سایت شخصی ابوفاطمہ موسوی عبدالحسینی

جستجو

ممتاز عناوین

بایگانی

پربازديدها

تازہ ترین تبصرے

۰

حلب کی آزادی یعنی مقاومتی محاذ کا مستقبل تابناک اور امریکی اسرائیلی سیاست کا مستقبل تاریک

 اردو مقالات مکالمات سیاسی سعودی عرب شام مصر ترکی برما ھدایت ٹی وی کے ساتھ

ابوفاطمہ موسوی عبدالحسینی:

حلب کی آزادی یعنی مقاومتی محاذ کا مستقبل تابناک اور امریکی  اسرائیلی سیاست کا مستقبل تاریک

اگر حلب کے انتقام  میں روس کے سفیر کا قتل کیاگیا تو فلسطین کے انتقام میں  اسرائیل کےکسی بھی سفیر کا کبھی بھی بال بھی بانکہ نہیں کیا گیا۔کیوں؟

عالمی اردو خبررساں ادارے نیوزنورکی رپورٹ کےمطابق لندن میں دائرہدایت ٹی کے "صبح ہدایت" پروگرام کے عالمی منظر  میں میزبان سید علی مصطفی موسوی نے بین الاقوامی تجزیہ نگار اور نیوزنور کےبانی چیف ایڈیٹر حجت الاسلام سید عبدالحسین موسوی معروف بہ ابوفاطمہ موسوی عبدالحسینی سےآنلاین مکالمے کے دوران "سچ کا سفر" کے زیر عنوان "ترکی میں روسی سفیر کے قتل اور حلب کی آزادی"  کے حوالے لئے گئے انٹرویو کو مندرجہ ذیل قارئین کے نذر کیا جا رہا ہے:

ترکی میں روسی سفیر کا بہمانہ قتل کے عوامل کیا ہو سکتے ہیں؟

مقاومتی محاذ کی پیشقدمی ؛ترکی میں روسی سفیر کا قتل اور روس کا صبر کا مظاہرہ  ایک  نئی سیاست کا طلوع

 بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِیمِ۔ الْحَمْدُ لِلَّهِ رَبِّ الْعالَمین‏ ۔ اللَّهُمَّ ‌و‌ أَنْطِقْنِی بِالْهُدَى ، ‌و‌ أَلْهِمْنِی التَّقْوَى ، ‌و‌ وَفِّقْنِی لِلَّتِی هِیَ أَزْکَى۔

یہ بہت ہی کلیدی سوال ہے ، اتنا بڑا واقعہ، ایسے ملک میں، وہ بھی ایک ایسے ملک کے سفیر پر قاتلانہ حملہ!ایک ملک کے سفیر پہ حملہکرنا!اگر کسی سفارتخانہ پہ حملہ ہو جائے وہ اس ملک کےاوپر حملہ کرنے کے مترادف ہے اوراگر ایک سفیر پر حملہ ہوتا ہے گویا اس ملک کے صدر/ملکی سربراہ کو قتل کیا جانا ہے اسطرح جو روسی سفیر کا قتل کیاگیا یہ در واقع روسی صدر کا قتل کیاگیا ہے۔تو اسے پتہ چلتا ہےکہ کوئی  معمولی بات نہیں ہے ۔

