سایت شخصی ابوفاطمہ موسوی عبدالحسینی

جستجو

ممتاز عناوین

بایگانی

پربازديدها

تازہ ترین تبصرے

۰

ایران کی ترکی کو ایک نرم دھمکی

 اردو مقالات سیاسی ایران شام ترکی

ایران کی ترکی کو ایک نرم دھمکی

ایران کی ترکی کو ایک نرم دھمکی

نیوزنور:عفرین میں ترکی کی شاخ زیتون نام کی کاروائی کے بارے میں حسن روحانی کا موقف علاقائی ذرائع ابلاغ میں سرخیوں میں تبدیل ہونے کے ساتھ ہی گذشتہ روز الجزیرہ کے خبرنگار کے لیے ایک پریس کانفرنس میں ایک سوال پوچھنے کے سراغ میں تبدیل ہو گیا ۔حسن روحانی نے اس نامہ نگار کے جواب میں جو شام کے شمال میں ترکی کی کاروائی کے بارے میں ایران کے موقف میں تبدیلی کے بارے میں تھا کہا : تین ملکوں روس ، ایران اور ترکی کے درمیان علاقائی اور خاص کر شام کے مسائل کے بارے میں بہت اچھا تعاون عمل میں آیا ہے ۔

عالمی اردو خبررساں ادارے نیوزنور کی رپورٹ کے مطابق عفرین میں ترکی کی شاخ زیتون نام کی کاروائی کے بارے میں حسن روحانی کا موقف علاقائی ذرائع ابلاغ میں سرخیوں میں تبدیل ہونے کے ساتھ ہی گذشتہ روز الجزیرہ کے خبرنگار کے لیے ایک پریس کانفرنس میں ایک سوال پوچھنے کے سراغ میں تبدیل ہو گیا ۔حسن روحانی نے اس نامہ نگار کے جواب میں جو شام کے شمال میں ترکی کی کاروائی کے بارے میں ایران کے موقف میں تبدیلی کے بارے میں تھا کہا : تین ملکوں روس ، ایران اور ترکی کے درمیان علاقائی اور خاص کر شام کے مسائل کے بارے میں بہت اچھا تعاون عمل میں آیا ہے ۔

شام میں بحران کی زمین کسی بھی دائمی گٹھ بندھن کے لیے زر خیز نہیں ہے ۔ بحران کو شروع ہوئے سات سال ہو چکے ہیں اور جرائت کے ساتھ کہا جا سکتا ہے کہ واحد دو ملک کہ جو ان برسوں کے ایک بڑے حصے میں شام میں ایک محاذ پر لڑتے رہے ہیں وہ روس اور ایران ہیں ۔

بحران کے لمبا کھچنے ، شام کے صدر بشار اسد کی پوزیشن کے نسبتا مضبوط ہونے اور ملکوں کے دو طرفہ روابط میں غیر شامی بحرانوں کے داخل ہونے نے ہر گٹھ بندھن کے چہرے کا رنگ پھیکا کر دیا ہے ۔ ایران ، ترکی اور روس حالیہ ڈیڑھ سال میں آستانہ کی بیٹھکوں کے نتیجے میں ایک ضدو نقیض  لیکن شام کے بحران کو ختم کرنے پر مصمم گٹھ بندھن میں تبدیل ہونے میں کامیاب ہو پائے ہیں ۔

اس گٹھ بندھن کے نتائج غیر معمولی ہونے کے ساتھ شام کے لیے کم نہیں تھے ، کم کھینچا تانی والے علاقوں  کی تشکیل ، جنگ بندی والے علاقوں میں وسعت ، اور داعش کی شکست نے شام میں ایک متحدہ مجموعے کے طور پر سب کو امیدوار کر دیا تھا کہ شام میں ایک ہزار گانٹھوں والی گرہ کھلنے والی ہے ۔

اس کے باوجود ترکی کی مرغے کی ایک ٹانگ  کی رٹ والی روش نے کہ شام کے شمال میں کردوں کی طرف سے جو خطرہ ہے اسے ختم کرنا ضروری ہے ، کافی حد تک توازن کو بگاڑ رکھا ہے ۔ شاخ زیتون نام کی کاروائی  کہ جس کو شروع ہوئے تین ہفتے ہورہے ہیں اس کو بین الاقوامی سطح پر منفی رد عمل کا سامنا ہے ۔

