سایت شخصی ابوفاطمہ موسوی عبدالحسینی

جستجو

ممتاز عناوین

بایگانی

پربازديدها

تازہ ترین تبصرے

۰

نہج البلاغہ کلام بشر سے اوپر اور کلام الہٰی کے نیچے والا کلام ہے

 اردو مقالات مکالمات اھلبیت ع حضرت علی علیہ السلام ھدایت ٹی وی کے ساتھ

ابوفاطمہ موسوی  عبدالحسینی:

نہج البلاغہ  کلام بشر سے  اوپر  اور کلام الہٰی کے نیچے والا کلام ہے

 نہج البلاغہ کو زیر سوال لانا کوئی تعجب کی بات نہیں۔نہج البلاغہ تو سید اوصیای رسول خدا صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم امیرالمومین علی علیہ السلام کے بیانات کا مجموعہ ہے جبکہ خود مولی کو عالم اسلام نے اپنا چوتھا خلیفہ تسلیم کرنے کے باوجود 80 سال سرکاری طور پر جمعہ خطبوں میں لعن ونفرین کرتےرہےجو کہ تقریبا  200  سال تک غیر سرکاری طور پرجاری رہا۔ کیاجوحضرات ’’نہج البلاغہ‘‘ پر اعتراض کرتے ہیں کبھی اس 80 سالہ دور کہ جو ان کے بقول اسلامی دور تھا میں جمعہ خطبوں میں شاہ ولایت پر لعن و نفرین کرنے پر اظہار نظر کرتے ہیں۔ کیا دو صدیوں تک اس مظلوم تاریخ امیرالمومنین علی ابن ابیطالب علیہ السلام کی قبر پوشیدہ ہونے کی علل و اسباب پر بات کرنا گوارا کرتےہیں !  کیوں!کیونکہ اس کے پیچھے استعماری سیاسی اغراض و مقاصد کار فرما ہوتے ہیں نہ کہ مذہبی۔جبکہ اکثر اہلسنت علماءحقیقت کوبیان کرتےہیں۔نہج البلاغہ کی فصاحت وبلاغت خود اس بات کا بین ثبوت ہے کہ یہ کلام صرف امیرالمومنین علی علیہ السلام کا کلام ہے۔

عالمی اردو خبررساں ادارے نیوزنورکی رپورٹ کےمطابق لندن میں دائرہدایت ٹی کے "صبح ہدایت" پروگرام کے عالمی منظر  میں میزبان سید علی مصطفی موسوی نے بین الاقوامی تجزیہ نگار اور نیوزنور کےبانی چیف ایڈیٹر حجت الاسلام سید عبدالحسین موسوی معروف بہ ابوفاطمہ موسوی عبدالحسینی سےآنلاین مکالمے کے دوران  بعض افراد کی طرف سے "نہج البلاغہ" پر ابہامات پیدا کرنے کی کوشش  کے حوالے سے لیے گئے انٹرویو کو مندرجہ ذیل قارئین کے نذر کیا جا رہا ہے:

س) قبلہ میں چاہتا ہوں کہ آج نہج البلاغہ کے اوپر بات ہوجائے  جو کلام امام علی  علیہ السلام ہے جو کہ آپ کی زندگی مبارکہ کے کافی عرصے کے بعد اس کو پبلش کیا گیا ، اس کو جمع کیا گیا اور اس کے اوپر کچھ لو گ ابہام پیدا کرنے کی کوشش کرتے ہیں ، سولات اٹھاتے ہیں حالانکہ کلام امام،امام الکلام ہوا کرتا ہے اور وہ جملے خود بتاتے ہیں کہ وہ کسی عام انسان کا کلام نہیں ہے۔ بڑے سے بڑا عارف  اور بڑے سے بڑا دانا بھی وہ ادبیات کا استعمال نہیں  سکا ہے ، جس طرح کا کلام امام کی زبان سے جاری ہوا ہے ۔ مگر اس کے باوجود بعض لوگ جو کہ دانستہ یا نا دانستہ طور پر یا کم علمی اور کم فہمی کی بنیاد پر اس کے اندر ابہام پیدا کرتے ہیں ۔ میں چاہوں گا کہ ایک مکمل تعارف کرائیں، حالانکہ وقت بہت کم ہے مگر آپ سے گزارش کرینگے کہ اس کے اوپر جتنی مفصل گفتگو ہو سکے وہ اس کم اور محدود وقت کے اندر کی جائے ۔ تھوڑا نہج البلاغہ کا تعرف ہوجائے اور مولا کے کلام کے اندر جو عربی ادبیات کا کمال ہے اس کے اوپر گفتگو ہوجائے ؟۔

