سایت شخصی ابوفاطمہ موسوی عبدالحسینی

جستجو

ممتاز عناوین

بایگانی

پربازديدها

تازہ ترین تبصرے

۰

تمام مسلمانوں اور دنیا بھر کے مستضعفین کے نام وصیت کہ وہ اپنے استقلال اور آزادی کیلئے قیام کریں

 اردو مقالات انقلاب اسلامی ایران مذھبی سیاسی محضر امام خمینی رہ

امام خمینی رضوان اللہ تعالی علیہ کا الہی سیاسی وصیت نامہ /قسط18

تمام مسلمانوں اور دنیا بھر کے مستضعفین کے نام وصیت  کہ وہ اپنے استقلال اور آزادی کیلئے قیام کریں

نیوزنور: امام خمینی رضوان اللہ تعالی علیہ کا الہی سیاسی وصیت نامہ /قسط18/ اور آپ دنیا بھر کے پسماندہ لوگو! اے اسلامی ممالک اور دنیا بھر کے مسلمانو! اٹھ کھڑے ہو  جاو اور اپنے حق کو اپنے زور بازو سے حاصل کرو اور بڑی طاقتوں اور ان کے ضمیر فروش فرمانبرداروں کے تشہیراتی شور و غل سے نہ ڈرو؛وہ مجرم حکام  کہ جو آپکی محنت کی کمائی کو آپکے اور پیارے اسلام کے دشمنوں کے حوالے کرتے ہیں کو اپنے ملک سے نکال باہر کردو،اور خود اور خدمتگذارمتعہد طبقات ،ملک کی باگ دوڑ  سنبھالیں اور سبھی اسلام کے سربلند پرچم کے نیچے جمع ہو کر اسلام اور سبھی ستم رسیدہ انسانوں کے دشمنوں کےمقابلے میں دفاع کرنے کیلئے کھڑے ہو جاو؛اورخودمختار و آزاد جمہوریتوں کے ساتھ ایک اسلامی حکومت کی جانب آگے بڑھیں کیونکہ ایسا کرنے سے ،دنیا بھر کے سبھی سامراجوں کو انکی اوقات دکھا سکتیں ہیں اور اس طرح تمام  پسماندہ طبقات (مستضعفین) کو  زمین کی وراثت و امامت تک پہنچا سکو گے ۔ اس دن کی امید کے ساتھ جس کا خداوند عالم نے وعدہ فرمایا ہے۔

عالمی اردو خبررساں ادارہ نیوزنور  ؛گذشتہ سے پیوست امام خمینی رضوان اللہ تعالی علیہ کے الہی سیاسی وصیت نامے کی  آخری قسط اگلے سے پیوست ملاحظہ فرمائیں:

تمام مسلمانوں اور دنیا بھر کے مستضعفین کے نام وصیت  کہ وہ اپنے استقلال اور آزادی کیلئے قیام کریں

ف:

میری سبھی  مسلمانوں اور دنیا بھرکے پسماندہ طبقات  سے وصیت یہ ہے کہ  آپ ہاتھ پر ہاتھ دھرے نہ بیٹھیں اور اس بات کی توقع نہ رکھیں کہ آپ کے ملک کے حکام یا  غیر ملکی طاقتیں آئیں گے اور آپ کیلئے آزادی اور خودمختاری کا تحفہ لائیں گی۔ہم اور آپ(مظلوم عوام )نے کم سے کم  پچھلی  ایک صدی  کہ جس میں بڑی جہانخوار استعماری طاقتوں کیلئے سبھی اسلامی اور کمزور ممالک کیلئے آہستہ آہستہ دروازے کھل گئے ہیں کا مشاہدہ کیا ہے یا یہ کہ صحیح تاریخ   ہمیں یہی کچھ بتاتی ہے کہ ان ممالک پر حکمفرما حکومتوں میں سے کوئی بھی اپنی قوم کی آزادی ، خودمختاری اور آسائش کی فکر میں نہ کل تھی اور نہ آج ہے؛بلکہ ان میں سے حد اکثر یا خود ہی اپنی قوم پر ظلم و ستم روا رکھے رہے اور جو کچھ کیا بھی وہ صرف ذاتی یا گروہی منفعت کے لئے انجام دیا ہے؛یا تو متمول طبقات کی رفاہ اور آسائش کیلئے کیا گیا اور جگی جونپڑیوں میں رہنے والےمظلوم طبقات، زندگی کی تمامترنعمات حتی پانی، روٹی اور قوت لایموت سے محروم رہے، اور ان بدبختوں کو متمول اور عیاش طبقات کے مفادات کیلئے استعمال کرتے رہے اور یا  یہ کہ بڑی طاقتوں  کی حمایت سے  اقتدار پر قابض ہوئے اسلئے ممالک اور ملتوں  کو وابستہ بنانے کیلئے  جو کچھ ان سے بن سکا اسے بروی کار لایا اور  مختلف بہانوں سے اپنے ممالک کو مشرق و مغرب کیلئے منڈی میں تبدیل کردیا اور ان کے مفادات کو پورا کیا اور ملتوں کو پسماندہ رکھا اور مصرفی پروان چڑھایا اور اسوقت بھی اسی نقشے پر عمل پیرا ہیں۔

