سایت شخصی ابوفاطمہ موسوی عبدالحسینی

جستجو

ممتاز عناوین

بایگانی

پربازديدها

تازہ ترین تبصرے

۰

سعودی عرب میں جاری عوامی مقاومت نے حکومت کو شیعوں کے ساتھ ہاتھ ملانے پر مجبور کردیا

 اردو مقالات مکالمات سعودی عرب ھدایت ٹی وی کے ساتھ

سعودی عرب میں جاری عوامی مقاومت نے حکومت کو شیعوں کے ساتھ ہاتھ ملانے پر مجبور کردیا

 سید مقتدیٰ صدر کو ئی معمولی شخصیت نہیں ہیں عراق کے ہر دلعزیز عالم دین ہیں اور مرد میدان مجاہد ہیں۔ تو اُن کے اشارے پہ عراق میں کیا کچھ نہیں ہوسکتا ہے یہ پوری دنیا جانتی ہے۔ اسی لئے ایسی شخصیت کا سعودی عرب میں آنا یہ ایک نیک شگون ہے ۔ یہ اچھی علامت ہے کہ سعودی عرب کو شیعوں کی طاقت کا اندازہ ہورہا ہے کہ وہ کسی بھی شکل میں اُن سے ٹکر لینے کی صلاحیت نہیں رکھتے۔

عالمی اردو خبررساں ادارے نیوزنورکی رپورٹ کےمطابق لندن میں دائرہدایت ٹی کے "صبح ہدایت" پروگرام کے عالمی منظر  میں"قطیف اورعوامیہ " کے عنوان کے تحت میزبان سید علی مصطفی موسوی نے بین الاقوامی تجزیہ نگار اور نیوزنور کے بانی چیف ایڈیٹر حجت الاسلام حاج سید عبدالحسین موسوی [قلمی نام؛ابوفاطمہ موسوی عبدالحسینی] سےآنلاین مکالمے میں"سعودی عرب میں شیعوں کے مخالف حکومتی کاروائی،ایرانی حجاج کے پہلے قافلے کی سعودی عرب روانگی اور مقصدی الصدر کی سعودی سرکاری میزبانی"  کے  سلسلے میں مندرجہ ذیل انٹرویو لیا جسے قارئین کے نذر کیا جا رہا ہے۔

 س) قبلہ ایک طرف حج کا سیزن  شروع ہواہے پہلی حج فلائٹ ایران سے سعودیہ  پہنچ چکی ہے ، ایک طرف حاجی آرہے ہیں ، حاجیوں کی آمد ہے ، دوسری طرف العوامیہ اور قطیف کے بیگناہ انسانوں کے اوپر ظلم و جبر اور بربریت کا سلسلہ جاری و ساری ہے پورا انٹرنیشنل میڈیا تعصب کا مظاہرہ کر رہا ہے ، بلیک آوٹ کیا ہوا ہے، سعودی عرب کی اندرونی خبریں نہیں دے رہے ہیں  ، جبکہ چھوٹی سے چھوٹی خبر یں  بریکنگ آجاتی ہے لیکن وہاں پورے رہائشی مکانات ٹینکوں کے گولوں کے ساتھ اڑائے جارہے ہیں ، کتنا قتل عام ہوچکا ہے ، اس کی اطلاع  صحیح نہیں آپارہی ہے۔ آپ اس حوالے سے کیا کہنا چاہیں گے؟

ج) بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِیمِاللَّهُمَّ ‌و‌ أَنْطِقْنِی بِالْهُدَى ، ‌و‌ أَلْهِمْنِی التَّقْوَى ، ‌و‌ وَفِّقْنِی لِلَّتِی هِیَ أَزْکَى۔

سعودی عرب کے بیدار ضمیر باشندے انصاف کی بھینک مانگنے کے جرم میں کچلے جار ہے ہیں اور جو کوئی دن کو دن اور رات کو رات کہے اسے فتنہ باز اور دشمن کا آلہ کار کی لیبل چسپاں کرکے روانہ زنداں کیا جاتا ہے۔

