سایت شخصی ابوفاطمہ موسوی عبدالحسینی

جستجو

ممتاز عناوین

بایگانی

پربازديدها

تازہ ترین تبصرے

۰

سعودیہ کی الکرامہ تحریک امت اسلامی کی دیرینہ آرزو/امریکی فلسطینی سودا بازی ناکام ہوگی

 اردو مقالات مکالمات سیاسی سعودی عرب

ابوفاطمہ موسوی عبدالحسینی کی ہدایت ٹی وی کے ساتھ گفتگو:

سعودیہ کی الکرامہ تحریک امت اسلامی کی دیرینہ آرزو/امریکی فلسطینی سودا بازی  ناکام ہوگی

 سعودیہ کی یہ" کرامہ"  تحریک  قانون دانوں پر مشتمل  نظر آرہی ہے  جو اپنی جنگ قانونی ہتھیاروں سے  لڑیں گے جس کا اکثر  فقدان ملتا ہے۔ ہماری اکثر مسلمان  تحریکوں میں قانون شکنی ملتی ہے۔  مثلاً ہم توڑ پھوڑ کرکےاحتجاج کرتے ہیں  تو  پھر ہم مجرم قرارپاتے ہیں  تو ہماری بات کوئی  نہیں سنتا ہے  مگر اگر مسلمہ قانونی دائرے کے تحت  تحریک چلائی جائے حقیقت میں ایسی ہی تحریک  اسلامی تحریک  کہلائی گی   جو اسطرح مہذب انداز میں اپنی لڑائی لڑیں گے۔

عالمی اردو خبررساں ادارے نیوزنورکی رپورٹ کےمطابق لندن میں دائرہدایت ٹی وی کے "آج ہدایت کے ساتھ" پروگرام کے عالمی منظر  میں میزبان سید علی مصطفی موسوی نے بین الاقوامی تجزیہ نگار اور نیوزنور کےبانی چیف ایڈیٹر حجت الاسلام حاج سید عبدالحسین موسوی[قلمی نام ابوفاطمہ موسوی عبدالحسینی] سےآنلاین مکالمے کے دوران "  مسلمانوں کی ابتر صورتحال" کے عنوان کے تحت لئے گئے انٹرویو کو مندرجہ ذیل قارئین کے نذر کیا جا رہا ہے:

پاکستان کی زینب کا دلدوز واقعہ

س) قبلہ موضوع جو یہ ہے بہت اپنے اندر جو ہے وہ بڑی گہرائی رکھتا  اوربعض بالکل کریکٹ جو سچویشن ہے ہمارے پاس وہ بھی اطلاع آرہے ہیں اس کے بارے میں اہم آپ سے رائے لیں گے اورمومنین کیلئے بڑٰ خوشی اور کے آنکھوں کی ٹھنڈک ثابت ہوگی جو مومنٹ جو ہے سعودیہ کے اندر لانچ ہوئی کراما مومنٹ اس کے اوپر بھی ہم بات کریں اورجو قدس کا سودا کی جارہا ہے اوراس کی جگہ فلسطین کے دوسرے کی آفر دی جارہی   ہے وہ اپنے دارالخلافہ قدس سے ہٹا کےاس کو تسلیم کرلیں  اورٹرمپ کے فصلے کی مخالفت  امت مسلمہ نہیں ہونی چاہئےیہ مصراور سب سعودیہ عربیہ کررہے ہیں اس کے اوپر ہم سب سے پہلے بات شروع کریں گے سب سے زیادہ سامنے ایک بڑی معصوم بچی کےساتھ زیادتی کا واقعہ پیش آیا قصور کے اندر ہم نے اس کے اوپر یہی بات کی کہ نظام تبدیل ہوناچا ہئےمیں چاہوں کا اس کے اوپر  آپ لیں دیں یہ واقعات ہوتے چلے جائیں گے پے درپے مگر اس کو روکنے میں حکام آج ہی سے پوری دنیا بھر کے مسلمانوں حکام  کی حالت ملی جلی ہے ؟

بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِیمِ؛

اللَّهُمَّ ‌و‌ أَنْطِقْنِی بِالْهُدَى ، ‌و‌ أَلْهِمْنِی التَّقْوَى ، ‌و‌ وَفِّقْنِی لِلَّتِی هِیَ أَزْکَى۔

