سایت شخصی ابوفاطمہ موسوی عبدالحسینی

جستجو

ممتاز عناوین

بایگانی

پربازديدها

تازہ ترین تبصرے

۰

فاطمہ زہرا سلام اللہ علیہا امام حسین علیہ السلام سے مظلوم تر

 اردو مقالات مکالمات کتابخانہ اھلبیت ع اھلبیت ع حضرت فاطمہ سلام اللہ علیہا ھدایت ٹی وی کے ساتھ

ابوفاطمہ موسوی عبدالحسینی؛

فاطمہ زہرا سلام اللہ علیہا امام حسین علیہ السلام سے مظلوم تر

 فاطمہ زہرا سلام اللہ علیہا  کی مظلومیت  امام حسین علیہ السلام کی مظلومیت سے زیادہ ہےکیونکہ غور کیجئے گا، امام حسین علیہ السلام کم سے کم میدان میں آئے،ذرہ پہن کے آئے ،تلوار ہاتھ میں لے کے آئے ۔مگر فاطمہ زہرا سلام اللہ علیہا صرف قرآن اورخدا کی حجتیں حسنین علیہما السلام لے کے آئی کہ دیکھو قرآن کیا کہہ رہاہے۔رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے کیاکہا ہے اوراس کا کیا جواب دیا ،بے دردی کے ساتھ ان کے ساتھ کیاسلوک کیاگیا!

عالمی اردو خبررساں ادارے نیوزنورکی رپورٹ کےمطابق لندن میں دائرہدایت ٹی کے "صبح ہدایت" پروگرام کے عالمی منظر  میں میزبان سید علی مصطفی موسوی نے بین الاقوامی تجزیہ نگار اور نیوزنور کے بانی چیف ایڈیٹر حجت الاسلام حاج سید عبدالحسین موسوی معروف بہ ابوفاطمہ موسوی عبدالحسینی سےآنلاین مکالمے کے دوران  ایام فاطمیہ کے حوالے سے گذشتہ مکالمے کے تسلسل میں مندرجہ ذیل انٹرویو لیا جسے قارئین کے نذر کیا جا رہا ہے۔

حضرت فاطمۃ زہراء سلام اللہ علیہا

بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِیمِ.الْحَمْدُ لِلَّهِ رَبِّ الْعَالَمِینَ. اهْدِنَا الصِّرَاطَ الْمُسْتَقِیمَ.

وَ صَلَّی اللَّهُ عَلَی سَیِّدِنا وَ نَبِیِّنَا أَبِی ‌الْقَاسِمِ مصطفی مُحَمَّد صَلَّی اللَّهُ عَلَیْهِ وَ عَلَی آلِهِ وَ أهلِ بَیتِهِ الطَّیِّبِینَ الطَّاهِرِینَ الْهُدَاةِ الْمَهْدِیِّین.

اللَّهُمَّ ‌و‌ أَنْطِقْنِی بِالْهُدَى ، ‌و‌ أَلْهِمْنِی التَّقْوَى ، ‌و‌ وَفِّقْنِی لِلَّتِی هِیَ أَزْکَى۔

السَّلاَمُ عَلَیْکِ أَیَّتُهَا الصِّدِّیقَةُ الشَّهِیدَةُ یَا سَیِّدَةَ نِسَاءِ الْعَالَمِینَ مِنَ الْأَوَّلِینَ وَ الْآخِرِینَیَاحُجَّةُ اللَّهِ عَلى أَوْصِیَاءِ رَسُولِ اللَّهِ یَافَاطِمَةُ بِنْتَ رَسُولِ اللَّهِ وَ رَحْمَةُ اللَّهِ وَ بَرَکَاتُهُ۔