سعودی عرب کے مشرقی علاقے"العوامیه"اور"القطیف "میں اس لئے جنگل راج حاکم بناکر ظلم و جور کا بازار گرم رکھا جا رہا ہے  کیونکہ وہاں امامت و قیادت کو اصول دین کا عقیدہ رکھنے والے شیعہ آباد ہیں جو ظلم کے خلاف ہر ممکن شکل میں آواز بلند کرتے ہیں کیونکہ وہ رسولخدا صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے تیسرے وصی حضرت امام حسین علیہ السلام کی  عزاداری کے علم کے نیچے پروان چڑھنے والے لوگ ہیں۔اسی لئے جہاں جہاں شیعہ آباد ہیں وہاں وہ یا مظلوم ہیں یا مظلوم کے یار و غمخوار ہیں۔

سعودی عرب کے شیعوں میں انقلابی بیداری اسلئے بھی آل سعود کے لئے قابل برداشت نہیں ہے کیونکہ وہ اپنے حقوق کی جنگ خود اپنے بل بوتے پر لڑ رہے ہیں اور سعودی عرب سے باہر نہ کسی شیعہ اور نہ  ہی کسی آزاد قوموں سے مدد کی توقع رکھتے ہیں ۔

سعودی عرب کے ان باضمیر لوگوں کی آواز کو دبانے میں صرف سعودی عرب اکیلے سرگرم نہیں ہے  بلکہ اسرائیل اور امریکہ بھرپور طریقے سے اسکی حمایت کررہے ہیں۔ جس  میڈیا بلیک آوٹ کی آپ بات کررہے ہیں،یہی میڈیا  ، یہی لوگ جو حقوق انسانی کی پاسبانی کے دعویدار ہیں وہ  اس پر اسلئے خاموش ہیں کیونکہ وہ اس لہر سے ڈر رہے ہیں۔ کیونکہ وہ جس سیرت  کا مظاہرہ کررہے ہیں ، امریکہ یا اسرائیل جو خوبصورت باغ دکھاتے ہیں مگر اُس کے پیچھے جو ہے وہ ظالمانہ عزائم رکھتے ہیں ان عزائم سے پردہ اٹھانے والی ہر حرکت سے وہ بیزار ہیں۔

سعودی عرب میں شیعوں کے ساتھ بہت ناانصافی نمایاں ہے یعنی برجستہ طور پر شیعوں کے ساتھ ناانصافی ہو رہی ہے لیکن اس کا مطلب یہ نہیں کہ وہاں  سنیوں کو بھر پور حقوق حاصل ہیں ، نہیں ایسا نہیں ہے  بلکہ  وہاں دیندارشیعہ کچلے جارہے ہیں ، نیز دیندار سنی بھی وہاں کچلے جارہے ہیں ، اُن کی آواز بھی دبائی جارہی ہے ،غرض دیندار مسلمانوں کی آواز کو دبایا جارہا ہے چاہے  وہ سنی ہو یا شیعہ ہو ، جرم صرف  اتنا کافی ہے کہ وہ اگر دن کو دن کہے اور رات کو رات کہے تو پھر وہ دہشتگرد بھی ہیں اور غیر ملکی ایجنٹ بھی۔اسطرح گویا وہ وہاں کا باشندہ بھی نہیں ہے ۔ آل سعود  جو ظلم و جبر کا ماحول قائم و دائم رکھے ہوئے ہیں اُس ظلم کی چکی میں وہ ہر مسلمان پستا ہے جو ظلم کے خلاف لب کشائی کرے چاہے وہ شیعہ ہو یا سنی وہ دشمن کا آلہ کار قرار دیا جاتا ہے اور یہاں تک کہ شاید اس کی مثال کسی دوسرے ملک میں نہیں دیکھیں ملے گی کہ اپنے باشندوں پہ صرف نعرہ بازی کرنے کیلئے یا کسی جگہ کوئی  اعتراضی نعرہ  لکھنےپر یہ کہ ہمارے  حقوق پائمال کئے جاتے ہیں۔ اس پہ اُس گھرانے کو، اُس محلے کو مارٹر شلوں کے ساتھ تہس نہس کیا جاتا ہے اور دنیا تماشائی بیٹھی ہے ، سب دیکھ رہے ہیں ایسا نہیں ہے کہ کسی کو نظر نہیں آرہا ہے۔

س) یہاں پر ایک ابہام پایا جاتا ہے کہ بہت سارے لوگ یہ سمجھتے ہیں کہ وہاں  شیعوں کی آبادی کم ہے تو میں چاہوں گا کہ اُس حوالے سے تھوڑی سی گفتگو ہوجائے کہ کتنے فیصد شیعہ سعودی عرب میں آباد ہیں؟

