سایت شخصی ابوفاطمہ موسوی عبدالحسینی

جستجو

ممتاز عناوین

بایگانی

پربازديدها

تازہ ترین تبصرے

۰

امام کا معصوم ہونا کیوں ضروری ہے

 اردو مقالات مکالمات مذھبی سیاسی ذی الحجہ ھدایت ٹی وی کے ساتھ

جشن غدیر پر ابوفاطمہ موسوی عبدالحسین کی ہدایت ٹی وی کے ساتھ گفتگو؛

امام کا معصوم ہونا کیوں ضروری ہے

 معصوم یعنی ہر غلطی سے پاک ،یعنی مکمل انسان اور مکمل انسان کا جانشین بھی مکمل انسان یا مکمل انسان کہلانے کا حقدار انسان ہونا لازمی ہے نہیں تو ظلم ہوگا۔

عالمی اردو خبررساں ادارے نیوزنورکی رپورٹ کےمطابق لندن میں دائرہدایت ٹی کے "صبح ہدایت" پروگرام کے عالمی منظر  میں میزبان سید علی مصطفی موسوی نے بین الاقوامی تجزیہ نگار اور نیوزنور کےبانی چیف ایڈیٹر حجت الاسلام سید عبدالحسین موسوی[قلمی نام ابوفاطمہ موسوی عبدالحسینی] سےآنلاین مکالمے کے دوران " ہفتۂ ولایت و امامت " کے حوالے سے لیے گئے انٹرویو کو مندرجہ ذیل قارئین کے نذر کیا جا رہا ہے:

س)  ہمارا  پورا یہ ہفتہ " ہفتۂ ولایت و امامت "کے عنوان سے جاری  جاری ہے اور ماشاء اللہ آج ہم عصمت کے اوپر بات کرنا چاہ رہے ہیں کہ امامت کیلئے عصمت کیوں شرط ہے ، کیوں ضروری ہے ۔ ؟

ج۔بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِیمِاللَّهُمَّ ‌و‌ أَنْطِقْنِی بِالْهُدَى ، ‌و‌ أَلْهِمْنِی التَّقْوَى ، ‌و‌ وَفِّقْنِی لِلَّتِی هِیَ أَزْکَى۔الْحَمْدُ لِلَّهِ الَّذِی جَعَلَنَا مِنَ الْمُتَمَسِّکِینَ بِوِلاَیَةِ أَمِیرِ الْمُؤْمِنِینَ علی وَ الْأَئِمَّةِ عَلَیْهِمُ السَّلاَمُ. ﺍَﻟﻠَّﻬُﻢَّ ﺳَﻤِﻌﻨَﺎ لأِﻣﺮِﻙَ ﻭَ ﺃَﻃَﻌﻨَﺎ ﻭَ ﺍﺗَّﺒَﻌﻨَﺎﺻِﺮَﺍﻃَﻚَ ﺍﻟﻤُﺴﺘَﻘِﻴﻢ

جناب آج کی  اس مناسبت سے میں تو پہلے یہ کہنا  چاہوں گا کہ اس ہفتے میں چونکہ دو عیدیں  عید غدیر اور عید مباہلہ  ہیں اور عید غدیر ، عید مباہلہ کا تسلسل  اور ایک دوسرے کی تکمیل ہے ، مباہلہ اور غدیر دونوں حوادث کو آپ ایک ہی ترازو میں تول کے دیکھیں نتیجہ ایک ہی نکلے گا اور اس پہ جتنی گفتگو کی جائے کم ہے کیونکہ اسے اکثر لوگ بے خبر ہیں۔

رہا سوال آپ کا سوال یہ ہے کہ امام کا معصوم ہونا کیوں ضروری ہے ۔ دیکھئے معصوم یعنی ہر غلطی سے پاک ،یعنی مکمل انسان اور مکمل انسان کا جانشین بھی مکمل انسان یا مکمل انسان کہلانے کا حقدار انسان ہونا لازمی ہے نہیں تو ظلم ہوگا۔

دیکھئے جج کی غیر موجودگی میں دوسرا جج یا فاضل وکیل ہی بیٹھ کر جج کا کام سنبھال سکتا ہے۔ یا سرجن کی غیر موجودگی میں دوسرا سرجن یا فاضل اسسٹنٹ سرجن ہی ڈاکٹر کا کام سنبھال سکتا ہے۔ اسی طرح ہر ایک موضوع کو لینگے تو بات یہی  ہوگی کہ ہم نے دیکھنا ہے کہ کون کس کی جگہ لے رہا ہے۔

