سایت شخصی ابوفاطمہ موسوی عبدالحسینی

جستجو

ممتاز عناوین

بایگانی

پربازديدها

تازہ ترین تبصرے

۰

امام خامنہ ای نے آل سعود کو شجرہ خبیثہ ملعونہ سے تعبیر کیوں کیا ہے؟

 اردو مقالات مکالمات انقلاب اسلامی ایران ایران سعودی عرب محضر امام خامنہ ای ھدایت ٹی وی کے ساتھ

ابوفاطمہ موسوی  عبدالحسینی کا ہدایت ٹی وی کے ساتھ مکالمہ:

امام خامنہ ای نے آل سعود کو شجرہ خبیثہ ملعونہ سے تعبیر کیوں کیا ہے؟

 سعودی عرب کی  جو خطے میں سیاست جاری ہے وہ سبھی الٹا نتیجہ دے رہے ہیں  اور اسطرح ہر ایک  اقدام آل سعودکی تباہی اور بربادی  کی طرف جارہا ہے اور جس سے معلوم ہوتاہے کہ  اس کا زوال تقریباًآخری مراحل میں داخل ہو چکا ہے۔

عالمی اردو خبررساں ادارے نیوزنورکی رپورٹ کےمطابق لندن میں دائرہدایت ٹی کے "صبح ہدایت" پروگرام کے عالمی منظر  میں میزبان سید علی مصطفی موسوی نے بین الاقوامی تجزیہ نگار اور نیوزنور کے چیف ایڈیٹر حجت الاسلام سید عبدالحسین موسوی معروف بہ ابوفاطمہ موسوی عبدالحسینی سےآنلاین مکالمے کے دوران  آل سعود کی طرف سے ایرانی حجاج کو فریضہ حج سے روکنے کے حوالے سے لیے گئےانٹرویو کو مندرجہ ذیل قارئین کے نذر کیا جا رہا ہے:

س) قبلہ جو ابھی یہ کارستانیاں آل سعود نے کی ہیں اور پہلے شام پھریمن  اور اب ایران کے حجاج کو فریضہ حج سے روکا ہے اس سے اپنا سفاک چہرہ آل سعود نے دنیا کے سامنے پیش کیا ہے ۔ اس کے جواب میں امام خامنہ ای نے آل سعود کو شجرہ خبیثہ ملعونہ سے تعبیر کیا ہے ۔ شجرہ ملعونہ کے حوالے سے میں چاہتا ہوں کہ تھوڑی سی تفسیر ہوجائے تاکہ اس بات کی وضاحت ہوجائے  کھل جائے یہ ذرا یہ بات کریں؟

ج) بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِیمِ۔ الْحَمْدُ لِلَّهِ رَبِّ الْعالَمین‏ ۔ اللَّهُمَّ ‌و‌ أَنْطِقْنِی بِالْهُدَى ، ‌و‌ أَلْهِمْنِی التَّقْوَى ، ‌و‌ وَفِّقْنِی لِلَّتِی هِیَ أَزْکَى۔

آل سعود کا شجرہ ملعونہ ؛کیا خوب سوال کیا۔ بہت شکریہ ۔ حجاج کرام کے نام رہبر معظم انقلاب اسلامی حضرت امام خامنہ ای مدظلہ العالی نے آل سعود کو طاغوتوں کا شجرہ ملعونہ کے نام سے تعبیر کیا ہے۔ یہ تعبیر قرآن میں اس واقعے کی طرف اشارہ ہے جسے پیغمبر آخر الزمان (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے خواب میں دیکھا تھا یہ سورہ اسراء آیت 60میں ہم پڑھتے ہیں:" «وَ إِذْ قُلْنا لَکَ إِنَّ رَبَّکَ أَحاطَ بِالنَّاسِ وَ ما جَعَلْنَا الرُّؤْیَا الَّتِی أَرَیْناکَ إِلَّا فِتْنَةً لِلنَّاسِ وَ الشَّجَرَةَ الْمَلْعُونَةَ فِی الْقُرْآنِ وَ نُخَوِّفُهُمْ فَما یَزِیدُهُمْ إِلَّا طُغْیاناً کَبِیراً» :" اور اے رسول وہ یاد کرے جب ہم نے تم سے کہا تھا کہ آپ کے رب نے ان لوگوں کو گھیر رکھا ہے اور جو خواب ہم نے تم کو دکھلایا ہے  اور وہ درخت جسے قرآن میں  ملعون  ٹھہرایا گیا ہے اسے ہم نے صرف لوگوں کی آزمائش قرار دیا اور ہم انہیں ڈراتے ہیں مگر یہ تو ان کی بڑی سرکشی میں اضافے کا سبب بن جاتا ہے۔