 روسیوں کی خاموشی، ایرانیوں کی محتاط روش اور امریکہ اور  یورپی ملکوں کے ذومعنی جملوں نے عملی طور پر آنکارا کے اس سیاسی ۔فوجی فیصلے کے بارے میں بین الاقوامی نسبی طریقہء کار کو سمجھنے کے امکان کو مشکل بنا دیا ہے ۔ ایران نے اس کاروائی کے آغاز کے ابتدائی دنوں میں ہی کوشش کی تھی کہ اس کے ساتھ معقول اور منطقی فاصلے کو بنائے رکھے اور نہ اس کاروائی کی تائیید کرے اور نہ اس کی مذمت ، لیکن آہستہ آہستہ جب کاروائی لمبی چلی تو ایرانی حکام کے موقف میں بھی زیادہ صراحت پیدا ہو گئی ۔

شام کے شمال میں شاخ زیتون نام کی کاروائی کے شروع  ہونے کے صرف دو دن بعد وزارت خارجہ کے ترجمان بہرام قاسمی نے ۲ بھمن کو ذرائع ابلاغ کے سامنے اس بات پر تاکید کرتے ہوئے کہ شام کے ملک کی سالمیت کا سب کو احترام کرنا چاہیے ، کہا کہ اس رفتار کا جاری رہنا شام میں دہشت گردوں کی واپسی کا باعث بن سکتا ہے اور یہ چیز علاقے اور شام کے لیے ٹھیک نہیں ہے ۔  ایران میں ترکی کے سفیر  رضا ھاکان تکین نے27جنوری کو روزنامہ شرق سے گفتگو کرتے ہوئے  بہرام قاسمی کے بیان پر رد عمل ظاہر کیا ہے اور وزارت خارجہ کے ترجمان کے موقف پر تعجب کا اظہار کرترے ہوئے کہا : وہ ملک جو ہمارے ساتھ واقعی اختلاف رکھتے ہیں انہوں نے اپنے موقف میں کہا ہے کہ ہم ترکی کی  پریشانی کو سمجھتے ہیں اور اس کے بعد انہوں نے اپنے موقف کا اعلان کیا لیکن ایران نے ایسا نہیں کیا ۔

ہم ایران کے ساتھ ایک سال سے زیادہ عرصے سے آستانہ کی بیٹھک کے دائرے میں حسن قرابت رکھتے ہیں اور حالیہ مہینوں میں ہمارے دو طرفہ روابط کی بہتری میں تیزی آئی ہے اور روابط مستحکم ہوئے ہیں ہم نے ان حالات میں بہراسم قاسمی کا ایک جملہ بھی ایسا نہیں دیکھا جس میں انہوں نے ترکی کی پریشانی کا قومی سلامتی کے حوالے سے ذکر کیا ہو اور یہی چیز ہمارے لیے تعجب کا باعث ہے۔

اس سابقہ کے باوجود ایران کی وزارت خارجہ کے ترجمان بہرام قاسمی کی6فروری کی تقریر جو شام کی سرزمین پر  شاخ زیتون نام کی ترکی کی  کاروائی کے بارے میں تہران کے نظریے کی عکاس ہے علاقائی اور بین الاقوامی ذرائع ابلاغ میں چھا گئی ہے اور جمہوری اسلامی  ایران کے پہلے سرکاری موقف کے اعلان میں تبدیل ہو چکی ہے ۔

بہرام قاسمی نے اپنی تقریر میں تاکید کی کہ ترکی کی کاروائی رکنی چاہیے اور شام کے حق حاکمیت اور ملک کی سالمیت کا احترام ہونا چاہیے قاسمی کی یہ تقریر ایران کی طرف سے ترکی سے اس درخواست میں تبدیل ہو گئی ہے کہ وہ شام سے چلا جائے ۔ یہاں تک کہ بعض ذرائع ابلاغ نے بہرام قاسمی کے موقف کو ایران کی طرف سے ترکی کے لیے ایک الٹی میٹم قرار دیا اور دعوی کیا کہ ایران کا یہ موقف مشرق وسطی میں ایک واقعی کھینچا تانی ایجاد کر سکتا ہے ۔