اس حادثے  کا ایک پہلو  اور پیغام یہ ہو سکتا ہےکہ ترکی کو اگر اپنے مستقبل کو بچانا ہے اسے ایران کے نقشے قدم پر چلنے کے بغیر کوئی بھی راستہ سامنے  نہیں رہا ہے ۔ترکی نے امریکہ اور یورپ کی نمایندگی کرتے ہوئے ایران کی سیاست کے بر خلاف عمل کرنے کیلئے کتنے نسخے نہیں آزمائےمگر آخر کار نا کامیوں کے سوا کچھ حاصل نہیں کیا ۔اور یہ کہ روس جیسے ملک نے گویا ایران کی سیاست کے سامنےسرنڈر کرنا سیکھاکیونکہ دیکھا بس یہی وہ سیاست ہے جس میں ملک کا فیوچر ہے کہ دوسرے ملک اور وہاں کے عوام کو اپنی جاگیر نہیں سمجھنا ہے بلکہ انکے سیاسی جفرافیائی حقوق اور ان کی رائے کا احترام کرتے ہوئے انہیں  اب ڈکٹیٹشن  دینے سے باز رہنا ہے، آپ لوگوں کی باتوں  اور تقاضوں کو سنیں کہ وہ کیا کہتے ہیں ، انہیں جمہوریت کے ساتھ حق دو کہ وہ اپنےمسائل  کو خود حل کریں ۔جبکہ استعماری طاقتوں کا شیو ہ یہ رہا ہےکہ وہ کہتے ہیں کہ نہیں جسے ہم صحیح سمجھیں وہی صحیح ہے۔ ایران نے کبھی بشارالاسد کی حمایت نہیں کیہے بلکہ  کہاکہ یہ فیصلہ سنانا شام کے عوام کا ہے ایران اورکوئی دوسرا ملک نہیں،کوئی بھی ملک  وہاں یہ حق نہیں رکھتا کہ وہ وہاں پہ ڈکٹیٹشن دیں کہ نہیں منتخب رئیس جمہور ہی رہنا چاہئےیا منتخب رئیس جمہور نہیں رہنا چاہئے۔  اورروس نے دیکھاکہ اس بات میں  دم ہے  اورہاتھ میں ہاتھ ملایا اورترکی نے بھی آخرکار یہی سمجھاکہ اسی حکمت اور سیاست میں علاقائی اور ملکی سالمیت کی بھی ضمانت ہے ۔اور عقلمندی کابھی یہی تقاضا ہے اوربہترین ریزلٹ بھی یہی دے رہی ہے ،کہ جس کی طرف ترکی آہستہ آہستہ  اپنا جھکاؤ ظاہر کرتے نظر آنے لگی ہے ۔اب اس محاز کی طرف جو ایران ،روس ،حزب اللہ اور شام کی صورت میں ابھی  دنیا کے سامنے ابھر رہا ہے اور آئے دن اس میں اضافہ ہوتا نظر آ رہا ہے ، آہستہ آہستہ ترکی نےاب اس کی طرف اپنا جھکاؤدکھانا شروع کیا۔

اورہم  نےدیکھا کہ  ابھی ماسکو میں اس حادثے کے رونما ہونے کے باوجود ایک  بیٹھک ہونے جارہی ہے اور اس بیٹھک کے ایک دنپہلے روس کے سفیر کو قتل کیاگیا ۔تو میرا ماننا ہےیہ ہےکہ یہ ترکی کے اس ارادے کو روکنا ہے کہ ترکی ایران اور مقاومتی محاذ کا ہمنوا نہ بن جائے ۔اگر ایران اورترکی مل جائے تو جو یورپی اور امریکی سیاست ہے وہ پھر نافذ کرنا ممکن نہیں ہوگا۔تو اس حوالے سے میرا اپنا ذاتی تجزیہ ہےکہ، یہ کہنا کہ اس میں ترکی کا ہاتھ ہوسکتا ہے میرے نظر میں صحیح  نہیں ہوسکتا ہے۔ البتہ حکومت میں ایسے عناصر کا ہونے سے انکار نہیں کیا جاسکتا ہے ۔ خاص کر اس موضوع کے پیش نظر کہ خود ترکی نے ابھی جووہاں پر  ناکام  بغاوت میں جس شدت کےساتھ اسے کچل دیا تو ظاہر سی بات ہے کہ داخلی دشمن بھی حکومت سے انتقام لینے کے غرض سے متحرک ہوئے ہونگے ۔

