سایت شخصی ابوفاطمہ موسوی عبدالحسینی

جستجو

ممتاز عناوین

بایگانی

پربازديدها

تازہ ترین تبصرے

۰

اصلاح کی ضمانت صرف قرآنی تعلیمات میں مضمر/اہلسنت نے خود کو وہابیت سے الگ کرکے اپنی حیات نو کا اہتمام کیا

 اردو مقالات مکالمات مصر مذھبی سیاسی چچینیا ھدایت ٹی وی کے ساتھ

ابوفاطمہ موسوی عبدالحسینی:

اصلاح کی ضمانت صرف قرآنی تعلیمات  میں مضمر/اہلسنت نے خود کو وہابیت سے الگ کرکے اپنی حیات نو کا اہتمام کیا

 رواداری اور مسالمت آمیز زندگی گزارنا قرآن کا بنیادی اصول ہے۔ یہ جو ہم شیعہ سنی مسائل کے بارے میں اپنے مراجع عظام کا فتویٰ دیکھتے ہیں کہ ’’اہلسنت مقدسات کی توہین کرنا حرام ہے‘‘ ۔ کیوں؟ کیونکہ یہ آیت اس کی گواہ ہے۔ کہ جب آپ ان کے دینی مقدسات کی توہین نہیں کرینگے وہ بھی نہیں کرینگے ۔ تو اسی طرح غیر اسلامی مذہب و دین کے لوگوں کے ساتھ بھی یہی حکم ہے۔ تو معلوم ہوتا ہے کہ  ہمیں ان قرآنی تعلیمات سے  دور رکھا گیا اور یہ گھناونا چہرہ دہشتگردی کے نام سے جو ابھی سامنے آیا ہے، اب تو ان دہشتگردوں کا جوکام ہے وہ زیادہ تر بدقسمتی سے اہلسنت دنیا پر اس کی لیبل لگائی جا رہی تھی اور اللہ کا شکر ہے کہ اب اہلسنت بیدار ہونے لگے ہیں اورانہوں نے ان سے اپنا  پلہ جھاڑ لیا کہ یہ تو دہشتگرد ہیں وہابی ہیں جن  کا اہلسنت دنیا سے کوئی واسطہ نہیں ہے۔

عالمی اردو خبررساں ادارے نیوزنورکی رپورٹ کےمطابق لندن میں دائرہدایت ٹی کے "صبح ہدایت" پروگرام کے عالمی منظر  میں میزبان سید علی مصطفی موسوی نے بین الاقوامی تجزیہ نگار اور نیوزنور کے چیف ایڈیٹر حجت الاسلام سید عبدالحسین موسوی معروف بہ مہاجر عبدالحسین عبدالحسینی سےآنلاین مکالمے کے دوران   "اصلاح کی ضرورت"کے عنوان  سے مندرجہ ذیل انٹرویو لیا جسے قارئین کے نذر کیا جا رہا ہے۔

السلام علیکم !

وعلیکم السلام ورحمۃ اللہ وبرکاتہٗ !

س) قبلہ جیسا کہ آپ دیکھ رہے ہیں ابھی ہم نے ٹاپک بھی اپنا انونس کیا ’’اصلاح کی ضرورت ‘‘ اس عنوان کے تحت بات کرینگے ۔ پورے مسلم ورلڈ کے اندر  کہیں پر بھی چلے جائیں آپ دیکھیں گے اک ہر جگہ جو کیفیت ہے ایک بے چینی ہے اضطراب ہے ۔ تو آپ کا بہت پرانا تجبات ہیں تبلیغات کے سلسلے میں ، آپ اس پہ باقاعدہ فیلڈ پہ کام کرتے رہے فہلڈ ایکسپیرینس ہیں۔ آپ کیا دیکھتے ہیں کہ کس طرح سے اب اصلاح کی ضرورت پیش آرہی ہیں وہ کون سی راہیں ہیں جو ہمیں ڈھونڈنی پڑے گی کہ ان کے ذریعے ہم اصلاح کرسکیں اپنے نوجوانوں کو مختلف شیطانی ہاتھوں سے بچا سکیں؟

