان الہی کتاب کو تحریف کرنے کا الزام لگا اور کون اہل کتاب حق پر ہے ثابت کرنے کیلئے مباہلہ ہوا کہ جو جھوٹا ہوگا اس پر اللہ کی لعنت ہوگی اور مسلمانوں کی طرف سے صرف پنجتن پاک صلوات اللہ علیہم اجمعین  میدان میں آئے کہ اگر اسلام جھوٹا ہے تو اسلام کی جڑ یعنی محمد و آل محمد نابودی کیلئے تیار ہیں جن کا صرف اللہ ناصر و مدد گار ہے اور اسطرح عیسائی مباہلہ کرنے سے باز رہے ۔  اور ٹھیک چالیس سال بعد  یعنی سن 61 ہجری میں ایک ایسا زمانہ آ گیا کہ اب دو اسلام آپس میں ٹکرائے  ایک کی قیادت آل ابوسفیان کرتے تھے اور دوسرے کی آل محمد صلوات اللہ علیہم اجمعین کرتے تھے اور آیہ مباہلہ کی آیت کا حصہ حسین بن علی علیہم السلام نے قرآنی اصول پیش کیا کہ امام اور قائم دو طرح کے ہوسکتے ہیں ایک" امام نور" ہے اور دوسرا "امام نار" اب لوگوں کو فیصلہ کرنا ہوگا کہ امام نور کی قیادت  میں اللہ کے بندے بنے رہنا چاہتے ہیں کہ امام نور کی قیادت میں شیطان کے پیروکار بنے رہنا چاہتے ہوں۔ اور مسلمانوں کے درمان اس موضوع کو لے کر مناقشہ اب تک جاری ہے۔

سنی شیعہ اختلافی مسائل پر تبادلہ خیال کے دوران جو نکات سامنے آئے وہ درجہ ذیل ہیں:
1.    
سنی شیعہ مسلمانوں کے درمیان امامت اور قیادت کے بارے میں مسلمہ اختلاف ہے لیکن اس اختلاف میں احترام حکمفرما ہے نفرت نہیں۔شیعہ اثناء عشری اہلسنت کے مقدسات کی توہین کرنا حرام سمجھتے ہیں جسکا واضح ثبوت شیعہ مراجع تقلید کا  اس موضوع پر فتاوا کا  موجود ہونا  ہے ۔قائد انقلاب اسلامی حضرت امام علی خامنہ ای کا فتوی کہ اہلسنت مقدسات کی توہین کرنا حرام ہے کسی سے پوشیدہ نہیں نیز  ام المومنین حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا کے بارے میں شیعوں پر بے احترامی کا الزام تہمت ہے جس کا تشیع سے کوئی تعلق نہیں اور خلفای راشدین کے بارے میں سنی شیعہ کے درمیان نکتہ اختلاف نہیں ہے کیونکہ اس اختلاف کا خاتمہ  خود شاہ ولایت نے کیا ہے لیکن جس نے شاہ ولایت  کے خلاف ہر سطح کی جنگ چھیڑی اور اہلبیت رسول اللہ صلوات اللہ علیہم اجمعین کا خون بہانا رسم اور سنت بنا ڈالااس  پر ضرور اختلاف ہے  جس پر اتحاد و اتفاق کی کوئی گنجائش نہیں ہے۔ 

2.    
صدر اسلام کے تاریخی واقعات پر قضاوت کرنے کے بجائے اپنے سماج میں نفرتوں کی جڑ اکھاڑ پھینکنے  کی ضرورت ہے  جو کہ ہمارے حد اختیار میں ہے۔ یہ جو کشمیر کے مسلمان سماج میں شیعوں  کے خلاف زہر افشانی کی جاتی رہی ہے کہ شیعہ  اہلسنت کا" اندر تل "سے خون نکال کر قتل کرتے ہیں۔ شیعہ جب سنی کو کچھ کھلانا چاہے تو پہلے اس میں تھوک ڈالتے ہیں۔ نکاح کے وقت خلفای راشدین اور  ام المومنینحضرت عائشہ رضی اللہ عنہم کو برا بھلا کہتے ہیں۔ میر شمس الدین عراقی رضوان اللہ تعالی علیہ اور سلطان العارفین مخدوم صاحب رحمت اللہ علیہ  کے درمیان دشمنی کی من گھڑت داستانیں وغیرہ یہ سب کس حد تک  سچ ہیں اسکے لئے  علماء اہلسنت  کو عملی اقدام کرنا ہوگا  اور اپنے خطبوں میں بیان کرنا ہوگا ۔

3.    
سنی شیعہ مسلمانوں کے درمیان احترام کا جذبہ دو طرفہ ہونا لازمی ہے ۔ شیعہ شرعی  اعتبار سے سنی مقدسات کا احترام کرنے کا پابند ہے لیکن اسکا مطلب یہ نہیں کہ سنی  کیلئے شیعہ مقدسات کی توہین کرنے کیلئے آزاد رہے۔ شیعوں کا عقیدہ  یہ ہے کہ محرم اور سفر کا مہینہ  محمد و آل محمد کی عزا اور مصیبت کے ایام اور آل ابوسفیان کیلئے آنحضرت سے انتقام لینے کی  کامیابی اور فتح کے ایام ہیں اسلئے ان دنوں کسی بھی قسم کی خوشی اور مسرتوں کی محفلوں کا اہتمام کرنے کی تشہیر کرنے سے پرہیز کیا جائے ۔

