سایت شخصی ابوفاطمہ موسوی عبدالحسینی

جستجو

ممتاز عناوین

بایگانی

پربازديدها

تازہ ترین تبصرے

۰

عرب آمروں کو نہ عوامی حمایت نہ ہی دین کی تائید حاصل ہے شام کی حقیقت عوام پر عیاں ہو رہی ہے

 اردو مقالات مکالمات سیاسی سعودی عرب شام ھدایت ٹی وی کے ساتھ

بین الاقوامی تجزیہ نگارابوفاطمہ موسوی  عبدالحسینی :

عرب آمروں کو نہ عوامی حمایت نہ ہی دین کی تائید حاصل ہے شام کی حقیقت عوام پر عیاں ہو رہی ہے

یقین مانئے کہ جویہ کھیل کھیلنے جارہے ہیں مسلمان اس بات کو سمجھ رہے ہیں کہ انکے مفادات کس امر میں ہیں۔  امت مسلمہ کے مفادات اس میں قطعی ملحوظ نظر نہیں ہیں کیونکہ یہ آمرلوگ ہیں جن کو نہ عوام کی  حمایت اور نہ ہی  دین کی حمایت حاصل  ہے ۔

عالمی اردو خبررساں ادارے نیوزنورکی رپورٹ کےمطابق لندن میں دائرہدایت ٹی کے "صبح ہدایت" پروگرام کے عالمی منظر  میں میزبان سید علی مصطفی موسوی نے بین الاقوامی تجزیہ نگار اور نیوزنور کے چیف ایڈیٹر حجت الاسلام سید عبدالحسین موسوی معروف بہ مہاجر عبدالحسین عبدالحسینی سےآنلاین مکالمے کے دوران شام میں سعودی عرب کی طرف سے فوج روانہ کرنے کیلئے حوالے سے مندرجہ ذیل انٹرویو لیا جسے قارئین کے نذر کیا جا رہا ہے۔

س:قبلہ جیساکہ آپ اس بات سے بخوبی واقف ہیں کہ ایک ایسے وقت میں جہاں پر پوری  کرائے کی فوج لیکر سعودی عرب یمن پر جارحیت میں مصروف ہے اوراسکا وہاں ایک بھی ہدف کامیاب نہیں ہوا ہے اوریمن کے مفرورصدربھی ابھی تک ریاض میں بیٹھے ہیں اورمظلوم لوگوں کا خون چوسنے کے علاوہ حکومت آل سعود کو کچھ آتاہی نہیں ہے ایک ایسےوقت میں دوسری جنگ چھیڑ دینا اورچپے چپےسے فوجیں اٹھاکر حملہ آور ہونا اورجبکہ داعش بالکل نابودی کی دہلیز پر کھڑی ہے اورایسے وقت میں آپ کیا دیکھتے ہیں کہ یہ ایجنڈااصل میں کس کا ہے ۔

ج: بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِیمِ[1]۔ اللَّهُمَّ ‌و‌ أَنْطِقْنِی بِالْهُدَى ، ‌و‌ أَلْهِمْنِی التَّقْوَى ، ‌و‌ وَفِّقْنِی لِلَّتِی هِیَ أَزْکَى [2]،دیکھے آپ کیلئے اورجودنیا کے حالات پر نظررکھے ہوئے ہیں ان کیلئے یہ نئی بات نہیں ہےکہ مسلم امہ کے اذہان میں عاذفتہ النامی جسے فیصلہ کن طوفان کہاگیا 20 مارچ2015 ءکو سعودی عرب نے یمن پر حملوں کا آغاز کیاتھا توجویہ فیصلہ کن طوفان تھا اس نے کیاکچھ دکھایا یہ کسی کی آنکھوں سے پوشیدہ نہیں  ہے جب یمن کے خلاف سعودی عرب نے "عاصفة الحزم" ( فیصلہ کن طوفان) نامی حملہ شروع کیا تھا تو اس پرمسجد الحرام کے خطیب و پیش نمازی شیخ عبدالرحمن السدیس نے دعوی کیا ہے کہ سعودی عرب کی طرف سے  یمن کے خلاف جاری" عاصفة الحزم" (فیصلہ کن طوفان )نامی حملہ رسول رحمت صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی جانب سے روم پر حملے سے تاسی سے انجام پذیر ہوا ہے تاکہ پانچ مقاصد جیسے دین، جان، عقل ، عزت اور مال کی حفاظت حاصل ہوں۔اتناہی نہیں بلکہ یہ بھی کہاکہ سعودی عرب کی طرف سے  یمن کے خلاف جاری" عاصفة الحزم" (فیصلہ کن طوفان )نامی حملے کی تاریخ سنہری حرفوں سے لکھی جائے گی کیونکہ اس کا مقصد مظلوم کی مدد کرنا ہے۔