ج) بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِیمِ۔ الْحَمْدُ لِلَّهِ رَبِّ الْعالَمین‏ ۔ اللَّهُمَّ ‌و‌ أَنْطِقْنِی بِالْهُدَى ، ‌و‌ أَلْهِمْنِی التَّقْوَى ، ‌و‌ وَفِّقْنِی لِلَّتِی هِیَ أَزْکَى۔

                یہ بنیادی اور کلیدی سوال ہے کہ ہمیں اپنے حالات کاتجزیہ کرنا چاہئے کہ ہم کس طرف جارہے ہیں۔  عالم اسلام کے  موجودہ حالات جو ہیں یہ کس حد تک عالم اسلام کے حالات ہیں۔  اگر ہم اس کا تجزیہ کرنا چاہیں ۔ اگر اسلامی حالات بتانا ہے، اسلامی معاشرہ بتانا ہے  اُس کیلئے ہمیں اسلام کے آئین اساسی اور قانون کی طرف رجوع کرنا پڑے گا ۔ یہ کہ ہمارا آئین  اساسی  یعنی قرآن کیا کہہ رہا ہے۔ چونکہ مسلمانوں کی ہر حرکت تبھی قانونی اور شرعی ثابت ہوگی جب قرآن اس کی تائید کرے ۔