ایک اور پہلو یہ ہے کہ ترکی کا نہ گھر کا نہ گھاٹ کا والا معاملہ نظر آ رہا ہے  وہ یورپی یونین میں شامل ہونے کیلئے پر طول رہی تھی لیکناسےیورپی  یونین نے اب ایکسپٹ کرنے سے انکار کیا نیز اسکی اپنی پالیسی بھی کچھ فائدہ  نہ دے گئی اوراب شائد اسکے لئے اسکے بغیر کوئی اوپشن نہیں رہتاکہ وہ ایران اورمقاومت محور سیاست کےسامنے عملاً  اتحادی بننے کی کوشش کرے اوربے شک اسکے لئے رکاوٹیں کھڑی کی جائیں گی۔ اوربظاہر اسی پہلو کے مدنظر روس نےبڑے تحمل مزاجی کےساتھ پھربھی  اس بیٹھک کو منعقدہ ہونے دیا۔ہمسایہ ممالک کے وزرای خارجہ بیٹھے ہیں اورراہ حل تلاش  کرنے لگے ہیں، اس سے  اس بات کا پتہ چلتا ہے کہ بڑے چلینجوں کو ابھی علاقے میں خود فیصلے لینے کا وقت آگیا ہے ۔اور جو منصوبہ وہاں یورپ اور امریکہ سے بنائےجارہے تھے اورزیادہ تر مسلمانوں کو  جذباتی بنا کراور بیوقوف بناکر وہ اپنا ایجنڈا ان کے ذریعہ پورا کرتے رہے ہیں  شائد اس بار اس میں انہیں اس نسخے میں ناکامی دیکھنے کو ملے گی۔ اوراب ہر خطے اور ملک میں ہر کوئی اپنی سیاست اوراپنی اجارہ داری کے اعتبار سے سیاست کرےگااور جو استعماری بالادستی تھی وہ اب کم رنگ ہوتی  نظر آرہی ہے۔

ترکی کے ساتھ ساتھ مصر بھی مقاومتی محاذ کی طرف آگے بڑھنے کا مائل

تو کیا مصر کا معاملہ بھی  ایسا ہی ہے یہ جو مصری صدر عبدالفتاح السیسی  جو کہ سعودی عرب کی باقاعدہ رشوت سے منتخب حکومت کا  فوجی بغاوت کرواکرتختہ پلٹانے سے اقتدار میں آیا ہے اور وہاں کی منتخب حکومت کو روانہ زندان کردیا  اور وہاں بھی  رنگ بدلاو دیکھ رہیں وہ سعودی موقف کے برخلاف ترکی کی طرح دوسرے اور جا رہے ہیں کیا؟

ج)آپ کے سوال کے جواب سے پہلے اشارہ کرتا چلوں کہ در واقع اسلامی سیاست کا تقاضا یہی ہے کہ وہ ہر کسی کیلئے صحیح اور فائدہ مند طریقہ کار سامنے رکھے ۔ یہ رسول رحمت (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم)کا نسخہ اور آنحضور کسی ایک مذ ہب کیلئے نہیں ہیں بلکہ تمام انسانوں کے ہیں۔ الحمد اللہ اتنی مدت کے بعدایک  اسلامی نسخہ سامنے آیا ہے جس کی سربراہی اب ایران کررہاہے۔ایران  کسی ایک مسلک کی حکمت عملی کے تحت ملک نہیں جلارہے ہیں بلکہ  اسلامی قوانین کے تحت چل رہا ہے۔ جب اسلام کہیں گے اس میں صرف "سلامًاسلاما" ہے۔ صرف امن واستحکام ہے۔  روس نے جب دیکھا ہےکہ یہ اسلام نا خود پیٹنے کا ارادہ رکھتاہو نہ کسی دوسرے کو پیٹنا چاہتاہے، یہ اپنی ضمانت بھی اور دوسروں کی بھی ضمانت چاہتا ہے۔ خود بھی عزت کی زندگی گذارنا چاہتا ہے اوردوسرے کیلئے بھی عزت زندگی کی گزارنے کیلئے معاون ثابت ہو رہا ہے ۔اور انہیں اس بات کا اندازہ ہوا کہ ایسی سیاست کا تو ہم نعرہ ضرور دیتے رہے مگر اس نے عملاکر دکھایا ہے۔

 اور اب مصر کے حوالے آپ نے جو اشارہ کیا اس کی طرف لوٹتا ہوں۔مصر نے بھی عملی طوردیکھا کہ اگر میری سیاست کو دوام پیدا کرنا ہے تو  مجھے صرف ان ہی  اصولوں کو لے کے چلنا ہوگا کہ میں ایک دوسرے کو برداشت کرنا سیکھوں۔ اوریہی وجہ ہے کہ سعودی عرب سے موٹی رقم لینے کے باوجود بھی اس نے یہی کچھ  جھکاؤ دکھانا شروع  کیاکہ ایران کی خطے میں ایسی سیاست ہے  کہ جس سےخطے کی بھی سالمیت اورخطے کی ممالک کی بھی سالمیت  یقینی بننے جارہی ہے اوریہی وجہ ہےکہ اس نے اب اس محاذ کی طرف اپنا جھکاؤقدرے کھل کر دکھانا شروع کیا ہے۔