امام خامنہ نے خطاب میں جو جملہ استعمال کیا جس میں آپ نے  فرمایا :حجاج بھائیو اور بہنو! اس سال کے حج میں مشتاق و بااخلاص ایرانی حاجیوں کی کمی ہے مگر ان کے دل ساری دنیا کے حاجیوں کے ساتھ موجود اور ان کے بارے میں فکر مند ہیں اور دعا کررہے ہیں کہ طاغوتوں کا شجرہ ملعونہ انہیں کوئی گذند نہ پہنچائے۔ 

آپ کے سوال پر اسی لئے مجھے بڑی خوشی ہوئی کہ آپ نے یہ سوال کیا کہ ’’شجرہ ملعونہ ہے کیا‘‘ کہ خدا اس کے ذریعے سے لوگوں کا امتحان لیتا ہے۔ جبکہ قرآن میں ایسا کوئی درخت نظر نہیں آتا کہ جو خدا کی لعنت کا مستحق قرار پایا ہو۔ اس لئے بعض مفسرین  اس بارے میں یوں وضاحت کرتے ہیں کہ یہاں پر شجرہ کا لفظی  ترجمہ یعنی درخت نہیں کیا جاسکتا۔ بلکہ آیہ کے پیغام کی طرف دھیان رکھنا ہوگا کیونکہ سورہ ابراہیم کی آیت 24 اور 26 میں بیان ہوا ہے جہاں دو طرح کی عبارت شجرہ طیبہ اور شجرہ خبیثہ دو سلسلوں کی نشاندہی کرنے کیلئے بیان ہوا ہے نہ کہ دو درخت کے۔

اگر ہم سورہ ابراہیم کی آیت 24 میں:" أَلَمْ تَرَ کَیْفَ ضَرَبَ ٱللَّهُ مَثَلًا کَلِمَةً طَیِّبَةً کَشَجَرَةٍ طَیِّبَةٍ أَصْلُهَا ثَابِتٌ وَفَرْعُهَا فِى ٱلسَّمَآءِ"اور آیت  26 میں:" وَمَثَلُ کَلِمَةٍ خَبِیثَةٍ کَشَجَرَةٍ خَبِیثَةٍ ٱجْتُثَّتْ مِن فَوْقِ ٱلْأَرْضِ مَا لَهَا مِن قَرَارٍ" تو یہاں پر مفسروں جیسے علامہ طباطبائی نے دو خاندانوں اور دو سلسلوں سے تعبیر کیا ہے جس طرح آنحضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے امیر المومنین علی علیہ السلام سے خطاب کرتے ہوئے فرمایا «أنا و أنت من شجرة واحدة»  میں اور آپ ایک ہی  شجرہ سے ہیں ۔ اور امام خامنہ ای کا یہ جملہ جس میں دعا کررہے ہیں کہ طاغوت کا شجرہ ملعونہ انہیں کوئی گزند نہ پہنچائے۔ یہ اسی تاریخی سلسلے کی طرف اشارہ ہے کہ ہم نے کئی سالوں سے حجاج کا قتل عام ہوتے ہوئے دیکھا ہے ۔14 سالوں سے 90 ہزار حجاج قتل ہوئے ہیں۔