بدقسمتی سے ایک رجحان جو ہمیں دیکھنے کو ملتا ہے کہ ہر کوئی کہتا ہے کہ میری بات مان لو ۔ میری اجازت کے بعد تم نے ایسا موقف کیسے اختیار کیا ۔ میں ۔ میں ۔ میں۔ اور جب ہم قرآن کی طرف رجوع کرتے ہیں تو پتہ چلتا ہے کہ یہ فرعونیت ہے۔ فرعون نے کہا:"قالَ فِرْعَوْنُ آمَنْتُمْ بِهِ قَبْلَ أَنْ آذَنَ لَکُمْ "میری اجازت کےموسیٰ اور اس  کے پروردگار پہ ایمان لائے۔ میری اجازت کے بغیر! ۔ تو اس کے ساتھ فرعونیت کے ہمنوا  لوگ بھی فرعون کی ہاں میں ملاکر لیبل چسپان کرتے ہوئے کہتے ہیں:" إِنَّ هذا لَمَکْرٌ مَکَرْتُمُوه"جس نے تمہیں اپنی عقل اور ضمیر کو جھنجوڈ کر حقیقت کا اعتراف کرنے کی جرئت بخشی جس کے نتیجے میں فرعون کی اجازت کے بغیر فیصلہ لیا ہے۔ یہ کوئی صحیح کام نہیں بلکہ یہ تو بڑی سازش کا حصہ ۔ یہ وہ دھوکہ ہے کہ جس کی سازش سے آپ کو شکار بنایا گیا ہے ۔ اور اسی فرعونیت کو ہم آج کل امریکہ اور اس کے ہمنواؤں کی شکل میں دیکھتے ہیں جو باتیں تو بڑی خوبصورت کرتے ہیں لیکن ظلم کا اصلی سرچشمہ یہی ہیں ۔ اور اگر ہم قرآن کی طرف رجوع کرتے ہیں تو پتہ چلتا ہے کہ غلط اور صحیح کو پررکھنے کیلئے صرف وہی دو اصول ہیں یا فرعونی ہے یا موسایی ہے۔ فرعون کہتا ہے میں۔ موسی کہتا ہے خدا۔ حضرت موسیٰ علیہ السلام یہ نہیں فرماتے کہ میری اجازت کے بغیر پتہ بھی ہل نہیں سکتا ہے تو کوئی میری اجازت کے بغیر فیصلہ کیوں کر لے سکتا ہے۔ " قالَ مُوسى‏ لِقَوْمِهِ اسْتَعینُوا بِاللَّهِ وَ اصْبِرُوا إِنَّ الْأَرْضَ لِلَّهِ یُورِثُها مَنْ یَشاءُ مِنْ عِبادِهِ وَ الْعاقِبَةُ لِلْمُتَّقینَ "وہ اللہ سے مدد مانگنے کی درخواست کرتے ہیں اور صبر کی تلقین کرتے ہیں۔ کیونکہ نتیجہ جو ہے وہ متقین  کے حق میں محقق ہونا ہے کہ جو اللہ کی رضا کیلئے کام دے اس کام کی کامیابی یقینی اور ضمانت شدہ ہے۔ اگر اس اصول کو موجود حالات کے نئے انداز میں بیان کرنا چاہیں تو میرا عقیدہ ہے کہ اس میں سورہ  ممتحنہ کی آیت8 اور آیت 9 کہ  جسے اصولاً تقریباً ہر مسلمان کو زبان زد ہونا چاہئے اس میں اصلاح کیلئے جامع اصول بیان ہوئے ہیں۔ ا سمیں ہمارے گھریلوں مسائل کا حل ہے ، اس میں ہمارے محلے جات کے مسئلوں کا حل ہے، اسٹیٹوں کا حل ہے ، انٹرنیشنل ایشوز کا حل ہے ، ہمیں دوسرے مسالک و مذاہب  اور دوسرے ادیان کے ساتھ روابط کا حل ہے۔ جوان موضوع کو لیکر اگر آپ کوئی رہنما اصول قرآن میں ڈھونڈنا چاہیں گے تو یہ اس کیلئے ایڈرس میں دے رہا ہوں ۔یہ سورہ ممتحنہ  کی آیت 8 اور 9۔ اس میں" لا یَنْهاکُمُ اللَّهُ :" یعنی اللہ روک تھام نہیں کرتا ہے ، رکاوٹ نہیں کرتا ہے ، منع نہیں کرتا ہے۔ اور 9 میں فرمایا ہے۔" إِنَّما یَنْهاکُمُ اللَّهُ:" اللہ یقینا روک تھام کرتا ہے  ، منع کررہا ہے ۔اور جس کی یہ منع نہیں کرتا ہے  اور اجازت دیتا ہے وہ :" لا یَنْهاکُمُ اللَّهُ"اللہ اس  کسی کے ساتھ آپ کے اچھے روابط رکھنے ، نیکی کے ساتھ پیش آنے ، انصاف سے کام کرنے  کی دعوت دیتا جو " عَنِ الَّذینَ لَمْ یُقاتِلُوکُمْ فِی الدِّینِ" جو دین میں آپ کے ساتھ دست گریبان نہیں ہوتے ہیں۔ وہ آپ کے ساتھ دین پر نہیں لڑ رہے ہیں۔" وَ لَمْ یُخْرِجُوکُمْ مِنْ دِیارِکُمْ "نہ ہی آپ کو در بہ درکیا ہے ، نہ ہی آپ کو مہاجر بنانا یا ہے آپ کو گھروں سے نکالا ہے۔میں اُسکی اجازت دیتا ہوں ۔ اللہ کہتا ہے کہ میں اجازت دیتا ہوں۔ " أَنْ تَبَرُّوهُمْ وَ تُقْسِطُوا إِلَیْهِمْ " ان کے ساتھ نیکی کے ساتھ پیش آؤ۔" َ تُقْسِطُوا إِلَیْهِمْ "۔ان کے ساتھ احسان کرو  انصاف کرو" إِنَّ اللَّهَ یُحِبُّ الْمُقْسِطینَ "۔کیونکہ اللہ کو انصاف پسند لوگ پسند ہیں۔

