سایت شخصی ابوفاطمہ موسوی عبدالحسینی

جستجو

ممتاز عناوین

بایگانی

پربازديدها

تازہ ترین تبصرے

۰

حضرت فاطمہ معصومہ (س) کی شفاعت سے تمام شیعہ بہشت میں جائیں گے

 اردو مقالات مکالمات اھلبیت ع مذھبی حضرت فاطمہ معصومہ (س) ھدایت ٹی وی کے ساتھ

حضرت فاطمہ معصومہ (س) کی شفاعت سے تمام شیعہ بہشت میں جائیں گے

حضرت امام جعفر صادق علیہ السلام سے ایک حدیث ہے جس میں امام فرماتے ہیں: ’’ تدخل بشفاعتھا شیعتی فی الجنۃ‘‘ فاطمہ معصومہ کی شفاعت سے ہمارے تمام شیعہ بہشت میں داخل ہوں گے ۔یہ فضائل و کرامات حضرت معصومہ سلام اللہ علیہاکے بلند وبالا مقام کی نشاندہی کرتے ہیں ۔

عالمی اردو خبررساں ادارے نیوزنورکی رپورٹ کےمطابق لندن میں دائرہدایت ٹی کے "صبح ہدایت" پروگرام کے عالمی منظر  میں"روز ولادت حضرت معصومہ سلام اللہ علیہا " کے عنوان کے تحت میزبان سید علی مصطفی موسوی نے بین الاقوامی تجزیہ نگار اور نیوزنور کے بانی چیف ایڈیٹر حجت الاسلام حاج سید عبدالحسین موسوی [قلمی نام؛ابوفاطمہ موسوی عبدالحسینی] سےآنلاین مکالمے میں"پہلی ذیقدہ ولات حضرت معصومہ سلام اللہ علیہا"  کے  سلسلے میں مندرجہ ذیل انٹرویو لیا جسے قارئین کے نذر کیا جا رہا ہے۔

یوم ولادت باسعادت حضرت فاطمہ معصومہ قم سلام اللہ علیہا کی مناسبت سے ہمارے  نوجوان کے نام بی بی کی سوانح حیات کا مختصراً  خاکہ جاننا چاہیں گے؟

ج) بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِیمِ. اللَّهُمَّ ‌و‌ أَنْطِقْنِی بِالْهُدَى ، ‌و‌ أَلْهِمْنِی التَّقْوَى ، ‌و‌ وَفِّقْنِی لِلَّتِی هِیَ أَزْکَى۔

آج (پہلی ذیقعدہ)کی مناسبت سے  جوحضرت فاطمہ معصومہ سلام اللہ علیہا کے روز ولادت  کی سالگرہ ہے اور جسے بیٹیوں کے دن نام یہاں منایا جارہا ہے ۔ امید ہے ان شاءاللہ دنیا کے ہر کونے بیٹیاں سلامت رہیں اور میں اس مناسبت سے پہلے امام زمانہ عجل اللہ تعالیٰ فرجہٗ شریف کی خدمت میں اور آپ کے نائبین باالاخص امام خامنہ ای اور جملہ مراجع عظام تقلید کی خدمت میں بالخصوص اور عاشقان محمد و آل محمد ؐ کی خدمت میں بالعموم اور خاص کر اُس خوشحال گھرانوں کوجہاں بیٹی ہے اُن کے لئے مخصوص مبارکباد پیش کرتے ہوئے یہی عرض کرنا چاہوں گا کہ جناب حضرت فاطمہ معصومہ سلام اللہ علیہا پر کئی پہلوؤں پہ بات کی جاسکتی ہےکئی پہلوؤں کو اُجاگر کرنے کی ضرورت ہے  کہ مکتب محمد و آل محمد ؐ  میں کس دین اور کس حقانیت کی ترجمانی ہوتی ہے۔

آپ دیکھئے کہ یہ کمسن خاتون کے جس نے اپنے کردار سے اور عمل سے اپنے آپ کو کہاں پہنچایا جسے ہمیں یہ بھی پتہ چلتا ہے کہ اسلام نے خونی رشتے کو کبھی اہمیت نہیں دی ہے،معیار قرار نہیں دیا ہے بلکہ مکتبی رشتے کو اہمیت دی ہے۔ جہاں کہیں بھی آپ حضرت علی علیہ السلام سے لیکر امام مھدی عجل اللہ تعالیٰ فرجہٗ شریف تک لینگے وہاں رشتہ داری کے عنوان سے کسی کو  کوئی منصب نہیں ملا ہے بلکہ وہ اپنے مکتبی معیار کے اعتبار سے وہ مقام حاصل کرچکے ہیں ۔جس طرح حضرت موسیٰ علیہ السلام نے اپنے بھائی کو اپنا وصی بنانا کیونکہ اس رشتے میں خون سے زیادہ مکتب کی بالا دستی تھی اسلئے اللہ سے درخواست کی کہ ہارون کو میرا وزیر و جانشین قرار کیونکہ اس میں میرے مکتب کی قیادت سنبھال کرآگے لے جانے کی صلاحیت ہے۔