 سال 1986 کے حادثے میں 402 حاجی اور سال 1989 میں مکہ میں بم رکھے جانے کا واقعہ پیش آیا  اورایک سال بعد سعودی عرب کی عدالت نے اس دہشتگردانہ اقدام  میں شرکت کے جرم میں 16 غیر ملکیوں کو موت کی سزا سنا دی۔ سال 1990 میں منیٰ کی ایک سرنگ میں ہنگامہ مچنے سے سرنگ سے گزرتے ہوئے 1426 حاجی شہید ہوگئے اور سینکڑوں حاجی زخمی ہوئے اور اس کے بعد 1994 میں  جمرات کے پل کے پاس منیٰ میں ہنگامہ مچنے کی وجہ  سے جو  مکہ کے مشرق میں واقع ہے 270 حاجی شہید ہوئے تھے ، سال 1997 میں منیٰ میں خیموں میں بھیانک آگ لگنے سے 343 حاجی شہید ہوئے تھے اور قریب 500 زخمی ہوئے اور 1998 میں پل جمرات کے نزدیک بھاری بھیڑ کی وجہ سے 119افراد شہید ہوئے تھے، 2001 میں شہر مکہ میں حج کے اعمال میں بھیڑ کی وجہ سے بھی30 حاجی شہید ہوئے تھے ، 2004 میں شہر مکہ میں اسی طرح بھیڑ میں 279حاجی شہید ہوئے تھے ، سال 2006 میں شہر مکہ میں شیطان کو کنکریاں مارنے کے دوران بھیڑ کو بے قابو ہونے کی وجہ سے 312 حاجی شہید ہوئے تھے  اور پچھلے سال 2015 میں کم سے کم سبھی ذہنوں ابھی تازہ ہے یہ بھولنے والا واقعہ نہیں  ہے کہ پہلے جو  شدید طوفان چلنے اور اس کے نتیجے میں مسجد الحرام کی تعمیر کیلئے نصب شدہ کرین کے صحن میں گرنے سے کم از کم107 حاجی شہید ہوئے اور پھر منیٰ کا حادثہ پیش آیا جس میں سعودی وزارت صحت کی ایک سند کے مطابق منیٰ حادثے میں شہید ہونے والوں کی تعداد 7477حجاج کی ہے جن میں 1508 حجاج کو گمشدگی ذکر کیا گیا ہے اور سرکاری طور پر سعودی عرب منیٰ شہداء کے تعداد کو 769 اعلان کرتا آیا ہے۔ جبکہ سعودی عرب کے ذرائع میں شاؤئع شدہ  وزارت صحت کے اس سند میں سعودی شہریوں کی تعداد 1528  درج ہے ۔ تو یہاں پر معلوم ہوتا ہے کہ آل سعود طاغوتوں کا وہی  شجرہ ملعونہ ہے کہ یہ شجرہ ملعونہ وہی سلسلہ ہے جو صدر اسلام سے اسلام کے نام پر اسلام سے انتقام لیتا آرہا ہے۔ جس طرح شیعہ سنی مفسرین اس شجرہ ملعونہ کے اس خواب کی طرف اشارہ کرتے ہیں کہ جو آنحضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے  اپنے منبر پہ بندروں پہ سوار ہوئے دیکھا تھا۔اس بنی امیہ کے سلسلے کی طرف اشارہ کرتے ہیں کہ یہ وہی خبیث سلسلہ ہے جو آنحضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے اسلام کے لباس میں آنحضور (صلی اللہ علیہ والہ وسلم) سے انتقام لیتے آئے ہیں اور اس  حوالے سے بڑی تکلیف کے ساتھ اس بات کو بیان کرنا پڑتا ہے کہ ہمارے اہلسنت دنیا میں کیونکہ ایک سلسلہ چلا ہے کہ یہ حاکموں کے خلاف زبان نہیں کھولتے ہیں چاہے وہ ظالم ہو ں یا عادل ہوں۔ جبکہ شیعہ ہمیشہ اس لئے محکوم رہے ہیں کہ انہوں نے ظالم حاکموں کے ساتھ کمپرومائز کبھی نہیں کیا ہے۔ 

اہلسنت دنیا میں اس حوالے سے رفتار بڑھی دھیمی ہے مگر جو چچنیا کانفرنس میں جو تاریخ رقم ہوئی یہ جو کانفرنس منعقد ہوئی اس سے پتہ چلاکہ نہیں اہلسنت بھی شیعوں سے کم نہیں ہیں  وہ بھی وہی بیدار ضمیر رکھتے ہیں ، وہ اب اپنی خاموشی کو  توڑنے کا فیصلہ کرچکے ہیں۔