خادمین حرمین شریفین کی امامت و قیادت  میں مظلوم کی یاری کرنے  کے عنوان سے یمن میں مظلوم کی یاری کس طرح کرتے ہیں وہ مندرجہ ذیل اعداد و شمار سے معلوم ہوتا ہے کہ اس سے آل سعود کیاکررہے ہیں ۔

ایک پہلو  یہ تھا کہ جس میں یمن کا اجتماعی ڈھانچہ تباہ کیا گیا از جملہ یہ کہ ۶۱۵ مساجد اور  ۳۲۵۱۳۷ رہائشی مکان تباہ کئے گئے ہیں ، ایک کروڑ بیس لاکھ لوگوں کو بے گھر ہونے پر مجبور کیا ہے ، ۲۳۸ ہسپتال تباہ کیے گئے ہیں ۵۶۹ مدرسے اور تعلیمی مراکز ویران کیے گئے ہیں ۳۷۵۰ مدرسے بند ہو گئے ہیں یونیورسٹی کی ۳۹ عمارتیں اور ۱۶ ذرائع ابلاغ کی عمارتیں تباہ کی گئی ہیں  جوکہ اجتماعی ڈھانچہ ہے یہ دیکھئے سعودی والے اسلام کے نام پر کیاکررہے ہیں ۔

دوسرا پہلو یہ ہے بنیادی ڈھانچوں کو تباہ کرنا تویمن کے غریب اسلامی ملک کے 14 ہوائی اڈوں ،10 بندرگاہیں، 512 پل اورسٹرکیں ،125 بجلی کی سپلائی کے مراکز ،164 آب رسانی کےمراکز اور167 اجتماعی چینل تباہ کردئے ۔یہ سب کچھ خادمین حرمین شریفین کررہے ہیں امت اسلامی کی خدمت ۔

تیسراپہلو یہ ہے کہ جوپیداوار کے مراکز ہیں ان کو تباہ کرنا جن میں 125 پولٹری فارم ،05 غلات کے بھنڈار،44 کھیل کے سینٹر،190 صنعتی مراکز ،175 تیل کے ٹینکرس ،409 غذائی سامان کے ٹینکرس ،353 بازار اورتجارتی مراکز 546 غذائی سامان کے بھنڈار ،970 حکومتی عمارتیں تباہ کرنا۔ یہ آل سعود کی خدمت ہے امت اسلامی کے تئیں ۔

 

مارے جانے والے مردوں کی تعداد ۴۶۲۸ ، عورتوں کی ،۱۵۱۹ ، اور بچوں کی تعداد ۱۹۹۶ ہے اس طرح کل ملا کر یمن میں ۸۱۴۳مسلمان شہید ہو چکے ہیں ۔

