سایت شخصی ابوفاطمہ موسوی عبدالحسینی

جستجو

ممتاز عناوین

بایگانی

پربازديدها

تازہ ترین تبصرے

۰

روز قدس امت اسلامی کے متحدہ طاقت کا پرتو

 اردو مقالات انقلاب اسلامی ایران مذھبی سیاسی فلسطین

روز قدس امت اسلامی کے متحدہ طاقت کا پرتو

از قلم:سید عبدالحسین
روز قدس حقیقت میں آج عالم اسلام کے اتحاد کی علامت بن کر  عالمی اسلامی تحریک بن چکی ہے اور اب وہ دن دور نہیں جب امت اسلامی اسرائ?ل کی نابودی  اور فلسطین کی فتح سے اعیاد اسلامی میں ایک اور عید کا  اضافہ ہو جائے گا۔ جمعۃ الوداع ماہ مبارک رمضان کو جب  بانی انقلاب اسلامی حضرت آیت اللہ العظمی سید روح اللہ موسوی خمینی  رضوان اللہ تعالی علیہ نے 7 اگست 1979 کو ماہ مبارک رمضان کے آخری جمعہ کو روز قدس کے نام سے موسوم کیا تو کس کو معلوم تھا کہ یہ دن نہ صرف فلسطین کے مسئلے کو اجاگر کرنے میں کلیدی کام کرے گا بلکہ عالم اسلام کی جملہ مظلومیت کواجاگر کرنے اور استکباری سیاست کو عام فہم بنانے کے ساتھ ساتھ مسلمانوں کو دنیا کے گوشے گوشے میں اپنے اوپر ہو رہے مظالم کے خلاف صدائے احتجاج بلند کرنے کا حوصلہ عطا کرے گا۔

کیوں نہ ہو اسکا وعدہ خود اللہ نے دیا ہے کہ جو کام اپنے لئے کرو گے و ختم ہو جائے گا اور جو کام اللہ کیلئے انجام دو گے وہ ہمیشہ کیلئے باقی رہے گا۔ " ما عِندکْم ینفَدْ وَ ما عِندَ اللّہِ باق"(النحل/96)۔امام خمینی رضوان اللہ تعالی علیہ نے اس تحریک کو اپنے لئے نہیں ، اپنے ملک کیلئے نہیں ، اپنے مسلک کیلے نہیں بلکہ صرف اور صرف "لِوَجہہِ اللہِ"۔ خدا کی رضا اور خشنودی کیلئے کسی خطر کی پرواہ کئے بغیر صدا بلند کرتے ہوئے دنیا کی نام نہاد سپر طاقت امریکہ کو اللہ کی طاقت کے سامنے حقیر ہونے کا عقیدہ ظاہر کیا۔اور رنگ خدا میں رنگ کر امت اسلام پر خدائی رنگ چڑھایا جو کسی بھی پانی سے زائل ہونے والا نہیں ہے۔جسے خدا صبغ اللہ کہتا ہے " صِبغَۃَ اللہ وَ مَناَحسَنْ مِنَ اللّہَِ صِبغَۃً (البقرہ/138)"۔  یہی وجہ ہے کہ عالم اسلام میں اسوقت روز قدس کو نہ شیعہ تحریک کے نام پر منایا جارہا ہے نہ ہی سنی تحریک کے نام پر بلکہ ایک اسلامی تحریک  اور ہر مسلمان قبلہ اول بیت المقدس کی بازیابی اور فلسطینی عوام کی فتح میں تمام امت اسلامی کے مسائل  کا حل تصور کررہے ہیں۔ 