انگریزی ایکس پریس اخبار نے اس بارے میں لکھا ہے : ترکی اور ایران کے صدور حسن روحانی اور رجب طیب اردوغان حالیہ چند برسوں میں شام کے بحران کے دو مختلف جوانب میں رہے ہیں اور اب بھی ایران کا کہنا ہے کہ ترکی کی کاروائی شام کی سالمیت کے لیے خطرہ بن سکتی ہے اور علاقے میں بے ثباتی پر منتہی ہو سکتی ہے ۔

شام میں بحران کی ابتدا سے ہی ترکی شام کے صدر بشار اسد کے مقابلے میں کھڑا تھا اور حال ہی میں اس نے اعلان کیا ہے کہ مدافع خلق کی فوج کے کردی گروہ شام میں ترکی کے گروہ پی کے کے  کے ساتھ رابطے میں ہیں کہ آنکارا جنہیں دہشت گرد مانتا ہے ۔

ترکی ایسی حالت میں شام میں اپنی کاروائی کو جاری رکھے ہوئے ہے کہ جب بشار اسد کی حکومت نے اس اقدام کو غیر قانونی قرار دیا ہے اور ایران کی وزارت خارجہ کا سوموار کے دن کا الٹیمیٹم بھی ایسے دنوں میں آیا ہے کہ جب ترکی کی فوج نے اپنی کاروائی کو شام کے جنوب مغرب اور شہر حلب کی طرف پھیلا دیا ہے ۔

ایران کی وزارت خارجہ کے ترجمان کی تقریر کے ۲۴ گھنٹے بعد ایران کے صدر حسن روحانی نے روس کے صدر ولادیمیر پوتین کے ساتھ ٹیلیفون پر گفتگو کی ۔ وہ گفتگو کہ جس کے تھوڑے سے حصے کو کرملن نے ذرائع ابلاغ کو بتانا پسند کیا ۔لیکن اس گفتگو کے ایک گھنٹے بعد ایران کی ریاست جمہوری کی سایٹ نے ٹلیفون کی اس گفتگو کے جو اصلی محور تھے انہیں منتشر کر دیا ۔

اس منتشر شدہ متن کی بنا پر حسن روحانی نے ٹیلفوں پر روس کے اپنے ہم منصب کو اس بات کی طرف اشارہ کرتے ہوئے کہ ایران شام کی حکومت اور ملت کی اجازت کے بغیر اس ملک کی سرزمین پر خارجی فوجوں کی موجودگی کے خلاف ہے ، بتایا : شام کے شمال میں کھینچا تانی کسی کے بھی حق میں مفید نہیں ہے اور ہم امید رکھتے ہیں کہ علاقے کے تمام ملک شام کی حاکمیت اور زمینی سالمیت کا احترام کریں گے ۔

ولادیمیر پوتین نے بھی اپنی گفتگو کے ایک حصے میں اعلان کیا کہ کسی ملک میں کسی دوسرے ملک کی فوج کی موجودگی اس ملک کی حکومت کی اجازت یا اقوام متحدہ کی سلامتی کونسل کے سرکاری مجوز کے بعد ہونا چاہیے اس کے بر خلاف وہ موجودگی کسی ملک میں آشکارا مداخلت قرار دی جائے گی روحانی اور پوتین کی بات چیت کے اصلی محوروں کے منتشر ہونے کے بعد ذرائع ابلاغ جیسے واشنگٹن پوسٹ نے سرخی لکھی کہ ایران کے صدر نے شام میں ترکی کی فوجی کاروائی پر تنقید کی ہے ۔

شام میں ایران ، روس اور ترکی کے خلاف امریکہ کا منصوبہ ،

ایران اور روس کے صدور کی اس ٹیلیفون پر گفتگو کے ساتھ ہی ان کے ترک ہم منصب رجب طیب اردوغان نے ایک تقریر میں  تین ملکوں ایران روس اور ترکی کے خلاف  امریکہ کے منصوبے کی طرف اشارہ کیا اور کہا : امریکہ شام کے شمال میں ایران اور ترکی اور شاید روس کے مفادات کے خلاف عمل کرتا ہے واشنگٹن نے کردوں کے کنٹرول والے علاقے میں فوجی سازو سامان بھیجا ہے ۔