 امام خامنہ ای نے جو آل سعود کو شجرہ ملعونہ  سے تعبیر کرکےواضح طور پر قرآنی ریفرنس دیا کہ  آپ قرآن کی طرف رجوع کریں اور محاسبہ کریں کس کے ذریعہ مسلمان آزمائش اور امتحان سے گزررہے ہیں، مسلمان کو  اپنے آپ کو دیکھنا ہے کہ کیا وہ  اللہ کی رضا حاصل کرنے کیلئے خدمات انجام دیتا ہے کہ طاغوت کی رضا مندی کیلئے۔تاریخ گواہ ہے کہ آل سعود 1925 سے لیکر اسلام و مسلمین کی خدمتگذاری کے نام پر طاغوت کی خدمتگذاری میں مصروف عمل رہا ہے۔

س) یہ تو شجرہ ملعونہ کے اوپر بات ہوئی مگر ہم دیکھتے   ہیں کہ آل سعود نے گذشتہ سال میں 8ہزار سے زائد حجاج کے قتل کے حوالے سے امت اسلامی سے کوئی عذر خواہی تو دور کی بات تو انہوں نے ایرانیوں کو کافر قرار دیا جو کہ عالم اسلام میں شیعہ سنی مسالک کا علمی فکری سرمایہ رہے ہیں۔اور آل سعود  درباری مفتی نے یہ فتویٰ اور صادر کردیا کہ جو ایرانی  مسلمان نہیں ہیں تو یہاں پر میں حضور سےسوال کرونگا کہ امام بخاری کا کیا ہوگا ، امام ترمذی کا کیا ہوگا ، یہ بڑے بڑے جو لوگ ہیں جن کا نام سے پورے پورے اہلسنت  مکتب  و مسلک چل رہے ہیں یہ بھی تو ایرانی تھے ان کی انہوں نے کوئی وضاحت پیش نہیں کی کہ ان کا دین کیا تھا ؟

س) یہ آل سعود  جو ہے سلفی وہابی مکتب ہے، یہ اہلسنت نہیں ہیں۔  یہ آل سعود کا مکتب آنحضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کا مکتب نہیں ہے۔ یہ جو مسلمانوں کے فقہ ہیں وہ  حنفی، شافعی، حنبلی ، مالکی  اور جعفری  ہیں یہ سلفی ان اسلامی مذاہب   و مسالک میں ہمیں کہیں ہمیں نہیں ملتے ہیں۔  جو  مکتب سلفی گری  کا بانی ہے احمدبن عبد الحلیم  جو ابنی تیمیہ حرانی دمشقی کے نام مشہور ہےوہ اس قدر گستاخ تھا کہ جس پر اس کے دور کے نامور سنی اور شیعہ علماء سے لے کر اج تک علماء شدید اعتراض کرتے آئے ہیں اور اس وقت بھی اس کے باطل اور گمراہ کن افکار کو شیخ الاسلام کے نام سے امت اسلامی کے درمیان رائج ہیں اور اسی کے اقوال وہابیت کے عقائدہ کی بنیاد قرار پائے ہیں۔

یہ جو وہابی ہیں اگر  یہ کبھی قرآنی اصول پہ بات کرتے علمی بنیادوں پر بات کرتے تو حقائق خود بھی سمجھتے اوردوسروں کو بھی سمجھاتے ۔یہ لوگ علم و منطق کے دشمن رہے ہیں ۔ٹھیک کہا آپ نے کہ اگر ایرانی کافر ہیں  تو پھر آپ ان اہلسنت ائمہ اور علماء کو کیا کہیں گے جو اکثرچوٹی کے ممتاز اہلسنت علماء ہیں وہ سارے ایرانی ہیں۔