چوتھاپہلو جانی نقصان اسکی توتمام حدیں  پارکردیے اس نام نہاد اسلامی حکومت آل سعود نے، جویہ ڈھنڈورا پیٹتا پھرتا ہے کہ وہ یمن میں مظلوم کی حمایت کررہی ہے ۔اس نے صرف دس مہینوں میں ساڑھے   آٹھ ہزار یمنیوں کو جن میں ۴۶۲۸ مرد،۱۵۱۹ خواتین اور۱۹۹۶ بچے بھی شامل ہیں جن کو اس نام نہاد مسلمان حکومت نے شہید کیا ہے ۔سعودیہ نے کہاکہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی اتباع کرتے ہیں مظلوم کی یاوری کرتے ہیں اور میدان میں انہوں نے کیاکیایہ یمن کے مسلمانوں سے پوچھیں۔

صر۲نام کی کاروائی کہ جو گذشتہ بدھوار کے دن ،نبل اور الزہراء ، شہروں کی آزادی کے بعد اپنے اوج پر پہنچ گئی ان شام کی فوجی اور سیاسی تبدیلیوں کی رفتار پر فیصلہ کن اثر ڈالا ہے ۔

اوراب  شام کی بات کررہے ہیں شام میں ایساکیوں ہورہا ہے، شام کے حالات کو سمجھنے سے آپ ایک طرف سعودیہ کے یمن پر فیصلہ کن طوفان کو مد نظر رکھیں اوردوسری طرف آپ نصر2  نامی یہ جو کاروائی گذشتہ بدھوار کے نبل اور الزہراء ، شہروں کی آزادی کے بعد کی وجہ سے اپنے اوج پر پہنچ گئی جس نے شام کی فوج اورسیاسی تبدیلیوں پر اس نے زبردست اثرچھوڑا کیونکہ یہ جودہشتگردوں کیلئے روابط کے وسائل تھے وہ جو اس سے متصل تھے جس علاقے میں نصر2نامی  کاروائی ہوئی ہے وہ ایک وسیع علاقہ ہے جو چار صوبوں ؛"حلب" ،" ادلب" ،" لاذقیہ" اور" حما"  کی حد فاصل پر واقع ہے اور ترکی اور شام کی بڑی سرحد پر بھی مشتمل ہے ،اس لیے انتہائی حساس علاقہ شمار ہوتا ہے ۔ اوراگر ہم دیکھیں کہ کیا بوکھلاہٹ آگئی  سعودی عرب کہتا ہےکہ شام میں دہشتگردوں کی مدد کیلئے وہ  زمینی فوج بھیجیں گے اورترکی بھی کہہ رہاہےکہ وہ بھی شام میں اپنی زمینی فوجیں بھیجنے کیلئے تیار ہے ۔ جسطرح  آپ نے ہی فرمایاکہ یہ کس کے اشاروں پر ایساکر رہے ہیں ۔یہاں ہم یہ بات ذہن نشین کریں کہ میدانی حالات میں نمایاں تبدیلیاں آ چکی ہیں جب تک یمن  کا ساراانحصار سعودی عرب پر تھا تب تک انہیں غربت اور مفلسی کے سوا کچھ حاصل نہیں ہوا اورہم دیکھ رہے ہیں کہ اس عرب ملک میں معدنی وسائل ہونے کے باوجود بھی یمن ایک غریب ملک  رہاہے کیونکہ سعودی عرب انکو امریکہ اوراسرائیل کے مفادات کیلئے استعمال کرتا آیا ہے اوراب یمنی عوام بیدارہوچکی ہے اور بتا رہے ہیں کہ ہم کسی کیلئے استعمال نہیں ہوں گے اوراسی لئے سعودی عرب انکو شیعہ اوردوسرے عنوانات سے دنیا کےسامنے پیش کررہاہے اور اسی طرح شام میں بھی کرتے ہیں جیسا کہ آپ جانتے ہیں کہ شام کے حالات کو کس طرح توڑمروڈ کے پیش کررہے ہیں ۔جبکہ ہم دیکھتے ہیں کہ اسی خادمین حرمین شریفین نے اسی آل سعود نے اسی امت کے نام نہاد دعوے دار نے کبھی بھی کوئی موثرمذہبی یا عربی غیرت نہیں  دکھائی ہے۔ عرب دنیا میں صرف بیچارہ شامی صدربشارالاسد ہی پھنس گیا  ہے جسے عربوں کے مذہبی اور عربی غیرت کی لاج رکھنی پڑتی ہے۔اور اسلامی جمہوری ایران اسکی حمایت کرتا ہے۔بشارالاسد کی حکومت تواسلامی حکومت نہیں ہے وہ توسیکولرحکو مت ہے۔ اور یہ شامی حکومت جوکہ اسلامی حکومت نہ ہونے کے باوجود فلسطین کےساتھ شانہ بہ شانہ کھڑے ہوکر عرب غیرب کا جیتاجاگتا ثبوت فراہم کررہی ہے اورہرطرح کی مدد اس نے فلسطینیوں کو فراہم کی اورعرب دنیا میں شام ایسا واحد ملک ہے جس نے اسرائیل کیلئے بہت مشکلات کھڑے کئے ہیں ۔اور اسی لئے اسکے خلاف محاذ آرائی جاری ہے۔