امریکہ کا  کہنا ہے کہ اس نے ۵ ہزار کامیون اور ۲ہزار بنڈل ہتھیار داعش کے خلاف جنگ کے لیے ارسال کیے ہیں لیکن ہمیں یقین نہیں ہے ۔ ٹرامپ اور اوباما میں سے کوئی سچ نہیں بولتا ۔ امریکہ کو چاہیے کہ منبج سے اپنی فوج نکالے ۔ ہمارے کان امریکہ کی یہ رٹ سن سن کر پک چکے ہیں کہ وہ داعش کا مقابلہ کرنے کے لیے مدافع خلق کی فوج کے ساتھ تعاون کر رہے ہیں ۔ ایسا دکھائی دیتا ہے کہ امریکہ نے ترکی ایران اور یہاں تک کہ روس کے خلاف حساب کتاب کر رکھا ہے لیکن ہم مضبوط ارادے کے ساتھ کھڑے ہیں ۔ ایسا دکھائی دیتا ہے کہ اردوغان اپنی ان باتوں سے ایران اور روس کی توجہ کو شام کے شمال میں آنکارا کے فوجی اقدام کے سلسلے میں حاصل کرنا چاہتا ہے ۔ ایسا لگتا ہے کہ اگر چہ روس نے بھی ابتدا میں شاخ زیتون نام کی کاروائی کے بارے میں خاموشی اختیار کی تھی ، اور اس کو ماسکو کی رضایت مان لیا گیا لیکن کرملین نے بھی اس کاروائی کے آغاز سے ایک دن پہلے مدافع خلق کی فوج کو خبر دار کیا تھا کہ ان جھڑپوں سے بچنے کے لیے وہ عفرین کو شام کی حکومت کے حوالے کر دے لیکن کردوں نے اس درخواست کی مخالفت کی تھی ۔

ترک بھائی بھی مارے جائیں گے اور کرد بھی ،

 عفرین میں ترکی کی شاخ زیتون نام کی کاروائی کے بارے میں حسن روحانی کا موقف علاقائی ذرائع ابلاغ میں سرخیوں میں تبدیل ہونے کے ساتھ ہی گذشتہ روز الجزیرہ کے خبرنگار کے لیے ایک پریس کانفرنس میں ایک سوال پوچھنے کے سراغ میں تبدیل ہو گیا ۔حسن روحانی نے اس نامہ نگار کے جواب میں جو شام کے شمال میں ترکی کی کاروائی کے بارے میں ایران کے موقف میں تبدیلی کے بارے میں تھا کہا : تین ملکوں روس ، ایران اور ترکی کے درمیان علاقائی اور خاص کر شام کے مسائل کے بارے میں بہت اچھا تعاون عمل میں آیا ہے ۔

تین ملکوں کا علاقائی مسائل  کے بارے میں تعاون اور شام کے بارے میں ایک غنیمت موقعہ اور اہم امر ہے اور ہم اس سلسلے کو جاری رکھیں گے ایران کا روس اور ترکی دونوں کے ساتھ اچھا رابطہ ہے لیکن ساتھ ہی یہ ہمارا اصولی موقف ہے کہ ایک ملک کی فوج دوسرے ملک میں اس ملک کی حکومت اور عوام کی مرضی سے داخل ہونا چاہیے ۔ اگر لوگ راضی نہ ہوں اور حکومت نے بھی اجازت نہ دی ہو تو یہ کام درست نہیں ہے ۔

حسن روحانی نے آگے اس کاروائی  کے ہر ممکن طور پر جلدی ختم ہونے کی طرف ایران کےمایل ہونے کی طرف اشارہ کرتے ہوئے کہا : اس کاروائی میں ترک بھائی بھی مارے جائیں گے اور کرد بھی ، پس اس کاروائی کا کوئی فائدہ نہیں ہے ہم کسی ملک کی فوج کے بغیر اجازت کے دوسرے ملک میں داخل ہونے کو نہیں مان سکتے ۔ جیسا کہ امریکہ کی اس وقت شام میں موجودگی کی بھی مذمت کرتے ہیں ۔ ۔ البتہ امریکیوں کے اس علاقے میں بہت غلط مقاصد ہیں اور وہ شام کے ٹکڑے  کرنے کی فکر میں ہیں ۔