تو اگر یہ  لوگ ذرہ برابر بھی عقل و منطق سے کا م لیتے تو بات کچھ اور ہوتی یہ اکثر جاہل طبقہ ہے یہ  اہلسنت کی طرح نہیں۔ اب اہلسنت بیدار ہوچکے ہیں وہ اپنے صفوں سے سلفی گری اور وہابیت  کو نکالنے کا ارادہ کر چکے ہیں۔ جو ابھی اہلسنت علماء نے جس جرأت کا مظاہرہ کیا کہ چچنیا کانفرنس کے ذریعے اہلسنت دنیا نے اپنی شبیہ ٹھیک کرنے کیلئے  اب تھوڑا بہت اپنی غیر ت کا مظاہرہ کیا ہے کیونکہ آل سعود اپنے آپ کو سنی دنیا سے وابستہ عنوان کرتے ہیں۔ مگر اہلسنت حضرات نے یہ رسمی طور پر اعلان کیا کہ آل سعود  اصلاً سنی ہی نہیں ہیں۔ وہ خودساختہ ایک مسلک ہے جسے اہلسنت کی دنیا سے کوئی دور کا بھی واسطہ نہیں ہے۔

س) تو آخر وجہ کیا ہے کہ اس  یتیم فرقے کو (سلفی گری وہابیت)کو کوئی اپنانے کو تیار ہی نہیں  ہے۔ یہ جدھر جاتے ہیں لوگ دھتکاردیتے ہیں ۔کوئی نا ان کو سنی مان رہا ہے، نا ان کو حقیقی مسلمان مان رہےہیں ۔ یہ جو  یتیم فرقہ ہے  مطلب معاملہ کیا ہے ۔ کیوں دھتکارے جاتے ہیں یہ لوگ ؟  

ج) کیونکہ مسلمان اب  اچھی طرح سے سمجھنے لگے ہیں کہ یہ سلفی وہابی طاغوتی فرقہ ہے ، اس کو طاغوت نے بنایا ہے ، اس کے پیچھے برطانیہ، امریکہ و اسرائیل ہیں نہ کہ قرآن و سنت ۔

طاغوتی اقتدار کے سامنے حق بات منوانا بہت مشکل  کام ہوتا ہے  جہاں کسی کا سر اٹھانا اسکے سر گنوانے کے مترادف ہوتا ہے۔ یہ  اگر ایران کو اللہ کے وعدوں پر یقین کامل نہیں ہوتا تو وہ اس طریقے سے طاغوت کے سامنے سینہ سپر نہیں  کر سکتا ،زبان نہیں کھول سکتے تھے دوسروں کے مانند ہاں میں ہاں ملاتے رہتے۔ طاغوت  کے پاس جو اقتدار ہے وہ انسان اور انسانیت کا کھلا دشمن ہے اور جو اس طاغوت کے سامنے قد بلند کرنے کی کوشش کرے اسے صفحہ ہستی سے مٹایا جاتا ہے اس کے باوجود وہ استعماری طاقتیں  انسان اور انسانیت کے محافظ ہونے کا دعوی کرتے ہیں اور اسلامی ایران  نے استعماری طاقتوں کے چہرے سے یہ نقاب نوچ کر ان کا حقیقی چہرہ دنیا کیلئے دکھا رہے ہیں  ظاہر سی بات ہے کہ وہ ایسے موقف رکھنے والوں کی شبیہ بگاڑنا چاہیں گے ،کافر کہنا تو معمولی سی بات ہے۔اور یہی وجہ ہے کہ وہ ایران نام کے ہر چیز سے خائف ہیں۔ظاہر سی بات  اس حقیقت کے حوالے سے جو بھی جہاں بھی جسے دل کی بات کہنے کا موقعہ ہاتھ آئے وہ اس طاغوتی ، ظالمانہ اور جابرانہ فرقے سلفی و وہابی کو  تسلیم نہیں کرے گا ۔ماضی میں مسلمانوں کی خواب غفلت سے  مسلمان غیر مسلمان کے سامنے ہاتھ پھیلاتے کیلئے مجبور ہو گئے یہاں تک مکہ مکرمہ اور مدینہ منورہ جیسے حرمین شریفین کے غاصبوں کو حرمین  شریفین کے خادم کے عنوان سے ہی یاد کرنا پڑتا ہے۔ یا جو شیعہ یا سنی حج پہ جاتا ہے، عمرہ  پہ جاتا ہے وہ اسی وہابی اور سلفی کے پیچھے نماز پڑھتا ہے، جبکہ وہی  سنی  جانتا ہے کہ سلفی اور وہابی نہ شیعہ ہے نہ ہی سنی اور اس کا عقیدہ فاسد ہے مگر جائے گا کہاں، کرے گا کیا۔