 ج) یہ واقعہ دلسوز واقعہ ہے اگرچہ  کوئی  نیا واقعہ نہیں ہے البتہ ایسے شیطانی افعال کو روکنے کیلئے  ایک واضح قاعدہ و قانون اسلام نے پیش کیا ہے یہی وجہ ہے شیطانی طاقتیں اسلام کو اپنی اصلی شکل میں دیکھنا پسند نہیں کرتے ہیں  اوراسلام کا ماننا یہی ہے کہ قانون کی حاکمیت  ہو۔ جہاں قانون   کی حاکمیت نہ ہو وہاں یہ درندگی دیکھنی ہی پڑے گی۔ یہاں ایران میں بھی اسلامی حکومت ہونے کے باوجود یہاں سبھی اچھے لوگ نہیں ہیں،بیوقوف لوگ بھی ہیں جو ایسے بھیانک جرائم کے مرتکب ہوتے ہیں،لیکن بلافاصلہ قانونی کاروائی ہوتی ہے۔ایسا ہی ایک واقعہ جب رونما ہوا  مجرم کو پکڑ کر اسے عدالتی شکنجے میں کس کر تمام قانونی مراحل طے کرنے کے بعد آخر کار اس کو پھانسی پہ چڑھایا گیا اورعبرتناک سزا دی گئی ا ورکھلے عام اس کو پھانسی دی گئی۔ پاکستان میں بھی اگرحقیقت میں قانون کی بالادستی ہوتی تو مجرم کو پکڑ  عبرتناک سزا دی گئی ہوتی۔

البتہ ہمیں اس حوالے  سے بدقسمتی  سے ایک خاص قسم  کا چشمہ پہنایا جاتا ہے تاکہ مغربی جرائم کو نہ دیکھ سکیں۔مثلاً اگر آپ ان لوگوں کی بات کریں گے جو انسانی حقوق  کی علمبرداری کی بات کرتے ہیں وہ خود کیسے کیسے قانون بناتے ہیں۔ شاید آپ کو یاد ہوگا وہاں آپ کے لندن کے ایک اسپیشل جج نے مسلمانوں کے بارے میں جو جج منٹ دی  وہ بھی ایک قانون ہے اس کی جج منٹ کے مطابق جو مسلمان پتھر کو ہاتھ لگائے  اس کو چار سال جیل ہوگی، اگر پتھر اُٹھائے تو سات سال اور  اگر پتھر مارے توپندرہ سال جیل کی سزا کاٹنی ہے۔  یہ بھی ایک قانون ہے۔ وہ بھی صرف مسلمان کیلئے،ا گر عیسائی  کرے یا اورکوئی مذہب کا پیرو کرے اس کیلئے  یہ قانون لاگو نہیں ہے۔  اس شیطانی قانون   سے ہماری مراد نہیں ہے بلکہ اسلامی قوانین مراد ہے اگر اسلامی  قوانین کسی بھی نام سے جہاں پر بھی حاکم ہوں یقیناً وہاں انصاف ملے گا  وہاں انسانی اقدار کی بالادستی حاکم ہوگی۔

بدقسمتی سے جس طرح آپ نے اشارہ بھی کیا ہم کن شیطانی ہاتھوں میں کھیل رہے ہیں   جو حقیقت میں انسانوں کو صحیح راستہ دکھانے کے نام پر انہیں راستے سے بھٹکا رہے ہیں گویا وہی انسانیت کے دشمن ہیں۔

الغرض،  پاکستان میں  جو  یہ حادثہ رونما ہوا اس کے مجرم کو پکڑ کر ایک ایسی عبرتناک سزا دینی چاہئے جس کی  مثال ایران نے قائم ہے،جب تک اس طریقے سے ایسے  حالت کےساتھ نہیں نمٹا جائے گا ایسے مسائل کم ہونے کے بجائے زیادہ ہوتے رہیں گے۔

یہاں پر یہ بھی عرض کرتا چلوں یہاں ایران کے مسائل کو لیکر ایک پاکستانی خاتون  (عاصمہ جہانگیر)ہے وہ کہتی ہے کہ مجرموں کو اسلامی قوانین کے تحت سزا دینا وحشی  گری ہے۔یہ لوگ یورپ کی وحشی گری کو اُجاگر نہیں کرتے ہیں  ، ڈکٹیٹروں کی  وحشی گری کو اُجاگر  نہیں کرتےمگر جب  ایسے درندوں کو سزائے موت دی جاتی ہے وہ خاتون  رپورٹ بناتی ہے کہ ایران میں  ہیومن رائٹس وئلیشن ہوتی ہے۔ایسے میں  ممکن ہے کہ  پاکستان کے خلاف بھی اگر ایسے درندے کے خلاف اقدام  ہو تو اس پر   شور وغل شروع ہوجائے کہ  انسانی حقوق کی پامالی ہوئی ہے۔لیکن اگر مسلمان  اسلامی احکام کو صحیح طور استعما ل و نافذ کریں تو انسانی اقدار کی بالا دستی کی حقیقی تصویر  سامنے آئی گی۔