جب تک اسرائیل نامی ملک موجود ہے تب تک شعیہ سنی تفرقہ باقی  ہے۔ شیعوں میں اندرونی خلفشار اور تفرقہ بازی  باقی ہے۔ سنیوں میں اندرونی خلفشار اور تفرقہ بازی باقی ہے۔ عالم اسلام کے فرد فرد کے درمیان اختلافات کی گنجائش موجود ہے۔ مسلمانوں کے گھر گھر میں لڑائی جگڑے کے امکانات موجود ہیں۔  اسلامی اداروں میں لوٹ کھسوٹ ، دوکھہ دہی ، رشوت ستانی  ، ظلم و نا انصافی کے مواقع موجود ہیں۔ اسلامی ملکوں پر قرآن او ر رسول خدا صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کی تعلیمات سے بیزار حاکم حکمفرما رہنے  کا مضبوط نظام حاکم ہے۔ اسلام کو سیاست اور سیاست کو اسلام سے الگ  ثابت کرنے کا استکباری منصوبہ رائے عامہ کی شکل میں پیش ہوتا رہے گا۔   اسلئے  ہر مسلمان کو اس دن صرف اسرائیل مردہ  باد نعرے بلند کرکے  ایک سالم معاشرے کے قیام کی راہ میں معاون بننے کی کوشش کرنی چاہئے۔ 

یہاں پر اس مناسبت سے امام خمینی رضوان اللہ تعالی کے تاریخی پیام پر بھی ایک نظر ڈالتے  ہیں جوآپ نے جمعۃ الوداع کو روز قدس کے نام سے موسوم کرنے کی خاطر جاری کیا تھا:

بسم اللہ الرحمن الرحیم؛من در طی سالیان دراز خطر اسرائیل غاصب را گوشزد مسلمین نمودم کہ اکنون اہن روزہا بہ حملات وحشیانہ خود بہ برادران و خواہران فلسطینی شدت بخشیدہ  است و بویژہ در جنوب لبنان بہ قصد نابودی مبارزان فلسطینی پیاپی خانہ و کاشانہ ایشان را بمباران می کند۔من از عموم مسلمانان جھان را و دولت ہا ئی اسلام می خواہم کہ برایی وتاکردن دست این غاصب و پشتیبانان آن بہ ہم بپیوند ند و جمیع مسلمان جھان را دعوت می کنم آخرین جمعہ ماہ مبارک رمضان کہ از ایام قدر است و می تواند تعیین کنندہ سر نوشت مر دم فلسطین نیز باشد بہ عنون روز قدس انتخاب و طی مراسمی ہمبستگی بین الملکی مسلمان را در حمایت از حقوق قانونی مردم مسلمان اعلان نمائند۔از خدا وند متعال پیروزی مسلمانان را بر اہل کفر خواستارم (صحیفہ امام جلد 9 ص 267 )

بسم اللہ الرحمن الرحیم ؛(اردو ترجمہ )میں کئی سالوں سے غاصب اسرائیل کے خطرے کے بارے میں مسلمانوں کو کہتا رہا ہوں اب تو آجکل ہمارے فلسطینی بہن بھائیوں پر وحشی حملوں میں شدت آئی ہے اور خاص کر جنوبی لبنان پر فلسطینی مجاہدوں کا خاتمہ کرنے کے لئے ان کے گھر و بار پر بمباریاں کرتے ہیں۔ میں عالم اسلام کے ہر ایک مسلمان اور اسلامی حکومتوں سے چاہتا ہوں کہ اس غاصب اور اس کے حامیوں کے ہاتھوں کو کاٹنے کے لئے آپس میں متحد ہوجائیں اور تمام مسلمانوں کو دعوت دیتا ہوں کہ ماہ مبارک رمضان کے آخری جمعہ کو جو کہ "ایام قدر" ہے اور فلسطینی عوام کے مستقبل کے حوالے سے موثر بھی ثابت ہو سکتا ہیکو" روز قدس" انتخاب اور مسلمانوں کے بین المللی اتحاد اور مسلمانوں کے قانونی حقوق کے لئے مظاہروں کا اہتمام کرنے کی اپیل کرتا ہوں۔ خدای متعال سے مسلمانوں کی اہل کفر پر کامیابی کے لئے دعا گو ہوں۔( صحیفہ امام جلد 9ص267)