دین مبین میں نبی  اللہ اور اس کے بندے  کے درمیان رابط ہے اور نبی کی غیر موجودگی میں وہی نبی کا جانشین ہوسکتا ہے جو نبی جیسا ہو ۔ حقیقت میں اللہ نے نبی کو بندوں کے ساتھ اپنا رابطہ قرار دیا ہے اللہ اور اس کے بندے کے درمیان جب نبی نا ہو اُن کی غیر موجودگی میں وہی جانشین ہوسکتا ہے کہ جو[اگرچہ نبی نہ ہو لیکن] نبی جیسا ہو۔ اور دین کا معاملہ چونکہ خدا سے مربو ط ہے اس طرح نبی کا انتخاب کرنا خود اللہ کا عہدہ ہے اسی طرح نبی کی غیر موجودگی میں نبی کے جانشین کا انتخاب کرنا بھی اللہ کا ہی کام ہے۔ 

خود اللہ قرآن میں اس کی طرف واضح طور پر اشارہ فرما رہا ہے سورہ بقرہ کی آیت 124 میں  ہم پڑھتے ہیں< وَإِذِ ابْتَلَى إِبْرَاهِیمَ رَبُّهُ بِکَلِمَاتٍ فَأَتَمَّهُنَّ قَالَ إِنِّی جَاعِلُکَ لِلنَّاسِ إِمَامًا قَالَ وَمِنْ ذُرِّیتِی قَالَ لَا ینَالُ عَهْدِی الظَّالِمِینَ(البقرة/124)> ترجمہ؛ ’’اور وہ  وقت یاد رکھو جب ابراہیم کو اللہ نے طرح طرح سے آزمایا اور وہ سبھی امتحانات میں کامیاب ہوئے ۔ اللہ نے اُن سے کہا میں نے تمہیں لوگوں کا امام بنا دیا یعنی اب تم امت پر امامت پر بھی فائز ہوئے عرض کی اور میری اولاد میں سے بھی امام مبعوث ہونگے ۔اللہ نے فرمایا: میرا عہد ظالم کو نہیں پہنچے گا۔ یعنی صرف تمہارے وہ اولاد امامت پر فائز ہوسکتے ہیں جو معصوم ہوں‘‘ ۔  اس مقام پر مبعوث ہونے کے حقدار ہیں۔ کیونکہ یہ منصب کسی ایسے شخص کو سنبھالنا ہے جو اُس راستے کو جانتا ہو۔

دیکھئے ہم کہتے ہیں مسلسل کہتے ہیں<اهْدِنَا الصِّرَاطَ الْمُسْتَقِیمَ>  کہ ہمیں سیدھا راستہ دکھاؤ۔ بھئی سارے راستے سیدھے ہیں ، یہ سیدھا راستہ کون ہے؟  یہ بات واضح ہونی چاہئے۔ جب آپ سفر پہ جاتے ہیں ہمارے لئے وہی سیدھا راستہ ہے جہاں ہم جانا چاہتے ہیں ، اتنی ساری سڑکیں ہیں۔ ہر سڑک آپس میں کہیں نہ کہیں ملتی بھی ہے سیدھی بھی جاتی رہتی ہے مگر جو کوئی مسافر ایڈرس پوچھتا ہے وہ اپنے مقصد کا ایڈرس پوچھتا ہے کہ مجھے جناب فلاں جگہ پہنچنا ہے آپ بتاؤ کہ مجھے فلاں جگہ پہنچنے کیلئے میرے لئے کون سا راستہ صحیح ہوگا۔ تو اس کو آپ بتاتے ہیں کہ آپ یہاں سے جائیے ۔ تو دین میں بھی جب ہم کہتے ہیں کہ<اهْدِنَا الصِّرَاطَ الْمُسْتَقِیمَ> ہم کہاں جانا چاہتے ہیں؟ ہم وہاں جانا چاہتے ہیں جہاں اللہ تک پہنچ جائیں۔ اللہ تک پہنچنے کا راستہ کیا ہے؟ اللہ نے بتایا ہے کہ میرا راستہ کیا ہے۔ الہٰی راستہ وہی ہے جو انبیاء بتاتے گئے ہیں۔ چونکہ انبیاء خود اللہ کے ساتھ رابطے میں ہیں اسلئے اُس راستے کو جانتے ہیں کہ کس طرح اللہ تک پہنچایا جاسکتا ہے۔

