سایت شخصی ابوفاطمہ موسوی عبدالحسینی

جستجو

ممتاز عناوین

بایگانی

پربازديدها

تازہ ترین تبصرے

۰

انقلاب اسلامی ایران جمہوری دینی حکومت کا کامیاب نمونہ

 اردو مقالات مکالمات انقلاب اسلامی ایران مذھبی سیاسی

انقلاب اسلامی ایران جمہوری دینی حکومت کا کامیاب نمونہ

بسمہ تعالی

انقلاب اسلامی ایران کی 39ویں سالگرہ

گیارہ فروری کا اہلبیت علیہم السلام کی آرزو کا دن

ابوفاطمہ موسوی عبدالحسینی کی ہدایت ٹی وی کے ساتھ گفتگو:

انقلاب اسلامی ایران جمہوری دینی حکومت کا کامیاب نمونہ

نیوزنور: گیارہ فروری انقلاب اسلامی ایران کی تقریب  سے واضح پیغام ملتا ہے کہ   یہ وہی نمونہ ہے  جو کربلا نے بتایا تھا۔ جسے امام خمینی رضوان اللہ  تعالی علیہ نے" مردوم سالاری دینی"جمہوری دینی حکومت کا عنوان دیا ہے جو ہر دین و مذہب  کیلئے رہنما اصول اور نسبت العین ہے۔ وہی  کہ جس کا منشور "لاَ تَظْلِمُونَ وَلاَ تُظْلَمُونَ" ہے۔   اسی لئے  عوام کے دل کی دھڑکن بنی ہوئی ہے۔ آپ  ایران کے بغیر دنیا کی کسی بھی حکومت  میں اس قسم کی عوامی مقبولیت نہیں پائیں گےکہ عوام کا کس حدتک حکومت پر اعتماد   اور حکومت کے ساتھ  اتنا محبت رکھتے ہوں۔جبکہ اکثر ایسی تقریب سرکاری طور منائی جاتی ہے جس میں کچھ لوگ  فارملٹی کے طور پر شرکت کرتے ہیں۔ مگر جہاں حکومت  عوام کے دل کی دھڑکن ہو ایسی مقبولیت آپ  کس ملک میں دیکھتے ہیں۔

عالمی اردو خبررساں ادارے نیوزنورکی رپورٹ کےمطابق لندن میں دائرہدایت ٹی وی کے "آج ہدایت کے ساتھ" پروگرام کے عالمی منظر  میں میزبان سید علی مصطفی موسوی نے بین الاقوامی تجزیہ نگار اور نیوزنور کےبانی چیف ایڈیٹر حجت الاسلام حاج سید عبدالحسین موسوی[قلمی نام ابوفاطمہ موسوی عبدالحسینی] سےآنلاین مکالمے کے دوران  انقلاب اسلامی ایران کی 39ویں سالگرہ  کی مناسبت سے"گیارہ فروری  اہلبیت علیہم السلام کی آرزو کا دن" کے عنوان کے تحت لئے گئے انٹرویو کو مندرجہ ذیل قارئین کے نذر کیا جا رہا ہے:

سوال: جولوگ کہتے تھے کہ انقلاب اسلامی ایران انفجار نور میں  حرارت  کم ہوگئی ہے،عوام اور حکومت کے درمیان خلیج ہے آپ نے اس کی سالگرہ پر کیا مناظر دیکھے  اورآپ کیا محسوس  کرتے ہیں؟

ج) بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِیمِ۔ الْحَمْدُ لِلَّهِ رَبِّ الْعالَمین‏ ۔ اللَّهُمَّ ‌و‌ أَنْطِقْنِی بِالْهُدَى ، ‌و‌ أَلْهِمْنِی التَّقْوَى ، ‌و‌ وَفِّقْنِی لِلَّتِی هِیَ أَزْکَى۔

اس انفجار  نور کی مناسبت سے  جو کہ ہر آزاد فکر،  آزاد ارادے والے  انسان  اورہر دین کی متوالے کیلئے ایک بڑی عید سے کم نہیں  ہے کی  خدمت میں دل کی عمیق  گہرائیوں سے  مبارکباد عرض کرتے ہوئے  سورہ روم کی آیہ مبارکہ47 کی تلاوت کا  شرف حاصل کرتے ہوئے میں بات کو آگے لے بڑھاتا ہوں  جس کی اللہ کا فرمان ہے:

