سایت شخصی ابوفاطمہ موسوی عبدالحسینی

جستجو

ممتاز عناوین

بایگانی

پربازديدها

تازہ ترین تبصرے

۰

ایکہزار دن میں یمنی عوام نے ثابت کردکھایا کہ سعودیہ کو اسرائیل کی جنگ نہیں جیتنے دیں گے

 مکالمات سیاسی ایران سعودی عرب پاکستان مصر یمن

بسمہ تعالی

ابوفاطمہ موسوی عبدالحسینی کی ہدایت ٹی وی کے ساتھ گفتگو:

ایکہزار دن میں یمنی عوام نے ثابت کردکھایا کہ سعودیہ کو اسرائیل کی جنگ نہیں جیتنے دیں گے/اقوام متحدہ میں 128ممالک نے امام خمینی کے  اس جملے؛" آمریکہ ہیچ غلطی نمی تواند بکند" کا ترجمہ بیان کیا

 ان شااللہ جو اسلامی انقلاب ایران نے  حریت کا پیغام دیا، اس یقین کےراستے کو واضح کیا ہموار کیا کہ  حتیٰ غیر مسلمانوں کے اندر بھی یہ یقین پیدا  ہوگیا کہ امریکہ کوئی چیز نہیں ہے ۔صرف اپنی صلاحیت اپنے امکانات پہ بھروسہ کرنا ہے، اپنی عوام پر بھروسہ کرنا ہے اس میں کامیابی کا راز ہے،نہ کہ ہمیں امریکہ حمایت کرے تب کامیابی ہوگی۔سب کو یقین ہونے لگا ہے کہ یہ تھوری ہی غلط ہے۔ اسطرح یقیناً امریکہ کے خلاف  جو ایک سوچ بنی یہ انقلاب اسلامی  ایران کی دین ہے  جس کا نتیجہ ہم ابھی دیکھ رہے ہیں ۔

عالمی اردو خبررساں ادارے نیوزنورکی رپورٹ کےمطابق لندن میں دائرہدایت ٹی کے "صبح ہدایت" پروگرام کے عالمی منظر  میں میزبان سید علی مصطفی موسوی نے بین الاقوامی تجزیہ نگار اور نیوزنور کےبانی چیف ایڈیٹر حجت الاسلام حاج سید عبدالحسین موسوی[قلمی نام ابوفاطمہ موسوی عبدالحسینی] سےآنلاین مکالمے کے دوران " یمن پر سعودی عرب کی طرف سے جاری جارحیت کے ایکہزار دن" کے حوالے سے لیے گئے انٹرویو کو مندرجہ ذیل قارئین کے نذر کیا جا رہا ہے:

سوال:یمن پر جاری جارحیت کے جو ہزار دن مکمل ہوئے ہیں اور یمن برابر استقامت دکھا رہا ہے یہاں تک کہ ریاض پر راکٹ حملے کئے  اس سے سعودی عرب اور اس کے اتحادیوں اور یمنی عوام نے کیا کھویا کیا پایا؟

یمن پر جاری جارحیت اور اس ملک کا داخلی اور خارجی پہلو

بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِیمِ؛

اللَّهُمَّ ‌و‌ أَنْطِقْنِی بِالْهُدَى ، ‌و‌ أَلْهِمْنِی التَّقْوَى ، ‌و‌ وَفِّقْنِی لِلَّتِی هِیَ أَزْکَى۔

یہ یمن میں  در حقیقت سعودی عرب اور اس کے اتحادی یمن میں اسرائیل کی جنگ لڑ رہے ہیں جس پر سے بالکل توجہ ہٹائی جا رہی ہے اگر آپ دیکھیں کہ یمنیوں کی ایسی کیا مانگ تھی کہ انہیں اس طرح کچلا جا رہا ہے مسلا جا رہا ہے۔ شاید وقت اجازت نہ دے کہ اس سنیریو کا پوسٹ ماٹم کریں ۔

مثلا آپ دیکھیں یمن میں 2011 سے  سابق ڈکٹیٹر علی عبداللہ صالح کی معزولی کے بعد  سے امریکہ مخالف مظاہروں کا سلسلہ شروع ہوے،اور پھر  جمعہ 21 دسمبر 2012 کو عوام نے یمن سے امریکی سفیر کو ملک سے نکالنے کا مطالبہ کیا۔اورپھر ہم نے دیکھا کہ 12اپریل2013کو  صنعا میں امریکہ کے علاوہ اسرائیل کے خلاف وسیع پیمانے پر احتجاجی مظاہرے ہوئے۔مظاہرین مطالبہ کر رہے تھے کہ واشنگٹن یمن کے اندرونی معاملات میں مداخلت کرنا بند کرے  نیز 2011میں علی عبداللہ صالح کی حکومت کے خلاف مظاہروں میں مارے گئے لوگوں کے ذمہ داروں پر مقدمہ چلانے کا مطالبہ کررہے تھے۔اور جو عوامی مطالبات تھے وہ بالکل نجی حقوق تھے ۔  یا پھر مئی2013کے پہلے ہفتے میں ہم نے دیکھا کہ جب امریکہ کے خلاف یمنی عوام کے مظاہروں کا سلسلہ جاری تھا اوریمن میں امریکی پالیسیوں کو شکست خوردہ قرار دیتے رہے اور امریکی ڈرون حملوں سے مرغوب نہ ہونے کا اعلان کرتے رہے ۔اوراس حوالے سے ہیومن رائٹس واچ نے2013میں 96صفحات پر مشتمل اپنی ایک رپورٹ میں یمن پر صرف 6امریکی ڈرون حملوں کی جانب اشارہ کرتے ہوئے کہا کہ ان حملوں میں 82افراد مارے گئے ہیں کہ جن میں 57عام شہری تھے۔