ایام فاطمیہ کی مناسبت سے صاحب عزاء حضرت امام زمانہ عجل اللہ تعالی فرجہ الشریف کی خدمت میں عرض تسلیت کرتے ہوئے بالخصوص  اور آپ کے نائب امام خامنہ ای اور مراجع عظام تقلید اور  جملہ مؤمنین کی خدمت میں بالعموم تسلیت عرض  کرتے ہوئے  یہ کہنا چاہوں گا  آپ کے سوال کے تناظر میں کہ اللہ نے 14 معصومین کو انسانوں پر اپنی حجت قرار دیا ہے اوررسول رحمت صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم اور امیرالمومنین علی علیہ السلام کے بعد حضرت فاطمہ  زہراء سلام اللہ علیہا کا مقام ہے۔آنحضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا:

«اِنَّاللَّهَ جَعَلَ عَلِیًّا وَزَوْجَتَهُ وَاَبْنائَهُ حُجَجٌ عَلى خَلْقِهِ»[1]

اللہ تعالی نے علی،آپ کی شریک حیات اور آپ کے اولاد کو لوگوں میں اپنی حجت قرار دیا ہے۔

اوررسولخدا صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے گیارہویں وصی حضرت امام حسن عسکری علیہ السلام اس حوالے سے فرماتے ہیں:

نَحْنُ حُجَجُ اللَّهِ عَلى خَلْقِهِ وَ جَدَّتُنا فاطِمَةُ حُجَّةُ اللَّهِ عَلَیْنا[2]

ہم (رسول اللہ صلی اللہ علیہ والہ وسلم کے 12 جانشین)لوگوں پر خدا کی حجت ہیں اور حضرت فاطمہ  الزہراء سلام اللہ علیہا ہم سب پر خدا کی حجت ہیں۔

زمین پر حجت خدا کا سلسلہ نہ ہوتا اگر فاطمہ  الزہراء سلام اللہ علیہا نہیں ہوتی۔

اللہ کے آخری نبی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا:

لَوْ لَا عَلِیٌّ لَمْ یَکُنْ لِفَاطِمَةَ کُفْوٌ.[3]

اگر علی نہ ہوتے فاطمہ کیلئے کفو نہیں تھا۔

یعنی حسنین علیہما السلام کا میلاد ممکن نہ تھا اور امام حسین علیہ السلام کے پشت سے نو 9 اماموں اور اوصیای رسول اللہ علیہم صلوات اللہ کا وجود ممکن نہ تھا۔ یعنی زمین اللہ کے حجت سے خالی رہ جاتی۔

رسولخدا صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کےبعد  کیوں اسی فاطمہ زہراءسلام اللہ علیہا کا قافیہ حیات تنگ کیا گیا۔اسلام اور مسلمین کے بارے میں حضرت فاطمہ سلام اللہ علیہا کا موقف جو کہ خود آنحضور کا موقف کو ٹھکرایا گیا نیز ذاتی ملکیت کہ جس سے مسکینوں اور غریبوں اور محتاجوں کی حاجت روائی کی جاتی تھی کو حکومت کی کسٹڈی میں قرار دیا گیا۔کیوں؟

جب عیسائیوں نے نبی آخر الزمان صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی حق و صداقت پر سوالیہ نشان کھڑا کیا اور "مباہلہ" کرنے کی دعوت سامنے آ گئ اور یہاں پر رسولخدا محمد مصطفی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے اپنے موقف ، حق و صداقت پر  مہر ثبت کرنے کیلئے اللہ کی زمین پر موجود صرف اللہ کی پانچ حجتیں (محمد، علی ، فاطمہ، حسن اور حسین) علیہم السلام لے کر میدان مباہلہ میں حاضر ہوئے ۔ اور عیسائیوں نے پانچ پنجتن علیہم صلوات اللہ  کو دیکھ کر آنحضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی صداقت اور موقف کو تسلیم کرلیا۔

لیکن آنحضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے بعد فاطمہ  الزہراء سلام اللہ علیہا حسنین علیہما السلام کو لے کر مسلمانوں کے پاس گئی لیکن آپ کو جھٹلایا گیا۔کیوں؟

جی سوال یہی پیدا ہوتا ہے کہ کیوں حضرت فاطمہ سلام اللہ علیہا کو جھٹلایا گیا۔ کیوں؟

