سایت شخصی ابوفاطمہ موسوی عبدالحسینی

جستجو

ممتاز عناوین

بایگانی

پربازديدها

تازہ ترین تبصرے

۰

رسولخدا صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے چھٹے وصی حضرت امام جعفر صادق علیہ السلام کی شہادت

 اردو مقالات مکالمات اھلبیت ع اھلبیت ع حضرت جعفر صادق علیہ السلام مذھبی ھدایت ٹی وی کے ساتھ

رسولخدا صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے چھٹے وصی حضرت امام جعفر صادق علیہ السلام کی شہادت

ہم بھی امام جعفر صادق علیہ السلام کی شہادت پر اپنے آنسو بہا کر دراصل امام زمانہ عجل اللہ تعالی فرجہ الشریف کے آنسون سے ملانا چاہیں گے۔اور دعا کریں کہ اللہ ہمیں اپنے کردار سے ، اپنے ارادے میں بدلاؤ لانے کی نیت سے اُن تعلیمات پر عمل کرنے کیلئے جن کیلئے یہ پاک خون بہا ہے پر عمل کرنے کی توفیق عطا کرے تاکہ یہ اسلام کا درخت ہمیشہ صدا بہا رہے۔

عالمی اردو خبررساں ادارے نیوزنورکی رپورٹ کےمطابق لندن میں دائرہدایت ٹی کے "صبح ہدایت" پروگرام کے عالمی منظر  میں"دور امام جعفر صادق علیہ السلام " کے عنوان کے تحت میزبان سید علی مصطفی موسوی نے بین الاقوامی تجزیہ نگار اور نیوزنور کے بانی چیف ایڈیٹر حجت الاسلام حاج سید عبدالحسین موسوی [قلمی نام؛ابوفاطمہ موسوی عبدالحسینی] سےآنلاین مکالمے میں"25شوال روز شہادت امام جعفر صادق علیہ السلام"  کے  سلسلے میں مندرجہ ذیل انٹرویو لیا جسے قارئین کے نذر کیا جا رہا ہے۔

س) امام جعفر صادق علیہ السلام  کا اجمالی دور کیسا تھا؟

ج )           بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِیمِاللَّهُمَّ ‌و‌ أَنْطِقْنِی بِالْهُدَى ، ‌و‌ أَلْهِمْنِی التَّقْوَى ، ‌و‌ وَفِّقْنِی لِلَّتِی هِیَ أَزْکَى۔

آج(25شوال) کی مناسبت سے پہلے صاحب عزا امام زمانہ عجل اللہ تعالیٰ فرجہٗ شریف کی خدمت میں بالخصوص اور آپ کے اوصیاء و نائبین مراجع عظام تقلید  اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلمکے جملہ شیدائیوں بالخصوص شیعوں کی خدمت میں تسلیت عرض کرتے ہوئے امام جعفر صادق علیہ السلام کے بارے میں بات کرنے کے حوالے سے اس دور کو جاننا کئی اعتبار سے ممتاز ہے۔ آپ کی زندگی اور دور وصایت رسولخدا و امامت امت دیگر سارے معصومین  کے نسبت ممتاز اور طولانی رہی ہے ۔ امام نے68 کی طولانی عمر  پائی ہے ۔

امام جعفر صادق علیہ السلام 80 ہجری قمری(83ہجری) میں پیدا ہوئے  پچیس شوال 148 هجری قمری کو 65 سال کی عمر شریف میں بنی عباسی خلیفہ منصور دوانیقی کے ذریعہ مسموم اور مدینه منورہ میں شہید ہوئے اور جنت البقیع میں مدفون ہیں ۔اسطرح آپ نے 68سال کی عمر پائی جو کہ ائمہ معصومین میں ممتاز ہے۔ اوردور امامت امت و وصایت رسولخدا صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم: یہ دور بھی زندگی کی طرف ممتاز ہے 34 سال کا دور  گزرا ہے ۔

رسولخدا صلی اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی وصایت اور امت کی امامت جو کہ پانچویں وصی رسولخدا حضرت امام محمد باقر علیہ السلام کی 114ہجری قمری میں شہادت کے بعد  چھٹے وصی حضرت امام جعفر صادق علیہ السلام میں منتقل ہوئی اور 148ہجری قمری تک جاری رہی ہے اسطرح امام کا دور امامت وصایت 34سال کا رہا ہے۔

اہل تحقیق اور مطالعہ کے لئے یہ بات بھی پوشیدہ نہیں ہے کہ یہ دور بھی ائمہ معصومین علیہم السلام کے درمیان طولانی ترین دور رہا ہے۔