اسطرح  اگر آپ کا عیسائی بھائی  آپ کے ساتھ مذہبی معاملے پر جنگ نہیں کررہا ہے تو وہ آپ کا دوست ہے ۔آپ کو ہر طریقے سے اس کے ساتھ حسن روابط رکھنا ہے اور اس کے ساتھ نیکی کے ساتھ پیش آنا ہے۔ ہندو ہے یہی حکم ہے۔ یعنی جو کوئی بھی ہو مسلمان یا غیر مسلمان۔ یہودی ہو یہی حکم ہے۔ آپ اندر جائیں شیعہ سنی  مسائل یہی حکم ہے، گھر میں  میاں بیوی کا معاملہ ہے اصول یہی ہے۔ اگر میاں بیوی کے درمیان اختلاف لڑائی جگڑا دینی احکام کی روشنی میں نہیں وہ اختلاف نہیں لڑائی نہیں نہیں ہے۔ اگر ہمسایے کے درمیان آپ کو دین پہ مخاصمت نہیں ہے تو آپ کی مخاصمت مخاصمت نہیں ہے۔ اگر آپ کے ہمسایے میں کسی بھی سطح پہ سیاسی لیول پر، بین الاقوامی لیول پر معیار یہ ہے ۔ہاں اگر اختلاف دین پر ہے۔  آپ کو گھر سے بے گھر کررہے ہیں۔ تو یہ یہاں پر یہ قاعدہ اور اصول برعکس ہو جاتا ہے۔کیونکہ نیکی کرنے کا  معیار مذہبی اور سماجی رواداری ہے جب اس سرخ لکیر کو توڑا جائے ، آپ کے دین کو چھیڑ ا جائے ، آپ کے مہاجر بنایا جائے تو: " إِنَّما یَنْهاکُمُ اللَّهُ " اللہ یقینا روک تھام کرتا ہے  ۔ آپ کو یہاں پر درگزر نہیں کرنا ہے۔طرف کے ساتھ آپ کو نیکی سے پیش نہیں آنا ہے۔کیونکہ ؛" عَنِ الَّذینَ قاتَلُوکُمْ فِی الدِّینِ " دین کے  احکامات توڑوانے کیلئے پر آپ سے لڑ رہے ہیں۔ اور آپکی استقامت دکھانے پر" وَ أَخْرَجُوکُمْ مِنْ دِیارِکُمْ "  اور آپ کو گھر سے بے گھر کررہے ہیں ۔ آپ کو  ہجرت کرنے پر مجبور کرتے ہیں۔ یا اگر خود آپ کو اپنے گھروں سے بے گھر نہ کریں  بلکہ" وَ ظاهَرُوا عَلى‏ إِخْراجِکُمْ أَنْ تَوَلَّوْهُمْ " آپ کو گھر سے بے گھر  کرنے کے سامان فراہم کرینگے۔ اُن کے ساتھ آپ رابطہ نہ رکھیں۔ ان کے ساتھ نیکی کے ساتھ پیش نہ آئیں۔ اور  جو ان کے ساتھ روابط رکھے گا " وَ مَنْ یَتَوَلَّهُمْ فَأُولئِکَ هُمُ الظَّالِمُونَ"وہ ظالمین میں سے ہیں۔ تو ابھی ہم دیکھتے ہیں کہ یہ جو دہشتگرد لوگ ہیں یہ اسلام کو  کس نام سے متعارف کرا رہے ہیں کہ جو میری بات نہیں مانے گا اس کا خون بہانا جائز ہے جبکہ قرآن اس کی اجازت  نہیں دیتا ہے۔ وہ تو یہ کہتا ہے کہ یہ تو فرعون  کا طریقہ کارہے کہ  ہر دلیل اور برہان کو قبول کرنےسے انکار کرتا ہے اور صرف اپنی بات کو حتمی فیصلہ قرار دیتا ہے  جس ہم آج کل کی اصطلاح میں تکفیریت کہتے ہیں یہ اسلام نہیں فرعونیت  اور امریکایت ہے۔