برما میں دوسری جگہوں کی طرح وہابیت کی سربراہی میں امریکی منصوبوں کا نتیجہ

تو برما کی صورتحال کے بارے میں کیا کہا جائے وہاں عرصے دراز سے مسلمان پرسکون زندگی گذار رہے تھے اور اچانک حالات کیوں بدل گئے، اگر بودھ حکمران ویسے ہوتے تو یہ ساری صورتحال بہت پہلے پیش آئی ہوئی ہوتی لیکن اچانک وہاں قتل و غارت کا بازار کیوں گرم ہوا، حق الیقین نامی عسکری تنظیم کو کس نے بنایا،اس پر مین اسٹریم میڈیا مسلمان میڈیا خاموش رہتا ہے اسکی وجوہات کیا ہیں؟

ج) میں نے پہلے ہی اشارہ کیا ہےکہ مسلمان زیادہ تر خوش فہم ہوتے ہیں،  جذباتی ہوتے ہیں اور مسلمانوں کی اکثریت جو ہے وہ اہلسنت تشکیل دیتے ہیں ، اہلسنت  جتنے خوش قلب  یعنی دلی طورپر جو دین کی خدمت کرنا چاہتے ہیں، اسلام کی سربلندی کیلئےکام کرنا چاہتے ہیں اورا ن کو شیعوں کے بنسبت زیادہ بیوقوف  بنانا آسان رہاہے۔ اورجو وہابی ہیں وہ  اپنے آپ کو خادمین حرمین شریفین  کےلقب کے ساتھ اپنے آپ کو پیش کرکے اپنے آپ کو اسلام کا خیرخواہ بتارہا ہے  جبکہ وہ عالم اسلام کے مسالک کے زمرے میں نہیں آتااور اس پر  اہلسنت  علما ء کا اجماع ہےکہ  وہابیت کا اسلام سے کوئی واسطہ  نہیں ہےیہ سنی مسالک میں سے کسی ایک مسلک  میں نہیں آتا، مگر اسکے باوجود سنی دنیا پر اسی وہابیت کی بالادستی ہے  اوریہ وہابیت یورپ کے نقشے اور امریکہ کی حمایت سے وہاں عربستان میںوجود میں آئی ہےاوریہ وہابی سنیوں کو مذہبی نام پر عسکریت تنظیمیں کھول کھول کر مسلمانوں کی نابودی  کیلئے استعمال میں لاتے ہیں ۔ اسی لئے اس بات پر بالکل خاموشی ہوتی ہے جہاں بھی مسلمانوں کا قتل عام ہوتا ہے اس پےخاموشی رہتی ہے ۔ہاں اگر کئی پہ  امریکہ کے مفادات کو زخ پہنچے تو اس پے واویلا  ضرورہوتا ہے۔

اگرمیڈیا کی بات کریں  ،   آپ دیکھےکسقدر المیہ ہے ،  آپ بھی صحافی اورمیں بھی صحافی، آپ دیکھے ہمارے اردواخبارات کو اٹھا کردیکھئے کہ وہ ابھی بھی "بی بی سی"[BBC] اور"وائس آف امریکہ"[VOA] کو قداست کی نظروں سے دیکھتے ہیں ، لگتا ہے  کہ یہ لوگقرآن میں  دس غلطیاں نکالیں گے مگر بی بی سی اوروائس آف امریکہ  میں کوئی ایک بھی نہیں ۔بلکہ لگتا ہے  وہ  ان کی رپورٹنگ  کواسسے بھی بڑھ کرسمجھتے ہیں کہ آنکھ  بند کرکے ان کے حرف حرف کو ہی  کاپی پیسٹ کرکے اپنے اخبار میں چھپاتے ہیں۔ یہ المیہ نہیں ہے تو کیا ہے۔  برصغیر کے اکثر اخبار والوں کیلئے ابھی تک  الہی قاعدے پر یقین حاصل نہیں ہوا ہے کہ قرآن میں  جو واضح طورپر کہاگیا ہےکہ فاسق پر اطمنان نا کریں، جبکہ لگتا ہے کہ  یہ لوگ   فاسقوں کو  مومن اورمومنوں کو فاسق سمجھتے  ہیں ،اسی لئےبرما جیسے مسائل پر بر وقت پتہ نہیں چلتا ہے لیکن جب ہمارا گھر جل کر راکھ ہونے کے مرحلے میں داخل ہوتا ہے پھر کئی سے سروصدا  کی ہلکی پھلی آواز کئی سے سننے کو ملتی ہے وہ بھی اس وقت پتہ چلتا ہےکہ جب ہمارا گھر جلا ہوا ہوتا ہے۔ یہ ہماری ان دیکھی کی وجہ ہے اورہم جویورپ اور امریکہ کی اندھی تقلید کرتے ہیں اسی وجہ سے ابھی اپنے نفع اورنقصان کو نہیں سمجھتے ہیں۔