[کیونکہ]حضرت فاطمہ الزہراء سلام اللہ علیہا نے تین خطبات ارشاد فرمائے۔

·         ایک "مسجد النبی" میں خواص کے درمیان ۔

·         دوسرا "مہاجر و انصار کی خواتین کے درمیان"

·         اور تیسرا "مدینے کے کوچے بازاروں"عوام کے درمیان۔

اور ان تین خطبات میں تقریبا 40 سے زائد آیات  و روایات سے اپنا موقف بیان فرمایا۔ وہ بھی اسی حالت میں جس طرح میدان مباہلہ میں رسولخدا صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم حسنین علیہما السلام کو ساتھ لئے ہوئے تھے ۔ حضرت ‌زہراء سلام اللہ علیہا  نے بھی حسنین علیہما السلام کو ساتھ ساتھ لے کر احتجاج کررہی تھی۔ لیکن مسلمانوں نے تمام دلائل و برہان کو ٹھکرا دیا۔

جس سے واضح ہوتا ہے کہ حضرت زہراء سلام اللہ علیہا کا احتجاج کوئی خاندانی موضوع نہیں تھا کہ جس میں مفاہمت کے راستے تلاشے جاتے بلکہ یہ ایک الہی موضوع تھا جس کے سیاق و سباق روشن تھے۔

ابھی تک اکثر مسلمان اس موضوع کو خاندانی اور میراث کا مسئلہ سمجھتے ہیں ۔بلکہ یہ ایک سیاسی مسئلہ تھا امامت و قیادت کا مسئلہ تھا اور اسلام میں سیاست کا تعلق اصول دین سے ہے ، جبکہ اسے فروع دین میں قرار دیا گیا جو کہ آج کل کی اصطلاح میں سیکولر ازم سے جانا جاتا ہے جس میں مذہب کو صرف کھلواڑ کے لئے استعمال کیا جاتا ہے اور مذہب میں حکومت کرنے عدم صلاحیت ہونے کی صورت میں پہچانا جاتا ہے۔

حضرت فاطمہ الزہراء سلام اللہ علیہا امامت کے حوالے رسولخدا صلی اللہ علیہ والہ وسلم کی بیٹی کی حیثیت سے نہیں کرتی بلکہ حجت خدا احتجاج کر رہی تھیں۔

امیرالمؤمنین علی علیہ السلام نہج البلاغہ میں بیان فرماتے ہیں کہ حکومت کی سرکردہ شخصیتیں حضرت فاطمہ زہراء سلام اللہ علیہ کو صفحہ ہستی سے محو کرنا چاہتے تھے۔وہ ایسا کیوں کرنا چاہتے تھے ؟حضرت امیر علیہ السلام نے حضرت فاطمہ زہراء سلام اللہ علیہا کو دفن کرتے ہوئے ،رسولخدا صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی قبر مطہر کی طرف رخ کرتے ہوئے فرمایا"بتَضَافُرِ أُمَّتِکَ عَلَی هَضْمِهَا"انہوں نے ٹھان لی کہ زہراء کو صفحہ ہستی سے محو کریں۔ کیونکہ خطبہ "فدکیہ" نے "سقیفہ" کی پورے منصوبے کو تہس نہس کردیا ۔ لوگوں میں روشنی کی کرن اجاگر کردی۔ یہی وجہ بنی کہ فاطمہ زہراء سلام اللہ علیہا کے ساتھ وہ سلوک روا رکھا گیا۔ جبکہ ، اس سے پہلے تو آپ کا احترام کرتے تھے ، زیادہ سے زیادہ باغ فدک کو چھین لیا۔ لیکن اس سے کوئی پریشانی حکومت کیلئے پیش نہیں آئی  ، لیکن جب حضرت زہراء سلام اللہ علیہا میدان میں آئی اور خطبہ فدکیہ بیان فرما کراسلام کے اصلی شاخص کو واضح کردیا تب جا کر حضرت فاطمہ زہراء سلام اللہ علیہا خطرہ بن گئی۔