رواداری اور مسالمت آمیز زندگی گزارنا قرآن کا بنیادی اصول ہے۔ یہ جو ہم شیعہ سنی مسائل کے بارے میں اپنے مراجع عظام کا فتویٰ دیکھتے ہیں کہ ’’اہلسنت مقدسات کی توہین کرنا حرام ہے‘‘ ۔ کیوں؟ کیونکہ یہ آیت اس کی گواہ ہے۔ کہ جب آپ ان کے دینی مقدسات کی توہین نہیں کرینگے وہ بھی نہیں کرینگے ۔ تو اسی طرح غیر اسلامی مذہب و دین کے لوگوں کے ساتھ بھی یہی حکم ہے۔ تو معلوم ہوتا ہے کہ  ہمیں ان قرآنی تعلیمات سے  دور رکھا گیا اور یہ گھناونا چہرہ دہشتگردی کے نام سے جو ابھی سامنے آیا ہے، اب تو ان دہشتگردوں کا جوکام ہے وہ زیادہ تر بدقسمتی سے اہلسنت دنیا پر اس کی لیبل لگائی جا رہی تھی اور اللہ کا شکر ہے کہ اب اہلسنت بیدار ہونے لگے ہیں اورانہوں نے ان سے اپنا  پلہ جھاڑ لیا کہ یہ تو دہشتگرد ہیں وہابی ہیں جن  کا اہلسنت دنیا سے کوئی واسطہ نہیں ہے۔

چچنیا اہلسنت کون کانفرنس

س) کس طرح کہہ سکتے ہیں  کہ وہ ان سے اپنا   راستہ جدا کررہے ہیں؟ کس طرح سے اس مطلب کو بیان کیا جاستکتا ہے۔ کیا  کوئی نئی چیزیں سامنے آئی ہیں؟  

ج)جی ؛بالکل۔  دیکھئے حال ہی میں 25 اگست کو چچنیا میں ایک تاریخی کانفرنس منعقد ہوئی جس میں اہل تسنن کے 200 ممتاز علمائے کرام نے شرکت کی ۔ الازہر یونیورسٹی کے مفتی اعظم اور شیخ الازہر خود اس میں حاضر تھے اور اس کانفرنس کا موضوع یہی تھا کہ ’’اہلسنت کون‘‘ ۔

میں نے بارہا اس بارے میں لکھا  ہے کیونکہ زیادہ اہلسنت علماء سے میرا اٹھنا بیٹھنا زیادہ  رہا ہے مجھے ہر بار تعجب ہوتا رہا ہے کہ اہلسنت مسلمان اہل تشیع کے مانند ہیں کئی جگہ تو مجھے اہلسنت شیعوں سے بھی زیادہ دیندار نظر آتے ہیں اور اہلبیت ؑ کے پیرو نظر آتے ہیں۔ مگر عملی طور پر جن کا ڈھنڈورا دنیا میں پٹا جا رہا ہے  وہ وہی  دہشتگرد لوگوں کا چہرہ ہے۔ تو میں نے اس پہ  کئی مقالے اور مراسلات لکھے ہیں کہ  اصلی  اہلسنت کون؟۔ اگر اہلسنت جو آپ بنیادی طور پر اہلسنت کو دیکھتے ہیں ان کا کردار تو قابل تعریف ہے ۔ مگر جو دہشتگردی کا لباس پہنے ہوئے اسلام کو بدنام کررہے ہیں وہ کیا ہیں؟۔ اور الحمد اللہ ان ہی سوالات کو لیکر اس کانفرنس میں بھر پور جواب دیا  گیا۔ کہ ایک تو یہاں اس میں ایک بہت بڑا جو فیصلہ لیا گیا انہوں نے نہ سعودی عرب کے وہابیوں کو دعوت دی اور نہ ہی قطر کے ۔ تو اس میں چونکہ آپ نے دیکھا ہوگا کہ اتنی بڑی کانفرنس کیلئے  میڈیا نے  کس طرح بلیک آوٹ کیا کہ کسی نے تو اس کانفرنس کو رپورٹ نہیں کیا  ۔مگر اب جو وہابی مفتیوں نے شور مچانا شروع کیا تو اسے تھوڑی تھوڑی باتیں سامنے آئی کہ اصل بات ہوئی کیا تھی!۔ کہ جو اصل میں یہ ہوا کہ انہوں نے یہ کہا کہ : "اہلسنت اعتقاد اورکلامی مذاہب کے اعتبار سے اشعری اور ماتریدی ہیں اور فقہی اعتبار سے وہی چار مسلک حنفی، مالکی، شافعی اور حنبلی ہیں اور علمی، اخلاقی اور تزکیہ نفس کےاعتبار سے صوفی امام الجنید(جنید بغدادی) اور ایسے اہل تصوفِ پاک رکھنے والے ہیں...."۔تو اس طریقے سے انہوں نے اپنا مؤقف بالکل واضح کردیا کہ جو دہشتگردی اہلسنت کے نام سے  اہلسنت  دنیا کو بدنام کرنے کی کوشش کی جاتی ہے  یہ سلفیت ہے اس کا اہل تسنن سے کوئی دور کا بھی واسطہ نہیں ہے ، یہ وہابیت ہے اس کا اہل تسنن سے کوئی واسطہ نہیں ہے ، یہ دشمن کے مزدور ہیں ان سے اہلسنت کو بدنام نہ کیا جائے۔ تو یہ معمولی بات نہیں ہے کہ جس جرأت مندی کا ابھی اہلسنت علماء نے مظاہرہ کیا یہ ایک بہت بڑی بات ہے۔