آپ ملاحظہ کرتے ہیں کہ امریکہ کے لوگ ایران کے نسبت دشمنی رکھنے کے باوجود، ایرانی  میڈیا پے نظر   رکھ رہیں کہ وہ کیا کہہ رہیں ہیں ، دیکھتے ہیں کہ جو ہمارا میڈیاکہہ رہا ہے وہ کس حد تک صحیح کہہ رہا ہے۔  ہماری طرح  مسلکی تعصب سے مسائل کو نہیں دیکھ رہے ہیں ۔اسی وجہ سے برماجیسے حالات پیش آتے ہیں ۔  جب قتل عام اپنے انتہا تک پہنچے تب ہی  جاکے ہم چونک سکتےہیں کہتے ہیں کہ بھائی وہاں پر ایسا ہوا ، ویسا ہوا ہے۔یہ ہماری ٖٖٖغفلت کی وجہ ہے اور کچھ نہیں  کہ  استعماری طاقتیں ہمیں استعمال کرتے ہیں اورہم اپنی اہمیت کو سمجھنے میں ناکام رہتے ہیں۔

س)حق الیقین کس کے اشارے پر برما میں وجود میں لائی گئی ؟

ج)معلوم ہے کہ سعودی عرب نے،یہ ایک مسلمہ حقیقت ہے کسی بھی چھوٹی یا بڑی عسکری تنظیم بنانے کیلئے ایک بھاری رقم کی ضرورت  ہوتی ہے۔اگر آپ عسکری تنظیموں کو بنانے کی داستان دیکھ لیں تو معلوم پڑے گا کہ  وہ پہلے سے ہی امریکہ اور سعودی عرب کامشترکہ منصوبہ رہا ہے اور یہ سلسلہ 1960 کی دہائی سے شروع ہوا ہے یعنی  ان میں ایک معاہد ہ  رہاہے کہ وہ ناصر ازم(جمال عبدالناصر کی سیاسی –اجتماعی تفکرات سے ماخوذ آئیڈیولوجی)کو  لے کے 1970 ء سے لیکرایک مومنٹ چلی عسکریت کی وہ ابھی تک رنگ و نام بدلتے ہوئے جاری ہے، جب اس کو سویت یونین کو توڑنے کیلئے اسی وہابیت  ناصر ازم کاڈ کو نئے انداز میں استعمال کیا گیا تو اس نے افغانستان میں اتنا اچھا جواب دیا اور پھر ان ملٹنٹوں کو ریکروٹ نہ کرنے کیلئے اور ان سے جان چھڑانے کیلئے ،ان کو پرمننٹ پناہ دینی پڑے گی اور ان کی کفالت کرنی ہوگی اسلئے مسلمانوں کو ان ہی ہتھیاروں سےاپنے آپ  کو  قتل کرانے کیلئے سرگرم کردیا اور عسکری تنظمیں بننے کا سلسلہ شروع ہوا۔ جب افغانستان آزاد ہوا ، عسکری تنظیمیں بننی شروع ہوئی اور تب سے یہ مسلمان  مسلمان کے ہاتھوں مارنے کا سلسلہ شروع اور اسلئے لازم ہے وہ  امریکہ سے اوراسرائیل سے خریدنے کا  یہ سلسلہ جاری ہے ۔