 میں  اس حوالے سے کہ اسلام کے احکامات مسلمانوں کے لئے مخصوص نہیں بلکہ  جملہ قوموں کے نجات کا ذریعہ ہے کے حوالے بھی امام خمینی  کا وہ قول نقل کروں جو کہ سویت یونین کے آخری سربراہ میخائیل گورباچوف کے نام  پہلی جنوری 1989ءکو  خط کے ذریعہ مارکس ازم  کے خاتمے اور اسکی ہڑیوں کے چٹکخنے  کی آواز سنائی دینے اور بہت جلد کمیونزم کو تاریخ کے کوڈے دانوں میں ڈھونڈنے کی امام خمینی رضوان اللہ تعالی علیہ نے پیش گوئی کرتے ہوئے گورباچوف صاحب سے خطاب ہوکر فرمایا تھاکہ:"میں آپ کو اسلام کے بارے میں سنجیدگی سے تحقیق کرنے کی دعوت دیتا ہوں اور اس کی وجہ یہ نہیں ہے کہ اسلام اور مسلمانوں کو آپ کی ضرورت ہے بلکہ اسلامی اقدار کی حامل دنیا ہی قوموں کی نجات کا ذریعہ ہو سکتی  ہے "۔

چونکہ اسلام دشمن طاقتوں کو پتہ  ہے کہ جو مکمل ضابطہ حیات کا عملی نمونہ جس کے بدولت انسان مکمل انسانی اقدار کے ساتھ طے کرسکتا وہ سبھی اسلام  کے پاس ہے اسی لئے  اسلام کی تصویر مسخ کو کرتے رہتے ہیں  ۔جبکہ  انہی کے بدولت ترقی کرتے ہیں اور دوسری  صورت کے عنوان کے ساتھ ڈھال بنا کر  دنیا پر حاکم بنے بیٹھے ہیں ۔جبکہ کہ وہ خوددرندے صفت ہیں ا وراسلامی قوانین کو  اپنی اصلی شکل میں نافذنہیں ہونے دیتے ہیں مگر یہ کہ ایرانی قوم کی طرح ہر قوم اور  عوام اس کیلئے اُٹھ کھڑی ہوتی ہے اور  اسلامی احکام کے نفاذ کے ساتھ ہی انسانی اقدار کی بالادستی  ممکن ہوگی جس سے قانونی حاکمیت حقیقی اور یقینی صورت میں سامنے آسکتی ہے۔

سعودیہ کی الکرامہ تحریک

س) یہ جو سعودی عربیہ میں کرامہ مونٹ لانچ ہوئی  اس بارے میں آپ کیا کہیں گے؟  یہ کس طرح  لانچ ہوئی ہے۔  اس کے مقاصد کیا ہیں۔کیا کرامہ تحریک سےاس بار سعودی عربیہ کے اندر بغاوت شروع ہوئی ہے؟

ج)یہ بالکل بہت ہی زبردست اور دھماکہ خیز خبر سامنے آئی ہے۔ عرب میڈٰیا  العہد" ابھی شائع کیا ہے اورپھراس کے بعد بلافاصلہ جس کا اردو ترجمہ عالمی اردوخبررساں ادارہ ’’نیوز نور‘‘ نے   شائع کردیا  ہے  کہ سعودی عرب میں آل سعود کے خلاف  عوامی تحریک نے اپنی موجودیت کا اعلان  اوراپنے مقاصد  کو کیا بیان ہے۔