اور آپ دنیا بھر کے پسماندہ لوگو! اے اسلامی ممالک اور دنیا بھر کے مسلمانو! اٹھ کھڑے ہو  جاو اور اپنے حق کو اپنے زور بازو سے حاصل کرو اور بڑی طاقتوں اور ان کے ضمیر فروش فرمانبرداروں کے تشہیراتی شور و غل سے نہ ڈرو؛وہ مجرم حکام  کہ جو آپکی محنت کی کمائی کو آپکے اور پیارے اسلام کے دشمنوں کے حوالے کرتے ہیں کو اپنے ملک سے نکال باہر کردو،اور خود اور خدمتگذارمتعہد طبقات ،ملک کی باگ دوڑ  سنبھالیں اور سبھی اسلام کے سربلند پرچم کے نیچے جمع ہو کر اسلام اور سبھی ستم رسیدہ انسانوں کے دشمنوں کےمقابلے میں دفاع کرنے کیلئے کھڑے ہو جاو؛اورخودمختار و آزاد جمہوریتوں کے ساتھ ایک اسلامی حکومت کی جانب آگے بڑھیں کیونکہ ایسا کرنے سے ،دنیا بھر کے سبھی سامراجوں کو انکی اوقات دکھا سکتیں ہیں اور اس طرح تمام  پسماندہ طبقات (مستضعفین) کو  زمین کی وراثت و امامت تک پہنچا سکو گے ۔ اس دن کی امید کے ساتھ جس کا خداوند عالم نے وعدہ فرمایا ہے۔

ایرانی عوام سے ایک مخصوص وصیت

ص:

پھر ایک بار اس وصیت نامے کے اختتام پر ایران کے شریف عوام سے وصیت کرتا ہوں کہ دنیا میں رنج و مشقتوں،قربانیوں، جانثاریوں اور محرومیتوں کو برداشت کرنے کا پیمانہ اسقدر ہوتے ہیں کہ جسقدر ان مقاصد کے مراتب  اعلی اور قیمتی ہوں ،جس مقصد کیلئے آپ شریف اور مجاہد قوم اٹھ کھڑی ہوئی ہیں اور اس راہ پر گامزن ہے اور اس کی حفاظت کیلئے جان و مال کو نثار کررہی ہیں، یہ وہ والاترین، بالاترین اورارزشمندترین مقصد و مقصود ہے کہ  ازل میں صدر عالم سے لیکر پھر اس کائینات میں ابد تک پیش کیا گیا اور کیا جاتا رہے گا؛اور اپنے وسیع معنی کے ساتھ وہ مکتب الوہیت اور نظریہ توحید کے رفیع پہلوؤں کہ جو تخلیق کائینات کی اصل و اساس ہے اور وجود کی وسعتوں میں اسکی عنایت اور غیب و شہود  کے درجات و مراتب میں ہے؛   اور وہ  سب مکتب محمدی  -  صلی اللہ علیہ وآلہ و سلم - میں تمام مفاہیم ، درجات اور پہلوؤں کے ساتھ جلوہ گر ہوا ہے ؛ اور تمام انبیای  عظام - علیہم سلام اللہ - اور اولیائے کرام - سلام اللہ علیہم - کی کوشش اسی کو جامہ عمل پہنانا رہی ہے اور کمال مطلق ، نیز لامتناہی جلال و جمال تک رسائی اس کے بغیر ممکن نہیں ہے ، یہی وجہ ہے کہ خاکیوں کو ملکوتیوں پر اور ان سے والاتر شرف عطا کیا ہے،اور جو کچھ خاکیوں کو اس راہ میں حاصل ہوتا ہے وہ پوری خلقت میں کسی کو بھی سر و علن میں حاصل نہیں ہوتا۔

 اے ملت مجاہد، آپ ایسے پر چم کے نیچے چل رہے ہیں جو تمام مادی و معنوی دنیا پر لہرا رہا ہے،  اسے پائیں یا نہ پائیں، آپ اس راہ پر گامزن ہوئے ہیں جو تمام انبیاء- علیہم سلام اللہ - کا اکلوتا راستہ  ہے اور سعادت مطلق کی واحد راہ ہے ۔ اس میں وہی جذبہ ہے کہ جس کے تحت تمام اولیا اس کی راہ میں شہادت کو اپنی آغوش  میں لیتے ہیں اور شہادت کو"احلی من العسل" شہد سے زیادہ شیرین سمجھتے ہیں؛اور آپ کےجوانوں نے سرحدوں  پر اس کا ایک گھونٹ پیا ہے اور وہ وجد میں آ گئے ہیں اوریہ ان کی ماں ،بہنوں، باپ اور بھائیوں میں متجلی ہے۔اور حق تو یہ ہے کہ ہم کہیں : یا لیتنا کنّا معکم فنفوز فوزاً عظیماً۔مبارک ہو ان کیلئے وہ نسیم دل آرا اور وہ ولولہ انگیز جلوہ ۔