ج) سعودی عرب میں شیعوں کی آبادی کے بارے میں دقیق معلومات نہیں ہیں بعض ذرائع 15 سے 20 فیصد اور  بعض جعفری شیعوں کے ساتھ زیدی اور اسماعیلیوں کو ملا کر 35 سے 45 فیصد سے زائد کی آبادی بتا رہے ہیں۔ جس میں مشرقی سعودی عرب کے قطیف، احسا، دمام میں شیعوں کی اکثریت آباد ہے جبکہ مدینہ منورہ میں نخاولہ علاقہ میں  اور شہر جدہ میں شیعہ آباد ہیں۔زیدی مغربی سعودی عرب  بالخصوص یمن سے ملنے والے سرحدی علاقوں خاص کر نجران میں آباد ہیں اور سعودی عرب کےجنوب میں اسماعیلی شیعہ آباد ہیں ۔

اس طرح اگر دیکھیں کہ پورے سعودی عرب میں شیعہ آباد ہیں ۔ بعض تو اگر اہلسنت اُن کی تعداد بھی اس میں شامل کررہے ہیں کہ جو اہلبیت (علیہم السلام) کے انتہائی دلدادہ ہیں تو پھر اگر کہیں کہ درواقعاً اکثریت شیعوں کی سعودی عرب میں آباد ہیں  مغالطہ نہیں ہوگا۔ مگر کیونکہ وہاں پر ظالم و جابر حاکم حکمفرما ہے اسلئے ہر اہلبیت ؑ کا چاہنے والا ہر ممکن طریقے سے وہاں دبایا جاتا ہے اگر علی الظاہر وہ شیعہ ہو یا سنی ۔

س) اچھا آپ کیا دیکھتے ہیں اپنے جرنلسٹک پونٹ آف ویو سے کہ سعودی عرب حکومت کتنے عرصے تک عوامی امنگون کودبا پائینگے کیونکہ کوئی تحریک کچلنے سے یا دبانے سے ختم نہیں ہوتی ہے ۔ تو جس وحشیانہ طریقے کے ساتھ العوامیہ کے اوپر اور القطیف کے اوپر جس طرح مارٹر شل فائر کئے جارہے ہیں ، پورے پورے رہائشی بلاک منہدم کئے جارہے ہیں ، ایسا سلسلہ کب تک چل پائے گا کیونکہ اُن کو ویسے ہی آلریڈی تیسرے درجے کا شہری قرار دیا گیا ہے نہ اُن کے پاس پینے کا صاف پانی ہے، نہ اُن کے پاس وہ طبی سہولیات موجود ہیں ، نہ تعلیم و تربیت کا انتظام ہے، پہلے ہی اُن کے ساتھ اتنا استحصال ہے ۔ اب رہے سہے اُن کے جو گھر ہیں ان کے اوپر مارٹر شل فائر کئے جارہے ہیں تو یہ معاملہ آپ کدھر جاتا ہوا دیکھ رہے ہیں؟

ج) سعودی عرب کی عوامی تحریک میں ناکامی کی کوئی گنجائش نہیں ہے ۔ کیونکہ وہ  ایک مضبوط پہلو کی حفاظت کئے ہوئے ہیں ، جس کی طرف  بہت سارے توجہ نہیں کرتے،وہ یہ کہ سعودی عرب کے عوام نے ایران سے ایک رول ماڈل لیا ہے جو ان کی کامیابی کو یقینی بنائے ہوئے ہے وہ رول ماڈل وہ نہیں کہ جو وہاں کے شیعوں کو یا انقلابیوں کو یہ الزام لگایا جارہا ہے کہ ایران اُن کو اکسا رہا ہے  اس میں کوئی حقیقت نہیں ہے۔ بلکہ سعودی عرب کے باشندوں نے ایران سے جو سیکھا وہ رول ماڈل یہ کہ اپنے بل بوتے پر اپنی تحریک چلانا ہے ۔ سعودی عرب کے انقلابی عوام کا ماننا ہے کہ  ایران میں انقلاب تبھی کامیاب ہوا جب اس نے دوسرے ملک پر انحصار کرنا چھوڑ دیا ۔ اور یہی حقیقت بھی ہے۔ اور وہاں کے عوام نے یہی فیصلہ لیا ہے کہ اگر کل کوئی ایسا دن  آئے کہ ایران کو کھل کر یہاں کے شیعوں کی مخالفت کرنی پڑے یعنی مشکلات کھڑی کرنی پڑے ہمیں کوئی فرق نہیں پڑے گا۔دنیا کا کوئی بھی شیعہ ہماری مظلومیت کے بارے میں بات نہ کرے ، ہماری حمایت نہ کرے،  ہمیں کسی شیعہ سے گلہ نہیں ہوگا ، ہماری کسی بھی آزاد فکر کے انسان سے کوئی گلہ نہیں ہوگا ، یہ ہماری جنگ ہے ، ہم اپنی جنگ خود لڑیں گے اور یہ کوئی معمولی بات نہیں ہے۔