غرض حضرت فاطمہ معصومہ سلام اللہ علیہا کی 28سالہ مختصر زندگی جس میں انہوں نے کوئی شادی نہیں کی ، اپنی اس کمسنی میں انہوں نے کیا کچھ کیا کہ وہ اس مقام کو حاصل کرنے کی مستحق بنی ۔ اسلئے آپ کی زندگی کو دو دور میں تقسیم  کرکے دیکھا اور جاننے کی کوشش کی جاسکتی ہے۔ ایک تو ولادت سے آپ نے والد بزرگوار اور رسول خدا صلی اللہ علیہ وآلہ وسلمکے ساتویں وصی اور امت کے امام کی شہادت تک  کا ۶ سالہ دور ہے جس میں آپ اپنے عظیم المرتبت والد اور وقت کے امام حضرت امام موسی کاظم علیہ السلام کے زیر سایہ پروان چڑھیں۔

دوسرا دور ۶ سال سے ۲۸ سال تک کی عمر میں  آپ اپنے بھائی اور رسول خدا  صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے آٹھویں وصی اور امت کے امام حضرت  امام رضاعلیہ السلام کی سرپرستی و  میں رہی ہیں  اور یہی نکتہ آپ کی تربیتی فضا کے لحاظ سے اہمیت کا حامل ہے۔تاریخی دستاویزوں کی روشنی میں آپ کی ولادت پہلی ذیقعدہ سال ۱۷۳ ہجری  میں مدینے میں ہوئی ، دوسری طرف ہم یہ بھی جانتے ہیں کہ امام موسیٰ کاظم علیہ السلام کو ۱۷۹ قمری میں قید کیا گیا تھا اور ۱۸۳ ہ ق میں آپ کو شہید کیا گیا ۔ یعنی جب حضرت معصومہ کی عمر ۶سال سے زیادہ نہیں تھی  تب آپ کے والد گرامی کو  قید کر لیا گیا تھا اور ۴ سال بعد قید خانے میں امام کی شہادت ہو گئی، اس بنا پر حضرت معصومہ سلام اللہ علیہا  سال ۱۷۹ میں اپنے وقت کے امام اوروالد بزرگوار کے قیدی بنائے جانے  سے لے کر سال ۲۰۱ قمری تک  کہ جب مدینے سے امام رضا علیہ السلام کو مرو جانا پڑا تھا  ۲۲ سال تک آپ  اپنے بھائی  اور رسول خدا صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے آٹھویں وصی کی حمایت اور سرپرستی میں رہی ہیں۔

اور  اس تربیتی محور کا ایک اور پہلو حضرت معصومہ سلام اللہ علیہا  کا عالم تشیع کیلئے بلکہ عالم اسلام اور عالم انسانیت کیلئے مکتبی محور ہونا ہے ۔ دیکھئے ہم جانتے ہیں کہ حضرت فاطمہ زہرا سلام اللہ علیہا کی قبر کو جاننے سے پوری دنیا محروم ہے ۔ آیت اللہ العظمیٰ مرعشی نجفی ایک بہت ہی عظیم المرتبت مجتہد گزرے ہیں اور جنہوں نے دنیا بھر سے اسلامی قلمی نسخے جمع کر کے ایک انفرادی لائبریری  قم میں قائم کی وہ اپنی مثال آپ ہے ۔ اور آپ اپنے والد سے نقل کرتے تھے کہ اُن کے والد جو کہ  خودشہرۂ آفاق عالم ربانی تھے ، انہوں نے مولا امیر المومنین علی ابن ابیطالب علیہ السلام سے توسل کرتے ہوئے بڑی مشقت تحمل کی یعنی چلہ کشی کرتےہوئے آخر کار رابطہ کیا کہ پھر جب مولا سے خواب میں ملاقات  ہوئی ۔ امام نے فرمایا؛ سید کیا ہوا ہے کیوں اتنی عاجزی کرتے ہو ۔ عرض کی کہ مولا میں فاطمہ زہرا سلام اللہ علیہا کی قبر جاننا چاہتا ہوں ۔مولی نے فرمایا کہ دیکھو جو فاطمہ زہرا سلام اللہ علیہا نے وصیت کی میں اُس کو توڑ نہیں سکتا ہوں ،آپ نے قبر کو مخفی رکھنے کو کہا اسلئے اس کا پتہ نہیں بتا سکتا ہوں مگر اگر تم حقیقتاً  حضرت فاطمہ زہرا سلام اللہ علیہا کی زیارت کرنا چاہتے ہو تو قم جاکے فاطمہ معصومہ کی زیارت کرو کیونکہ اللہ نے وہ تمام  جبروت حضرت فاطمہ معصومہ کو عطا کیا ہوا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ  قم تشیع کا مرکز بن گیاہے ۔