    امام خمینی رضوان اللہ تعالی کے اس پیغام کے کو آج 34 سال گزر گئے ہیں۔ اگر ابھی تک قبلہ اول بیت المقدس صہیونی چنگل سے آزاد نہیں ہوا ، فلسطینی عوام کو فتح نصیب نہیں ہوئی لیکن مسلمانوں میں اتحاد کا جذبہ نکتہ کمال کی طرف گامزن ہے۔ یقینا جن سے امید کی جاتی اور امام خمینی رضوان اللہ تعالی علیہ نے ان کی طرف خاص طور پر اشارہ کیا تھا یعنی اسلامی حکومتوں میں اگر کم سے کم اس ایک اسلامی  مسئلے پر اتفاق رائے قائم ہوتا تو عالم اسلام کے دیگر مسائل تو خود بخود حل  ہو جاتے۔الحمدللہ کہ امت اسلامی متحد ہے ،یکصدا ہیں لیکن اسلامی ممالک کے  حکام متحد نہیں ہیں یکصدا نہیں ہیں۔ وہ کیوں نہیں ہیں  کیونکہ اسرائیل  کا وجود باقی ہے۔  اسلئے اگر مسلمان ہر جگہ ماہ مبارک رمضان کے آخری جمعہ کو  روز قدس کے عنوان سے اپنے آنگن ، گلیوں ، کوچوں  ، اور نکڑ سے لیکر سڑکوں اور شاہراہوں پر منانے کا اہتمام کرتے ہیں سبھی اسلامی ممالک کے سربراہان متحد ہونے پر مجبور ہو جائیں گے۔

 جب 34 سالوں میں ہر سال منظم طریقے کے ساتھ ماہ مبارک رمضان کو یوم قدس  منانے کا سلسلہ جاری رہا تب ہم آج اسرائیل کے سب سے بڑے حامی اور آقا کے گھر میں یعنی امریکا میں مسلمانوں کا ٹھاٹھے مارتا سمندر یوم قدس منانے اور اسرائیل جارحیت کے خلاف  صدائے احتجاج بلندہوتے مشاہدہ  کر رہیں ہیں  اور خود امریکا اپنینا مشروع فرزند اسرائیل کے  خلاف غیض و غضب کی لہر کا صرف تماشائی بننے میں خیریت سمجھتا ہے۔

یوم قدس نہ صرف امریکا میں بھی منایا جاتا ہے بلکہ یورپ میں بھی یورپی مسلمان روز قدس منانے اور اسرائیل کے خلاف صدائے احتجاج بلند کرنے میں فخر محسوس کرتے ہیں اور یورپی ممالک کے حکام جو کہ خود  اسرائیل کے کٹر حمایتی ہیں اس سیلاب کو روک نہیں پاتے ہیں بلکہ ان مظاہروں میں انصاف پسند غیر مسلمان بھی فخر کے ساتھ شرکت کرتے ہیں۔ اور یہ سب امت اسلامی کی حقیقی شکل ہے۔ جو جس شکل میں ، جس ملک میں ، جس زبان میں بھی اپنی شناحت بنائے ہوئے ہے  فریضہ نماز کی طرح ایک ہی انداز میں نظر آتا ہے اور یہی امت اسلامی کی مثال ہے جو کہ متحد ہوتا نظر آتا ہے۔ امت اسلامی کا لفظ بہت زیادہ استعمال ہوتا ہے لیکن حقیقت میں روز قدس پر جس ایک امت کا ثبوت مسلمان پیش کرتے ہیں  وہ مطلوب اور حقیقی امت اسلامی کا مصداق ہے۔