س) اچھا ہم ایک ایسے وقت میں دیکھتے ہیں کہ سید مقتدیٰ صدر جو کہ عراق کے سیاسی افق اوپر ہمیشہ سے چھائے رہے ہیں اور اُن کی جدوجہد وہ سب کے سامنے ہے۔ تو اُن کو عراق سے سعودی عرب کیوں بھیجا گیا ہے اس کے اوپر بڑی چیمہ  گوئیاں  ہورہی ہیں حالانکہ اگر میں جس چیز کو اس پہ دیکھ رہا ہوں میں تو سمجھ رہا ہوں کہ شیعت کے اقتدار کا مظہر ہے کہ ابھی کچھ ہی عرصے پہلے محمد بن سلمان نے امام زمانہ عج کا نام لیکے امام مہدی المنتظر ؑ کہہ کے یہ الفاظ ادا کر کے  کہا کہ ہم اُن سے لڑیں گے اور اب کچھ دن نہیں گزرے کہ خدا نے اُس کی ناک رگڑ دی اور وہ مہدی آرمی کے کمانڈر کے ہی ساتھ بیٹھا ہوا ہے۔ آپ اُس کے اوپر کیا کہیں گے؟

ج) آپ نے بجا فرمایا یہ واقعاً شیعوں کے اقتدار کی علامت ہے کہ آل سعود شیعوں کے مقابلے میں بے بسی کا برملا اظہار کرنے پر مجبور ہوا ہے ۔ یہ ایک طرح شیعوں کے سامنے گھٹنے ٹیک رہے ہیں مگر شاہی لوگ ہیں اسلئے شاہی انداز میں گھٹنے ٹیک رہے ہیں ۔ آپ دیکھئے کہ اگر آپ نے  شروع  میں ایران سے حج قافلے کی سعودی عرب کی روانگی کی طرف اشارہ کیا ، وہ ایسے حالات میں جب کہ ایران سے  سفارتی رابطے منقطع ہیں، اس کے باوجود ایران نے جو جتنے بھی سخت ترین شرائط رکھے ہیں  وہ تسلیم کرکے بھی انہوں نے ایران کے مقابلے میں ایک طرح سرنڈر کیا اور جس شیعہ کو وہ کافر کہتے کہتے نہیں تھکتے  ان میں سے ہی مقتدیٰ صدر جیسے عالم دین ، مجاہد اور مرد میدان جیسے شخص کو دعوت دینے کیلئے کتنے ہاتھ پیر نہیں مارے۔ سعودی عرب نے عراقی وزیر اعظم سے درخواست کی کہ ہمیں علماءسے بات کرائیں تو علماء میں سے مقتدیٰ صدر آئے جن کے سعودی عرب میں بہت سارے چاہنے والے ہیں ۔

س) سیدمقتدی الصدر کا ہی کیوں انتخاب کیا گیا؟

ج)  وہ اسلئے کہ وہ نہ بکنے والے ہیں اور نہ جھکنے والے ہیں ۔ آپ نے دیکھا کہ سعودی عرب نے پہلی بار اپنی غلطیوں کا اعتراف کیا اور یہ بہت بڑی بات ہے ، البتہ مقتدیٰ صدر نے بھی اعتراف کیا کہ ہماری غلط پالیسی رہی ہے مگر اس کا اتنا وزن نہیں ہے جتنا بن سلمان کا کہنا کہ ہماری سیاست غلط سیاست رہی ہے اس کا اعتراف کرنا بہت بڑی بات ہے۔ کیونکہ عراق سعودی عرب کے نسبت بد بین رہے اس کیلئے  اس بدبینی کے لئے بہت ساری دلائل موجود ہیں لیکن اس کے مقابلے میں آج سعودیہ کا اعتراف کرنا کہ شیعوں کے نسبت ہماری سیاست غلط رہی ہے یہ بہت بڑی کامیابی ہے۔