 آپ دیکھئے کہ حضرت معصومہ کی کمسنی کے باوجود 80 سالہ ، 100 سالہ ، 100 سے زائد عمر کے مراجع عظام تقلید اور بہت بڑی بڑی عرفانی شخصیتیں آپ کی دہلیز پر حاضر ہو کے بھیک مانگتے نظر آتے ہیں کہ ہمیں وہ عنایت حاصل ہو کہ جو آپ کو اللہ نے جو مقام عطا کیا ہے۔ اور یہ بھی شاید ہمارے جوانوں کیلئے دلچسپ ہوگا کہ یہی حضرت معصومہ تمام شیعوں کی شافع ہیں۔یہی ہماری شفاعت کریں گی۔ یہ ہمارے مکتب کی ترجمان ہے یعنی مکتب محمد و آل محمد ؐ ، مکتب قرآن کی حفاظت میں جو حضرت معصومہ کا کردار رہا ہے اُس کمسنی میں ، یہاں پر بھی پتہ چلتا ہے کہ اگر ہم اپنے آپ میں وہ ظرفیت پیدا کریں 28 سالہ عمر کون سی عمر ہوگی ۔ مگر اگر آپ ہمت کریں آپ اپنی کمسنی کے باوجود عظیم کمال و مقام حاصل  کرسکتے ہیں۔  

اسلئے جو حضرت معصومہ کو شیعوں کی شفاعت کے حوالے سے جو احادیث آپ نے سنیں ہوں گے میں یہاں یاد تازہ کرنے کیلئے نقل کرنا چاہوں گا کہ حضرت امام جعفر صادق علیہ السلام سے ایک حدیث ہے جس میں امام فرماتے ہیں: ’’ تدخل بشفاعتھا شیعتی فی الجنۃ‘‘ فاطمہ معصومہ کی شفاعت سے ہمارے تمام شیعہ بہشت میں داخل ہوں گے ۔یہ فضائل و کرامات حضرت معصومہ سلام اللہ علیہاکے بلند وبالا مقام کی نشاندہی کرتے ہیں ۔

س) کیا بی بی  معصومہ کو زینب رضا (ع)بھی کہا جاتا ہے ؟

ج) میں نے جس طرح پہلے بھی رشتے کے حوالے سے اشارہ کیا کہ  مکتبی رشتہ معیار ہے خونی رشتہ صرف اس کے حسن میں اضافہ کر سکتا ہے۔ ہمیں بعض جگہ مغالطہ ہوتا ہے کہ جب ہم  حضرت زینب سلام اللہ علیہا  کے بارے میں بات کرتے ہیں کہ وہ اپنے بھائی کے پیچھے پیچھے رشتہ نبھانے چلی تھی، جی نہیں وہ مکتبی رشتہ نبھانے چلی تھی ، بھائی  خونی رشتے سے زیادہ مکتبی بھائی تھا جس طرح ہارون اور موسیٰ علیہما السلام مکتبی بھائی بھی تھے اور خونی بھائی بھی تھے۔ کربلا میں  امام حسین علیہ السلام کے ساتھی اپنے رشتے داری کے حوالے سے میدان کربلا میں نہیں تھے بلکہ وہ اپنے اس قرآنی مکتب کی تناظر میں اپنے وقت کے امام کیلئے ثابت قدم ہوئے اور یہی نمونہ جو جناب زینب سلام اللہ علیہا نے جو کردار کربلا میں امام حسین علیہ السلام کے نسبت اپنایا اور اپنے وقت کے امام کے نسبت اُس کا بھر پور مظاہرہ کیا ۔ حضرت معصومہ سلام اللہ علیہا نے بھی اپنے زمانے میں وہی کردار ہمیں دکھایا کہ مدینے سے جب امام رضا علیہ السلام کے مرو کی طرف مجبوری کی حالت میں چلےجانے کے ایک سال بعد یعنی سال ۲۰۱ قمری میں آپ نے ایران کا سفر اختیار کیا تاکہ اپنے وقت کے امام اور بھائی سے ملاقات کرسکیں اور امام کے سفر کی حقیقت کو برملا کریں یہی وجہ ہے کہ جن کٹھن  مصائب کو لیکر حضرت معصومہ نکلی اور وہی سیرت زندہ کی جو جناب زینب سلام اللہ علیہا نے رقم کی تھیں اور تو اسی تناظر میں اُن کو زینب رضا (علیہم السلام) بھی کہا جاتا ہے۔