ایسے میں سعودی عرب کو ٹاسک دیا گیا کہ یمن کو ٹیکل کرے سنبھالے اور اس حوالے سے یمن میں امریکہ اور اسرائیل کے خلاف عوامی بیداری کو کچلنے کے لئے ایک امریکی مصنفہ کیتھرن شاکڈم نے دسمبر2013 کے ایک تجزیے میں لکھا تھا کہ یمن میں امریکہ نے نئے ڈھنگ کا جہاد شروع کیا ہے ۔جس کا اکثر تجزیہ نگا ر ،یوں   کرتے ، کہتے ہیں  کہ سعودی عرب کی چار نکاتی سیاست ہے :

ایک ؛شام کو برباد کریں گے۔دو؛بغداد کو دھماکوں سے اڈادیں گے۔تین؛بیروت کی چھٹی کردیں گے۔اور چار؛ صنعا کو کھوکھلا کردیں گے۔

کیونکہ امریکہ نہیں چاہتا ہے کہ سعودی عرب پر اس کی پکڑ ڈھیلی نہ پڑ جائے اور اسی طرح سعودیہ نہیں چاہتا ہے کہ عرب دنیا میں کوئی خودمختار ملک ابھر کے سامنے آئے، جن میں یمن سر فہرست ہے ۔ آل سعود نے یمن کو کمزور کرنے کے لئے  پہلے افغانستان کی جنگ ختم ہو جانے کے بعد القاعدہ  کے یمنییوں کو یمن واپس بھیج کر ان کو حکومتی اور فوجی عہدوں پر فائز کر دیا  اور دوسری طرف حوثیوں کو نابود کرنے کا سلسلہ جاری کردیا ۔لیکن حوثیوں نے اکثر یمنیوں کو چاہے زیدی ہوں یا شافعی اپنے ساتھ ملا کر  منظم محاذ قائم کرکے  تین نکاتی ایجنڈا پیش کیا :

ایک ؛عادلانہ حکومت کی تشکیل اور آزادانہ انتخابات کا انعقاد۔دو؛بعثی سوشیلیسٹ  پارٹی  کو اقتدار سے دور رکھنا۔تین؛تیل کی مصنوعات کی قیمتوں میں اعتدال  کہ جس میں 300فیصد کا اضافہ کسانوں اور دیہات والوں پر بھاری بوجھ ہے۔

ان تینوں عوامی مانگوں  کے تناظر میں عوام کی طرف سے جو نعرہ دیا گیا "الشعب یرید اسقاط الفساد"، عوام بدعنوانی کا خاتمہ چاہتے ہیں ۔ لیکن اس نعرے کو دبانے کی کوشش کی گئی،اور یہ نعرہ "الشعب یرید اسقاط النظام"، عوام حکومت کا خاتمہ چاہتے ہیں میں تبدیل ہونے لگا۔

جون 2014میں یمن کے دارالحکومت میں امریکی سفارتخانے کے باہر امریکی افواج کے انخلاء اور ڈرون حملوں کو ختم  کرنے کے مطالبے کو لیکر زبر دست احتجاجی مظاہرے ہوئے، جس میں عوام نے واشنگٹن سے مطالبہ کیا کہ وہ یمن سے اپنی فوجیں واپس بلائیں اور ڈرون حملوں کا سلسلہ ختم کرے۔

جس طرح ہم ابھی تھوڑی بیداری پاکستان میں دیکھ رہے ہیں ان کو بھی اس کی سزا دیں گے جب سچ کی بات کریں گے۔

یمن نے جو آنکھیں دکھائی  اسی کی سزا بھگت رہا ہے،جو آپ نے  قدس کے حوالے سے اقوام متحدہ کے جنرل اسمبلی کے سیشن کی بات کی اس کے لئے مفصل وقت درکار ہونا چاہئے تا کہ اس کے اس پہلو پر بات کریں، پہلے میں اس ہزار دنوں کی کامیابی کہ سعودیہ نے کیا کھویا کیا پایا اس حوالے سے یہ ذہن بنانے کی کوشش کروں  کہ آج کل کے میڈیا کے نسبت ہمارے سننے والے ہیں دیکھنے والے ہیں پڑھنے والے ہیں یہ صحیح طور سے انصاف سے کام لے سکیں کہ میڈیا ان کو کہاں تک صحیح رہنمائی کرتا ہے ۔