" وَلَقَدْ أَرْسَلْنَا مِن قَبْلِکَ رُسُلًا إِلَى قَوْمِهِمْ فَجَاؤُوهُم بِالْبَیِّنَاتِ فَانتَقَمْنَا مِنَ الَّذِینَ أَجْرَمُوا وَکَانَ حَقًّا عَلَیْنَا نَصْرُ الْمُؤْمِنِینَ۔"

[ اور بتحقیق ہم نے آپ سے پہلے بھی پیغمبروں کو ان کی اپنی اپنی قوم کی طرف بھیجا ہے، سو وہ ان کے پاس واضح دلائل لے کر آئے، پھر جنہوں نے جرم کیا ان سے ہم نے بد لہ لیا اور مومنین کی مدد کرنا ہمارے ذمے ہے](صدق اللہ العلی العظیم)

یہ اللہ کا وعدہ ہے  کہ اگر  مومن اللہ کے راستے  پر قدم بڑھائے  گا مؤمن بنے رہے گا،اللہ کا وعدہ  ہے کہ وہ ایسے مومنین  کی مددکرتا ہےاور ایسا کرنا اللہ ذمہ داری ہے۔

ایسے میں  عالم اسلام کو دیکھیں،  مسلم امت  کو  دیکھئے کہ کہا جارہا ہے کہ  57 ممالک ہیں جن میں سے  پانچ ممالک  ایسے ملتے ہیں کہ جنہوں نے یہی  دعویٰ کیا ہےکہ وہاں پر اسلامی جمہوریہ حکومت ہے ؛

·         اس میں  برصغیر کو یہ افتخار حاصل ہوا  کہ  عالم اسلام میں پہلی  بار اسلامی جمہوریہ  کا عنوان 1956 ء میں پاکستان  نے اختیار کرکے دنیا کے سامنے نمونہ پیش کیا یہاں کا حکومتی نظام اسلامی بھی ہے اور جمہوری بھی ہے۔

·         پاکستان  کے چار سال بعد1960میں ایک افریقی ملک "موریتانیہ/ ماریانیاہ " نے اپنے ملک  کو اسلامی جمہوریہ ہونے کا اعلان کیا۔

·         اور "ماریانیاہ/ موریتانیہ " کے 19 سال بعد  ایران نے1979میں" لاشرکیہ  ولا غربیہ" کا اصول بیان کرتے ہوئے  اسلامی جمہوریہ ہونے کا دعویٰ دنیا کے سامنے رکھا۔

·         پھر 25 سال بعد2004میں  افغانستان نے بھی  اسلامی جمہوریہ ہونے کا دعویٰ  کردیا۔

·         اور11 سال بعد2015میں گامبیا نے  اسلامی جمہوریہ ہونے کا  اعلان کیا۔

ان پانچ اسلامی ممالک  کے درمیان ہمیں  ایک وہ ملک ملتا ہے جو اسلامی بھی رہا اور جمہوری بھی رہا ہے اسلامی جمہوریہ ایران ہے۔ اگر ہم  پاکستان کو دیکھتے ہیں اس نے جو دعویٰ کیا کہ میر املک اسلامی  ہے اور  یہاں کا حکومتی نظام  اسلامی جمہوریہ ہے ۔ کیا یہ پاکستان اس پہ کھرے اُترتے ہیں؟  بالکل نہیں۔  اسی طرح موریتانیہ کا بھی دعویٰ رہا ہے کہ اس نے پاکستان کے بلافاصلہ  چار سال بعد جو دعویٰ کیاکہ  ہماری حکومت  اسلامی جمہوریہ ہے لیکن عملا ایسا نہیں ہے۔ مگر ان دو ممالک کے  دعوی کے بعد تیسرے نمبر پر ایران کا نام آتا ہے جس نے یہی دعوی بھی کیا اوراپنے دعوے پر کھرا بھی اترا ہے۔ اور ایک سوال پیدا کیا کہ  ابھی تک کیوں اتنا صد ابہار  اورہردلعزیز قائم ہے  اور نئی طاقت کےساتھ اورنئے شباب  کے ساتھ  دنیا  کے سامنے ظاہر ہوتا ہے۔