ج) بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِیمِ۔ الْحَمْدُ لِلَّهِ رَبِّ الْعالَمین‏ ۔ اللَّهُمَّ ‌و‌ أَنْطِقْنِی بِالْهُدَى ، ‌و‌ أَلْهِمْنِی التَّقْوَى ، ‌و‌ وَفِّقْنِی لِلَّتِی هِیَ أَزْکَى۔

مجھ جیسا طالبعلموں کا خاک پا ، نہج البلاغہ کے متعلق تو کچھ کہہ نہیں سکتا، جو کچھ کہنے جا رہا ہوں وہ علماء کی باتیں ہیں کہ جو خود اس قسم کی صلاحیت رکھتے ہیں کہ نہج البلاغہ کے سامنے زانوی ادب تہہ کرکے بیٹھ کر بات کرنے کی صلاحیت رکھتے ہون:

چوتھی صدی میں سید رضی نے شاہ ولایت حضرت علی ابن ابیطالب علیہالسلام کے خطبوں، خطوط، حکم ناموں، پندناموں اورکلمات قصار پرمشتمل ایک مجموعہ تیار کیا جسکا نام "نہج البلاغہ " رکھا۔ جبکہ اس میں رسول خدا صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے زمانے میں امیرالمومنین علی علیہ السلا م کے بیانات درج نہیں ہیں ،نہ ہی آنحضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے بعد سے اہلسنت حضرات کی طرف سے بظاہر چوتھے خلیفے منتخب کئے جانے تک بیانات درج ہیں، بلکہ اس میں صرف اسی ظاہری خلافت کے مختصر دور کے مختصر گلدستہ موجود ہے۔

رہا سوال یہ کہ کیا ’’نہج البلاغہ‘‘ حضرت امیرصلوات اللہ وسلامہ علیہ کے بیانات پر مشتمل ہے یا کہ خود اس شیعہ عالم دین ’’ سیدرضی‘‘ کی کہ جس نے اس گلدستے کو تیار کیا ہے کی تصنیف ہے۔ یا یہ کہ  ’’سیدرضی‘‘ کے بھائی ’’سیدمرتضی علم الہدی‘‘  کی تصنیف ہے کہ جس طرح بعض متعصب افراد کسی تحقیق کے بغیر اس قسم کی باتیں کرتے آئے ہیں۔ یا جس طرح ہمارے کچھ اہلسنت بھائی  ’’نہج البلاغہ‘‘کے بعض خطبوں کے بارے میں شک و تردید کا اظہار کرتے ہیں۔ جبکہ اہلسنت علماء جیسے ابن ابی الحدید کہ جنہوں نے ’’نہج البلاغہ’’ پر شرح لکھی ہے انہوں اس حوالے سے تفصیلی اورمستدل طریقے سے ثابت کیا ہے کہ  ’’نہج البلاغہ‘‘ میں موجود تمام بیانات ازجملہ ’’خطبہ شقشقیہ‘‘ خود امیرالمومنین علی علیہ السلام کا ہے کہ جسے ’’سیدرضی‘‘  کی ولادت سے بہت پہلے جب سید رضی کے والد بھی پیدا نہیں ہوئے تھے بعض اہلسنت علماء کی کتابوں میں درج ہوا ہے۔