اورآپ نے جو اشارہ کیاکہ یہ کس کے اشارے پر ہورہا ہے ؟ یہ سب کاروائی جو ہورہی ہے یہ سب اسرائیل کے مفادات کا تحفظ فراہم کرنے کیلئے ہو رہا ہے۔ اب چونکہ یہاں خطے سے اسرائیل کیلئے بوریا بستر گول کرنے کا وقت آچکا ہے اوروہ دن  دور بھی نہیں کہ جسطرح امام خامنہ ای نے فرمایاکہ اسرائیل 2025 ءکو دیکھ نہیں پائے گا یعنی اسرائیل 2025 ءسے پہلے پہلے ہی صف ہستی سے مٹ جائےگا تویہ اس پیشن گوئی کو غلط ثابت کرنے  کیلئے اور اس اسرائیل کو بچانے کیلئے مسلمانوں کا خون بہارہے ہیں اگرچہ کسی اورعنوان کے ساتھ ۔

س:تو جناب قبلہ آپ یہ بتائے کہ حکومت آل سعود نے جوشام میں ڈیڑھ لاکھ فوجیں بھیجنے کا فیصلہ کیا ہے توکیا یہ پوری اسلامی دنیا میں آگ لگانے اورتشدد پھیلانے کاباعث بنے گا جیساکہ ہم جانتے ہیں کہ روس نے سعودیہ کے اس طرح کے بیانات کا سخت ردعمل ظاہرکیا ہے کہ یہ سعودیہ کی طرف سے اعلان جنگ تصورکیاجائےگا دوسری طرف ایران کے جرنلوں نے بھی کہاہےکہ دنیا کےتمام مسلمانوں کو حکومت آل سعود اس آگ میں جھونک دیناچاہتی ہے آپ کے کیاخیالات ہیں اس بارے میں ؟

ج:الحمداللہ آج وہ زمانہ نہیں ہے اگرکل کا زمانہ ہوتا جب کسی بھی طریقے سے اسلام اور اسلامی تشخص کے ساتھ جو استحصال کیاجاتاتھا تو کسی کو معلوم نہیں پڑتا یا کوئی سننے والانہیں ہوتا تھا مثلاًیہی ایران اسلامی انقلاب سے پہلے سعودی عرب جیساتھا کہ ایران کا بادشاہ اسرائیل اورامریکہ سے ملاہواتھا اوران کی ہی دھن میں مصروف رہتا تھا اورجوبھی سازشیں مسلمانوں کے خلاف ہوتی تھیں مسلمانوں کو اسکی بھنک بھی نہیں ملتی تھی اورسعودی عرب والے ہمیشہ سے ایساہی کرتے آرہے ہیں، تواسلامی انقلاب کی بدولت جواسلام کی اصلی شناخت اورسیاست ابھر کر سامنے آئی ہے اس کا اندازہ سب کو ہو رہا ہے۔ آپ دیکھیں کہ یہ لوگ اپنےہی پرانے نسخے کو کہ شیعہ وسنی کو آپس میں دست وگریباں ہوجائیں پر کتناسرمایہ لگاتے ہیں کہ شیعہ وسنی مسالک آپس میں دست وگریباں ہوجائیں مگر نہیں ہورہے ہیں۔ کیوں؟ کیونکہ مسلمان الحمداللہ اسلامی انقلاب کے بعدبیدارہوئے ہیں وہ اب سیاسی داؤپیچوں کو سمجھنے لگے ہیں کہ کون کس مفادکیلئے کام کرتا ہے ۔کون کس کیلئے کام کررہاہے۔ کہاں پرکس مسالک کو کس بات سے فائیدہ ہونے والا ہے، یانہ ہونے والا ہے۔ اسکو عوام بخوبی سمجھ رہی ہے ۔