مظلومیت فاطمہ زہراء سلام اللہ علیہا امام حسین علیہ السلام کی مظلومیت سے بھی بڑ کر ہے۔

 

فاطمہ زہرا سلام اللہ  علیہا یہ کس کی بیعت   میں تھیں واضح ہے کوئی  ڈھکی چھپی بات نہیں ہے ۔ وہ خود بھی جانتے تھے کہ حجت خداکو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم خود اپنی طرف سے منصوب نہیں کرتے بلکہ خود اللہ کہتا ہے کہ  وہ خود سے کوئی بات نہیں کرتااور جب کچھ کہتا ہے وہ اللہ کا فرمان ہوتا ہے " وَمَا ینْطِقُ عَنِ الْهَوَى(النجم/3)  إِنْ هُوَ إِلَّا وَحْی یوحَى(النجم/4) "۔وہ جانتے تھے کہ امامت کا موضوع و محور کیا ہے اسلئے وہ امامت کے نسبت اپنے ظاہری فوائد کو دیکھتے تھے مگر فاطمہ زہرا سلام  اللہ علیہا اسی اپنی ذمہ داری  کا عملی مظاہرہ کرتی وہ باپ کی میراث کی بات نہیں کرتی وہ حجت خدا  کےاصول کو بیان کرتی تھی کہ زمین سے اللہ کے حجت کو محدود کیاگیا ہے ۔ جس کا نتیجہ ہم آج تک دیکھ رہے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے بعد جس کے طفیل رحمت کے دروازے کھولے گئے تھے انسانیت  کی طرف وہ بند کئے گئے اور انسانیت ابھی تک سرگردان ہے یہ دنیا، انسان، پریشان ہےکہ ہمیں کوئی راستہ دکھائے۔

سوال :ابھی بھی جب ہم دیکھتے ہیں کہ ہماری بات ہوتی تو اس کو اکثر جھٹلایا جاتا ہے کہ نہیں جی یہ جو مفروضہ ہے اورایسا نہیں ہوا درزہرا سلام اللہ علیہا کو آگ نہیں لگائی گئی وہاں لکڑیاں  نہیں لے کر آے، یہ سب باتیں کی جاتی ہیں  حالانکہ تاریخ اس کی شاہد ہے۔ اگر ابھی دروازہ جلانے اور لکڑیاں لانے کو تھوڑا سا الگ کرلیا جائے اورصرف جناب زہرا سلام اللہ علیہا  کے دروازے پر آکر دھمکی دینے کو لیں  جس دروازے پہ  جہاں رسول رحمت کھڑے ہوکر دعائیں دیتےتو کیا یہ جرم کم ہے؟ میں چاہوں گا تھوڑی اس کے اوپر گفتگو کی جائے۔