امام جعفر صادق علیہ السلام کی اجتماعی اور سیاسی  دوربھی دور امامت و وصایت کے مانند دیگر ائمہ معصومین علیہم السلام کے بنسبت ممتاز رہا ہے۔وہ یہ کہ امام جعفر صادق علیہ السلام کے دور کو "سیاست و اقتدار کا  دور "بھی کہا جاتا ہے، جس  بنی امیہ اور بنی عباسی بحران نے  امام کے لئے  علمی اور ثقافتی امور انجام دینے کے لئے مناسب ماحول فراہم کیا،امام نے جس وقت کا بھر پور فائدہ اٹھایا ہے۔

امام جعفر صادق علیہ السلام کا 34 سالہ دور امامت و وصایت بنی امیہ حاکموں کے دور کے 7 سالوں کے ہمعصر تھا ،جس میں بنی امیہ اپنے سیاسی حریفوں بنی عباسیوں کے ساتھ جنگ و ستیز میں لگے ہوئے تھے  جس بیچ ثقافتی اور علمی کاموں پر روک تھام لگانا بنی امیہ کے لئے میسر نہ تھا اور پھر 27سالہ   دور امامت و وصیات بنی عباسیوں کے دور کے ساتھ ہمعصر تھا۔

امام جعفرصادق علیہ السلام کے تقریبا چار ہزار شاگرد

امام جعفر صادق علیہ السلام کا علم کو فروغ دینے میں بھی ممتاز مقام رہا ہے ۔مختلف موضوعات پر  ائمہ معصومین و اصیای رسول اللہ علیہم صلوات اللہ کے 60 ہزار حدیث جو مسلمانوں تک پہنچیں ہیں ان میں 38ہزار حدیث  چھٹےامام امت اور وصی رسول اللہ حضرت امام جعفر صادق علیہ السلام سے ہیں ۔یعنی جو اصلی حصہ ہے اسلام کا وہ مسلمانوں تک اس امام کے ذریعے سے پہنچا ہے اوراسطرح ائمہ معصومین و اوصیای رسول اللہ علیہم صلوات اللہ سے مستند احادیث 42 جلدوں پر مشتمل ہے کہ جس میں 22 جلدیں امام جعفر صادق علیہ السلام سے مربوط ہیں۔

تو اس سے اندازہ ہوتا ہے کہ امام جعفر صادق علیہ السلام کا  علم کو فروغ دینے میں کتنا احسان  اور کردار رہا ہے ۔

امام جعفرصادق علیہ السلام کے تقریبا چار ہزار شاگرد تھے اور جن کے بارے میں یہ بات انتہائی غور طلب ہے کہ ان کی اکثریت قاطع اہل سنت کی تھی جن میں معروف صوفی ابوسفیان سوری اور حنفی مسلک کے پیشوا ابو حنیفہ جیسے شاگرد دیکھنے کو ملتے ہیں۔ امام جعفر صادق علیہ السلام چاہتے تھے کہ سنی بھی ان کی شاگردی اختیار کریں ،یعنی آپ اپنی کلاس میں ایسی بحثیں پیش کیا کرتے تھے کہ سنی شاگرد آپ کی کلاس میں آتے تھے ایسا نہیں ہوا کہ کوئی شاگرد آپ کی کلاس میں ایک دن آیا ہو لیکن دوسرے دن نہ آیا ہو ۔ ان سنی شاگردوں نے کئی سال امام جعفر صادق علیہ السلام کی شاگردی اختیار کی۔حالانکہ اگر امام جعفر صادق علیہ السلام تفرقہ انگیز بحثیں چھیڑتے تو ان کے چار ہزار شاگرد اہل سنت میں سے نہیں ہو سکتے تھے ۔ بزرگ شیعہ علماء کی سیرت بھی یہی تھی۔وہ اہل سنت کی فقہ بھی پڑھاتے تھے ۔

اسلامی مسالک کے درمیان سب سے بڑے مسلک"حنفی مسلک" کے امام جناب ابوحنیفہ اپنے مبلغ علم کو حضرت امام جعفر صادق علیہ السلام کے  صرف دو سال درس میں شرکت کرنے کا مرحوم منت قرار دیتے ہوئے کہا ہے کہ :«لولاالسنتان لهلک النعمان»جناب ابو حنیفہ اور جناب مالک بن انس جیسے سنی مسالک کے  ائمہ امام جعفر صادق کے بارے میں اُن کا یہ  کہنا کہ :"زیر آسمان امام صادق سے بڑکر کسی فقیہ ، کسی بڑے عادل ، بڑے  تقوی شعار اور پاکیزہ انسان کو نہیں جانتے "۔