  جواب یہ ہے کہ یہ  حقیقت میں ایران  اسی سورہ روم کی آیہ مبارکہ 47  کا مستحق قرار پایا ہے۔ کیوں؟ کیونکہ اگر اہلبیت علیہم السلام کا  دامن نہ تھام لیتے، اہلبیت  علیہم السلام کےساتھ وفا کا اعادہ نہ کرتے،  کربلا کی تحریک  سے اپنے آپ کو نہ چپکاتے ، بالکل ان کا حشر ابھی اسلامی جمہوریہ پاکستان کا  یا موریتانیہ  کا ہوتا۔اسلئے یہ امر مسلمانوں کیلئے  بالعموم  اوردوسرے ادیان کے  بالخصوص  دعوت فکر  ہے کہ اگر دین اور سیاست کو ایک ساتھ چلانا ہے تو کس نقش قدم پر چلنا ہوگا۔ جو سیکولر سیاست  کے متوالے بنے ہوئے ہیں دین اورمذہب کو  الگ سمجھتے ہیں ان کے لئے دعوت فکر ہےکہ  ہر دین مذہب  کے لئے نقش راہ وہی ہے  جو  اہلبیتؑ نے دکھایا ہے ، جو حضرت علی ؑ کا سیاسی منشور  اقوام متحدہ میں بھی موجود  ہے۔مکتب اہلبیت میں دنیا بھر کے لئے سعادت کا راستہ واضح ہے، ہر ملک کے لئے جو اپنے ملک میں دنیا اور آخرت کے راستے  پر سعادتمندانہ طور پر چلنا چاہتا ہے اس کےلئے یہ مکتب مشعل راہ ہے۔اگر ہندوستان میں ہندو، ہندوتوا چاہتے ہیں نقش راہ اہلبیت کا ہے ۔اگر کرسچن اپنے عیسائت اور  مسیحیت علمبرداری کے عنوان سے کرسچن رول چاہتے ہیں مشعل راہ مکتب اہلبیت علیہم السلام وغیرہ ۔ مکتب اہلبیت وہی مکتب ہے جو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے نمونہ اسلام کا اورحکومت داری کا بتایا ہے جسے حضرت علی علیہ السلام عملاکے  اس کا نقشہ دنیا کےسامنے رکھاہے۔جسےحضرت امام حسین علیہ السلام نے اپنے گرم لہو سے اس کو زندہ رکھاہے  یہی ایک نقشہ ہے جس میں انسان کا دنیا و آخرت آباد ہے۔کیونکہ اس کی سیاست میں قرآنی سیاست حاکم  ہے جس پر عمل کرتے ہوئے ایران مغرب اورمشرقی کی سیاست کو ٹھکراکر اس قرآنی سیاست  نہ ظلم کرو نہ ظلم سہو؛سورہ بقر کی آیت نمبر 279  "لاَ تَظْلِمُونَ وَلاَ تُظْلَمُونَ"  کو اپنا نصبل عین بنایا اورقرآن ا ٓئے روز اس کی عزت کو حیثیت کو چار چاند  لگاتارہتا ہے۔اسطرح اس کی سالگرہ کے موقعہ پر  آپ نے،دنیا نے دیکھا کہ کس قدر عوامی مقبولیت کا حامل ہے۔ حقیقت میں یا توہم یہاں ایران میں عاشورہ کے دن  ایسا ولولہ  دیکھتے ہیں  یا  کل گیارہ فروری کو دیکھنے کو ملا۔

 دنیا  کے  کس ملک میں آپ اس طرح کی سیاست اور دین و مذہب کا تال میل دیکھتے ہیں کہ  سیاست  میں بھی وہی جذبہ جو دیانت میں رکھتے ہیں،  جو دین میں رکھتے ہیں اور عقیدت میں رکھتے ہیں  وہی عقیدہ  سیاست میں رکھتے ہیں  اوردور حاضر میں ایرانیوں نے اس سیاست و دیانت  کا جو نمونہ  کس طریقے سے دنیا کےسامنے رکھا ہے اس کی جتنی بھی تعریف کی جائے کم ہے ۔