ابھی آپ برما کی بات کررہے ہیں، وہاں بھی اسلام کے نام پرہی انہوں نے یہ  دہشتگرد تنظیمیں بنائی ہیں۔ شام میں دیکھے؛ شام میں 1.الجبهة الاسلامیة2.الجبهة الشامیة3.جبهة فتح الشام ( جبهة النصرة)4.جند الأقصی5.جیش الفتح6.حرکة أحرار الشام الاسلامیة کے نام سے یہ چھ تنظیمیں دہشتگرد تنظیمیں ہیں۔ ان میں جوکچھ ایسے لوگ ہیں یہ در واقع مقصد رکھتے ہیں کہ اسلام کی خدمت کریں، مگر ان کا پیچھے مڑ کردیکھنے کی توفیق حاصل نہیں ہوتی ہے کہ جو ہم نے طریقہ اختیار کیا ہے وہ ہمیں کہاں لے جارہاہے۔ ہم آبادی کی طرف جاری ہے یا بربادی کی طرف! ابھی ہر  جگہ یہی حال ہے بر ما کی بات کریں یا کسی اور جگہ کی۔ ابھی کشمیر کا کیا حال بنا کے رکھا ہے،کتنی عسکریتنظیمیں پاکستان میں سرگرم ہیں وہاں کیا ہورہا ہے!، افغانستان میں کیا ہورہا ہے! ،عراق میں کیا ہورہاہے! یمن میں کیا ہورہاہے!، ہر جگہ نا گفتہ بہ حال ہے۔ اگر دشمن مسلمانوں سے کھل کر محاذ کھولتے تو نہ سعودیہ کے عنوان سے امریکہ یا اسرائیل کی مسلمانوں پر گرفت ہوتی اور  شائد کسی ایک بھی مسلمان کو جان یا مال سے نہ جانا پڑتا۔ مگر اسرائیل اورامریکہ کے اسلام مخالف بنائے خاکوں میں رنگ بھرنے کیلئے اسکے برعکس ایسی سیاست رچی گئی کہ مسلمان خود اپنےہی ہاتھوں اپنی تباہی کاسبب  بنے   اوروہ خود آرام سے اپنے مستقبل بنانے سنوارنے کی فکر میں لگے رہے ہیں، اور دیکھ تکتے دیکھ رہے ہیں کہ وہ سب عیش وآرام کی زندگی گذاررہے ہیں اورہم صرف قتل وغارت کی زندگی بسر کرہے ہیں ۔

حلب پر مغربی میڈیا کےہنگامہ کے درپردہ حقیقت

س)اچھا یہ بتائے حلب ہی پر واویلا کیوں ،پوری دنیا میں مسلمان ممالک میں آگ لگی ہوئی ہے یمن کے اندر زندہ در گور کیا جارہاہے وہاں کا  انفراسٹریکچرنابود کیا جارہا ہے، بچے مارے جاتے ہیں ، کلسٹر پر بم برسائے  جاتے ہیں اس پر مرگبار خاموشی تو پھر حلب ہی پر واویلا کیوں؟ حلب پے ماتم کیوں ؟ حلب جل رہاہے حلب کی بغاوت کس نے کی حلب کا معاملا اتنا سنگین کیوں ہے ؟

ج)جزاک اللہ؛ کاش ایسے لوگ جو حلب کے حوالے سے اپنا جذبہ ظاہر کرتے نظر آتے ہیں ، خود بھی تحقیق کریں اور دیکھیں حلب کے حوالے سےکتنی فوٹو شاپ کرکے  جھوٹی خبریں بنائی گئی تھی ،حقیقت کو توڑ مروڑ کر پیش کیا جاتا رہا ،اور حقیقت حال کیا ہے ، ان کو شاید نہیں معلوم یہ وایلا مسلمانوں کے مارے جانے کیلئے نہیں بلکہ دوانٹلی جنس آفسرپکڑے گئے ہیں ،لاکھوں مسلمان مارے گئے ان کی کوئی اوقات ہی نہیں  بلکہ اب چونکہ امریکی انٹلی جنس آفسر ڈیوڈ اسکو ٹ وینر[David Scott Winer]اوراسرائیلی انٹلی جنس آفسرڈیوڈشلومو ارام[David Shlomo Aram] ان دوحضرات کے لئے یہ سب واویلا ہے کہ یہ زندہ پکڑے گئے ہیں ۔جب کہ ابھی امریکہ کے 22 آفسر  ٹریپ ہوئے ہیں نیز یورپی ممالک کے کئی آفیسر پکڑے گئے ہیں مگر جو ابھی اس حلب میں9 انٹلی جنس آفسر موجود ہیںجن  میں ایک کا تعلق امریکہ سے ہے وہ ہیں  ڈیوڈ اسکاٹ وینر اورایک کا تعلق اسرائیل سے وہ ڈیوڈ شلومو ارام  ہیں۔ جبکہ ان 2 انٹلجنس آفیسر کے علاوہ مزید 9 انٹلجنس آفیسر بھی شامل ہیں۔جن میں پانچ انٹلجنس آفیسروں کا تعلق سعودی عرب سے ہے اور دیگر4 ملکوں "ترکی"، "قطر"،"اردن"، "مراکش" سے ایک ایک آفیسر شامل ہیں۔سب واویلا اس پر ہے۔