اس طرح کی بہت ساری اسناد و مدارک موجود ہیں جس سے کسی طرح تردید باقی نہیں رہتی کہ "’’نہج البلاغہ‘‘ ’’سیدرضی‘‘ کی تالیف ہے نہ کہ تصنیف۔

نہج البلاغہ شیعہ اور سنی دونوں کیلئے بڑی اہمیت رکھتی ہے:

یہ نہج البلاغہ شیعہ اور سنی دونوں کیلئے بڑی اہمیت رکتھی ہے ۔نہج البلاغہ سیداوصیای رسول خداصلی اللہ علیہ وآلہ وسلم امیرالمومنین علی علیہ السلام کے خطبات و خطوط اور پندو نصایح پر مشتمل ہے اسلئے شیعوں کے درمیان بڑی اہمیت رکھتی ہے اور کلام اللہ المجید کے بعد مہم ترین کتاب سمجھتے ہیں۔ اہلسنت کے درمیان بھی اس کی فصاحت اور بلاغت کے پیش نظر کہ جس کی عرب ادبیات میں نظیر نہیں ملتی کی وجہ سے انکے علماء کیلئے خاص توجہ کا مرکز رہی ہے۔

نہج البلاغہ کو زیر سوال لانا کوئی تعجب کی بات نہیں۔نہج البلاغہ تو سید اوصیای رسول خدا صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم امیرالمومین علی علیہ السلام کے بیانات کا مجموعہ ہے جبکہ خود مولی کو عالم اسلام نے اپنا چوتھا خلیفہ تسلیم کرنے کے باوجود 80 سال سرکاری طور پر جمعہ خطبوں میں لعن ونفرین کرتےرہےجو کہ تقریبا  200  سال تک غیر سرکاری طور پرجاری رہا۔ کیاجوحضرات ’’نہج البلاغہ‘‘ پر اعتراض کرتے ہیں کبھی اس 80 سالہ دور کہ جو ان کے بقول اسلامی دور تھا میں جمعہ خطبوں میں شاہ ولایت پر لعن و نفرین کرنے پر اظہار نظر کرتے ہیں۔ کیا دو صدیوں تک اس مظلوم تاریخ امیرالمومنین علی ابن ابیطالب علیہ السلام کی قبر پوشیدہ ہونے کی علل و اسباب پر بات کرنا گوارا کرتےہیں !  کیوں!کیونکہ اس کے پیچھے استعماری سیاسی اغراض و مقاصد کار فرما ہوتے ہیں نہ کہ مذہبی۔جبکہ اکثر اہلسنت علماءحقیقت کوبیان کرتےہیں۔نہج البلاغہ کی فصاحت وبلاغت خود اس بات کا بین ثبوت ہے کہ یہ کلام صرف امیرالمومنین علی علیہ السلام کا کلام ہے۔

یہی وجہ ہے کہ عرب زبان کے ماہرین نے ہمیشہ نہج البلاغہ کے سامنے سر تعظیم خم کیا ہوا ہے۔ سنی علماء نے ہی نہیں بلکہ غیر مسلمان علماء بھی اس میں شامل ہیں از جملہ:

فرانسوی فلسفی اورمشرق شناسی کے ماہر استاد : پروفسر ہینری کاربن[Professor Henry Corbin] نہج البلاغہ کو معرفت کا وہ مہم ترین سرچشمہ قرار دیتے ہیں کہ جس سے مفکر ین ہمیشہ سیراب ہوتے رہے ہیں۔

نہج البلاغہ کے بارے میں ایک عیسائی صاحب نظر استاد امین نخلہ نے کسی کے جواب میں جس نے ان سے کہا تھا کہ نہج البلاغہ میں سے ان کےلئے ایک سو کلمات کو منتخب کرکے دیں، کہا:  خدا کی قسم نہیں کرسکتا۔

کیسے ممکن ہے کہ انمول موتیوں میں سے ایک سو انمو ل موتیوں کو جدا کرکے دوں، میں ایسا کرنےسے عاجز ہوں۔