جی اگر فرض کریں کہ یہ واقعہ پیش نہیں آیا مگر یہ احتجاج جو "خطبہ  فدکیہ"  کے نام سے یہ تین خطبے جو ابھی بھی موجود ہیں، اس کا مطالعہ کریں وہ لوگ جو یہ سوال کرتے ہیں کہ اس کا لب لہجہ دیکھ کر کس اعتبار سے  اس پرکوئی انگلی اٹھائے گاکہ یہ فاطمہ زہرا سلام اللہ علیہا کے بغیر اورکوئی کہہ سکتا ہے۔ کسی اورکا یہ لب لہجہ ہوسکتا ہےجو اس زبان کےساتھ بات کرسکتی ہے اوران لوگوں کے ساتھ یعنی "خواص "کےساتھ،"انصارو مہاجر کی خواتین" کےدرمیان  اورکوچے بازاروں میں "عوام" کےدرمیان فاطمہ زہرا سلام اللہ علیہا کےبغیر کسی اور میں وہ  جرئت اور صلاحیت  نہیں کہ وہ اسطرح بات کرسکے،یہ ایک واضح بات ہے ۔اوراس کے بعد اگر آپ یہ فرض کریں کہ نہ گھر جلایا گیا، نہ فاطمہ زہرا سلام علیہ  کو شہید کیاگیا، مگر جو انحراف ہو اکہ جس پہ افسوس بھی کیاگیا کہ فاطمہ زہرا سلام اللہ علیہا کے نسبت کیوں وہ سلوک روا رکھا گیا ۔مثلاً یہ کہ "فدک" کو دیا گیا تھا،کیوں اسے چھینا گیا۔حتی اسی سے بھی پتہ چلتا ہےکہ"باغ فدک" کو چھیننے کے پیچھے کیا عوام کار فرما رہے ہیں از جملہ یہ مستضعف مسلمانوں کی  اُمید برآوردی ہوتی رہی ہے۔کیونکہ مسلمان بلکہ ہر مخلص انسان ہمیشہ حق کی بات کا طرفدار رہتا ہے اور یہی وہ بظاہر غریب اورمفلس لوگ رہیں ہیں جو مخلصانہ طور پر ہمیشہ انبیاء کے  دعوت کو لبیک کہتے آئے ہیں ۔ اوران لوگوں کی اُمید کی کرن ہمیشہ حق و صداقت  کا مرکز رہتا تھا اور"باغ فدک" جو تھا اس کی در آمد چونکہ بہت زیادہ تھی جس سے ان مسلمانوں کی اُمید باقی رہتی  اور انکی  مادی و مالی سرپرستی ہوتی تھی اورایسے میں جہاں عدل انصاف کا قتل ہوتا  وہ مخلص لوگ وہاں سینہ سپر ہو جاتے اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ کی تعلیمات پر ڈٹ کامقابلہ کرتے، اس سیرت محو نہیں ہونے دیتے کیونکہ ان کیلئے میدان فراہم رہتا اوراصلی  شکل وصورت اسلام کی بات  رہتی۔

 جب عوام نے دیکھا کہ فاطمہ زہرا سلام اللہ علیہا جیسی شخصیت کو اسطرح کچلاگیا تو ہماری تو آوقات کچھ نہیں۔ مگر ہمیں فاطمہ زہرا سلام اللہ علیہا کے "خطبہ فدکیہ"سے ہمیں یہ بات پتہ چلتی ہے کہ جوفاطمہ زہرا سلام اللہ علیہا بات کررہی تھی وہ امت کی بقاء کیلئےبات کررہی تھی وہ انسانوں کی رہنمائی کی بات کررہی تھی یہ مسلمانوں ہوں غیر مسلمانوں ہوں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ کیا لیکر آئے ہے ہیں " رَحْمَةً لِلْعَالَمِینَ"[4] بناکے بھیجا ہے اللہ نے اس کو اوریہ رحمت کس طرح پورے بشریت پہ  سرازیر ہوسکتی تھی، فاطمہ زہرا سلام اللہ علیہا نے اس بات پہ  معترض تھی جو  آپ نے حجت خدا کوچھوڑ کر از خود اجتہاد کرکے امامت کو "اصول دین" سے خارج کردیا اور"فروع دین" میں قراردیا، اس انحراف پہ احتجاج ہے۔ کیونکہ اس سے انسانیت کو نقصان اٹھانا پڑا، جس کا  ہم 14 سو سال کے بعد بھی مشاہدہ کررہے ہیں۔

سوال : جناب زہرا سلام علیہ کے دروازے کو آگ لگانا اوروہاں پر لکڑیاں جمع کرنا اوروہاں پر تمام مکینوں کو دھمکیاں دینا اس حوالے سے فریقین کا کیا کہنا ہے اسکے اوپر ذراسی بات ہوجائے؟۔