روحانی کی یہ باتیں فورا علاقائی اور کردی ذرائع ابلاغ کی سرخیوں میں چھا گئیں ، چنانچہ ایک کردی اخبار رداو نے لکھا ہے کہ ایران کے صدر نے شام میں ترکی کی کاروئی کو فورا روک دینے کا مطالبہ کیا ہے اور تاکید کی ہے کہ اس کاروائی میں سب لوگ منجملہ کرد بھائی مارے جائیں گے ۔

ایران کو شام میں ترکی کی کاروائی سے تشویش ،

تحلیلی سایٹ المانیٹر نے6فروری شام کے شمال میں ترکی کی کاروائی کے بارے میں ایران کے محتاط رد عمل کے بارے میں ان حساس منافع کے بارے میں بیان کرتے ہوئے کہ جو زیتون کی شاخ نام کی کاروائی کے ایران کو حاصل ہو سکتے ہیں لکھا ہے : بعض مفادات کے باوجود ایران نے شاخ زیتون نام کی کاروائی کی حمایت نہیں کی ہے ۔

ترکی کے بر خلاف ایران محتاط اور ہوشیار ہے کہ کوئی ایسا کام نہ کرے کہ جس کی وجہ سے علاقے کے کرد آپس میں متحد اور متفق ہو جائیں ۔ ۲۱ جنوری کے دن جب ترکی نے شاخ زیتون نام کی کاروائی نئی نئی شروع کی تھی ایران  عراق کے اقلیم کردستان کے نیچروان بارزانی کا میزبان تھا۔

نیچروان بارزانی نے ایران کے مختلف حکام کے ساتھ اپنی ملاقات میں تاکید کی کہ عراق کا اقلیم کردستان اجازت نہیں دے گا کہ اس کی سرزمین کو ایران کے خلاف اقدام میں استعمال کیا جائے ۔ ۔

بارزانی کے تہران کے دورے اور اس کی امان بندی سے معلوم ہوتا ہے کہ ایران اس وقت تک کردوں کے ساتھ تعاون کے لیے تیار ہے جب تک کہ وہ ایران کے مفادات کو نقصان نہیں پہنچائیں گے ۔

ایران کو یہ پریشانی ہے کہ اگر ترکی  شام کے شمال  میں اپنے اعلان کردہ علاقے کو پھیلاتا ہے تو یہ حرکت کردوں کو نہ صرف شام میں بلکہ پورے  علاقے میں ریڈیکل بنا دے گی اور علاقے کے بحرانوں میں اضافہ ہو جائے گا ۔

ترکی کا یہ اقدام شام کے سیاسی حالات کے پیچیدہ تر ہونے کا باعث بنے گا جیسا کہ اب تک ہوا ہے اور کرد سوچی کی قومی گفتگو کی بیٹھک میں شرکت سے انکار کر دیں گے ۔ ساتھ ہی شام میں ریڈیکل اور دہشت گرد گروہوں کے طاقت پکڑنے کے امکان میں اضافہ ہو جائے گا ۔ دوسری طرف ترکی نے جو ایک طرف منبج تک اپنی کاروائی کے پھیلانے کے منصوبے کا اعلان کیا ہے اور دوسری طرف حلب تک  تو یہ چیز ایرانیوں کو پریشان کر سکتی ہے کہ آنکارا صرف کردوں کو روکنے کے درپے نہیں ہے بلکہ اس نے شام کے لیے کوئی اور منصوبہ بنایا ہے ۔             

 

تبصرے (۰)
ابھی کوئی تبصرہ درج نہیں ہوا ہے

اپنا تبصرہ ارسال کریں

ارسال نظر آزاد است، اما اگر قبلا در بیان ثبت نام کرده اید می توانید ابتدا وارد شوید.
شما میتوانید از این تگهای html استفاده کنید:
<b> یا <strong>، <em> یا <i>، <u>، <strike> یا <s>، <sup>، <sub>، <blockquote>، <code>، <pre>، <hr>، <br>، <p>، <a href="" title="">، <span style="">، <div align="">
تجدید کد امنیتی