  تویہ حقیقت میں  بہت ہی  اچھی خبر ہے جس سے حقیقاً  ہر وہ مسلمان بلکہ  ہر وہ انسان جو  حق کا شیدائی ہے اور خود مختار  ہے وہ اس خبرسےیقیناً خوش ہوگا  کہ عالمی اردوخبررساں ادارے ’’نیوز نور ‘‘کے رپورٹ کے مطابق عربی  نیوز پورٹل العہد   نے "معن بن علی الدوویش الجربا" کی سربراہی میں سعودیہ مخالف تحریک کے مقاصد کا نسخہ جاری کیا ہے۔ یہ تحریک سعودی عرب میں اصلاحات  اور اس ملک میں حقوق شہروندی کے حصول پر زور دیتی ہے نیز اسرائیل کے خلاف لبنانی اور فلسطینی مقاومتی تحریکوں کی بھر پور حمایت  کیلئے تاکید کرتی ہے۔

اس تحریک کا جو تعارف دیا گیا ہے  وہ یوں ہے  کہ؛ کرامہ سعودی عرب میں ملی حقوق حاصل کرنے کیلئے عوامی اصلاحاتی تحریک ہے۔اوراس کے جو مقاصد بیان کئے گئے ہیں جن میں  کہاگیا ہے کہ  ؛ تمام باشندگان کیلئے بلا تفریق مذہب ، مسلک ،مشرب،نسل  و علاقہ؛انسانی اقدار، انصاف،مساوات  اور حقوق انسانی  یقینی بنانا۔ مسالمت آمیز تبدیلی اور جایز حقوق کے حصول کیلئے تمام قانونی طریقہ کار کہ جن کے ذریعہ   اقوام متحدہ  اور آزاد اقوام  اپنے حقوق حاصل کرنے کیلئے بروی کار لاتے ہیں کو بروی کار لانا۔ اور تحریک کرامہ کا ماننا ہے کہ مدنی جمہوری نظام بہترین ممکن شکل ہے ۔ اوریہ بھی کہاگیا ہے کہ؛ ہم سیاسی جماعتوں  اور مجلس شورا کی تشکیل کیلئے  اجازت چاہتے ہیں،حکومت براہ راست خود عوام کی طرف تشکیل پانی چاہئے(جمہوری) نہ کہ پادشاہی خاندان (پادشاہی) سے ۔اورتحریک کرامہ کے اسلامی اورقومی مقاصد کو یوں بیان کیاگیا ہے کہ؛ خطے میں عربی اور اسلامی مقاومتی منصوبوں کی حمایت ، اسلامی اور عربی وحدت کی حمایت اور عربی وطن میں اجتماعی انصاف اور فکری آزادی اور انسانی حقوق کی ضمانت۔،  نیز جو جلی  حروف میں  اس کے مقاصد  بیان شامل ہیں وہ یہ کہ ؛ عالمی صہیونیت کا مقابلہ اور مقابلہ کرنے والوں کی حمایت۔ اسلامی ، عیسائی اور دیگر ادیان کی اعتدالی فکر کی تشہیر کیلئے کام کرنا۔وغیرہ۔ جلدی  میں جتنا میں آپ کو بتا سکا   جس سے پتہ چلتا ہے کہ یہ وہ عوامی تحریک ثابت ہوسکتی ہے کہ جس کی  پوری امت اسلامیہ  آرزو کرتی تھی کہ عربستان میں ایسی تحریک وجود میں آئے، کب یہ لوگ  نیند سے اُٹھیں گے،  کب اپنے پیروں پر کھڑا ہونے کا ارادہ ظاہر کریں گے ۔۔۔۔

"معن بن علی الدوویش الجربا" اس تحریک کے بانی سیکریٹری  جنرل ہیں جس نے یہ تحریک قائم کی ہے  وہ بھی ایسے حالات میں کہ ایک طرف سودا  بازی ہورہی ہے فلسطین کی  ان ہی ایام میں ایسی  موقف  کو سامنے لانا، یہ معمولی خبر نہیں ہے  یہ بہت ہی بڑی خوشخبری ہے۔