یہ اب دیکھے کہ ساری  شیعہ تاریخ کی جو مظلومیت ہے یہ بجاےخود ایک المیہ ہے،کیونکہ شیعوں کی اپنی کوئی تاریخ نہیں ہے، جو کچھ ہم نے جمع کیا ہوا ہے وہ ہمارے برادران اہلسنت کی کتب سے ماخوذہے کیونکہ ان ہی کے  حکومت رہی ہے،اقتداررہاہےاورجو ائمہ معصومین(پہلے وصی رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ حضرت علی علیہ السلام سے گیارہویں وصی رسول اللہ  حضرت امام حسن عسکری علیہم صلوات اللہ تک چھے ہزار چھے سو کتابیں لکھی گئی ہیں جن میں چار سو کتب کو اصول سمجھا جاتا ہے)  جوبارہ معصومین کی خدمت میں جو شاگرد رہے ہیں اور معصومین کے قول سے جو احادیث جمع کئے تھے، معصومین کے اقوال جمع کئے گئے تھے انکی تعداد 6600تھی  کہ جن میں 400 کتابیں اصولی کتابیں جانی جاتی تھیں اور 400 کتابیں کتابیں  حوادث روزگار کے نذر ہوکر اب چار کتابوں سمٹ کر رہ گئی ہیں اوران کتابوں کا منبع بھی اہلسنت سے ماخوذ ہے اور اہلسنت ان سے انکار نہیں کرسکتے ہیں ، کوئی بھی جو محقق ہو، جن کے سطحی معلومات ہوں ممکن ہے وہ  انکار کریں مگر خود معتبر اہلسنت محققین کا اعتراف ہر زمانے میں رہاہے کہ جو واقعہ حقیقت میں رونما ہوا جس کی طرف آپ نے اشارہ  کیا کچھ، اس صاحب نے بالکل اسی لہجے میں جب کہاکہ؛" اس کو جلاڈالو "تواس مخاطب ہوکر کہا گیا کہ ؛ آپ کو نہیں معلو م وہاں پہ فاطمہ ہے۔ اس نے کہا فاطمہ  کوسمیت جلاڈالو[5]۔تو یہ جملہ خود معتبر تاریخوں میں اہلسنت کی کتابوں میں بھی موجود ہےاگرچہ اس میں اہل تشیعوں کے کتابوں میں اس کی تفسیر موجود ہے۔ اورآپ تفسیر کو چھوڑیے ابھی جو اسلامی امت میں حکمراں ہیں وہ کیسے حکمراں ہیں؟ کیا وہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی سیرت پہ چل رہے ہیں۔(وہ نہیں چل سکتے ہیں) کیونکہ (ان کے سامنے سیرت کا نمونہ نہیں رکھا گیا)یہ پہلے سے ہی راستہ بھٹکایاگیا ہے ابھی تک انہیں راستہ نہیں معلوم کہ ہم مسلمانوں کیلئے باپ کی حیثیت کون رکھتا ہو گا۔ کیا ابھی ہم خادمین حرمین شریفین کو کہنے والے کو امت کا باپ کہیں گے کہ جس کا صرف مسلمانوں کا خون بہانہ جس کا مشغولہ ہے یمنی غریب لوگوں کےساتھ کیا کر رہے ہیں اور دوسرے اطراف و اکناف میں کیا گل کھلا رہا ہے۔ یعنی ابھی فاطمہ زہرا سلام  اللہ علیہا  ہمارے اس زمانے کیلئے دعوت فکر دے رہی ہےکہ جس کیلئے ہمیں  کتابوں کا بھی مشاہدہ کرنے کی ضرورت نہیں ہے ۔ہمیں جو گرونڈ ریلٹی دیکھنی ہے ابھی دیکھیں کہ جو مسلمان ہے کیا مسلمان ابھی  اس وقت قرآن کی ترجمانی کرنے میں کامیاب ہے۔ رسول اللہ رحمت صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی صداقت کی ترجمانی کرنے کی صلاحیت رکھتے ہیں؟۔ نہیں رکھتے ہیں۔ اورفاطمہ زہرا سلام  اللہ علیہا  یہی کہہ رہی تھی کہ آپ وہ صلاحیت نہیں رکھتے ہیں، کیونکہ اسکے لئے ایک معصوم  قائد ہونا چاہئےاور جو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے اپنےبعد کے بارہ ائمہ  قائد آپ کے لئے  امت کیلئے مشخص کئے ہیں آپ نے ان کی تابع داری کرنی ہے۔