س) اچھا اس کو اگر ایک دوسری پہلو کے ساتھ ہم دیکھیں کہ جہاں پر یہ پروپیگنڈے کئے جاتے ہیں کہ شیعہ مذہب  ایرانی مجوسیوں کا ہے اور جو عرب شیعہ ہیں اُن کو ہمیشہ کچلا گیا اور دیوار کے پیچھے کیا گیا اور وہ وقت سامنے آیا کہ لبنان سے، شام سے ، یمن سے ، خود سعودیہ کے اندر سے ، عراق سے عرب شیعہ  ایک طاقت ابھر کر سامنے آرہی ہے اور جب سید مقتدیٰ صدر سرکاری دعوت پر سعودی عرب گئے ہیں تو ایسے میں جو عربی کارڈ کھیلتے آئے ہیں جس کو یہ ایک ہزار سال  سے پس ِ زندان کررہے تھے اس کا کیا ہوگا اس حوالے سے آپ کیا کہیں گے۔ ؟

ج)  یہ وہی شیعہ اقتدار کے دور کی بات ہے ۔ دیکھئے آپ جب ایران کی بات کریں تو یہاں پر ایرانی انقلاب کو کہا گیا کہ یہ اسلامی انقلاب نہیں یہ مجوسوں کا انقلاب ہے وہاں شیعہ نہیں مجوس ہیں۔

تو پھر لبنان میں جو سید مقاومت سید حسن نصراللہ  کو ہمیشہ کہا گیا کہ یہ ایران کا مہرہ ہے ۔ مگر اب سعودی عرب عراق سے ایک ایسے عالم دین کوجس نے امریکہ کو لوہے کے چنے چبوائے اُس کے سامنے آکے تعظیم سے دیکھ رہے ہیں۔گویا کہ اب تو کیا کرینگے کس نام سے شیعہ  شکل کو  مسخ کرسکتے ہیں نہیں کرسکے۔ یہ ان کی واضح ہار ہے کہ   جو مقتدیٰ صدر کو آج یہ اپنا مہمان خصوصی بناکے اپنی شکست کا برملااعتراف کررہے ہیں یہ شیعوں کی کامیابی کی علامت ہے ۔

س) اچھا کہیں وہ بیان  تو نہیں جو  کچھ عرصے پہلے سے سید مقتدیٰ نے دیا تھا  جب کہ بار بار دھماکے ہورہے تھے اور صدر سٹی میں بھی جو ہیں وہ شہادتیں ہوئیں تو سید الصدر نے ان کو ایک دھمکی دیتے ہوئے بیان دیا تھا کہ کہیں ایسا نہ ہو سعودیہ اپنے سفیر کے ذریعے سے یہاں پر دھماکے مت کرارہا ہے اگر ایسا ہوا تو ہم اپنی ایک ملین  سے زائدملیشیا کو سعودیہ کی طرف دھکیل دے  گے۔ کہیں یہ اُس زمرے میں  اُس کا اثرتو نہیں ہے کہ اس قدر خوف زدہ ہوگئے ہیں بوکھلا گئے ہیں ؟

ج)  اس سے انکار نہیں کیا جاسکتا ہے سید مقتدیٰ صدر کو ئی معمولی شخصیت نہیں ہیں عراق کے ہر دلعزیز عالم دین ہیں اور مرد میدان مجاہد ہیں۔ تو اُن کے اشارے پہ عراق میں کیا کچھ نہیں ہوسکتا ہے یہ پوری دنیا جانتی ہے۔ اسی لئے ایسی شخصیت کا سعودی عرب میں آنا یہ ایک نیک شگون ہے ۔ یہ اچھی علامت ہے کہ سعودی عرب کو شیعوں کی طاقت کا اندازہ ہورہا ہے کہ وہ کسی بھی شکل میں اُن سے ٹکر لینے کی صلاحیت نہیں رکھتے۔

تبصرے (۰)
ابھی کوئی تبصرہ درج نہیں ہوا ہے

اپنا تبصرہ ارسال کریں

ارسال نظر آزاد است، اما اگر قبلا در بیان ثبت نام کرده اید می توانید ابتدا وارد شوید.
شما میتوانید از این تگهای html استفاده کنید:
<b> یا <strong>، <em> یا <i>، <u>، <strike> یا <s>، <sup>، <sub>، <blockquote>، <code>، <pre>، <hr>، <br>، <p>، <a href="" title="">، <span style="">، <div align="">
تجدید کد امنیتی