اگست 2014میں  عوام میں حکومت مخالفت  رجحان بڑتا گیا  اور حوثیوں نے قسم کھائی کہ حکومت کو سرنگوں کرنے تک مظاہرے جاری رہیں گے۔یہ یمن کا داخلی پہلو ہے کہ امریکہ یمن میں عوامی  منتخب جمہوری حکومت قائم نہیں ہونے دیتا ہے۔

خارجی پہلو

 اور خارجی پہلو یہ ہے  کہ 30 کلومیٹر کا  اسٹراٹیجیک آبی راستہ باب المندب جہاں سے سالانہ 25 ہزار تیل بردار کشتیاں  گذرتی ہیں یمن  کا ایک سرحد ہے جس کے بارے میں  ڈیوڈ بن گورین  صہیونی حکومت کے پہلے وزیر اعظم نے اس غاصب حکومت کی موجودیت کے چند ماہ بعد اعلان کیا تھا کہ اس کی  حکومت دنیاے خارج کے ساتھ ارتباط بر قرار کرنے کے لئے مجبور ہے کہ دریاے سرخ اور باب المندب کی گذرگاہ سے عبور کرے۔  اور یہ گھاٹی تل ابیب کے لئے بہت حیاتی ہے۔ کیونکہ صہیونی حکومت کی بندرگاہ "ایلات" کو جنوب مشرقی ایشیا اور افریقہ سے جوڑنے کا حلقہ ہے۔اور یمن میں عوامی حکومت قائم  ہوتی ہے تو صہیونی حکومت کے زوال میں  معجراتی سرعت وجود میں آ سکتی ہے۔ اسی تناظر میں  فراری سابق یمنی صدر منصور ھادی نے کہا تھا کہ جس کے پاس باب المندب اور ہرمز کی چابی ہو اس کو ایٹم بمب کی ضرورت نہیں ہے ۔

اسطرح واضح ہو جاتا ہے کہ اصل میں،یمن میں جو یہ جنگ لڑرہے ہیں سعودیہ اسی اسرائیل کو بچانے کیلئے جنگ لڑرہا ہےاگرچہ وہ اس کو عناوین کچھ اوردیتے ہیں۔

پہلی اور آخری جیت یمنی عوام کا مقدر ہے

سوال:مگر کہاجارہا ہے کہ سعودی عرب اس دلدل میں پھنس گئے، نکلنے کی کوشش کررہا ہے مگر نکل نہیں پارہےتو انہوں نے اس میں حاصل تو کچھ بھی نہیں کیا ہے لیکن ہزاردن مکمل ہوئے ہیں اور یمنی استقامات برقرار ہےاوران کی میزائلی قوت بڑی ہے اورریاض میں سائرن کی آواز بلند ہوئی ہیں اوروہاں راکیٹ باری ہوئی ہے اس بارے میں کیا کہیں گے آپ؟

جواب:سبھی جانتے کہ عرب دنیا میں سب سے غریب ترین ملک یمن ہے ان کو ہمیشہ غریب اورمفلوک الحال اسی لئے رکھاگیا کہ اس ملک کے پاس مادی ،سیاسی اورجغرافیائی طاقت بہت ہی عظیم ہے اگر یہ اپنے پیروں پہ کھڑا ہوتا ہے یہ بہت  تعمیری رول کرسکتا ہے اور سعودی عرب کسی حد تک اس چیز کو بخوبی جانتا ہے کہ وہ صرف اسرائیل کو بچانے کیلئے سارا کھیل کھیل رہا ہے۔ چونکہ یمن کو ہاتھ سے جانے کیلئے کچھ بھی نہیں ہے ان کے گھر جلے ہوئے ہیں ان کے پاس اگر پیسہ نہیں ہے ہمت اور غیرت تو ہے جو کہ سعودیوں کے پاس نہیں ہے۔ سعودیوں کو اگر دیکھیں کہ امریکہ اس کو کس طرح دو دو ہاتھ لوٹتے آرہے ہیں یہ کہہ کر کہ میں آپ کو ڈیفنس سسٹم دے رہاہو،ں وہ کررہاہوں، یہ کررہاہوں  وغیرہ  جبکہ سعودیہ یمن کے دیسی میزائلوں کادفاع نہیں کرپارہے ہیں۔ تو اسطرح یمنی جیسے کہتے ہیں کہ" کافر ہے تو شمشیر پہ کرتا ہے بھروسا. مومن ہے تو بے تیغ بھی لڑتا ہے سپاہی"خالی ہاتھوں یمنی مجاہد لڑرہے ہیں سعودیہ کے خلاف کیونکہ ان کے ارادے پختے ہیں۔ سعودی عرب یا امریکہ کے بھروسے پر یااسرائیل کے بھروسے پہ یا اپنے تیل کے پیسوں کے بھروسے پر لڑرہا ہے۔ یمنی عوام اپنے ارادے اوراپنے ایمان اوراصول کے بنیاد پر لڑرہے ہیں۔جس سے یہ بات قطعی طور واضح ہے کہ ہر محاذ پہ یمن کی ہی فتح ہے ۔اگرچہ ان ہزار دنوں میں جسطرح آپ نے  اشارہ کیا ہرسطح پر یمن کو تباہ کیا گیا ہے مگر اس کے باوجود یمن اس ہزار دنوں میں کامیاب رہا ہے اورسعودی ہر سطح پر امریکہ اوراسرائیل کے ساتھ اور جو اسکے اتحادی ہیں برُی طرح پٹ چکے ہیں اورہارچکے ہیں۔