تو اسی طرح جانشین کا بھی ایسا ہی معیار کا ہونا چاہئے جس کو نبی کے مانند اللہ کی کامل شناخت ہو تاکہ وہ صحیح راستہ بتا دے گا۔ اور اللہ نے ایک اصول بتایا ہے سورہ رعد آیت 7 میں<وَلِکُلِّ قَوْمٍ هَادٍ>  ہر قوم کیلئے ایک الہٰی ہادی ہے۔ تو ظاہر سی بات ہے کہ کبھی بھی اس الہٰی ہادی کے وجود سے زمین خالی نہیں ہوسکتی ہے۔

س) بہت اچھے نقطے پر قبلہ آپ آئے ہیں عموماً یہی کنسپٹ مسلمانوں کے اندر دیکھنے کو ملتا ہے کہ جو بھی حاکم ہو، چاہے وہ ظلم ہو،جابر ہو ، کسی بھی طرح  کا ہو ، بس پایہ تخت پر بیٹھ جائے اُس کی اطاعت کو وہ واجب سمجھتے لیتے ہیں! یہ وجوہات کیوں اسلام میں سرائیت کرگئی حالانکہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلم نے خم غدیر میں راستے کو واضح فرمایا تھا؟

ج) بالکل ؛ یہ جس طرح عام کہاوت بھی ہے "آدھا سچ آدھا معاملہ" یہ اسی طرح ہے۔ یہ صحیح بات کررہے ہیں کہ قرآن نے کہا ہے کہ اپنے حاکم کی اطاعت کرو۔ مگر یہ حاکم کا عہدہ کون سنبھالے اس پر پوری توجہ نہیں کی جاتی ہے ۔ سورہ نساء کی آیت59 میں آیا ہے کہ: یا أَیهَا الَّذِینَ آمَنُوا أَطِیعُوا اللَّهَ وَأَطِیعُوا الرَّسُولَ وَأُولِی الْأَمْرِ مِنْکُمْ فَإِنْ تَنَازَعْتُمْ فِی شَیءٍ فَرُدُّوهُ إِلَى اللَّهِ وَالرَّسُولِ إِنْ کُنْتُمْ تُؤْمِنُونَ بِاللَّهِ وَالْیوْمِ الْآخِرِ ذَلِکَ خَیرٌ وَأَحْسَنُ تَأْوِیلًا(النساء/59) یعنی اے مومنو! اللہ کی اطاعت کرو اور رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی اطاعت کرو اور اولی الامر کی اطاعت کرو۔ اور جہاں ایکطرف ہمیں اللہ تعالیٰ نے کہا کہ اطاعت کرو تو دوسری طرف کس کی اطاعت کرو بھی واضح بیان کیا ہے کہ اطاعت کا معیار و میزان کیا ہے۔ بس یہ کہنا کہ قرآن کا حکم ہے کہ اللہ کی اطاعت کرنی ہے ، رسول کی اطاعت کرنی ہے اورحاکم کی اطاعت کرنی ہے ۔  شاید ہم بھول جاتے ہیں کہ کس کی اطاعت نہیں کرنے ہے اس کو بھی کہا گیا ہے۔