س) تو اس میں ایک دو چیزیں اور سامنے آتی ہیں جیسے ابھی آپ نے کہا کہ  جو بھی یہ کہے کہ میں۔ میں یہ کہہ رہا ہوں۔ تو قرآن اس کی تعریف فرعونیت کے عنوان سے کرتا ہے۔  ہو یہ رہا ہے کہ جتنے بھی آپ دیکھ رہے ہیں کہ مذہبی گروہ ہیں جو آپس میں گھتم گھتا میں لگے ہوئے ہوتے ہیں ، جن کے آپس میں  اندر اختلافات ہیں ان سب کے اندر بات تو اللہ رسول کی ہی ہورہی ہے اور قرآن کی آیت کو ہی منبع بنایا جاتا ہے ۔ مگر وہاں پر میں۔ میں ضرور ہوتا ہے ۔ تو کیا اس بیچ ایک صحیح راستہ کیسے نظر آئے ان میں  صحیح  کون  ہے اور کون نہیں؟۔

ج)  اس حوالے سے  اگر اسی قرآنی اصول کو دیکھا جائے تو جواب واضح ہے۔ جو میں۔ میں کہے گا وہ سمجھئے گا کہ وہ فرعونیت کا شکار ہے۔ مگر جو اپنے منصب جو اس کا مذہبی اور انسانی منصب ہے  اس کو لیکر بات کرے گا وہ خدائی انسان ہوسکتا ہے۔ والدین سے لیکر حاکموں تک۔جب ماں باپ اپنے بچوں سے کہے میں کہتا /کہتی ہوں کہ کھڑے ہوجاؤ، میں کہتا/ کہتی ہوں کہ بیٹھ جاؤ یہ بھی وہی فرعونیت ہے۔....بلکہ والدین اولاد سے کہے کہ والدہ  کہتی ۔ والد کہتے ہیں تو یہ قانونی اور مطلوب طرز عمل ہے ۔ ٹھیک اسی طرح کہ جس طرح ہم دیکھتے ہیں کہ ہمارے ولی فقیہ امام خامنہ ای کے بیانات میں ایسےجملات نہیں ملتے، وہ یہ نہیں کہتے ہیں کہ میں کہتا ہوں۔ بلکہ وہ یہ کہتے ہیں کہ ولی فقیہ کا ماننا ہیں ، ولی فقیہ اس وقت یہ کرینگے و.... یعنی وہ قانون مندی کا عندیہ دیتے  یہ ولی فقیہ کہنا  وہی قانونی منصب ہے۔