اسرائیل اور وہابیت ایکدوسرے کے مکمل ہیں

سوال )ٹھیک ہے، جسطرح آپ نے ابھی پہلے اسرائیلی وزیر اعظم کے بیان کو کہاکہ باب المندب ان کے لئے حیاتی ہے اسی بیان کو لیکر ہم لینک کریں عبدالعزیز آل سعود کے بیان کو جو انہوں اپنے بیٹوں کو نصحیت کی تھی کہ یمن سے ہوشیار رہنا۔اسرائیل کے پہلے وزیر اعظم کے بیان اورعبدالعزیز آل سعود کے بیان کو اگر ملایا جائےتو  یہ ان کے باضابطہ گٹھ جوڑ  کی نشانی نہیں ہے کیا ؟

جواب)اس میں کوئی تردید کی بات ہی  نہیں ہے۔ انہوں نے آل سعود کے سرغنے کو حاکم کردیا ہے۔ یہ لوگ عوامی  نہیں ہیں ۔ اسی لئے بعض لوگ آل سعود  کو آل یہود  کہتے ہیں ۔ یہ تو 100 فیصد ان کے ایجنڈے پر کام کررہے ہیں ان کا تو اپنا کوئی ایجنڈا نہیں ہے ۔آپ دیکھے کہ یہ خادمین حرمین شریفین کا دعویٰ کرنے والے ابھی ان کے جو دبے الفاظوں میں یا سرکاری بیان پہ  عبدالحمید حکیم کہنے لگے تھے کہ ؛"جسطرح ہمارے لئے حرمین شریفین ہے صیہونیوں کا لئے بھی قدس ایسا ہی ہے" ۔

لیکن میدانی صورتحال کچھ اورہے دنیا نے دیکھا امریکہ نے کتنی دھمکی دی کہ جو قدس کے بارے میں امریکہ کے فیصلے کے خلاف بات کرے گا اس کا انجام برا ہوگا،اوراس حوالے سے میری مونوپلی برقرار رہنی چاہئے لیکن خود اسی سعودی عرب نے ابھی اس کے خلاف ووٹ ڈال دیا۔ اس کا مطلب کیا ہے؟ یہ کہ وہ میدانی طورپر اپنی ہار کو اچھی طرح سے تسلیم کرچکے ہیں ۔یہ دیکھ رہے ہیں کہ ہم اس کے کھلونے  توہیں اور ہمیں استعمال کیا جارہا ہے جس سے نہ ہمارا دنیا بن رہا ہے اورنہ آخرت، آخرت کو تو انہوں نے خیر باد کرہی دیا ہے ان کو بخوبی معلوم ہے کہ وہاں سے کچھ نہیں ملےگا مگر کم سے کم دنیا کے عیش لوٹ لے رہے تھے۔مگر یہ دونوں چیزیں اس کے ہاتھ سےنکل رہے ہیں۔ ایسا خاص طور پر اسی یمن کیلئے ہے کیونکہ یمن میں جو خاصیت اور اہمیت ہے یہ اگر اپنے پیروں پر کھڑا ہوجائے یقیناً عرب دنیا میں ایک عظیم انقلاب برپا ہو جائے گا اور شاید اسلامی انقلاب ایران سے کئی گنا زیادہ مؤثر اورپررنگ ہوگا جو پورے عالم اسلام کو ایک نئی جہت دےگا ۔

سوال )اس میں ایک چیز اوربھی  نظرآتی ہے جو ایران کو چھوڑ کر باقی سبھی مسلم حکمران جوکہ امریکہ کے پھٹو ہیں مسلم اقوام کے اوپر ان مجرم خاندانوں کو ہر جگہ پر  حاکم کیا ہوا ہے تاکہ مسلمانوں کے غیض وغضب کو ٹھنڈا کرتے رہیں اوران کے اوپر ظلم وستم کرتے رہیں مگریہاں جیسے آپ  میدانی صورتحال  کے تبدیل ہونے کی طرف اشارہ دے رہے ہیں جس سے ہمیں لگ رہا ہے کہ یہ جو سعودیہ نے امریکہ مخالف ووٹ ڈالا ہے یہ صورتحال مقاومت کے محور کی استقامت کے اثر  اورمسلمانوں کے جذبات سے ڈر  کی وجہ سے انہوں نے یہ راہ اختیار کی ہے ورنہ یہ امریکہ کی نوکری چھوڑنے والے نہیں ہے ؟