س)کیا اسلامی تعلیمات کے فروغ کا دور  امام جعفر صادق علیہ السلام کے ہی زمانے میں شروع ہوا ہے ؟

ج)جی؛ بالکل یہی وہ  دور ہے کہ اسلامی معاشرے کو رسول خدا صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے پانچویں اور چھٹے وصی  اور امت کے ان دو اماموں سے پہلے اسلام کے بارے میں  جامع معرفت و شناخت نہیں تھی  اور یہ بھی دیکھئے کہ جو امام جعفر صادق علیہ السلام کے شاگردوں کی   اتنی وسیع طویل فہرست ہے ان میں سبھی فقہی  شاگرد نہیں تھے بلکہ امام نے بڑے سائنسدانون کی تربیت کی ہے جن میں جابر بن حیان جنہیں فادر آف کمیسٹری کے نام سے جانا جاتا ہے یا ہشام بن حکم اور ہشام بن سالم جیسے سائنسدانوں کے نام دیکھنے کو ملتے ہیں۔

اسطرح جو اسلام نے جس جامعیت کا دعوی کیا ہے اس  علم کی  تاریخ کی بنیاد امام محمد باقر علیہ السلام اور امام جعفر صادق علیہ السلام  نے قائم کی ہے ۔ چونکہ ان دو حضرات کو اس کام کیلئے وقت بھی میسر ہوا جس کا بھرپورعملی  فائدہ اٹھا یا۔اورجس جامع کمالات کا اسلام کے دعویدار  ہے اس کو امام جعفر صادق علیہ السلام نے فروغ دیا ہے۔

 اور یہ بات بھی یہاں غور طلب ہے کہ مثلاً ابھی ہمارے معاشرے میں  بھی  ایسا ہے کہ عالم کی موجودگی میں ماہر کی موجودگی میں عوام میں وہ چاہت نہیں کہ وہ دین کے بارے میں ان سے سوال کرکے رہنمائی حاصل کریں۔اور ایسا ہر زمانے میں تھا ہم تاریخی اوراق میں دیکھتے ہیں کہ حتیٰ تین معصومین   حضرت علی علیہ السلام یا امام حسن مجتبیٰ علیہ السلام یا امام حسین علیہ السلام سے اُن کی زندگی میں عوام دین و علم کے بارے میں رجوع نہیں کرتے تھے اگر چہ اُن کی زندگی جنگ وجدل میں گزری مگر عوام میں یہ شعور نہیں  تھا کہ دینی مسائل ائمہ معصومین ؑ سے پوچھیں، اوصیای رسول اللہ ؐ سے پوچھیں۔

حتیٰ امام حسین علیہ السلام کو ہم سب دیگر ائمہ کے بنسب کسی حد تک جانتے ہیں اور امام حسین علیہ السلام کی امامت کا دور دس سالہ تھا مگر تاریخ میں ہمیں کہیں نہیں ملتا کہ دس سالہ دور میں امام حسین ؑ کے پاس کوئی آکے اُن سے شرعی یا علمی سوال پوچھا ہو، کہ کیا کرنا ہے! کیا معنی ہے ! ایسا کسی نے نہیں کیا ، تو مجموعی طور آنحضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے بعد جس ماحول کو حاکم بنایا گیا اس سے عالم اسلام علم و معرفت سے کما حقہ محروم رہا ہے۔

جب بنی امیہ اور بنی عباسی اقتدار کی جنگ میں الجھ پڑے یہ دور وہ دور بنا کہ جس میں امام جعفر صادق علیہ السلام نے اس کا بھرپور فائدہ اٹھاتے ہوئے عوام تک آفاقی اسلامی تعلیمات کو فروغ دینے کا سلسلہ شروع کیا جو ابھی تک جاری ہے۔

س) کیا یہ ایک سیاسی برتری  اور سیاست الہیہ کی جھلک  تھی جو  دنیا کو دیکھنے کو ملی ہے؟

ج) جی قرآن یہی سیاست تو بتا رہا ہے مگر اس کیلئے شرط ہے کہ وہ عوام میں بھی ظرفیت ہو۔ہم دیکھتے ہیں  کہ امام خمینی ؒ نے اتنا بڑا انقلاب برپا کیا ۔کب؟ جب لوگوں میں وہ ظرفیت کا مظاہرہ ہوا۔ انہوں نے قرآن کی بات سمجھنے کی لیاقت ظاہر کی ۔عوام نے حضرت علی ؑ کو ٹھکرایا ، عوام نے حسن مجتبیٰ ؑ کو ٹھکرایا ، عوام نے دیگر اماموں کو ٹھکرایا ، عوام نے انسان کامل کو ٹھکرایا کیونکہ کیونکہ ان میں ظرفیت نہیں تھی۔ایرانی عوام نے اپنی ظرفیت کا مظاہرہ کیا غیر معصوم اور عالم دین کی رہنمائی کو لبیک کہا کیا کچھ حاصل نہیں  کیا۔