س)  اس کے جلسے جلوس کی کیا خبر یں ہیں، کوئی ریلی ،اجتماع  اس بارے میں کوئی خبر ؟

ج) جس طرح ابھی عربی میڈیا میں  جو رپورٹینگ آئی ہے  اس کا خاکہ  جو پیش کیا ہے  اس سے معلوم ہوتا ہے کہ ابھی صرف کا اس کا خاکہ سامنے آیا ہے مگر  اسطرح کے خاکے سے  اندازہ لگایا جا سکتاہے کہ ؛سعودیہ کی یہ کرامہ  تحریک  قانون دانوں پر مشتمل  نظر آرہی ہے  جو اپنی جنگ قانونی ہتھیاروں سے  لڑیں گے جس کا اکثر  فقدان ملتا ہے۔  ہماری اکثر مسلمان  تحریکوں میں قانون شکنی ملتی ہے۔  مثلاً ہم توڑ پھوڑ کرکےاحتجاج کرتے ہیں  تو  پھر ہم مجرم قرارپاتے ہیں  تو ہماری بات کوئی  نہیں سنتا ہے  مگر اگر مسلمہ قانونی دائرے کے تحت  تحریک چلائی جائے حقیقت میں ایسی ہی تحریک  اسلامی تحریک  کہلائی گی   جو اسطرح مہذب انداز میں اپنی لڑائی لڑیں گے۔

جسطرح  ہم نے ایران کا نمونہ دیکھا ہے  اس کی قانون مداری ہی   امریکہ کو ہر اسٹیج  ہر محاذپہ شکست فاش دیتی ہے امریکی منصوبوں کو ناکام بنادیتا ہے اس کی وجہ یہی  منظم اورقانون کے  دائرے میں تحریک  چلاتا ہے۔ تو اس تحریک  کرامہ میں بھی  یہی مزاج نظر آتا ہے۔

جو قانونی تحریک چلانے نکلے ہیں جن نعرہ اصلاحات ہے اور  ولی عہد کا بھی یہی نعرہ ہے جبکہ ان نعروں سے پتہ چلتا ہے کہ وہاں کے شہریوں کو کسی قسم کے حقوق حاصل ہی نہیں ہے ایسے میں یہ تحریک کسی  خون خرابے کے بغیر   آرام سے وہاں پر شاہی حکومت  کو نیچے اُتار کر عوامی حکومت  کو برسراقتدار لانے کی تحریک ہے۔

یقیناً یہ  اس تحریک کا ابتدائی مرحلہ  ہے اور پوری طرح منظر عام پر نہیں آ گئی ہے  مگر یہ بہت ہی سنجیدہ  تحریک نظرآتی ہے۔  کیونکہ انہوں نے کسی  بھی پہلوں کو نظرانداز  نہیں کیا ہے  ۔انہوں نے ایران کےساتھ اپنے روابط کو واضح کیا  ہے۔ ترکی کو  یورپ کیلئے عرب دنیا کا دروازہ بتایا ہے۔ ایران کو مشرق زمین کیلئے عرب دنیا کا دروازہ بتایا ہے۔عراق  کی اہمیت اور ذمہ داری ان کو بتایا ہے۔  مصر  ،یمن ،شام  ،مغرب  ،روس ،چین  اوربرکس [BRICS]ممالک کی اہمیت اور تعاون کا اعلان کیا ہے۔اوریہ کہاگیا ہے کہ  ہماری تحریک فکری اورثقافتی تحریک  ہے کہ جس کا مقصد خاص طورپر جو دین کی بقاء ہے جس میں  لبنان اورفلسطین  کی مقاومت کی تحریک  ہے ان کی کھل کر ہرسطح پر  مددکرنا ہے ۔اور خلیج فارس ممالک کے ایما پر امریکی سازش کے چلتے خلیج فارس  ممالک کو امت اسلامیہ   کامیراث قرار دیتے ہوئےان سے مطالبہ کیا گیا ہے کہ امریکی بالادستی کو چھوڑ کر  اپنی اسلامی اقدار کے بنا پر اپنے پیروں پر کھڑا  ہونا ہے۔ اس  کے پورےخاکے میں بہت ہی  بڑی باتیں نظرآتی ہیں اور جو بھی ان کے جلسے، جلوسوں   کی کاروائیاں، کانفرنسیں وغیرہ جو ہونگی   وہ بتدریج بہت ہی پاؤر فل ہونگی،  جس کو دیکھنے کا انتظار ہے۔  میں نے پہلے ہی عرض کیاکہ  یہ ابھی العہد عربی پورٹل  میں اس تحریک کا خاکہ  پبلش ہوا ہے اردو میڈیا میں پہلی بار  اس کو’’ نیوز نور‘‘ نے  شائع کیا ہے  آگے معلو م ہوگا کہ  کسطرح میدانی صورت میں یہ تحریک ابھرتی ہے۔

س)  آل سعود جیسے ظالم  اورجابر خاندان کے  تین شہزادوں کی موت کی  خبر آرہی ہے   کیا اس پر کوئی ہنگامی آرائی ہوئی ہے اس بارے میں آپ کے پاس کوئی خبر ہے ؟