ایک معروف لبنانی عیسائی استاد، شاعر اور مصنف بولس سلامہ نہج البلاغہ کے بارے میں کہتے ہیں: نہج البلاغہ ایسا جاوداں اثر ہے جس سے علی ابن ابیطالب (علیہ السلام) کے آفاقی سوچ کی شناخت پیدا ہوتی ہے کہ جس کے ساتھ قرآن کے بغیر کوئی کتاب برتری حاصل نہیں کرسکتی۔

جورج جرداق معروف عیسائی مصنف نہج البلاغہ کے بارے میں کہتے ہیں کہ نہج البلاغہ فصیح و بلیغ ترین کلام ہے جب تک انسان ہے اور افکار انسانی موجود ہیں تو انسانی و ہنری اور ادبی سلیقہ کو اس سے جدا کیا جانا ناممکن ہے۔

جو حکمت کو  سمجھتے ہیں، عربی کو سمجھتے ہیں ، علم کو سمجھتے ہیں  وہ تو سر تعظیم خم کرتے ہیں۔ مگر جو لوگ جاہل ہیں  حتیٰ  سرسری مطالعہ بھی نہیں رکھتے ہیں نہج البلاغہ کا تو پھر  اس پہ رائے قائم کرتے ہیں کہ بھئی یہ ہے نہیں ہے۔ یہ ان کی جہالت کی عکاس ہے۔ حقیقت میں یہ ایک غیر متنازعہ کتاب ہے جبکہ اسکو متنازعہ بنانے کی کوشش کی جاتی  ہے ۔ جس کسی نے اس کتاب کا مطالعہ ، اسکی تحلیل کی ہے جس سطح کا بھی فاضل ، عالم اور عربی ادب و ادبی پررکھ کے بارے میں کم یا زیاد آشنائی رکھتا ہے وہ اس سے آگے نہیں بڑھ سکا کہ  نہج البلاغہ کے مقابلے میں صرف قرآن کو لایا جاسکتا ہے اور کوئی ابھی تک مائی کا لعل پیدا نہیں ہوا جو علی ؑ کے کلام میں اپنی برتری کو ثابت کرسکے۔ صرف کلام اللہ رہا ہے جس کی نہج البلاغہ پر برتری رہی ہے۔

س) تو اس سے ہم آج کے دور میں موجودہ دور میں کس طرح سے استفادہ حاصل کرسکتے ہیں؟ ہمیں کیا کرنا چاہئے؟