اور جب ہم کہتے ہیں کہ امام معصوم ہونا چاہئے؟ کیوں  معصوم ہونا چاہئے؟ ۔ اسلئے کہ جہاں ایکطرف ہمیں کہا گیا کہ <أَطِیعُوا > اس حاکم کی اطاعت کریں، وہاں پر ہمیں دوسری جگہ کہا گیا<فَلَا تُطِعِ/وَلَا تُطِعِ> یعنی ہمیں یہ بھی دیکھنا ہے کہ ہمیں کس کی اطاعت نہیں کرنی ہے۔ سورہ کہف آیت 28 میں< وَلَا تُطِعْ مَنْ أَغْفَلْنَا قَلْبَهُ عَنْ ذِکْرِنَا وَاتَّبَعَ هَوَاهُ وَکَانَ أَمْرُهُ فُرُطًا>(الکهف/28) ہمیں ایسے حاکم کی اطاعت نہیں کرنی ہے جس کا دل ذکر خدا سے غافل ہو۔< فَلَا تُطِعِ الْکَافِرِینَ وَجَاهِدْهُمْ بِهِ جِهَادًا کَبِیرًا>(الفرقان/52) > ہمیں کافروں کی اطاعت نہیں کرنی ہے< وَلَا تُطِعِ الْکَافِرِینَ وَالْمُنَافِقِینَ >(الأحزاب/1و 48) ہمیں منافقین کی اطاعت نہیں کرنی ہے  < فَلَا تُطِعِ الْمُکَذِّبِینَ>(القلم/8) جو کبھی جھوٹ بھی بولتا ہو  جسے جھوٹ صاد رہوتا ہو ہم اس کی اطاعت نہیں کرسکتے ہیں۔< وَلَا تُطِعْ کُلَّ حَلَّافٍ مَهِینٍ>(القلم/10) جو صرف اپنی قسم کو  ڈھال بنا کے اپنی حاکمیت چلا رہا ہو ہم اُس کی حاکمیت کو قبول نہیں کرسکتے ہیں۔<وَلَا تُطِعْ مِنْهُمْ آثِمًا أَوْ کَفُورًا>(الإنسان/24) ہم کسی بھی گنہگار کی اطاعت نہیں کرسکتے ہیں ۔

 اگر ہمیں اللہ کا فرمان <أَطِیعُوا > اطاعت کرو ماننا ہے۔تو<فَلَا تُطِعِ/وَلَا تُطِعِ> ا طاعت نہیں کرو، اس کا بھی خیال رکھنا ہے۔ اسی لئے امام کا معصوم ہونا ضروری ہے کہ جس کیلئے آدھا سچ کا مصداق سامنے نہ آئے۔ تو اسکے لئے رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے واضح اصول بتایا ہے کہ جب سورہ نساء کی آیت 59 یہ آیت< یا أَیهَا الَّذِینَ آمَنُوا أَطِیعُوا اللَّهَ وَأَطِیعُوا الرَّسُولَ وَأُولِی الْأَمْرِ مِنْکُمْ فَإِنْ تَنَازَعْتُمْ فِی شَیءٍ فَرُدُّوهُ إِلَى اللَّهِ وَالرَّسُولِ إِنْ کُنْتُمْ تُؤْمِنُونَ بِاللَّهِ وَالْیوْمِ الْآخِرِ ذَلِکَ خَیرٌ وَأَحْسَنُ تَأْوِیلًا>(النساء/59) نازل ہوئی اور اولی الامر کی اطاعت کو واجب قرار دیا گیا، اسطرح کہ ولی امر کی اطاعت کو خود رسولخدا صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی اطاعت کے برابر قرار دیا گیا تو صحابی جابر بن عبداللہ انصاری میں رسولخدا صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے مانند افراد کو جاننے کی چاہت بڑ گئی اور رسولخدا صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے سوال کیا ۔ یا رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم یہ "اولی الامر" کون ہیں؟ آنحضور نے فرمایا اے جابر یہ میرے بعد میرے خلفاء اور ائمہ مسلمین  ہیں:ھمْ خُلَفَائِی یَا جَابِرُ وَ أَئِمَّةُ الْمُسْلِمِینَ بَعْدِی؛أَوَّلُهُمْ عَلِیُّ بْنُ أَبِی طَالِبٍ ثُمَّ الْحَسَنُ ثُمَّ الْحُسَیْنُ ثُمَّ عَلِیُّ بْنُ الْحُسَیْنِ ثُمَّ مُحَمَّدُ بْنُ عَلِیٍّ الْمَعْرُوفُ فِی التَّوْرَاةِ بِالْبَاقِرِ وَ سَتُدْرِکُهُ یَا جَابِرُ فَإِذَا لَقِیتَهُ فَأَقْرِئْهُ مِنِّی السَّلَامَ" جابر  جب تم میرے پانچویں وصی تک پہنچ جاؤ گے ان سے ملو گے تو اسے میرا سلام کہنا۔ " ثُمَّ الصَّادِقُ جَعْفَرُ بْنُ مُحَمَّدٍ ثُمَّ مُوسَى بْنُ جَعْفَرٍثُمَّ عَلِیُّ بْنُ مُوسَى ثُمَّ مُحَمَّدُ بْنُ عَلِیٍّ ثُمَّ عَلِیُّ بْنُ مُحَمَّدٍثُمَّ الْحَسَنُ بْنُ عَلِیٍّ ثُمَّ سَمِیِّی وَ کَنِیِّی حُجَّةُ اللَّهِ فِی أَرْضِهِ وَ بَقِیَّتُهُ فِی عِبَادِهِ ابْنُ الْحَسَنِ بْنِ عَلِیٍّ الَّذِی یَفْتَحُ اللَّهُ عَلَى یَدِهِ مَشَارِقَ الْأَرْضِ وَ مَغَارِبَهَا ذَاکَ الَّذِی یَغِیبُ عَنْ شِیعَتِهِ غَیْبَةً لَا یَثْبُتُ عَلَى الْقَوْلِ فِی إِمَامَتِهِ إِلَّا مَنِ امْتَحَنَ اللَّهُ قَلْبَهُ بِالْإِیمَانِ"۔یہ نور الثقلین جلد 1 صفحہ 103 میں یہ اہلسنت نے بھی اس حدیث کو نقل کیا ہوا ہے۔