جواب )یقیناً ایسا ہی ہے آپ دیکھے کہ یمن کی صورتحال کوئی ڈھکی چھپی بات نہیں ہے وہ بھی کل تک  جی حضوری کررہاتھا امریکہ کی، مگر جب وہاں عوام کی خاموشی ٹوٹی تو کیا ہوا۔اسی لئے سعودیہ کو پتہ چلا کہ اگر مجھے اپنی سیٹ سنبھالنی ہے عوام کے  جذبات کو سمجھنا ہے ان کو اڈریس کرنا ہے آنکھیں دکھانی ہے امریکہ کو۔

مصری صدر السیسی ترکی صدر اردوغان کی تقلید کرے گا

سوال ) مصر کے صدر عبدالفتاح السیسی کا کیا کردار ہے انہوں نے اس معاملے میں کیا رول ادا کیا؟

جواب)وہ پہلے سے ہی چالاکی دکھا رہا تھا اس نے دیکھا کہ  اگر اس مسئلے میں ترکی نے لیڈ لی میں پیچھے نہ رہ جاؤں یہ بیلنس رہنے کی کوشش کررہے ہیں کہ یہ نہ عوام کو ناراض کرنے دیں گے نہ امریکہ کو۔ابھی دیکھتے ہیں کہ یہ اس کو اڈریس کرنے میں کس حد تک کامیاب ہورہا ہے ۔مگر جس طریقے سے سنی ورلڈ میں ترکی نے جسطرح کا موقف اختیار کیا ہے وہ خوش آیند ہے اب دیکھنا ہےکہ وہ اسرائیل کےساتھ کیسے رابطے توڑتا ہے۔ ترکی میں قائم اسرائیلی سفارتخانے کو بند کرتا ہے اگروہ پہل کرے، جسطرح اردغان صاحب ابھی بات کررہے ہیں اور جو سعودی عرب نے ابھی اپنی مرضی کے خلاف امریکہ کے خلاف ووٹ دیا ہے اس کا میدانی اثر ہوگا۔ کیونکہ الحمد للہ جو ٹرمپ نے بیوقوفی کی جو عالم اسلام میں اتحاد کی ایک لہر وجود میں آئی اس کیلئے ان کا شکریہ  ہے  کہ اس قسم کی لہر امت اسلامیہ میں تاریخ میں نہیں ملتی ہےکہ تمام اسلامی فرقے ایک دوسرے کے نکتہ نظر سے جسقدر بھی مخالف  ہوں لیکن قدس کے حوالے سے یہ متحد ہوگئے اورہم صدا ہوگئے ہیں، اوریہی نہیں چاہتے تھے  استکباری طاقتیں کہ مسلمان کی آواز ایک بن جائے ۔ جسطرح کل ہم نے دیکھااقوام متحدہ میں کہ امریکہ نے کسطرح ان کو جنہوں نے قدس کے حوالے سے امریکہ مخالف ووٹ ڈالا، دھمکایا ڈرایا ۔آپ دیکھے کہ یہ تاریخ عجیب رقم ہوگئی کہ امریکہ کے پہلو میں وہ سات ملک (گواتمالا ، ھندوراس ، میکرونزی ، نائوروپالائو، جزایر مارشال اور ٹوگو )کھڑے ہوگئے جن ممالک کا نام تلفظ بھی کر نہیں پاتے ہیں کیونکہ اکثروں نے ان کا نام سنا بھی نہیں ہے، اتنے گمنام ہیں ۔ اورجو 35ممالک(آسٹریلیا ، ارجینٹین ،کنیڈا ، کلمبیا ، کرواسی ، جمہوریء چیک اور میکسیکو ن وغیرہ) چھپ کے رہ گئے ہیں  سبھی نے یہ تسلیم کیا کہ وہ پیسوں کی وجہ سے اورامریکہ کے ڈر سے چھپ گئے اوراسکے باوجود 128 ملکوں نے آنکھیں دکھائی ہے امریکہ کو۔ تو یہ اسی عومی لہر کی عکاسی ہے  کہ مسلم امت میں بیداری کی ایک لہر آگئی ہے۔ ایسے میں سیسی کا مجھے لگتا ہے کہ وہ اردغان کو فالو کرےگا، کہ جس طرح سعودی عرب نے امریکہ کو ناراض بھی کیا لیکن عوام کے جذباتوں کا خیال رکھاہے۔اگرچہ اس بیچ بحرین اسرائیل کی حامی بھر رہا ہے مگر اس کی ایسی کوئی اوقات نہیں ہے ۔