امام جعفر صادق علیہ السلام نے تبھی ہزاروں شاگردوں کی تربیت کی جب انہوں نے اپنی ظرفیت کا مظاہرہ کیا ۔جبکہ آج کل انقلاب اسلامی ایران نے جو بیداری پیدا کی اسے غفلت میں تبدیل کرنے کے لئے آپ دیکھتے ہیں کہ کس بات  پرزیادہ  فوکس کیا جاتا ہے۔ اختلافی باتوں کی ترویج کی جاتی ہے ، جس سے دل آزاری ہوجائے اس کی ترویج کی جاتی ہے۔ کیوں؟ کیونکہ معصومین علیہم السلام کی بات عوام تک نہ پہنچنے پائے۔ آج میڈیا پاورفل ہے وہ بہت ہماری پسماندگی کو دور کرسکتے ہیں جو اُس زمانے میں امام جعفر صادق ؑ چھہ ہزار شاگردوں کے ذریعے سے دین کی ترویج کررہے ہیں آج اس سے کئی گناہ پاورفل میڈیا کے ذریعہ قرآن کی تعلیم کو عام کیا جاسکتا ہے۔ اسی لئے وہ فضا قائم کی جاتی  ہے جس میں اختلاف زیادہ ہو ، جس میں دل آزاری زیادہ ہو۔ یہ وہی دشمن چاہتے ہیں جنہوں نے ائمہ معصومین کو گوشہ نشین کردیا ہے۔

مثلاً ہمیں جعفری کہا جاتا ہے اس کے باوجود ہم پر کیا الزام تراشیاں نہیں ہوتی ہے۔جبکہ  شیعوں کو جعفری کہنا  ایک واضح پیغام ہے کہ شیعوں کو امام جعفر صادق علیہ السلام کی ترازو میں تولنا ہے جبکہ شیعوں کو ہر زمانے کے امام سے پہچانا جانا ہے۔ وہ رسول اللہ  صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے زمانے میں محمدی تھےا ور رسول للہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے بعد علوی تھے اور علی کے بعد حسنی تھے اور حسنی کے بعد حسینی تھے ، حسینی کے علوی  تھے پھر باقری تھے  اور پھر جعفری ہوئے اور یہ ہر زمانے میں اپنے زندہ امام کے نام سے مشہور تھے اور اسوقت مہدوی ہیں،البتہ جب وہ دور آیا کہ جب ہر  ایک مسلمان فرقے کے مسلک کی شناخت دینے کی نوبت آئی ہمیں جعفری مسلک کا نام دیا گیا اور ابھی ہم مھدوی ہیں ۔ تو اس حقیقت کو عیاں کرنے کیلئے کبھی شیعوں کو کئی ناموں سے جانا جاتا ہے مگر جب سیرت کا مطالعہ کرتے ہیں تب جاکر پتہ چلتا ہے کہ شیعوں کا  مطلب صرف رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی سیرت کو بیان کرنا رہا ہے ، قرآن کے حقائق اور مفاہیم کو بیان کرنا رہا ہے ، اس کی پردہ پوشی کیلئے وہ فضا قائم کی جاتی ہے۔

 س) اب چونکہ دامن وقت میں اتنی گنجائش نہیں تو میں چاہوں گا کہ تھوڑا سا امام کی شہادت کا ذکر کریں؟