تو ہمارے لئے یہ ایک واضح موضوع ہے ہم اس میں شک و تردید میں نہ پہلے رہے ہیں نہ ہی بعد میں۔ جس طرح حق بجانب بھی کہا جاتا ہے کہ غدیر کے دن پوری امت امامیہ ہوگئی ، سبھی بزرگوں نے بیعت کی امیر المومنین علی ابن ابیطالب علیہ السلام کی۔  پھر بیعت پہ کون کھرا اترا ، کس نے اجتہاد کیا وہ پھر دوسرا مسئلہ بن گیا۔

س) تو ابھی جو معاملہ یہ ہے کہ امت کی اکثریت امامت کو اُس طرح سے نہیں مانتے جس طرح سے رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے امامت کو منوانے کا حکم دیا تھا۔ امام علی علیہ السلام کو مولا مانتے ہیں مولا  کہتے ہیں لیکن اس پر صوفی لباس پہناتے ہیں جیسے کہ صرف دعائیں قبول کروانے کیلئے مگر پریکٹیکلی وہ اطاعت حاکم کی کرتے ہیں، تو یہ ڈیفرینس کیوں آجاتی ہے ؟

ج) جی؛ وہ اس لئے کہ انہوں نے اس موضوع پر اجتہاد کیا، اگر یہ اجتہاد نہیں کرتے تو ایسی صورتحال وجود میں نہیں آتی۔اس اجتہاد سے اسلام دو خیموں میں تقسیم ہو گیا اسلامی اسلام اور دوسرا سیکولر اسلام۔ سیکولر اسلام وہ ہوگیا جس نے سیاست اور دیانت کو الگ الگ کردیا اور اسلامی اسلام میں سیاست اور دیانت ایکدوسری کی تکمیل ہے۔سیکولرازم میں دینی عقیدے کا کوئی عمل دخل نہیں ہے وہ بظاہر صحیح کہتے ہیں کہ مثلاً کسی نوجوان میں صلاحیت نہیں ہے کہ وہ ملک کو چلائے  بڑھی ذمہ داریاں نبھا سکے وغیرہ ۔ تو جو اسلام نے فارمیٹ بتایا تھا کہ میں آپ کو جو مدیر دے رہا ہوں ،جو امام دے رہا ہوں، جو لیڈر دے رہاں ہوں وہ آپ کو کمال تک پہنچانے کے لئے بھر پور صلاحیت رکھتا ہے اُس کے پیچھے چل کے کسی چیز کی کمی محسوس نہیں ہوگی۔ مگر انہوں نے اس بات کو شاید سمجھا نہیں ،اسلئے اجتہاد کیا، انہوں نے کہا کہ امامت اور خلافت کے لئے  سینیارٹی ہونی  چاہئے ، فلاں صاحب  مثلاً اتنا سینئر  ہیں انہی کو یہ ذمہ داریاں دے دینی چاہئے ،تو انہوں نے اس طرح اجتہاد کیا جبکہ جس طرح رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے اپنے بارہ خلفاء کی نشاندہی کی اور ہر ایک کا ایک ہی نعرہ تھا ،جس طرح رسولخدا صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے چھٹے وصی حضرت امام جعفر صادق علیہ السلام نے فرمایا ہے چونکہ جملہ ائمہ معصومین علیہم السلام میں آپ علیہ السلام کوزیادہ فرصت ملی  اسلام کی تشہیر کرنے کیلئے فرما رہے ہیں کہ: « کُلُّ مَا کَانَ لِرَسُولُ اللهِ فَلَنا مِثْلُه، إلاّ النَبُوّةَ وَالأزوَاج » ( بحار الأنوار للشیخ المجلسی 317:26 / ح 83 ). مقام نبوت اور امہات کو چھوڑ کر ہم آنحضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے  سائے کے مانند ہیں۔ یعنی یہ بارہ نفوس جو ہیں یہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے ٹرو کاپی ہیں  صرف نبوت کو چھوڑ کر اور امہات کو چھوڑ کر۔ کیوں؟ کیونکہ خود امام جعفر صادق علیہ السلام فرماتے ہیں: ِلمُنَا وَاحِد؛ ‌فَضلُنَا وَاحِد؛ وَ نَحنُ شَی‌ءٍ وَاحِد کیونکہ ہمارا جو سورس ہے وہ الہٰی سورس ہے۔"ہمارا علمی منبع یکساں، فضل یکساں اور ہم ایک ہی ہیں۔: لِأَنَّا کُلَّنَا وَاحِدٌ؛ أَوَّلُنَا محمّد؛ وَ آخِرُنَا محمّد؛ وَ أَوْسَطُنَا محمّد وَ کُلُّنَا محمّد؛ فَلَا تَفَرَّقُوا بیننا۔