س:مگراسکا جودوسرا سیاسی پہلو ہے جو فوجیں سعودی عرب اورترکی داخل کرنے والے ہیں اسکے بارے میں فرمائیں ؟

ج:کچھ نہیں ہوگا اگراسلامی ممالک کے درمیان اس قسم کی کوئی توانائی ہوتی  توعالم اسلام میں فلسطین کا مسئلہ قطعی نہیں ہوتا۔

س:مگریہاں توایک سوال ہےکہ فلسطین کیلئے تویہ کبھی بھی بولے ہی نہیں مگر برادرکشی کیلئے آل سعود ہمیشہ آگے آجاتے ہیں تشویش وہاں پر ہے۔

ج:ہاں آپ کی بات بجاہے یہ آل سعود اوراسکے حواری برادرکشی کیلئے ہمیشہ آگے آتے ہیں مگر اب حالات کچھ اور ہیں وہابی اپنے آپ کو اہلسنت سے دور ہوتے ہوئے پاتے ہیں  یہاں تک کہ سعودی عرب کاوزیر خارجہ بھی اپنے آپ کو وہابیت سے الگ کرکے کہتاہے کہ وہابیت کوئی مذہب نہیں ہے عبدالوہاب ایک اصلاح طلب تھے۔ تویہ خود بھی اپنے آپ کو وہابی کہنے سے کتراتے ہیں۔ کیونکہ الحمداللہ اہلسنت عوام نے ان کو دوٹوک الفاظ میں ٹھکرایا ہےکہ آپ لوگ یہ قتل وغارت کی تاریخ رقم کرکے آپ کسی بھی اعتبار سے سنی مذہب کے ترجمان ہوہی نہیں سکتے ۔

انہوں نے ایران کوایک شیعہ دیوکی طرح پیش کرنے کی کوشش کی ہے کہ شیعہ ہم کوکھاجائے گا اوراے سنیو!آو ہم اسکا قلع قمع کردیں گے۔ توالحمداللہ لوگوں نے سمجھا کہ اس میں شیعہ سنی والی کوئی بات نہیں ہے۔اوریہ جوانہوں نے اتحاد بنایا اسکو بھی اقوام عالم نے دیکھا ،کیونکہ یہ جوآمرلوگ آپس میں بیٹھ کے جن کے پاس کوئی  عاقبت اندیشی  ہی نہیں کہ کیاکریں گے نہ ہی عوام کے بیچ میں کبھی گئے ہیں اورنہ ہی یہ عوام کے دردکو سمجھتے ہیں ۔