ج)تین شہزادوں کے موت کی تو تصدیق ہو چکی ہےاس کے باوجود  بھی  جو نظرآرہا ہے  وہ یہ کہ ولی عہد سدھرنے والا نہیں ہے اور  اس کے حکم سے ایک اور شہزادے کو بھی گرفتار کیاگیا  ہے۔سعودیہ کے  اندرونی  حالات بڑے دھماکہ خیز ہیں،  صرف اسی پہ اکتفا کروں گا  جو کرامہ تحریک ہے  اس کا  ان حالات میں  اس تحریک  کا اُبھرنا یہ  بہت بڑی نوید   ہےجو   ان تمام حالات کو کو  جہت دے گی ۔

ایک یورپی سیاستدان نے بھی حال ہی میں سعودیہ ولی عہد کی سیاست کی تنقید کرتے ہوئے   ولی عہد کو  مخاطب کرتے ہوئے کہا کہ صدام بھی اصلاحات چاہتا تھا آخر کار کیا نکالا۔ اور یہ بھی بظاہر اصلاحات چاہتا ہے مگر  کھوکھلا نعرہ ہے،کہتا کچھ ہے اور کرتا کچھ اور اس کے پاس کوئی مضبوط اسٹریٹجی نظر نہیں آتی ہے البتہ  کرامہ تحریک  کے پاس نظرآتی ہے ،جس نے  دور اندیشی کے ساتھ ہرایشو کو  اڈریس کرنے کیلئے خاکہ پیش کیا ہے، وہ  زیادہ موثر نظرا ٓتا ہے۔ اور شہزادوں  کے مرنے سے عوام کو غم نہیں بلکہ   خوشی  ہوگی۔   یہ طے ہے کہ  سعودی عرب میں  ایک بہت ہی انقلابی  تحریک  وجود میں آئی  ہے جو اپنے خد و خال کو  میدانی طور پرجلد ظاہر کرےگی ۔

سعودیہ کا فلسطین کاسودا

س) شہزادوں کے موت  کی  بھی خبریں موصول ہورہی ہیں، کافی  حالات بحرانی نظرآرہے ہیں اور ایسے میں جو  سعودیہ اورمصر قدس کے معاملے میں  سودا کررہے ہیں اورمسلم  اُمہ کے پیٹ میں خنجر گھونپ رہے ہیں  وہ کیا ہے؟

ج) فلسطین کے اجرائی کمیٹی کے رکن" احمد مجدلانی" نے فاش کردیا کہ فلسطن کے مطالبات کو نابود کرنے کیلئے جو مشرق وسطی(مغربی مشرق )میں  امن عمل نامی صدی کی سودابازی ہو رہی ہے اس معاملے کو سعودی عرب کے ذریعہ فلسطینی اتھارٹی کو منتقل کردیا گیا ہے ۔ایسے میں کہ جب فلسطین اتھارٹی کے صدر محمود عباس کو عزل کئے جانے کی خبریں سننے کو ملتی ہے، مجدلانی نے فلسطین ٹی وی کے ساتھ بات کرتے ہوئے کہا کہ  سعودیہ کی طرف سے فلسطینیوں تک یہ مطالبہ منتقل کیا گیا ہے  اور اس معاملے کا مقصد مسئلہ فلسطین کو ختم کرنا اور ایک اتحاد قائم کرنا ہے کہ جو خطے میں کہ اسرائیل جس میں شامل ہے میں ایران کے اثر و رسوخ کو روکنا ہے ۔فلسطین کے نیوزپورٹل "سما" کی رپورٹ کے مطابق امریکی حکام نے کہا ہے کہ  ڈونالڈ ٹرمپ سال جاری کے وسط میں  فلسطین کے بارے میں اپنے منصوبے کو پیش کرے گا۔اوردلچسپ بات یہ ہے کہ

اس منصوبے کو ٹرامپ کے داماد اور مشیر "جارڈکوشنر"  نے مشرق وسطی (مغربی مشرق) کے لئے امریکی صدر جمہوریہ کے خصوصی نمایندے "جیسن گرینبلاٹ" کے تعاون سے پیش کیا اور پچھلی امریکی حکومتوں کی طرف سے پیش کردہ منصوبوں سے بڑ کر  کہ جس میں سارے مسائل از جملہ  قدس کا مستقبل ، سرحدیں اور پناہ گزین اور سعودی عرب اور خلیجی ممالک کی طرف سے حمایت شامل ہے۔