ترکی اور مصر سے بڑ کر پاکستان کا رول بنتا  ہے

مصر ایک مضبوط فوج رکھتا ہے اس کا موقف مؤ ثر رہےگا۔البتہ اس سے بڑ کر اگر ہم اپنی بات کریں گے پاکستان کی بات کریں گے یہاں جو ایک ایسی لہر آگئی ہے جہاں جو کل تک تعصب کا شکار تھے اور ایران کو دشمن کہتے تھے وہ ابھی  کہتے ہیں کہ امت اسلامی کو صحیح جہت دینے کیلئے ابھی صرف پاکستان اور ایران کا رول بنتا ہے۔ اور حقیقت  بھی یہی ہے کہ میدانی صورتحال میں پاکستان اگر جسطرح ترکی نے اپنے بہت سارے مسائل کو لے کر اپنی خاموشی کو توڑا ہے، پاکستان وہ رول کرے شاید مصر بھی ان میں، عرب دنیا میں سےجو پہلا ہم صدا ہونے والا ملک ہوگا میرا ماننا ہےکہ وہ سیسی ہوگا ،مصر ہوگا۔

ترکی کے صدر اردوغان صاحب کو اسرائیل کے حوالے سے سخت امتحان درپیش

سوال ) اگر  اس بیچ اردغان صاحب کے رول کے اس پہلو کو دیکھیں تھوڑا سا تاریخ کو پیچھے پلٹتے ہیں اورچلتے ہیں 2010 ء کے اندر جب اسرائیلی کمانڈوز نے حملہ کردیا اس میں پاکستانی جرنلسٹ  اوربہت سارے لوگوں کوہوسٹیج کرلیا اسوقت  بھی اردغان نے  اسطرح کی باتیں کی تھی کہ اسرائیل کے ساتھ سارے تعلقات ختم اورتمام معاہدے اسرائیل کےساتھ  منسوخ کریں گے وغیرہ اوربالکل اس وقت بھی سلطنت عثمانیہ کا وہ دور دوبارہ سر اٹھاتا نظرآرہا تھا مگر ہم نے پھر دیکھا اسکے بعد انہوں نے یوٹرن لیا اور شام کی تباہی میں ترکی  نہ صرف خاموش رہا بلکہ ترکی کو داعش کی چھاونی میں تبدیل کردیا  اورپورا بارڈر کھول دیا، داعش کو اپنے کیمپوں میں ٹرینگ دے کر شام کے اندر روانہ کرتا رہا اورمسلمان مظلوموں کے سرکٹاوئے ،تو اب دوبارہ سے پھر اردوغان صاحب  کو وہ امت مسلمہ  یاد آرہی ہے۔ تو ایسے میں اب کیا گارنٹی ہے کہ وہ اسےبڑھ کے دوبارہ سے امریکہ کے ہاتھوں اسے بڑی قیمت کے اوپر فروخت نہیں کریں گے ، ان کی نوکری نہیں کریں گے؟

جواب )آج الحمد للہ آج کیونکہ میڈیا کا دورہ ہے شاید یہ چیزیں اب اسقدر ممکن نہیں ہے، ہاں یہ  ان کا ٹیکنکل فالٹ رہا ہےکہ جسطرح حماس نے کیا۔ کیونکہ امریکہ پہ جو اکثر مسلمانوں میں  زبان پہ تو خدا خدا ہے لیکن  عملی طورپر امریکہ کو ہی خدا سمجھتے ہیں اورامریکہ ہاں کرے تو اسے اللہ کی ہاں قرار دیتے ہیں اور یہ سوچ ایک حدتک صرف سنی دنیا پر حاکم ہے کہ اللہ نے اسے عزت دی ہے  کیونکہ اللہ نے اس کو سوپر پاؤر بنایا  ہے ۔ جو بھی کرتا ہے وہ اللہ ہی کرتا ہے وغیرہ۔

 مگر کل کے سیناریوں نے یہ ثابت کر دکھایا کہ ایسا کچھ نہیں ہے اس وقت  اس  طاغوت  کو وقت کےنمرود کو کہ جسے بعض لوگ امریکہ کو خدا کے درجے تک سمجھ رہےتھے وہ اب اکیلا پڑھ گیا ہے ۔اوراب نہیں لگ رہا ہے کہ وہ ڈر جو امریکہ کا تھا جو خوف  امریکہ کا مختلف ممالک کے سربراہوں پر تھا وہ اب نہیں رہےگا ، اب اس دم و خم میں نہیں رہےگا ۔ تو اردغان کو اس وقت یہ پتہ تھا کہ کیونکہ امریکہ نے داعش کو وجود میں لایا تھا اوروہ چاہتے تھے کہ شام میں اپنی من پسند حکومت قائم کرے کیونکہ عرب دنیا میں اکیلا شام وہ ملک تھا کہ جس نے نہ اسرائیل کو ریکاکنائز کیا ہے ملک تسلیم نہیں کیا اورجو اسرائیل کے خلاف مجاہد لڑ رہے تھے ان کو پناہ دی بیس فراہم کی تھی، اس لئے صرف شام کٹھکتا تھا اور شام میں ایسے شخص کو لانا چاہتے تھے کہ جو ہم نوا ہو اسرائیل کا۔ اس وقت اردوغان صاحب کو پتہ تھا کہ اگر داعش کی حکومت آتی ہے تو امریکہ بھی راضی ہوگا اورباقی ان کے ہم نوا بھی راضی ہونگے،اس میں حماس سے بھی وہی غلطی ہوگئی۔ جس حماس کیلئے شام نے کیا کچھ قربان نہیں کیا لیکن حماس نے بھی نے آنکھیں دکھائی اورپیٹ پیچھے چھرا گونپا اور پھر اس کو اپنی غلطی کا احساس ہوگیا۔ٹھیک اسی طرح اردغان کو اب احساس ہوگیا ہے کہ اگر ہم لوگ امت کی بات کرتے ہیں دین کی بات کرتے ہیں ہے  کسی حد تک حقیقت کو بھی تسلیم کریں ۔