سوال : عوام نے دشمنوں کا کتنا منھ توڑ جواب دیا ہے  ؟

ج) حقیقت میں بے نظیر جواب دیا، جسطرح امام خامنہ ای نے  ایک دن پہلے اشارہ کیا تھاکہ آج کا جو  11 فروری یعنی ہجری شمسی کایہ   مہینہ بہمن کہتلاتا ہے اس کی 22 تاریخ کو جوکہ شمسی عیسوی کلنڈر کے حساب سے  11 فروری بنتا ہے  تو انہوں نے اس 11 فروری کی تقریب کے بارے میں فرمایا کہ؛ اس سال کی تقریب انوکھی  اورمثالی ہوگی۔ اوریقیناً ایسا ہی  ہوا۔جبکہ بہت سارے تحلیل گروں کا ماننا تھا کہ نہیں اس سال کی تقریب میں  وہ بات نہیں رہی ہے  کیونکہ حال ہی میں جو بدمزگی پیدا کی گئی  ، کچھ موالیوں نے جو چہرہ بگاڑنے کی کوشش کی  جمہوریہ اسلامی کی اورجس کے  پیش نظر جو دنیا ئی میڈیا نے اس حکومت کو جسطرح سے مسخ کرکے پیش کیاتھا تو  کچھ لوگوں کے دلوں میں ڈر بھی تھا کہ اس سال کی تقریب پھیکی ہوگی  لیکن اس سال کی تقریب دیکھ کر عقل حیران ہو کے رہ گئی کہ عوام کا  کیا ٹھاٹھے مارتا سمندر ملک کے کونے کونے میں سے موج زن تھا کہ نہ آسمان میں  ہیلی کاپٹر  پہ بیٹھ کے  کیمرہ اس کی تصویر کو کھینچنے میں  کامیاب ہوگئی  اور زمین پر بیٹھ کر کیمرہ کی عکس بندی کی بات ہی نہیں ۔جسطرح ہر طرف  بڑھتا ہوا عوامی سیلاب دیکھنے کو ملتا تھا ،جو میں نے یہاں صرف عاشورہ  کے بار ے میں لوگوں کو ایسا جذبہ دیکھا ہے جو آج انقلاب اسلامی کی سالگرہ پر اُمڈتا ہوا عوامی  سمندر دیکھنے کو ملا۔یا جو  اربعین حسینی کے موقعہ پرعالمی سطح پر  کربلا میں ٹھاٹھے مارتا عوامی سمند نظر آتا ہے اسی ہی صورتحال دیکھنے کو ملتی تھی۔

گیارہ فروری انقلاب اسلامی ایران کی تقریب  سے واضح پیغام ملتا ہے کہ   یہ وہی نمونہ ہے  جو کربلا نے بتایا تھا۔ جسے امام خمینی رضوان اللہ  تعالی علیہ نے" مردوم سالاری دینی"جمہوری دینی حکومت کا عنوان دیا ہے جو ہر دین و مذہب  کیلئے رہنما اصول اور نسبت العین ہے۔ وہی  کہ جس کا منشور "لاَ تَظْلِمُونَ وَلاَ تُظْلَمُونَ" ہے۔   اسی لئے  عوام کے دل کی دھڑکن بنی ہوئی ہے۔ آپ  ایران کے بغیر دنیا کی کسی بھی حکومت  میں اس قسم کی عوامی مقبولیت نہیں پائیں گےکہ عوام کا کس حدتک حکومت پر اعتماد   اور حکومت کے ساتھ  اتنا محبت رکھتے ہوں۔جبکہ اکثر ایسی تقریب سرکاری طور منائی جاتی ہے جس میں کچھ لوگ  فارملٹی کے طور پر شرکت کرتے ہیں۔ مگر جہاں حکومت  عوام کے دل کی دھڑکن ہو ایسی مقبولیت آپ  کس ملک میں دیکھتے ہیں۔

 

تبصرے (۰)
ابھی کوئی تبصرہ درج نہیں ہوا ہے

اپنا تبصرہ ارسال کریں

ارسال نظر آزاد است، اما اگر قبلا در بیان ثبت نام کرده اید می توانید ابتدا وارد شوید.
شما میتوانید از این تگهای html استفاده کنید:
<b> یا <strong>، <em> یا <i>، <u>، <strike> یا <s>، <sup>، <sub>، <blockquote>، <code>، <pre>، <hr>، <br>، <p>، <a href="" title="">، <span style="">، <div align="">
تجدید کد امنیتی