 اورمیں یہاں پہ ایک اور زاویے سے اہلسنت مخاطب ہونے کے بجائے یہاں پر شیعوں کے کیلئے بات کروں گا وہ یہ کہ فاطمہ زہرا سلام اللہ علیہا   جو ہمیں دعوت فکر دے رہی ہے وہ یہ کہ آپ کے زمانے کا امام بھی ظہور نہیں کرےگا جب تک  آپ میدان عمل میں نہیں  آئیں گے۔ فاطمہ زہرا سلام  اللہ علیہا  تب  میدان میں آئی تاکہ  اپنے امام  کے دفاع کیلئے اگرچہ وہ ان کے شوہر بھی تھے اور شوہر کےدفاع کیلئے ان کو میدان میں نہیں آنا تھا  مگر وہ میدان میں آئی کس کیلئے؟ امامت کیلئے۔ ہمارے زمانے کا امام بھی تبھی ظہور کرےگا جب ہم قرآن کی حاکمیت کیلئےخود میدان میں آئیں گے جسطرح فاطمہ زہرا سلام اللہ علیہا آئی ہیں ۔اور جب تک  ہم عملی طورپر فاطمہ زہرا سلام اللہ علیہا کی سیرت پر عمل نہیں کریں گےامام زمانہ بھی ظہور نہیں کریں گے۔

اختام پر یہ کہنا چاہوں گا  اس جملے کے نسبت  آپ تھوڑی عنایت  کریں کہ فاطمہ زہرا سلام اللہ علیہا  کی مظلومیت  امام حسین علیہ السلام کی مظلومیت سے زیادہ ہےکیونکہ غور کیجئے گا، امام حسین علیہ السلام کم سے کم میدان میں آئے،ذرہ پہن کے آئے ،تلوار ہاتھ میں لے کے آئے ۔مگر فاطمہ زہرا سلام اللہ علیہا صرف قرآن اورخدا کی حجتیں حسنین علیہما السلام لے کے آئی کہ دیکھو قرآن کیا کہہ رہاہے۔رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے کیاکہا ہے اوراس کا کیا جواب دیا ،بے دردی کے ساتھ ان کے ساتھ کیاسلوک کیاگیا! یہ مظلومیت ہمارے لئے ہرمسلمان  کے لئے لمحہ  فکر ہےکہ وہ اس مظلومیت کے نسبت اپنی ذمہ داری کو کیسے نبھاتے ہیں۔

 

لَعْنَةُ اللَّهِ عَلَى الظَّالِمِینَ(الأعراف/44)...وَسَیعْلَمُ الَّذِینَ ظَلَمُوا أَی مُنْقَلَبٍ ینْقَلِبُونَ(الشعراء/227)

 

 



[1]عوالم ج 11، ص 78

[2]تفسیر أطیب البیان، ج 13، ص 236

[3]بحارالانوار، ج 43، ص 145، روایت 49

[4] الأنبیاء/107

[5] اھلسنت کے بڑے عالم دین محمد بن مسلم بن قتیبه  سے روایت ہے کہ :والذی نفسی بیدی اما اخرجوا او احرق البیت مع من فیه"، قال الناس:"فیه فاطمة"۔ قال:"و ان کانت فاطمة احرقه۔

تبصرے (۰)
ابھی کوئی تبصرہ درج نہیں ہوا ہے

اپنا تبصرہ ارسال کریں

ارسال نظر آزاد است، اما اگر قبلا در بیان ثبت نام کرده اید می توانید ابتدا وارد شوید.
شما میتوانید از این تگهای html استفاده کنید:
<b> یا <strong>، <em> یا <i>، <u>، <strike> یا <s>، <sup>، <sub>، <blockquote>، <code>، <pre>، <hr>، <br>، <p>، <a href="" title="">، <span style="">، <div align="">
تجدید کد امنیتی