 اب شاید اگر وہ  اپنے انداز میں عثمانیہ خلافت کو زندہ کرنا چاہتے ہیں یہی طریقہ صحیح ہےکہ عوام کےجذبات  اور امت اسلامیہ کے تشخص کا خیال رکھیں اور یہ تبھی پتہ چلے گا جب وہ اگر پہلی فرست میں مثلاً جس طرح ایران میں جب  انقلاب کامیاب ہوا اور پہلی فرست میں کیا کیا گیا۔  پہلی فرست میں ایران میں جو اسرائیلی سفارتخانہ قائم تھا اسی کو فلسطین کے سفارتخانے میں تبدیل کیا گیا۔ تو اس سے حقیقت میں انقلاب اسلامی ایران کے موقف کاپتہ چلا کہ 1979ء میں ایران نے  تہران میں قائم اسرائیلی سفارتخانے کو فلسطینی سفارتخانے میں تبدیل کیا ۔اوراگر ترکی ایسا کرتا ہے کہ ترکی میں قائم اسرائیلی  سفارتخانے کو فلسطینی سفارتخانے میں تبدیل کرتا ہے تو یقیناً  ان کے ساری بات سچ  ہیں، ان پہ شک کرنا صحیح نہیں ہوگا۔

سوال ) لیکن اس کی گارنٹی کیا ہے کہ کس طرح سے  اردغان واپس نہیں پلٹے گیں ؟

جواب) گارنٹی سے نہیں کہا جاسکتا ہے مگر  جسطرح  ہم سب نے دیکھا کہ کل کے اقوام متحدہ کے جنرل اسمبلی اجلاس کے سیناریوں نے جو نیا سیناریوں دنیا کیلئے سامنے رکھا اس کے پیش نظر مثبت  سوچ رکھنے میں تردید رکھنے کی کوئی گنجائش نہیں ہے۔

سوال ) یہ مثبت سوچ ہے یا میدانی صورتحال ہے  یا مقاومت کے محور یعنی ایران کا اثر ہے۔

جواب: آج عوام بیدا رہے۔ جب فلسطین کے بارے میں صرف ایران کا میڈیا بات کرتا تھا تو اس کا پاؤر فل پیغام نہیں جاتا تھا۔ مثلاً یوم القدس منایا جاتا ہے صرف ایرانی میڈیا دکھاتا ہے باقی بلیک آوٹ کرتے ہیں اور ایسے میں جب قد س کے بارے میں ٹرمپ کا بیان آیاتو  اس پر عوامی احتجاج 57 اسلامی ملکوں کے میڈیا نے دکھایا ،مین سٹریم میڈیا کہلانے والا میڈیا جو امریکی اور اسرائیلی میڈٰیا ہے وہ  مجبور ہوگئے جس کا امپیکٹ/اثر اقوام متحدہ کی  جنرل اسمبلی پر بھی پڑا ہےاور خود اسرائیلی اخبار ٹائمز آف اسرائیل نے لکھاتھاکہ امریکہ اوراسرائیل  دنیا کے سامنے الگ تھلگ پڑھ گیا ۔

جب اسرائیل خود اس چیز کو محسوس کرر رہا ہے کہ عوامی بیداری کی لہر چل پڑی ہے اس کے مقابلے میں اسرائیل اورامریکہ الگ تھلگ پڑ ھ گیا ہے یہ چیز اُمیدوار کرتی ہے کہ شاید اب اردغان وہ پہلی غلطی نا کرے واپس نا پلٹے اپنا موقف نابدلے اس لئے مثبت سوچ رکھنا ہی صحیح نظر آرہا ہے۔

سوال ) ٹھیک ہے، اس میں پاکستان کا بھی شامل ہونا ،جنرل قمر باجوہ  صاحب کی طرف سے بھی بیان آنا کہ امریکی ڈرون اگر ہماری ٹریٹری  میں داخل ہوتا ہے تو وہ مار گرایا جائے گا ،یہ تمام تبدیلیاں اور آپ السیسی کی بھی امید کرتے ہیں کہ وہ بھی اس میں شامل ہونگے اس کے پیش نظر کیا اگر میں یہ کہوں کہ یہ سب انقلابی تبدیلی انقلاب اسلامی ایران سے متاثر حرکت ہے؟