اسی طرح مرجع تقلید بھی اپنے فتوے میں وہ بھی یہ نہیں کہتے ہیں کہ میرا ماننا ہے۔ میں کہتا ہوں۔ بلکہ وہ کہتے ہیں کہ میرا فتویٰ ہے تو معلوم ہوتا ہے کہ  اسلام نے ہمیں یہی  سکھایا کہ ہماری قانونمند زندگی ہے۔ کیونکہ  ہماراقانون  الہٰی ہے اس میں، میں۔ میں کی کوئی گنجائش ہی نہیں ہے۔  تو ہمیں ہر جگہ اگر ہم اسی قانون کے تابع رہیں گے کہ جس طرح خود رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) قانون کے تابع تھے تو ہم حقیقی مسلمان کی شکل میں ظاہر ہوں گے ۔ مگر جب ہم میں، میں-میں کرتے ہیں ، اپنے طریقے کی بات کرتے ہیں ، آپ اپنے طریقے کی بات کررہے ہیں تو ہم وہی فرعونیت کی پیروی کرتے ہیں۔

س) یعنی آپ کا کہنا یہ ہے کہ جو بھی جس فرقے کا بھی لیڈر ، جس گروہ کا بھی لیڈر میں- میں کررہا ہے اور وہاں سے قرآنی استدلال پیش نہیں کررہا ہے تو نوجوانوں کو وہاں سے ہوشیار رہنا چاہئے۔ کیا ایسا افراد کی پیروی کرکے وہ یقیناً وہ ایک طاغوت کی پیروی کررہے ہیں کیا؟

ج) بالکل ایسا ہی ہے۔ سب کو ہوشیار رہنا چاہئے۔ کیونکہ ہمارا کردا ر ہمارے عقیدے کا عکاس ہوتا ہے اور ہمارا عقیدہ   قیامت پر ہے جہاں جزا و سزا کا مستحق قرار پانا ہے ۔ کیونکہ  وہاں ہمیں رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی وساطت سے  سزا اور جزا ملے گی۔ اور وہاں ہماری وکالت کرنے کیلئے وہ شخص ہونا چاہئے کہ  جس کے الہی قانونی روابط اتنے مضبوط ہوں کہ وہ استبدلال کرسکے۔ وہ اللہ کی بارگاہ میں استدالال پیش کر سکے  کہ جو میں نے میں– میں  کہا ، اس کی  دلیل  قانونی تھی۔ یعنی یہ جو اسلام یہ سکھاتا ہے اس سے معلوم ہوتا ہے کہ مسلمان ویژن بہت وسیع ہے ۔ ہم یہاں سے لیکر روز قیامت تک اپنے آپ کا تجزیہ کرتے ہیں محاسبہ کرتے  کہ اس کا رزلٹ کہاں نکلنا ہے اور کیا نکلنا چاہئے۔اسلئے جو میں- میں کہے گا ظاہر سی بات ہے وہ بہت ہی محدود مقصد اور نظر رکھتا ہے نہ کہ جاویدان اور اسلامی ۔

س)اچھا ایک اور چیز اس کو ایک دوسرے حوالےسے بھی دیکھتے ہیں ۔جہاں پر اصلاح کے اوپر گفتگو ہوئی مختلف حوالوں  سے اس کو دوسری  جہت کے ساتھ دیکھ لیتے ہیں اور یہ آخری سوال آپ سے  اور کرینگے کہ اب جو ہم جس زمانے میں رہ رہے ہیں، جس دور میں رہ رہے ہیں ٹیکنالوجی کا دور ہے  اور متعدد ماشاء اللہ ادارے ہمارے ٹیلی ویژن چنلیں ہیں ، دنیا کی مختلف زبانوں کے اندرعلوم محمد و آل محمد علیہم السلام کی نشر و اشاعت 24 گھنٹے ہورہی ہیں۔  آپ کیا کہتے ہیں کہ یہ ہم کتنے فیصد کامیاب ہوئے  اصل قرآنی مکتب کو لوگوں تک پہنچانے میں کہ اصل دین، اصل اسلام ناب، اصل دین وہ جو کہ قلب اطہر پیغمبر حضرت محمد مصطفیٰ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے اوپر نازل ہوا تھا اس  حقیقی مکتب کو کتنے فیصد ہم  ابھی تک کامیاب ہوئے ہیں اور کتنا کام ہمیں ابھی اور کرنا باقی ہے؟  کیا کہیں گے آپ؟