 جیسا کہ تاریخوں میں لکھا ہے کہ ساوہ کے نزدیک کچھ وجوہات کی بناء پر آپ نے اپنا راستہ بدلا اور شہر قم میں تشریف فرما ہوئیں قم میں آپ کی اقامت بہت مختصر تھی  ایسا معلوم ہوتا ہے کہ آپ کے راستہ بدلنے کی اصلی وجہ آپ کی بیماری تھی اطلاع ملنے پر قم کے شیعوں نے موسی بن خزرج اشعری کی رہبری میں آپ کو آرام کی خاطر قم تشریف فرما ہونے کی دعوت دی ۔ اورا س تاریخی دلیل کی بنا پر قم میں آپ کے تشریف فرما ہونے کی وجہ  آپ کی بیماری یا قم والوں کی طرف سے آپ کو دعوت تھی حالیہ برسوں میں کچھ اور نظریے بھی اس سلسلے میں سامنے آئے ہیں کہ جو تاریخی لحاظ سے قابل دفاع نہیں ہیں ۔ قم میں داخل ہونے کے بعد محلہ میدان میر میں ایک گھر میں موسی بن خزرج کے گھر کے پہلوں میں آپ کا اونٹ زمین پر بیٹھ گیا اور موسی بن خزرج کہ جو اشعری خاندان کا بزرگ تھے  کو آپ کی مہمان نوازی کا شرف نصیب ہوا ۱۷ دن تک آپ اس گھر میں مقیم رہ کر عبادت میں مشغول رہیں  کہ قم کے لوگ جسے آج کل بیت النور کہتے ہیں اور وہ گھر  اب زیارت گاہ ہے ۔اس کے بعد آپ کی رحلت ہو گئی  اور اس عظیم خاتون کے پاک پیکر کو ایک باغ میں کہ جو باغ بابلان کے نام سے معروف تھا سپرد خاک کیا گیا اور وقت گزرنے کے ساتھ ساتھ آپ کا مرقد شہر کے مرکز میں بدل گیا اور لوگ  آہستہ آہستہ وہاں آباد ہونے لگے اور آج شہر کا وہ مرکز نور فاطمہ سے جگمگاتا ہے ۔ اور جناب زینب سلام اللہ علیہا نے جس طرح امام حسین علیہ السلام کی تاریخ کو زندہ کیا اور اُس پیغام کو پہنچایا کہ شاعر کو کہنا پڑا  ’نینوا در نینوا نینوا می ماند گر زینب نبود ---کربلا در کربلا می ماند اگر زینب نبود۔  حضرت فاطمہ معصومہ سلام اللہ علیہا نے قم میں شیعت کے مرکز کو قائم کر کے وہی امامت کے نور کو اور اس علم کو بلند رکھا جسے امام جعفر صادق علیہ السلام نے کہا کہ یہی فاطمہ معصومہ شیعوں کی شفاعت کا سبب بنے گی اور اس حوالے سے کہ ہمیں یہ دیکھنے کو ملتا ہے کہ حضرت معصومہ کو حضرت رضا علیہ السلام کی زینب بھی کہا جاتا ہے اسلئے کہ امام رضا علیہ السلام کے اُس پیغام کو جسے بنی عباسی مسخ کرنا چاہتے تھے حضرت معصومہ سلام اللہ علیہا نے اُس کی اصالت کو بیان کیا۔

تبصرے (۰)
ابھی کوئی تبصرہ درج نہیں ہوا ہے

اپنا تبصرہ ارسال کریں

ارسال نظر آزاد است، اما اگر قبلا در بیان ثبت نام کرده اید می توانید ابتدا وارد شوید.
شما میتوانید از این تگهای html استفاده کنید:
<b> یا <strong>، <em> یا <i>، <u>، <strike> یا <s>، <sup>، <sub>، <blockquote>، <code>، <pre>، <hr>، <br>، <p>، <a href="" title="">، <span style="">، <div align="">
تجدید کد امنیتی