جواب )یقیناً جو استقامت ایران نے دکھائی  کہ ایک دن تھا کہ  جب امام خمینی رضوان اللہ تعالی علیہ اکیلے کہہ رہے تھے کہ  امریکہ کچھ کرہی نہیں سکتا ۔آمریکہ ہیچ غلطی نمی تواند بکند۔ یہ جملہ امام خمینی  رضوان اللہ تعالی علیہ  کا نورانی جملہ ہے ۔اس وقت  کچھ لوگ کہتے تھے کہ یہ بوڑھا کیا کہہ رہا ہے۔ اورکل اقوام متحدہ جنرل اسمبلی میں  اورساری جنرل اسمبلی نے امام خمینی  رضوان اللہ تعالی علیہ کے اس جملے آمریکہ ہیچ غلطی نمی تواند بکند۔  امریکہ کچھ کرہی نہیں سکتا ۔ کا ترجمہ بیان کیا ۔

 یو این او کی جنرل اسمبلی میں بیٹھ کرامریکہ کے خلاف ووٹ دیکر امام خمینی رضوان اللہ تعالی علیہ کے جملے کو عملی طورپر اس کا مظاہرہ کیا  گیا کہ امریکہ  کچھ نہیں کرسکتا۔یہ وہی قوت ہے۔

 جب  اسلامی جمہوریہ ایران نے کردکھایا اگر اپنے پیروں پہ کھڑا ہوجائیں تو ہم سے بڑھ کر سوپر پاؤر کوئی نہیں ہے ۔اوریہ اُمید بڑھ گئی باقی ممالک میں کہ وہ اپنی موجودگی کا مظاہرہ کریں۔دنیا نے دیکھا مسلسل پابندیوں کے باوجود  سائنس اور ٹیکنالوجی اور دیگر میدانوں میں کس تیزی کے ساتھ ترقی کی، میزائل ٹیکنالوجی میں ایران کہاں پہنچا اوردفاعی میدان میں کتنا منظم اورپاؤر فل ہے تو یقیناً اس سے اُمید بڑھ گئی ہے اور قدس کے حوالے سے ایران کے کردار کا اثر ہم دیکھ رہے ہیں کہ کسطرح حماس والوں نے بار بار ایران کا شکریہ  کیا حزب اللہ کا شکریہ کیااور دنیا بھر کے مستقل اور آزاد افراد اعتراف کرتے رہتے ہیں  از جملہ پاکستان  سے یہ باتیں سننے کی ملی کہ حقیقت میں شیعوں نے فلسطین کے مسئلے کو زندہ رکھا ہے اوراب بھی ان ہی کی وجہ سے زندہ ہے ۔اوراب ایسے میں، میں نہیں سمجھتا ہوں کہ سنی دنیا کا کوئی ایسا لیڈر ہوگا کہ وہ اپنے آپ کو سیاہ رو کرنا چاہئے گا ، ایسی عوامی بیداری کے مقابلے میں وہ کچھ ایسا کرے کہ جس کی وجہ سےاس کونفرت کی نظروں سے دیکھا جائے اورجسے پوری امت اس کو نفرت سے یاد  کرے۔ ابھی ان شااللہ جو اسلامی انقلاب ایران نے  حریت کا پیغام دیا، اس یقین کےراستے کو واضح کیا ہموار کیا کہ  حتیٰ غیر مسلمانوں کے اندر بھی یہ یقین پیدا  ہوگیا کہ امریکہ کوئی چیز نہیں ہے ۔صرف اپنی صلاحیت اپنے امکانات پہ بھروسہ کرنا ہے، اپنی عوام پر بھروسہ کرنا ہے اس میں کامیابی کا راز ہے،نہ کہ ہمیں امریکہ حمایت کرے تب کامیابی ہوگی۔سب کو یقین ہونے لگا ہے کہ یہ تھوری ہی غلط ہے۔ اسطرح یقیناً امریکہ کے خلاف  جو ایک سوچ بنی یہ انقلاب اسلامی ایران کی دین ہے  جس کا نتیجہ ہم ابھی دیکھ رہے ہیں ۔

 

تبصرے (۰)
ابھی کوئی تبصرہ درج نہیں ہوا ہے

اپنا تبصرہ ارسال کریں

ارسال نظر آزاد است، اما اگر قبلا در بیان ثبت نام کرده اید می توانید ابتدا وارد شوید.
شما میتوانید از این تگهای html استفاده کنید:
<b> یا <strong>، <em> یا <i>، <u>، <strike> یا <s>، <sup>، <sub>، <blockquote>، <code>، <pre>، <hr>، <br>، <p>، <a href="" title="">، <span style="">، <div align="">
تجدید کد امنیتی