ج)   بس اس کا مطالعہ کرنا  چاہئے ۔ جس طرح جارج جرداق جیسے عربی لٹریچر کے عیسائی پروفسر استاد سے ان کے بھائی صاحب کہتے ہیں کہ؛ تم نے اتنی عربی لٹریچر پڑھائی، کیا کبھی تم نے نہج البلاغہ کو پڑھاہے؟۔ کہا نہیں، وہ کیا چیز ہے ۔ کہا؛ کمال کررہے ہو، آپ نے ابھی تک نہیں پڑھی ہے تو آپ عربی  لٹریچر کے ماہر ہونے کے کیسے دعویدار ہو۔ تو ان کو  جب انہوں نے نہج البلاغہ دی، تو خود جارج جرداق اس حوالے سے کہتے ہیں کہ: میں نے 200 بار اس کا رویژن کیا۔نہج البلاغہ کا ، ہر بار  مطالعہ کرتےمیں چکراتا ہوں ، ہر بار نئے علمی خزانے ملتے نظر آتے ہیں۔(مگر ہم مسلمان ہو کر مشکل سے عمر بھر میں ایک دورہ قرآن کا کرتے ہیں تو  کہتے ہیں میں نے قرآن کا ختم کیا۔ )تو وہ اتنا حیران ہوگیا کہ جو اس میں کمالات کو گوہر جو ہیں اور جو اس میں  ادبی خزانے ہیں ۔ تو اسے یہی اندازہ ہوتا ہے  کہ جب ایسا غیر اسلامی عربی ادبیات کا اسکالر اتنا عاشق ہوجاتا ہے  کہ وہ اس  کا 2 سو بار  رویژن کر کے اپنی فیکلٹی میں نئے سرے سے عربی لٹریچر کو پڑھانا شروع کرتا ہے تو اس سے اندازہ ہوتاہے کہ  نہج البلاغہ عربوں کا بالخصوص اور غیر عرب مسلمانوں و غیر مسلمانوں کے لئے بالعموم کتنا انمول خزانہ ہے ۔ عربوں کو اگر علم کے اعتبار سےفخر کرنا ہے  تو نہج البلاغہ کے بغیر ان کے پاس کچھ نہیں ہے۔ تو انہیں چاہئے کہ اگر دنیا میں اپنے علمی سرمایے کو  دکھانا ہے اپنی شناخت پیش کرنی ہے تو نہج البلاغہ کو پیش کریں۔ تو اسے بھی ہمیں یہی پتہ چلتا ہے کہ ہماری شناخت  نہج البلاغہ کے بارے میں بہت کم ہے ۔ اگر ہمیں دنیا کے کسی بھی میدان میں کھرا اترنا ہے تو ہمیں نہج البلاغہ کا مطالعہ کرنا چاہئے چاہئے ہم چاہے مسلمان ہوں یا غیر مسلمان۔نہج البلاغہ میں چھپے انمول خزانے ہیں۔ جو کمالات کو حاصل کرنا چاہتے ہیں؛ کسی بھی میدان میں حکومت میں، سیاست میں ، دیانت میں ، علم میں ، فضل میں، عرفا ن میں، توحید میں جس میدان میں جانا چاہئے گا تو نہج البلاغہ سے بہترین اس کے پاس کوئی خزانہ نہیں ہے قرآن کے  بعد  جو اتنے سلیس انداز میں آپ کو یہ ساری معرفتوں کے راستے آپ کے سامنے کھل کردے ۔تو یہ وہ سعادت مند لوگ ہیں کہ جو اس خالص ترین سرچشمے سے سیراب ہوتے ہیں ، اسے استفادہ کرتے ہیں اور ہمارے لئے بھی یہی حکم ہے کہ اگر ہم کچھ حاصل کرنا چاہتے ہیں حتیٰ قرآن کو صحیح سمجھنا چاہتے ہیں  تو ہمیں پہلے نہج البلاغہ کو پڑھنا ہوگا تبھی ہمیں قرآن سمجھ میں آئے گا ۔ قرآن میں اللہ اپنے حبیب(صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے کیا باتیں کررہا ہے، تو اسکی وضاحت ہمیں نہج البلاغہ میں ہمیں معرفت کے ساتھ ملتی ہے۔یہی ہمارے لئے سب سے بڑا ہنر ہونا چاہئے کہ ہم ایسےخزانے کے  نسبت کم سے کم ایک  سرسری آشنائی پیدا کریں ،تاکہ ہماری طرف بھی وہ فیوض کے دروازے کھل جائیں جو ان بزرگوں کے سامنے کھلے ہوں جو نہج البلاغہ پر بات کرتے ہیں،عمل کرتے ہیں۔