ج) جی؛ شہادت بھی ہمیں وہی دعوت فکر دیتی ہے کہ ہم جس حد تک مذہبی ہیں اتنے ہی سیاسی ہیں۔آخر ہمارے اماموں کے ساتھ حاکم وقت کو کیا تکلیف رہی ہے کیوں بنی عباسی خلیفہ منصور دوانیقی کو امام جعفر صادق علیہ السلام کو مسموم کرکے زہر دے کے شہید کرنا پڑا۔ اور کیوں ہمیں رسول اللہ ؐ کے   ان بارہ معصومین ، بارہ اوصیاء رسول اللہ علیہم صلوات اللہ  میں سے ان گیارہ معصومین کو شمشیر سے یا زہر دے کے شہید کیا گیا؟ کیوں کوئی ایک بھی طبیعی موت نہیں مرا ہے؟ اور اسی لئے بارہویں امام ؑ کو اللہ نے اپنے پردے میں پوشیدہ رکھا ہے اور یہی جو علم کی بیداری جو امام جعفر صادق علیہ السلام 27سال کے دور بنی عباسی پر پروان چڑھائی اور خلیفہ بنی عباسی اقتدار سنبھالنے کے بعد اس علمی بیداری کی طرف متوجہ ہوئے تو منبع نور و ہدایت کو باقی ظالم حاکموں کی طرح خاموش کرنے کی ٹھان لی ۔متوجہ ہوئےکہ جب عوام میں معرفت پیدا ہو جائے وہ ظالم اور جابر حاکموں کو اقتدار پر براجمان نہیں ہونے دیں گے اور یہی وجہ تھی کہ ان کی توجہ امام جعفر صادق علیہ السلام کی طرف مرکوز رہی اور ان کے شہادت کے سامان فراہم کئے گئے اور جس دین مبین اسلام کو علی مرتضیٰ علیہ السلام کے خون سے رنگ کر اس درخت کی آبیاری کی ہوئی، امام حسن مجتبیٰ علیہ السلام کے خون سے اور امام حسین علیہ السلام کے خون سے جو تازہ رہا ہے اگرچہ ہمیں صرف امام حسین کا خون یا د ہے کہ جس مبارک لہو سے اسلام کا درخت زندہ رہا ہے بلکہ اس کی آبیاری میں ہر معصومین کا خون اسی طرح بہتا رہا ہے تاکہ اس کی آبیاری  ہوتی رہے ۔

 اس شہادت کے موقعے پر ہم امام زمانہ ؑ سے یہ کہنا چاہیں گے کہ جس طرح تمام معصومین کو مظلومیت کے عالم میں امت سے دور رکھا  گیا ، قرآن کی تعلیمات کے احیاء کو جرم قرار دے کر امت کو ان سے محروم کیا گیا ،جو اللہ کی زمین پر اللہ کی حاکمیت چاہتے تھے اس لئے اللہ کے دشمن انہیں صفحہ ہستی سے مٹانے کے درپے رہے ہیں اور اللہ انہیں مہلت دیتا رہا ،  ہم یہ شہادت کی یاد زندہ رکھتے ہوئے اللہ کے ان دشمنوں سے اپنی بیزاری کا اعلان کرتے ہیں کہ ہم اللہ اور اللہ کے پسندیدہ لوگوں کے حامی ہیں اور ان کے ظالموں سے بیزار ہیں۔

اور اپنے اعمال سے جس طرح امام زمان کربلا کو یاد کرتے ہیں ، دن رات روتے رہتے ہیں اور امام حسین علیہ السلام سے خطاب کرتے ہوئے فرماتے ہیں کہ؛" وَ لَاَبکَینَّ عَلَیکَ بَدَلَ الدُمُوعِ دَمَاً " اے میرے جد، اے میرے مولا میں آپ کی مصیبت میں رو، رو کے اگر میری آنکھوں کے آنسوں خشک ہوجائیں گے میں خون جگر کے آنسوں رو لوں گا ۔ ہم بھی امام جعفر صادق علیہ السلام کی شہادت پر اپنے آنسو بہا کر دراصل امام زمانہ عجل اللہ تعالی فرجہ الشریف کے آنسون سے ملانا چاہیں گے۔اور دعا کریں کہ اللہ ہمیں اپنے کردار سے ، اپنے ارادے میں بدلاؤ لانے کی نیت سے اُن تعلیمات پر عمل کرنے کیلئے جن کیلئے یہ پاک خون بہا ہے پر عمل کرنے کی توفیق عطا کرے تاکہ یہ اسلام کا درخت ہمیشہ صدا بہا رہے۔

بہت شکر گزار ہے، بہت ممنون ہے کہ آپ نے اپنا قیمتی وقت ھدایت ٹی وی کو دیا اور اس پاک ذکر کو ہمارے نوجوانوں کیلئے ساری و جاری کیا۔

والسلام علیکم ورحمۃ اللہ وبرکاتہٗ۔

تبصرے (۰)
ابھی کوئی تبصرہ درج نہیں ہوا ہے

اپنا تبصرہ ارسال کریں

ارسال نظر آزاد است، اما اگر قبلا در بیان ثبت نام کرده اید می توانید ابتدا وارد شوید.
شما میتوانید از این تگهای html استفاده کنید:
<b> یا <strong>، <em> یا <i>، <u>، <strike> یا <s>، <sup>، <sub>، <blockquote>، <code>، <pre>، <hr>، <br>، <p>، <a href="" title="">، <span style="">، <div align="">
تجدید کد امنیتی