تو ان نفوس میں امام علی علیہ السلام میں، امام حسن مجتبیٰ  علیہ السلام میں، امام حسین علیہ السلام میں ، امام علی زین العابدین علیہ السلام میں ،امام محمد باقر علیہ السلام ، جعفر صادق  علیہ السلام و... ان بارہ نفوس میں ، بارہ اماموں میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی ٹرو کاپی ہونے میں  کوئی فرق نہیں ہے اور ہر ایک اپنے اپنے  زمانے میں اپنے اس دعوے پر کھرے بھی اترے ہیں ۔ مگر جن لوگوں نے اجتہاد کر کے سیکولر اسلام کی جو طرح ڈالی کہ اسلام اور سیاست کو ایکدوسرے سے الگ الگ کیا اُن سے یہ مسائل پیدا ہوگئے جس میں امت اسلامی دوچار رہی ہے۔

س) تو کیا جو روایات ملتی ہیں کہ معصوم نے فرمایا ہے کہ غدیر کو بھلانے سے عاشورا کا سانحہ رونما ہوا جس سے غدیر کی اہمیت اسے واضح ہوتی ہے مگر  پھر بھی دیکھتے ہیں کہ  مسلمانوں کے اندر شجرہ ممنوعہ اپنی جگہ محفوظ بنانے میں کامیاب ہیں اس کی کیا سیاسی وجوہات ہونگی ؟

ج) یہ وہی نص کی موجودگی میں اجتہاد کا نتیجہ ہے اگر وہاں اجتہاد نہیں کیا جاتا عاشورا وجود میں نہیں آتا۔

س) وہاں اجتہاد کی ضرورت محسوس کیوں ہوئی اوریہ  کیسے ممکن ہوگیا کہ جب رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے ہاتھ بلند کر کے مولا امیر المومنین علی علیہ السلام کی مولائیت کا اعلان کررہے ہیں اور وعدہ لے رہے ہیں کہ تم جس طرح مجھے اپنا مولا مانتے ہو، مجھے تم اپنے نفسوں پر عزیز رکھتے ہووہی مقام امام علی علیہ السلام کا ہے تو یہ سب کچھ تو بیان کیا ہے وہاں تو کوئی بات ادھورنی نہیں رہ گئی ہے پھر کیا وجہ ہوئی؟