س) اچھا یہ جوآل سعود چھوٹی چھوٹی اوچھی حرکتوں  پر اتر آئے ہیں، امت کے اندر صرف فتنے کا بیچ بونے کا کام کررہے ہیں اور ان کی مسئولیت ہی یہی ہے جو طاغوت کی طرف سے انہیں ذمہ داری سونپی گئی ہےجن کے یہ نوکر ہیں حالانکہ یہ خود بھی طاغوت ہیں۔مگرجو ان سے بڑے طاغوت ہیں انہوں نے جو ان کو ماموریت دی ہے  جو ان کی مسئولیت ہے کہ امت کے اندر نااتفاقی کو پیدا کیا جائے۔ جس کا ایک نمونہ اسپینش زبان کے اندر قرآن کریم کا ترجمہ ہوا ہے سعودی عرب میں ۔اس میں انہوں نے ’’غیر المغضوب‘‘ سے مراد انہوں نے اس کی تفسیر میں لکھا ہے کہ یہ ایرانیوں کے راستے پر نا چلا جائے ۔تو تھوڑا سا مغضوبین پہ بات ہوجائے کہ  یہ مغضوبین ہیں کون؟

ج) اس کے بارے میں انکے لئے میدان بظاہر صاف ہے کیونکہ حقیقت کو توڑ مروڑ  کر پیش کرنے سے یہ فرقہ وجود میں آیا ہے اب جب انکا اصلی چہرہ دکھایا جانے لگا ان میں بوکھلاہٹ بڑ گئ ۔ ان کی بوکھلاہٹ اسلئے ہے جس طرح میں نے پہلے بھی اشارہ کیا کہ اگر ان کے پاس تھوڑا بہت علم ہوتا ،یا اگر یہ سنی مسلک کے لوگ ہوتے ۔ تو انہیں معلوم ہوتا کہ سنی مسلک سارا کا سارا ایرانی علماء کا قرض دار ہے۔ کیونکہ 90 فیصد سے زیادہ  جو ان کے بڑے بزرگ علماء گزرے ہیں ان کا تعلق ایران سے ہے۔ وہ ایران کا لفظ استعمال ہی نہیں کرتے حتیٰ خود اس دور میں بھی جو یہاں  ایران میں اہلسنت  آباد  ہیں حتیٰ وہ وہابی جوایران میں رہتے ہیں  ان کا خیال ہوتا انہیں بھی کافر قرار نہیں دیتے ۔تو معلوم ہوتا ہے کہ یہ  ان کی بوکھلاہٹ ہے۔ وہ سمجھ گئے ہیں کہ ہماری چوری پکڑی گئی ہے، ہمیں اب اہلسنت بھی قبول کرنے کیلئے تیار نہیں ہے، اب اسی لئے یہ زیادہ یہ کوشش کرتے ہیں کہ شیعہ سنی کے درمیان تفرقہ پیدا ہوجائے۔ مگر نہ اب سنی اتنا بیوقوف ہیں اور نہ ہی شیعہ ۔الحمد اللہ شیعہ  پہلے سے ہی بیدار تھے خاص کر انقلاب اسلامی ایران کے بعد اسلئے اب  ان کے یہ ہتھکنڈے کامیاب نہیں ہونگے ۔  اگر کہیں کہیں ہمیں اس قسم کے حالات نظر آئے بھی وہ بالکل نچلے سطح کی ہونگی ، جاہلانہ سطح کی ہونگی۔ مگر شیعہ سنی اب  کبھی آپس میں دست و گریبان نہیں ہونگے ۔