س) آپ نے ابھی اس کے اوپر عمدہ بات کی کہ جو ایک مختلف پہلو ہے۔عربی ادبیات کا اس کے اندر جو ایک  کمال استعمال ہے جو کہ آپ نے ایک عیسائی مورخ کا بھی نام لیا جن کا تعلق لبنان سے تھا جو کہ عیسائی ہونے کے باوجود مولا علی ؑ کا عاشق کہلاتے تھے اور پوری دنیا میں سفر کرتے تھے اور مولاؑ کے نام کا کلام جہاں کہیں سے بھی ملتا تو اس کو جمع کرتے تھے یعنی انہوں نے جو عربوں کے خزانے کے اوپر بات کی کیونکہ ادبیات کے خزانوں میں سے اس کو تھوڑا سا اور کھول کر بیان کریں تاکہ ایک مزاج کی بات ہوجائے جیسا کہ کلام اللہ کا ایک مزاج ہے، قرآن کا ایک مزاج ہے ، اس کے اندر اس کی گہرائی میں جاکے اس کے مزاج سے آشنا ہوجائیں۔کیونکہ انسان کسی بھی کلام کو  دیکھتے ہی کہہ دیتا ہے کہ نہیں یہ کلام اللہ نہیں ہے۔ تو اسی طرح جو مولا علی ؑ کا کلام ہے ، جو نہج البلاغہ کی خصوصیت ہے میں چاہوں گا کہ تھوڑی سی اس کے اوپر مزید اس کو کھولا جائے ،  آسان کر کے تاکہ ہمارے ناظرین کیلئے جو ہیں وہ اور سودمند ثابت ہو ۔ اس کی کیا خصوصیت ہے ، اس کا اپنا کیا ایک مزاج ہے؟

ج) یہ الفاظوں میں بیان کرنا میرے لئے بہت ہی مشکل ہے البتہ  اتنا ضرور کہہ سکتا ہوں کہ جو بھی جس ترجمےکو، سلیس ترین ترجمہ کو یا غلط ترین ترجمے کو یعنی جو بالکل ہی نہج البلاغہ سے دور ہو،  جس نے ناانصافی کی ہوگی نہج البلاغہ کے ساتھ ،کسی بھی زبان میں، الحمد للہ آج ہر ایک بڑی زبان میں نہج البلاغہ کا ترجمہ موجود ہے، کسی بھی ایک ترجمے کو اٹھا کر دیکھ لیں؛ تو خود آپ قضاوت کرسکتے ہیں۔ اگر آپ قرآن کے بعض ترجموں کو دیکھ لیں جہاں مترجم نے جانے انجانے میں اتنا ظلم کیا ہے کہ قرآن کچھ کہہ رہا ہے اور مترجم کچھ اور کہہ رہا ہے ۔ مگر اگر آپ نہج البلاغہ کو اٹھا کے ایسے ہی ناقص ترجمے کو بھی اٹھائیں گے کہ جس میں نہج البلاغہ   کچھ کہتا ہوگا اور مترجم  کچھ اور کہہ رہا ہے ۔مگر اس کے باوجود بھی عقل حیران رہ جاتی ہے کہ کتاب کتنی مفید ہے۔بعض پڑھنے والے تو یہاں تک آگے چلے گئے کہ پڑھنے کے بعد کہنے لگے یا صاحب کلام یا خالق کائنات ہے یا تو کائنات کی خلقت کا عینی شاہد ہے۔ جہاں تک  نہج البلاغہ کے ساتھ چلیں گے وہاں آپ کو وہ چیزیں ملیں گی جسے صرف  الفاظوں میں خلاصہ نہیں کرسکیں گے بلکہ محسوس کریں ۔ یہی وجہ ہے کہ  حتیٰ غیر مسلمانوں نے اس بات کا اعتراف کیا ہے کہ نہج البلاغہ کے مقابلے میں قرآن کے بغیر کسی بھی کتاب کو برتری ابھی تک حاصل نہیں ہوئی  ہے۔اور نہ ہی ہوسکتی ہے۔