ج) وجہ یہ ہے کہ دین  کوسر کی آنکھوں سے پررکھ کر فیصلہ لیا گیا ۔ دیکھا کہ حضرت علی تو عمر کے اعتبار سے تو چھوٹے ہیں اور آنحضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی جگہ نہیں سنبھال سکیں گے تو انہوں نے اپنی عقل لگائی جس سے یہ مصیبت پیش آئی ۔وہ دن بھی پیش آیا کہ جب حتیٰ حضرت فاطمہ زہرا سلام اللہ علیہا حسنین علیہما السلام کو لیکے آئیں اور فرمایا کہ کیا آپ نے رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی حدیث غدیر نہیں سنی لیکن کسی ایک نے بھی تصدیق نہیں کی۔یعنی  تین معصوم کو ٹھکرایا گیا۔ اس اجتہاد کے بنا پر فاطمہ زہرا سلام اللہ علیہا جیسی معصوم خاتون  ، حسن مجتبیٰ جیسے معصوم امام ، حسین شہید کربلا ؑ جیسے معصوم امام ان تینوں معصومین کو ٹھکرایا گیا ۔اور کہا گیا کہ آپ صحیح کہہ رہے ہیں کہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے ایسا کہا مگر ایسا ہے ویسا اور یہ منصب بڑا ہے یہ اس ایج میں اس کو نہیں سنبھال پائیں گے وغیرہ۔

س) اس میں کئی ابہام ہیں از جملہ یہ کہ کیا خالی ایج کا معاملہ تھا یا کچھ دشمنیاں بھی تھی مولا امیر المومنین ؑ کی ذات کے ساتھ  ۔ آج بھی ہم دیکھتے ہیں اُس کی تاثیر ملتی ہے جہاں کہیں پہ بھی نام مولا امیر المومنین ؑ کا لے کچھ لوگوں کے منہ اتر جاتے ہیں ۔ خالی ایج کا معاملہ نظر نہیں آتا اس کے اندر تو کچھ دشمنیاں بھی ہیں جو کہ لوگوں کے کافر آباء و اجداد مارے گئے ہیں اسلام کی خاطر مولا امیر المومنین ؑ نے اُن کو اپنی تلوار سے خاموش کیا ہے تو کچھ دشمنی نظر آتی ہیں؟

ج) ضرور ؛ لیکن ہم اس جملے کو اس صراحت کے ساتھ نہیں کہہ سکتے کیونکہ جو اسلام کے ازلی دشمن ہیں وہ ان باتوں کو توڑ مروڑ کے غلط طریقے سے پیش کرتے ہیں۔ اسلئے مناسب  ترین جملہ یہی ہے کہ اُن حضرات نے اجتہاد کیا اور وقت نے ثابت کردیا کہ وہ اجتہاد صحیح نہیں تھا۔ اگر وہ اجتہاد نہیں کرتے تو کربلا پیش نہیں آتا ۔ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو کربلا میں اُس حالت میں شہید نہیں کیا جاتا ۔ کربلا میں حسین ؑ کو شہید نہیں کیا گیا وہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو شہید کیا گیا ۔ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے سر کو نیزے پر بلند کیا گیا ۔ اسلام  کو اس طرح پارہ پارہ کیا گیا اگر وہ اجتہاد نہ ہوتا رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے ساتھ مقتل کربلا میں وہ سلوک نہیں کیا جاتا ۔ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو حسینؑ کی شکل میں ذبح  بھی اورنحر بھی نہیں کیا جاتا اگر ظاہراً وہ حلقہ حسین پر چھُریاں چلاتے تھے لیکن رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے مبارک گلے کو تکلیف پہنچتی تھی ۔

س) یعنی ثقیفہ  میں واقعہ کربلا کی طرح ڈالی گئی؟

ج) بالکل ؛اگر وہاں اجتہاد سے کام نہیں لیا جاتا جہاں نص صریح موجود تھی اور رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے فرمان کے مقابلے میں اجتہاد اگر نہیں کیا جاتا آج یہ امت کی حالت نہیں ہوتی۔ آج دیکھئے کیسے ثقیفہ کے مقلد مسلمان ممالک کے سربراہ اپنے آپ کو امت اسلامی کے خیر خواہ کہتے ہیں کہ انسان کا سر  شرم  سےجھک جاتا ہے ۔