س) بالکل چونکہ وقت جو ہے وہ ہمارے پاس  محدود ہوتا چلا آیا ہے  ایک آ خری سوال چونکہ آپ کی ایک بڑی گرفت ہے بین الاقوامی امور پر کیونکہ آپ بین الاقوامی نیوز ایجنسی کے ایکزیکٹیوچیف  ایڈیٹرہیں ۔ کیا دیکھتے ہیں آپ کہ  کیا  آل سعود  کا خاتمہ یقینی  ہے۔ اورکیا اس کا ادراک آل سعود کو بخوبی ہے۔ کیا وہ جاتے جاتے ایسی حرکتیں کررہے ہیں جسکے اندر امت کے اندر شدید نااتفاقی پیدا ہوجائے جو ان کی مذموم کوشش رہی ہے ۔ آپ کیا کہتے ہیں۔ کیا آل سعود ختم ہونے کے دہانے پر ہے  اور جس طرح چراغ کی لو ختم ہونے پراس کی لو پھڑ پھڑا رہی ہوتی ہے۔ کیا یہ آل سعود کی لو پھڑ پھڑارہی ہے؟

ج) بالکل ایسا ہی ہے۔  کیونکہ انہوں نے مسلسل ایسی غلطیاں کی ہیں کہ آپ ان کو سدھار نہیں سکتے۔ انہوں نے جو سلسلہ شروع کیا وہپہلے سے ہی غلط تھا۔انہوں نے مسلمانوں کو خود سے دور کیا صرف اپنے  آپ کو مسلمان ٹھہرایا ۔ابھی آپ نے قرآن کی آیت  کے غلط ترجمے کی طرف اشارہ کیا ۔ سلفی وہابیوں کی تاریخ میں غلط ترجمہ کرنا ہی نہیں بلکہ خود قرآن کو تحریف کرنے کی بھر پور کوشش کیتاریخ موجود ہے ۔ انہوں نے آیات و روایات کو اتنی  تحریف کی ہے  کہ اہلسنت کے مشہور  راویوں اور محافظ دین علما ء نے ان کی چوری پکڑی ہے  کہ کیسی کیسی تحریفیں انہوں نے اسلام میں انجام دئے ہیں  اور وہاں پر بھی ان کی کمزوریا ں  سامنے آگئی ہیں۔  اور اس پر جو اسلام کے نام پر انہوں نے دہشتگردی  کا چہرہ  سامنے رکھا اس سے تو  اب اہلسنت بیدار ہوگئے کہ ہمار ے نام کوبدنام کیا جاتا ہے ۔ نیز سیاسی طور پر  بھی اگر آپ دیکھیں یمن میں مسلمانوں کا قتل عام کرکے اپنا دھونس دباو بنانے کے درپے ہیں جبکہ ان کا دعوی تھا کہ یہ دو تین دن میں  اپنے مقصد کو حاصل کریں گے جبکہ ابھی دو سال کے قریب ہونے جارہے ہیں روز بہ روز ذلیل و خوار ہو رہے  ہیں جس کی ایک مثال سعودی عرب کی  اقتصادی  حالت  ہے ۔اسی طرح سعودی عرب کی  جو خطے میں سیاست جاری ہے وہ سبھی الٹا نتیجہ دے رہے ہیں  اور اسطرح ہر ایک  اقدام آل سعودکی تباہی اور بربادی  کی طرف جارہا ہے اور جس سے معلوم ہوتاہے کہ  اس کا زوال تقریباًآخری مراحل میں داخل ہو چکا ہے۔

جی انشاء اللہ  پروردگار جلد از جلد ان کا منحوس سایہ عالم اسلام کے اوپر سے برطرف کرے۔ بہت بہت شکریہ گذار ہیں ، ممنون ہیں کہ آپ نے اپنا قیمتی وقت  ہدایت ٹی وی کو دیا۔

تبصرے (۰)
ابھی کوئی تبصرہ درج نہیں ہوا ہے

اپنا تبصرہ ارسال کریں

ارسال نظر آزاد است، اما اگر قبلا در بیان ثبت نام کرده اید می توانید ابتدا وارد شوید.
شما میتوانید از این تگهای html استفاده کنید:
<b> یا <strong>، <em> یا <i>، <u>، <strike> یا <s>، <sup>، <sub>، <blockquote>، <code>، <pre>، <hr>، <br>، <p>، <a href="" title="">، <span style="">، <div align="">
تجدید کد امنیتی