 اگر آپ چاہیں  ان سب کےنام بتادوں !مشرقی حلب میں امریکہ کے ڈیوڈ اسکارٹ وینر ۔ اسرائیل کے ڈیوڈ سالمو آرام ۔ ترکی کے:معتزاوگلوکان اوگلو۔قطر کے :محمد شیخ الاسلام التمیمی۔سعودی عرب کے :محمد احمد الصبیان۔عبدالمنعم فہد الخریج۔احمد بن نوفل الدریج۔محمد حسن السبیعی۔ایمن قاسم الثعلبی۔اردن کے :امجد قاسم الطیراوی اورمراکش کے:محمد الشافعی الادریسی. عوام کیلئے اتنا واویلا نہیں ہے بلکہاصل بات یہ ہےکہ جو امریکہ اوراسرائیل کے انٹلی جنس آفسر اس میں آگے ہیں۔ تو اب اس بات کو چھپانے کیلئے میڈیا میں ایسا شورمچایا  جا رہا ہے۔ یہ نہیں دکھایاگیا کہ وہاں کےعوام کتنی خوش تھی کہ ہمیں آزادی حاصل ہوگئی۔ اور شور اس لئے مچایا گیا کہ کس طریقے سے اکسچینج آفر ہوگئی تاکہ اپنے ان انٹلی جنس آفسر وں کو بچا سکیں ۔اوراب  جب حلب  آزاد ہوا، بحرین اوریمن کی آزادی کی بھی منزل قریب نظر آ رہی ہے۔اب لوگوں کی آنکھیں  کھل گئی ہیں ۔وہاں شام  کے لوگوں نے برملا کہنا شروع کردیا ہمیں کس طرح استعمال کیاگیا ہے۔ کیونکہ دنیاجانتی ہےکہ وہاں اکثریت اہلسنت کی اوراہل تشیع ان  کیلئے جان دیتے ہیں۔  یمن  میں اکثریت اہلسنتوں کی ہے شیعہ ان کیلئے جان دیتے ہیں  اور مل کر دشمن کا مقابلہ کررہے ہیں۔ کیونکہ ان کو اس حقیقت کا چلا کہ  اگرچہ ہمارےپاس اتنیقوت ہے ہم اکثریت میں لیکن اہل تشیع کے پاس  سیاسی بصیرت ہے ، کیوں نہ ہم ایکدوسرے کی صلاحیتوں کو بروی کار نہ لائیں ۔اسطرح وہ آرام سے دشمن کو پہچان کر اپنے صفوں میں دور کرنے لگے ہیں۔ ہم سنیوں میں اور شیعوں میں مل کر اپنے مفادات کا تحفظ کرنے میں کیا قباہت ہے کہ ہم اپنے بھائی کا ہاتھ ملاکراس د شمن کا  مل کر قلع قمع کریں اوراسکا  حلب میں بہترین عملی تجربہ  ہو ا، اسی لئے ہلاگلا مچایاگیا ہے تاکہ دنیا تک یہ بات نا پہنچے۔ لیکن الحمد اللہ دنیا تک پہنچ گئی اورحقیقت سامنے آگئی ۔دیکھے دہشتگردقوم اورمظلوم قوم وہ کیا چاہتی ہے اوردہشتگرد کیا چاہتے ہیں حلب نے ہاتھ  کھول دیا ۔حلب کے حقیقی پیغام کو دنیا تک پہنچنے سے روکنے کیلئے ترکی میں روسی سفیر کو قتل کرکے فضا کو مزید آلودہ کرنے کی کوشش کی گئی تاکہ جو ترکی نے خود لگائی آگ سے اپنے آپ کو الگ کرنے کی کوشش شروع کرکے مقاومتی محاذ کی طرف بڑ جائے تو استعماری طاقتوں کا جو منصوبہ تھا وہ ہر محاذ پر ناکا م ہوجائے ۔