ج) اس  موضوع کو لے کر پرسنٹیج پر بات ہی نہیں  کی جاسکتی ہے  ۔ ہمیں صرف وظیفے پر عمل کرنے کو کہا گیا اور پرسنٹیج کو دیکھنا نہیں ہے۔ کیونکہ پرسنٹیج کو دیکھنا اللہ کا کام ہے کہ وہ اس کو کامیابی سے ہمکنار کرتا ہے اور کامیابی سے ہمکنار کرنے کیلئے مناسب وقت قرار دیتا ہے  کہ نہیں۔ ہمیں صرف عمل کرنا ہے ۔ ہمیں اس قانون کی کتاب اور  ان ہدایات کے مطابق  جو اللہ نے ہمارے لئے بیان کئے ہیں اور ہلبیت اطہار  علیہم السلام نے اس کی وضاحت کی، پر عمل کرنا ہے۔

س) یعنی ہمار وظیفہ اس کے او پر مستقل  عمل کرنا یعنی اطاعت  کا جو ہمیں حکم دیا گیا ہے ہمیں اطاعت کرتے رہنا ہے۔ میرا سوال یہ ہے کہ اس میں ہمیں کتنی کامیابی نظر آرہی ہے؟

ج) جی؛ کیونکہ جب بظاہر ہم دیکھیں گے کہ امام حسین علیہ السلام  کربلا میں بظاہر وہاں ناکام ہوئے۔ مگر دنیا صبح قیامت تک اس کامیابی کو دونوں ہاتھوں سے  سلام کرتی پھرتی ہے۔ مگر اگر ہم اسی دن ججمنٹ کرلیتے تو پتہ چلتا کہ امام حسین ؑ ہار گئے،مگر وہ حقیقت حال نہیں تھی ۔آج یعنی ہر زمانے سے اُس کی حقیقت سامنے آئی۔اسی طرح بہت ساری مثالیں ہیں یا یہ کہ حضرت یوسف ؑ نے ایک بند کمرے میں گناہ سے اپنے آپ کو بچالیا تھا  بظاہر کوئی بڑا کام نہیں کیا تھا ۔مگر وقت نے ثابت کردیا کہ حضرت یوسف ؑ نے کتنا عظیم کام انجام دیا اور ہر نوجوان کیلئے بہشتی راستے   کو دکھلا دیا ہے۔ اسلئے ایسے کاموں کو پرسنٹیج  سے نہیں پرکھا جاسکتا ہے کہ جس کا م کا محور خدا ہو۔ کیونکہ اس  کا خریدار  خود خدا ہوتا ہے۔   لہٰذا ہمیں صرف اپنی ذمہ داری کو نبھانا ہے اور   نتیجے کو اللہ کو سونپنا ہے۔

سبحان اللہ سبحان اللہ ۔ بہت مشکور ہیں ممنون ہیں کہ آپ نے اپنا قیمتی وقت ہم کو دیا اور بہترین موضوعات کی طرف توجہ دلائی۔

تبصرے (۰)
ابھی کوئی تبصرہ درج نہیں ہوا ہے

اپنا تبصرہ ارسال کریں

ارسال نظر آزاد است، اما اگر قبلا در بیان ثبت نام کرده اید می توانید ابتدا وارد شوید.
شما میتوانید از این تگهای html استفاده کنید:
<b> یا <strong>، <em> یا <i>، <u>، <strike> یا <s>، <sup>، <sub>، <blockquote>، <code>، <pre>، <hr>، <br>، <p>، <a href="" title="">، <span style="">، <div align="">
تجدید کد امنیتی