س) مگر  وہ کیا غلط کرتے ہیں! جو بنی امیہ والوں نے کیا وہ  وہی کرتے ہیں؟

ج) یہی تو اصل مسئلہ ہے اور امت کی اکثریت کو اس بات کو سمجھنا چاہے۔ ہم پر الزام لگانے کے بجائے کہ آپ ان کے اجتہاد کو غلط قرار دے کر صحابہ کی توہین کررہے ہی۔ان کی خدمت میں عرض ہے کہ  نہیں توہین نہیں کررہے ہیں،یہ دو دو چار مسئلہ کی طرح واضح ہے کہ جو اُن حضرات نے اس وقت اجتہاد کیا وہ اجتہاد بالکل غلط تھا، نتیجہ سامنے ہے۔ اب ہمیں اس پہ رائے قائم نہیں کرنی ہے ، اب ہمیں سدھرنا ہے امامت کے پرچم تلے سب کو آنا ہے ۔ ابھی دیکھئے کہ جو ثقیفہ کا ماڈل ہے آپ ان تمام ملکوں کو دیکھئے اس ماڈل کی پیروی کا نتیجہ کیا ہے ۔ اگر آپ غدیر کا ماڈل دیکھنا چاہتے ہیں ایران میں ولی فقیہ کے عنوان سے  اس ماڈل کا نتیجہ دیکھ سکتے ہیں۔ آپ دیکھئے یہاں  موجود ہر سنی مسلک بڑے اطمنان کے ساتھ اور شیعوں سے بہتر زندگی بسر کررہا ہے ۔ غیر مسلمان  جس دین ومذہب کا ہے وہ اس غدیر کے ماڈل میں فخر اور انسانی اقدار کی بالادستی کو محسوس کررہا ہے ۔تو اگر آج اس زمانے میں بھی اپنی آنکھیں بند کرلے وہ کسی کا نہیں بلکہ وہ اپنا نقصان کرر ہے ہیں کہ اللہ کل اس بارے میں ہمیں پوچھے گا اگر آپ کے زمانے میں اتنی واضح دلیلیں اور نشانیاں آپ کے سامنے تھی ۔

یعنی جب تک غدیر کو نہیں سمجھیں گے  امامت [الہی منتصب مقام] کیلئے عصمت کی شرط کو نہیں سمجھیں گے یعنی ابھی ولی فقیہ[منتخب اسلامی حاکم] ہے ، ولی فقیہ معصوم نہیں ہے مگر اُن کو معصوم جیسا عمل کرنا ہے اُن پہ [ارکان مجلس خبرگان رہبری کے] شیعہ سنی علماء کے مفتی اعظم نظر رکھے ہوئے ہیں کہ کہیں یہ اسلامی حاکم ایسی کوئی حرکت نہ کرے جو فضیلت عصمت کے ساتھ ٹکراتی ہو وہ [ناظر ارکان ]اُسی وقت اعلان کرینگے کہ جناب اپنا خیال رکھیں ۔

تو جب  آپ اس زمانے میں دیکھ رہے ہیں کہ ہر مظلوم حتیٰ اگر  غیر مسلمان  بھی مظلوم ہوتا ہے تو ان کی حمایت میں ولی فقیہ صدا بلند کرتے ہیں، شیعہ سنی کی تو بات ہی نہیں، جیسےکہ آپ دیکھتے کہ فلسطین میں سنیوں کیلئے شیعہ کس طرح اپنی جان چھڑکتے ہیں ۔ شام میں اسی طرح یمن میں اسی طرح دنیا کے کسی بھی کونے میں جب بھی سنی کے پیر میں کانٹا چبتا ہے تو وہاں پر صرف شیعہ ہی سینہ پیٹتا نظر آتا ہے۔

تو جنہوں نے اس غدیر کو نہیں سمجھا اُن کو درد محسوس نہیں ہوتی اور یہ تفرقہ اور یہ پسماندگی کی سبب یہی ہے کہ وہ اس غدیر کے اصلی پیغام  کو نہیں سمجھے ہیں جو انہوں نے وعدہ کیا تھا رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے اُن کو نبھانا ہو گا اور جب تک غدیر کو عملی طور پر زندہ نہیں کرینگے مسلمانوں کی یہی حالت زار رہے گی۔

تبصرے (۰)
ابھی کوئی تبصرہ درج نہیں ہوا ہے

اپنا تبصرہ ارسال کریں

ارسال نظر آزاد است، اما اگر قبلا در بیان ثبت نام کرده اید می توانید ابتدا وارد شوید.
شما میتوانید از این تگهای html استفاده کنید:
<b> یا <strong>، <em> یا <i>، <u>، <strike> یا <s>، <sup>، <sub>، <blockquote>، <code>، <pre>، <hr>، <br>، <p>، <a href="" title="">، <span style="">، <div align="">
تجدید کد امنیتی