س)کیا ترکی کا دوہر امعیار دیکھنے کو نہیں مل رہا ہے سننے میں آیا ہے کہ وہ سبھی دہشتگردوں کو ترکی میں جمع کرکے 43 ملکی فوجی اتحاد کے تحت دوبارہ حملہ کریں ،کیا ایسی خبر ہے آ پ کے پاس ؟

ج)جی ترکی کا دوہر معیار رہاہے ۔ترکی نے ہی  آئی ایس آئی ایس (دولت اسلامی عراق و شامات داعش نامی خونخوار دہشتگرد تنظیم)کو زندہرکھنے کا بھر پور رول  ادا کیاہے۔کیا یوں ہی کوئی اس پر اعتبار کر سکے گا، کیا روس اس پر اعتبار کرتا ہے ؟ ۔کوئی اعتبار نہیں کرتاہے بلکہجب خود ترکی نے دبے الفاظوں میں اپنے گناہوں کا اعتراف کرنے لگا ہے،اپنی شکست کا اعتراف کرنے لگا ہے، ہر چنددبے الفاظوں  میں کہ ہم نے جو موقوف اختیار کیاتھا اس میں ہمیں ڈوبنے کے سوا کچھ نہ ملا، کوئی فائدہ حاصل نہیں ہوا اوراب ہمار ا وعدہ رہارہم  دوبارہ ایسی غلطی نہیں کریں گے۔اور اس تبدیلی میں بھی وقت درکار ہے وہ اتنی  جلدی یوٹرن نہیں لے سکتی ہے اس کا امکان  نہیں ہے کہ جسطرح ترکی میں اندرونی بحران جاری ہے اور ہر ایک سے کٹا جا رہا ہے ،یورپی یونین  میں شامل ہونے کیلئے ہر ممکن کوشش کی لیکن وہاں سے بھی رسمی طور دروازہ بند دکھایا گیا ،عالم اسلام میں ایک نئے مخاذ کے طورپر خلافت عثمانیہ کو قائم کرنا چاہتی ہے وہ خواب بھی ادھورارہ گیا ،اوراسی وجہ سے وہ اب جو ہاتھ پیر ماررہی ہے یہ اس کا ایک حصہ ہے۔

 آپ نے حلب اور روسی سفیر کے قتل کے حوالے سے بہت  اچھا سوال کیاتھا میں اس کے ایک اور پہلو کی طرف اشارہ کرنا چاہوں گا وہ یہ کہ اگر حلب کے انتقام  میں روس کے سفیر کا قتل کیاگیا تو فلسطین کے انتقام میں  اسرائیل کےکسی بھی سفیر کا کبھی بھی بال بھی بانکہ نہیں کیا گیا۔کیوں؟نام نہاد مجاہدین کہتے ہیں کہ وہ اسلام کیلئے لڑتے ہیں لیکن میدانی صورتحال سے ثابت ہوتا ہے کہ اس بات میں ذرہ برابر بھی حقیقت نہیں ہے ۔ تو معلوم پڑتا ہے کہ یہ لوگ کسی اورکے اشارے پر چلنے والی کٹ پتلیاں ہیں ،ان کو خود بھی پتہ نہیں ہمیں کیا کرنا کیا ہے ،اس لئے ڈبل اسٹنڈارڈ دیکھنے کو ملتا ہے ۔ کیونکہ ان کے پاس ایران کی طرح اپنی مستحکم اور واضح سیاست  نہیں ہے۔ ان میں اپنی مستقل فکر نہیں جس سے اپنے کام کا محاسبہ کرکے اسکی بال کی کھال اتار کر حقیقت کو پہلے خود پر اور پھر دوسروں پر عیاں کرتے کہ ہم دوسروں کے اشاروں پر چلنے والے نہیں ہیں۔


تبصرے (۰)
ابھی کوئی تبصرہ درج نہیں ہوا ہے

اپنا تبصرہ ارسال کریں

ارسال نظر آزاد است، اما اگر قبلا در بیان ثبت نام کرده اید می توانید ابتدا وارد شوید.
شما میتوانید از این تگهای html استفاده کنید:
<b> یا <strong>، <em> یا <i>، <u>، <strike> یا <s>، <sup>، <sub>، <blockquote>، <code>، <pre>، <hr>، <br>، <p>، <a href="" title="">، <span style="">، <div align="">
تجدید کد امنیتی