عالم اسلام اسوقت تاریخی امتحان سے گزر رہا ہے۔  جہاں بھی مسلمانوں کی طرف نظر کریں ہر روز کوئی نہ کوئی گھر ماتم کدے میں تبدیل  ہوتا نظر آر ہا ہے جن میں فلسطین ، افغانستان ، پاکستان، بحرین اور کشمیر سر فہرست ہیں۔ اگر ہم قبلہ اول کی بازیابی پر اپنے ایمانی غیرت کا مظاہرہ کرنے کی جرئت نہیں کریں گے تو افغانستان ، پاکستان ، عراق ، کشمیر،میانمار اور دیگر مسلمانوں پر ہو رہے مظالم پر کہاں ایمانی غیرت کا مظاہرہ کریں گے۔

جمعۃ الوداع کو اسرائیل مردہ باد ، امریکا مردہ باد کا مظاہر کرنا ماہ مبارک رمضان کی طرح دو عملوں کا ملاپ ظاہر کرنا ہے ۔ روزہ دار کا نماز جماعت میں شرکت کرنے کے مانند ہے۔وہ یوں کہ جس طرح روزہ اور نماز دو باطنی اور ظاہری عملیں، ہیں روزہ باطنی عمل ہے اور نماز ظاہری عمل ہے۔یعنی جب ایک مسلمان کہے کہ میں روزہ دار ہوں آپکو ماننا ہے کہ روزہ رکھا ہے اگرچہ اس نے حقیقت میں روزہ نہ رکھا ہو یا بالعکس کیونکہ یہ معاملہ صرف نیت پر منحصر ہے۔ مگر نماز کیلئے صرف نیت کافی نہیں۔مسلمان کو تو اللہ کیلئے ہی نماز پڑھنی ہے لیکن دوسرے مسلمان کو بھی دکھنا چاہئے کہ یہ مسلمان نماز پڑ رہا ہے۔اسی طرح دینی غیرت اگرچہ نیت پر منحصر ہے لیکن اس نیت کا عملی مظاہرہ بھی دوسرے مسلمان کو نظر آنا چاہئے۔   

الحمدللہ آہستہ آہستہ سبھی مسلمانوں میں  باطنی دینی غیرت کے شعور کے ساتھ ساتھ ظاہری دینی غیرت  کے برملا اظہار کرنے کا رجحان نظر آتا ہے جس کی مثال غیر اسلامی ملک ہندوستان میں جہاں  امت اسلامی کی عظیم جماعت مکین ہیں  میں ایسے آثار نظر آرہے ہیں جو ہر غیر اسلامی سیاسی جماعتوں کے مظاہروں میں شرکت کرنا سینا تان کر انجام دیتا ہے لیکن اسلام کے نام پر مظاہروں میں شرم یا خوف محسوس کررہے تھیاور  ہندوستان کی طرف سے اسرائیل کے  ساتھ زیادہ قریبی مراسم رکھنے پر کبھی برملا اظہار ناراضگی کرنے کی جرئت  نہیں کرتے یہاں تک کہ دبے الفاظوں میں  روز قدس کو بھی مناتے ہیں ۔الحمدللہ ثم الحمدللہ چند ایک سالوں سے مثبت نوعیت دیکھنے کو ملتی ہے۔ روز قدس روو بہ روو موذون حد تک منانے کا اہتمام ہو رہا ہے۔ اس بار تو چند ایک ہندوستانی علماء اور سیاسی دانشوروں نے کشمیر میں ہندوستانی فوجی اور نیم فوجی دستوں کے ہاتھوں خون کی ہولی کھیلنے پر اظہار افسوس بھی کیا ہے جس کیلئے ہم ان کی بہت ہی شکر گزار ہیں۔ جبکہ ہندوستان کے مسلمانوں سے زیادہ غیر مسلمانوں نے جون سے ہندوستانی فوجیوں کی طرف سے کھلی بربریت ، قتل و خون اور انسانی حقوق کی پایمالی پر زبردست برہمی کا اظہار کیا جس کیلئے ان کا جتنا بھی شکریہ کیا جائے کم ہے۔ مگر افسوس کہ بعض نامور علماہ  اور قلمکار ابھی نا عاقبت اندیشی کا مظاہرہ کررہے ہیں۔ تازہ ایک ہندوستانی نامی مسلمان قلمکار عالم صاحب نے تو کشمیر میں ہو رہے مظالم پر خاموشی اختیار کرتے ہوئے الٹے کشمیریوں کو نصیحت کی کہ اپنے حق سے دستبردار ہوجائیں اور ہندوستان کے ساتھ کسی چوں و چرا کے بغیر الحاق کو تسلیم کریں تا کہ کل ممکن ہے کہ ہندوستان کا وزیر اعظم کشمیری مسلمان ہو۔  جب ایسے حضرات رہبری کرنے لگے تو راہزنوں کے پھر کیا کہنے۔ حقائق کو آگر موصوف کی طرح مسائل کی تحلیل کی جائے تو کشمیر کا مسئلہ کیا فلسطین کا مسئلہ بھی حل ہونے والا نہیں۔  اسی نسخے کو  تو اسرائیل نے آزما ہے  یہ پٹی اس کو دیتے ہیں۔ فلاں عہدہ اس کو دیتے ہیں وغیرہ کیا  اس سے فلسطین کا مسئلہ حل ہو گیا !لگتا ہے کہ موصوف شاید اسرائیل کو بھی یہی نسخہ دیا تھا کہ اسلئے امن کا پیامبر بھی لقب مل گیا۔