 اس میں  شیعہ سنی کے درمیان غیر منطقی تعصب  بھی کارفرما رہا ہے جیسے کہ جب اہلسنت علماء کو نہج البلاغہ کے بارے میں بات کریں گے تو پہلے وہ اس میں شک و تردید کے طور پر دیکھے گیا کہ یہ تو صرف شیعہ کتاب ہے۔ اور  اکثر شیعہ علماء نے اس کا صحیح تعارف دینے میں  کوتاہی کی ہے جس سے بہت سارے اہلسنت علماء  اس سے محروم رہے  ہیں۔ مگر الحمد اللہ اب جبکہ یہ غیر منطقی تعصب  کسی حد تک ٹوٹا، اس میں ہمارے شیعہ مراجع کا اچھا کردار رہا ہے انہوں نے جو الازہر  مصر کے علماء سے اپنی قربت جو بڑھائی  اور انہوں نے جب نہج البلاغہ اُن کو دیا۔(  آیت اللہ بروجردی کے زمانے کا واقعہ ہے جب شیخ الازہر کو نہج البلاغہ کا نسخہ دیا گیا تھا) تو وہ عمر بھر سر پیٹتے رہے کہ میں نے تو  ابھی تک زندگی ضائع کی ہے  اور زندگی کے اواخر میں مجھے ایسا عربی میں خزانہ ملا ، مجھے نہیں پتہ تھا کہ ہمارے پاس اتنے علمی خزانے ہیں، اور  عرب دنیا اس سے محروم ہیں۔

تو اس میں صرف یہ نہیں کہ ہم شیعہ کہہ رہے ہیں کہ جناب نہج البلاغہ یہ ہے جس طرح قرآن دعویٰ کرتا ہے:" وَإِنْ کُنْتُمْ فِی رَیبٍ مِمَّا نَزَّلْنَا عَلَى عَبْدِنَا فَأْتُوا بِسُورَةٍ مِنْ مِثْلِهِ وَادْعُوا شُهَدَاءَکُمْ مِنْ دُونِ اللَّهِ إِنْ کُنْتُمْ صَادِقِینَ"تو نہج البلاغہ بھی عملی طور پر اسی کا دعویٰ کرتا ہے۔ اگر آپ میں اتنی علمی صلاحیت ہے تو نہج البلاغہ کے ایک جملے کے مقابلے میں ایک جملہ لے کے آئے ، ایک جملے کو جو اُن علمی اسرار کو آشکار کرے جنہیں الفاظوں کے قالب میں مولا ؑ نے بیان کیا ہے اُس کو بیان کرکے دکھائیں۔

غرض یہ(نہج البلاغہ کا) کلام بشر سے  اوپر  اور کلام الہٰی کے نیچے والا کلام ہے ۔ تو اس کو اپنے معاشرے کے درمیان ہونا اور اس سے استفادہ نہ کرنا یہ اس معاشرے کی بدقسمتی ہے۔ ٹھیک اسی طرح جس طرح خود قرآن ہمارے درمیان مہجور ہے۔ ہمارے درمیان خود کلام اللہ ہے ، اللہ کی گفتگو موجود ہے ہمیں اس میں قباحت ہوتی ہے کہ ہم کم سے کم ایک بار تدبر کے ساتھ اس کا ریوژن کریں اور سمجھیں کہ کس طریقے سے خالق نے اپنے حبیب کے ساتھ گفتگو کی ہے۔رہا سوال نہج البلاغہ کا وہ تو مخلوق کا کلام ہے  ،  صرف تعصب ہے کہ جو ہم اس سے دور رہتے ہیں۔ مگر الحمد اللہ جن کو سعادت حاصل ہوتی ہے وہ اس فیض سے بہرہ مند ہوتے ہیں۔

سبحان اللہ سبحان اللہ بہت ہی عمدہ ، بڑی مفید قبلہ گفتگو رہی ، وقت کم ہوتا ہے اور بہترین بات کہی آپ نے کہ مخلوق سے اوپر کا کلام اور کلام الہٰی سے نیچے کا کلام کیا تعرف پیش کیا۔ شکریہ

تبصرے (۰)
ابھی کوئی تبصرہ درج نہیں ہوا ہے

اپنا تبصرہ ارسال کریں

ارسال نظر آزاد است، اما اگر قبلا در بیان ثبت نام کرده اید می توانید ابتدا وارد شوید.
شما میتوانید از این تگهای html استفاده کنید:
<b> یا <strong>، <em> یا <i>، <u>، <strike> یا <s>، <sup>، <sub>، <blockquote>، <code>، <pre>، <hr>، <br>، <p>، <a href="" title="">، <span style="">، <div align="">
تجدید کد امنیتی