4.    
سید الشہداء حضرت امام حسین علیہ السلام کی محفل اہلسنت کی شرکت کے بغیر نامکمل ہے کیونکہ شہداء کربلا میں جسے آجکل کی اصطلاح میں سنی کہتے ہیں  جبکہ اس دور میں عثمانی مسلک کہتے تھے جیسے "حرا بن یزید ریاحی" یا" ظہیر قین بجلیجنہوں نے امام علی علیہ السلام  اور امام حسن علیہ السلام کو اپنا امام نہیں مانا لیکن پھر بھی امام حسین علیہ السلام نے انہیں اپنی تحریک میں شرکت کی دعوت دی کیونکہ یہ تحریک اسلام کو بچانے کی تحریک تھی جو صرف شیعہ اکیلے نہیں چلا سکتا بلکہ سنی شیعہ کو مل کر چلانی ہوگی تب جاکے حسینی اور اسلامی تحریک بن سکے گی اسلئے عزاداری کے جلوسوں میں سنی شرکت نہ ہونے کے برابر پر سوالیہ نشان پڑتا ہے ۔ سنی اگر نوحہ سرائی ٹھیک نہیں سمجھتا مدح سرائی کرے درود  خوانی کرے اسطرح ایک بھائی نوحہ خوانی کرتا اور دوسرا  درودخوانی کرتے ہوئے  رسول رحمت حضرت محمد مصطفی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے نسبت مل کر اپنا خراج عقیدت پیش کرے۔

5.    
کشمیر ی سماج میں بالعموم اور سنی شیعہ مسلمانوں کے درمیان بالخصوص ایک مشترک صفت  حکمفرما دیکھنے کو ملتی ہے وہ خود پسندی ہے اور جسکا  فقدان ہے وہ خدا پسندی ہے۔اسطرح  تعصب نامی صفت بار بار ہمارے سماج میں اپنا سر اٹھا کر اپنی موجودیت کا اعلان  کرتی ہے۔ اور اسکے مقابلے میں جس میدان میں اس صفت کا اثر نہیں ملتا ہے وہ دین اور سیاست ہے جو کہ امید کی بڑی کرن ہے۔جس کے لئے مسلمانوں کو ایک مشترکہ طرز عمل کا خاکہ تیار کرنا ہوگا جس سےدنیا اور آخرت کی آبادی کی ضمانت میسر ہو۔ جو کہ دینی اور سیاسی تقاریب کو مشترک طور پر انجام دینے سے میسر ہوگا اور اس کے لئے ایک مشترک نعرہ رکھنے کی ضرورت ہے یعنی نعرہ تکبیر "اللہ اکبر" کے ساتھ " سلم لمن سالمکم یا رسول۔ حرب لمن حاربکم یارسول"(صلح تس ساتھی یس ژء صلح یارسول- لڑائی تس ساتھی یس ژء لڑائی یارسول)۔

چودہ روزہ نورانی صحافت کارگاہ میں حجت الاسلام آقای سید اعجاز رضوی،ماسٹر محمد یوسف ڈار،حجت الاسلام شیخ طہ شاعری،نثار حسین راتھر،سبط محمد حسن، ڈاکٹر نذیر، ڈاکٹر غلام نبی حلیم،ڈاکٹر جاوید اقبال،سید طاہر صفوی،مولوی فاروق شاہ،ماسٹرمحمد صادق،مولوی غلام علی ،پروفسر مولوی عبدالغنی ،نمایندہ جماعت اسلامی ایڈوکیٹ زاہد علی،نمایندہ مفتی اعظم کشمیر مولوی سید شریف الحق بخاری،غلام علی گلزار،مولوی فردوس احمد غفاری،میرواعظ وسطی کشمیر مولوی سید عبدالطیف بخاری،مولوی سید شمس الدین نظامی،مولوی ریاض احمد بٹ،مولوی محمد اشرف بٹ،پروفسر حمید نسیم رفیع آبادی،ڈاکٹر یعقوب، انجینر نذیر ڈار نے کلیدی مقالے پیش کئے اورنیوزنور ڈاٹ کام کے مدیر اعلی حجت الاسلام حاج عبدالحسین کشمیری نے نظامت کے فرائض انجام دیئے ۔

تبصرے (۰)
ابھی کوئی تبصرہ درج نہیں ہوا ہے

اپنا تبصرہ ارسال کریں

ارسال نظر آزاد است، اما اگر قبلا در بیان ثبت نام کرده اید می توانید ابتدا وارد شوید.
شما میتوانید از این تگهای html استفاده کنید:
<b> یا <strong>، <em> یا <i>، <u>، <strike> یا <s>، <sup>، <sub>، <blockquote>، <code>، <pre>، <hr>، <br>، <p>، <a href="" title="">، <span style="">، <div align="">
تجدید کد امنیتی