یمن نے اسکا میدانی جواب دیا ہے  اس طریقے سے کہ ابھی تک دس مہینوں کے دوران عوام نے جس مقاومت کا مظاہرہ کیاہے وہ کس طرح ممکن ہوا ہے کیونکہ وہ عوامی تحریک ہے کوئی آمروں کی بیٹھک نہیں۔ اورسعودی عرب جوکھیل کھیلارہاہے وہ صرف پیسوں کا کھیل ہے کوئی تحریک نہیں اسلئے صرف پیسے سے کام چلا رہا ہے جب تک پیسہ ہےاسکا کام چلتا ہے جب وہ اس پیسے کے کھیل میں ناکام ہوجائیں گے تب اسکا معاملہ ختم ہوجائےگا ۔جس کو پیسے دے کے فوجی کرایہ پر لانے پڑتے ہوں وہ زیادہ دیر پا ثابت نہیں ہوتے کیونکہ اس میں انہیں  مذہبی جذبہ حاکم نہیں اگرچہ کہنے کو کہا جاتا ہےکہ یہ جہاد ہے مگر الحمداللہ سنی اس بات کوسمجھ گئے ہیں کہ مذہب کے نام کے ساتھ استحصال کیا جا رہا ہے۔ ہمارے لئے بھی جو سمجھانے کیلئے بڑا مسئلہ رہاتھا کہ واضح کریں کہ مسلمانوں میں مکتبی عمل کرنے اور مظلوموں کی یاوری کرنے والے سرگرم مسلمان کو شیعہ  کہتے ہیں جس طرح ایک بڑے عالمی سیاستدان نے کہاتھاکہ اگر شیعہ اس کوکہتے ہیں کہ جو مظلوم کا حامی ہوتو میں بھی شیعہ ہوں تواب سنی جس کے سامنے شیعہ کا نام ایک گالی کی طرح پیش کیاگیاتھا وہ اپنے آپ پرفخر کررہاہے مجھے شیعہ کہیں یعنی کون وہ مسلمان ہوگا جواہلبیت کا چاہنے والانہ ہوگا جومحمدوآل محمد (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم)کا شیدائی نہ ہو ۔

تواب یہ فرق مٹ گیا ہےتواب اسلامی تشخص جواسلامی انقلاب کے بعد مورد وجود میں آیا کہ اسلامی انقلاب میں پہلے یہ بات رہی کہ یہاں شیعہ حکومت نہیں ہے بلکہ اسلامی حکومت ہے جہاں ہر اسلامی مسلک کو بالخصوص اور ہر دین کیلئے بالعموم ممتاز مقام حاصل ہے۔ اگر شیعہ حکومت ہوتی تو مجلس خبرگان میں شافعی مفتی اعظم نہیں ہوتے ،حنفی مفتی اعظم ،حنبلی مفتی اعظم نہیں  ہوتے، حتی کہ پارلیمنٹ میں یہودی نہیں ہوتے، عیسائی نہیں ہوتے ،سائبی نہیں ہوتےجوکہ تعداد میں صرف 5ہزار کے قریب ہیں مگر پھربھی پارلیمنٹ میں انکی نمائندگی ہے یہ قرآنی اوراسلامی مکتب ہے۔ اسے مسخ کرنے کیلئے کہ دنیا اسکو نہ سمجھے اسی لئے یہ ایسا کھیل کھیل رہے ہیں۔ یقین مانئے کہ جویہ کھیل کھیلنے جارہے ہیں مسلمان اس بات کو سمجھ رہے ہیں کہ انکے مفادات کس امر میں ہیں۔  امت مسلمہ کے مفادات اس میں قطعی ملحوظ نظر نہیں ہیں کیونکہ یہ آمرلوگ ہیں جن کو نہ عوام کی  حمایت اور نہ ہی  دین کی حمایت حاصل  ہے ۔

برچسب ها سعودی عرب شام یمن

تبصرے (۰)
ابھی کوئی تبصرہ درج نہیں ہوا ہے

اپنا تبصرہ ارسال کریں

ارسال نظر آزاد است، اما اگر قبلا در بیان ثبت نام کرده اید می توانید ابتدا وارد شوید.
شما میتوانید از این تگهای html استفاده کنید:
<b> یا <strong>، <em> یا <i>، <u>، <strike> یا <s>، <sup>، <sub>، <blockquote>، <code>، <pre>، <hr>، <br>، <p>، <a href="" title="">، <span style="">، <div align="">
تجدید کد امنیتی