 ہندوستان کے اہل قلم حضرات ، فلسطین کے مسئلے کو بیان کرنے کی زحمت گوارا کریں اور اگر ہندوستان میں ہندوستانی مسلمانوں کے مستقبل کی فکر لاحق ہے تو ہندوستان اور اسرائیل کے درمیان روابط کو ختم کرائیں۔ اگر ختم نہیں کراسکتیں ہیں کم سے کم سبھی مسلمانوں کو اسرائیل کی طرف سے فلسطینی عوام کے ساتھ جارحیت کے خلاف کھل کر مظاہرے کرنے کی حوصلہ افزائی کریں۔ اپنی بیزاری ظاہر کریں کہ اگر حکومت ہند  اسرائیلی مظالم کی شریک رہنا چاہتی ہے رہے لیکن یہاں کی عوام اسرائیلی مظالم کے ساتھ نہیں ہیں۔ اسکا برملا اظہار کریں۔ میرا عقیدہ ہے کہ جب تک اسرائیل ، ہندوستان کی پیٹ تھپتھپاتا رہے گا کشمیر میں مسلمانوں کا خون بہنا بند نہیں ہوگا اور مسلمان اکثریتی خطہ ہونے کے سبب مسلمانوں کے درمیان تفرقہ بازی اور انتشار کا بازار ہوتا رہے گا۔اسلئے آو سب دعا کرتیں۔مردہ باد مردہ اسرائیل مردہ باد۔ 

اللہ کی بارگاہ سے دست بدعا ہوں کہ اس رحمت کے مہینے کے صدقے میں اسلامی ممالک کے حکمرانوں کے درمیاں بالخصوص اور امت اسلامی کے درمیاں بالعموم اتحاد و اتفاق عطا کرکے ہر بنی النوع انسان کیلئے انصاف اور عدالت کی فضا نصیب فرمائے۔ ظالم کا خاتمہ کرے اور مظلوم کو نصرت و ظفر نصیب فرمائے۔ آمین

تبصرے (۰)
ابھی کوئی تبصرہ درج نہیں ہوا ہے

اپنا تبصرہ ارسال کریں

ارسال نظر آزاد است، اما اگر قبلا در بیان ثبت نام کرده اید می توانید ابتدا وارد شوید.
شما میتوانید از این تگهای html استفاده کنید:
<b> یا <strong>، <em> یا <i>، <u>، <strike> یا <s>، <sup>، <sub>، <blockquote>، <code>، <pre>، <hr>، <br>، <p>، <a href="" title="">، <span style="">، <div align="">
تجدید کد امنیتی