اس حوالے سے محمود عباس کے مشیر نبیل شعث نے ترکی خبررساں ادارے آناتولی سے کہا؛ بعض فاش شدہ خبروں سے معلوم ہوتا ہے کہ امریکی منصوبے کو محمود عباس کو عزل کئے جانے کو نشانہ بنایا ہے۔انہوں نے کہا کہ اس منصوبے (محمود عباس کو عزل کرنے)میں  عربی حلیف دخیل نہیں ہیں ....۔امریکہ فلسطینی صدر کو واشنگٹن کی  ثالثی قبول کرنے کیلئے دباو بنائے ہوئے ہے۔شعث نے تاکید کے ساتھ واضح کردیا کہ اب مشرق وسطی (مشرقی مغرب) میں امن عمل  کے حوالے سے امریکہ کا کردار ختم ہوا ہے۔محمود عباس نے بھی اوائی سی کے دسمبر اجلاس میں کہا تھا کہ  اب امریکی حکومت  کا سیاسی عمل میں  کوئی کردار نہیں ہے۔

  تو اس سے یہ بات واضح ہوتی ہے کہ  قدس معاملہ طے ہوچکا ہے جس میں  امریکہ نے قدس  کا معاملہ اپنے    خیال میں طے کیا ہے جس میں ملکوں کی سرحدیں بھی طے کی گئی ہیں  اورپناہ گزینوں کےساتھ کیا  کیا جائےگا وہ بھی طے ہو گیا ہے  اور  خلیجی ممالک کے تعاون  سے  امریکہ نے یہ فیصلہ لیا ہے۔

  جس سے واضح  طورپر یہ پیغام ملتا ہے  کہ اس معاملے کو کہ جسے   صدی  کا معاملہ نام ملا ہے یہ معاملہ اس بات پہ  طےہوا ہے کہ  فلسطین کا  مسئلہ ختم کرنا ہے تاکہ  اسرائیل کو بچانے کے لئے ایران کے  اثرورسوخ کو روکا جا سکتا ہے   ۔

س)  یہ تو امریکہ کا منصوبہ ہے مگر خود  سعودی خاندان کے اندر جو  حالات جاری ہیں اس سے کیا  لگتا ہے ؟

ج) اس لئے میں بار بار اس تحریک  کرامہ کا ذکر کرتا ہوں کہ  جہاں ہم ایکطرف قدس کو بھیجنے  کے منصوبے کو دیکھتے ہیں جسے خود امریکی  کہہ رہے ہیں کہ  ابھی تک کا امریکی حکام کا سب سے بڑا فیصلہ  ہے جس کی ابھی تک کسی امریکی حکومت نے جرئت نہیں کی ہے اور ایسا منصوبہ بنانے کیلئےا ور اس  منصوبے کو نافذ کرنے کیلئے ٹرمپ     تیار ہو چکا ہے ۔ ایسے حالات میں خودسعودی عرب میں ہی ایسی ایک تحریک اُبھری ہے ایسے میں اس منصوبے کے میدانی صورتحال  نافذ ہونے کیلئے میدان ہموار  نظر  نہیں آرہی ہے۔

  یہ بھی درواقع ایک خوشخبری ہے  جس طرح ٹرمپ نے  مسلم اُمہ کو  فلسطین کے حوالے سے  متحد کرنے  میں ایک غیر شعوری  کردار ادا کیا اور اب اس بار  سعودی عرب میں شاہی  ڈکٹیٹر شپ کا خاتمہ کیلئے اوروہاں جمہوری حکومت قائم کرنے کیلئے  وہاں ماحول تیار کرنے میں نا خواستہ مدد کررہا ہے ۔

تبصرے (۰)
ابھی کوئی تبصرہ درج نہیں ہوا ہے

اپنا تبصرہ ارسال کریں

ارسال نظر آزاد است، اما اگر قبلا در بیان ثبت نام کرده اید می توانید ابتدا وارد شوید.
شما میتوانید از این تگهای html استفاده کنید:
<b> یا <strong>، <em> یا <i>، <u>، <strike> یا <s>، <sup>، <sub>، <blockquote>، <code>، <pre>، <hr>، <br>، <p>، <a href="" title="">، <span style="">، <div align="">
تجدید کد امنیتی