اور ہمیں معلوم ہونا چاہئے کہ اس جلوے کا ایک پہلو جھلستے کھیتوں ، جاں فرسا فیکٹریوں ، ورکشاپوں ، صنعت ، اختراعات اور ایجادات کے مراکز ، قوم کی اکثریت ، بازاروں ، سڑکوں ، دیہاتوں اور تمام ان لوگوں میں جو اسلام ، اسلامی جمہوریہ اور ملک کی ترقی و خود کفیلی کیلئے خدمت میں مشغول و مصروف ہیں ، جلوہ گر ہے۔

اورجب تک معاشرے میں تعاون اور ذمہ داری کا یہ جذبہ باقی ہے ان شاءاللہ تعالی ہمارا عزیز ملک زمانے کے نقصان سے محفوظ رہے گا۔اوربحمدللہ تعالی دینی مراکز ، یونیورسٹیاں اور تعلیم و تربیت کے مراکز کے جوان اس غیبی و خدائی خوشبو سے لطف اندوز ہیں اور یہ مراکز مکمل طور پر ان کے اختیار میں ہیں اور خدا سے امید ہے کہ وہ ان کو تخریبکاروں اور منحرف لوگوں سے محفوظ رکھے گا۔

اور میری وصیت ان سبھوں سے ہے کہ جو خدای متعال کی یاد کے ساتھ ہر اعتبار سے خود شناسی ،خودکفایی اور استقلال کیلئے آگے بڑ رہے  ، اور یقین جانیں کہ خدا کی عنایت آپ کے ساتھ ہے ، اگر آپ اسکی خدمت میں رہیں اور ملک کی ترقی و تعالی کیلئے تعاون کے جذبے کو  جاری و ساری رکھیں ۔

اور میں ملت عزیز میں جو بیداری، ہوشیاری،تعہد، فداکاری اور خدا کی راہ میں  صلابت و استقامت کو مشاہدہ کررہا ہوں اورامید کرتا ہوں کہ خداوند متعال کے فضل سے یہ انسانی اقدار اگلی پشت میں منتقل ہو جائے اور نسل در نسل اس میں اضافہ ہوتا رہے۔

پرسکون دل،اطمنان قلب ، دلشاد اور خدا کے فضل  کا امیدوار ضمیر کے ساتھ بہنوں اور بھائیوں کی خدمت سے رخصت ہوتا ہوں، اور ابدی مقام کی طرف سفر کرتا ہوں۔ اور آپ کے دعای خیر کا بہت زیادہ محتاج ہوں۔ خدا ی رحمان و رحیم سے درخواست کرتا ہوں کہ  خدمتگذاری میں کوتاہی، قصور و تقصیر کیلئےمیری معذرت قبول فرمائے۔  

اور ملت سے توقع رکھتا ہوں کہ وہ میری  کوتاہیوں، قصور و تقصیر کیلئے میری معذرت قبول کریں۔ اور طاقت کے ساتھ اور مصمم ارادے کے ساتھ آگے بڑھیں اور جان لیں کہ با ایک خادم کے چلےجانے سے ملت کے فولادی سد میں کوئی خلل نہیں پڑنے والا کیونکہ ایک سے ایک بڑکر خدمتگذار موجود ہیں ، اور اللہ اس ملت کا اور دنیا بھر کے مظلوموں کا نگھدار ہے۔

 

 و السلام علیکم و علی عبادالله الصالحین و رحـمة‌الله و برکاته

26بهمن 1361 1جمادی‌الاولی 1403(15 فروری 1983)

روح‌الله الموسوی الخمینی

 

بسمہ تعالی 1

یہ وصیتنامہ میری موت کے بعد،احمد خمینی لوگوں کے لئے پڑھے؛اور عذر کی صورت میں ، صدر جمہوریہ یا رئیس محترم مجلس شورای اسلامی(پارلمنٹ اسپیکر) یا رئیس محترم دیوان عالی کشور(چیف جسٹس)،اس زحمت کو گوارا فرمائیں ؛ اور عذر کی صورت میں ، شورای نگہبان میں سے کوئی ایک فقیہ محترم یہ زحمت گوارا فرمائیں۔

روح‌الله الموسوی الخمینی

بسمہ تعالی 2

اس 29 صفحات پر مشتمل وصیتنامے اور مقدمے کے نیچے چند نکات کے بارے میں تذکر دیتا ہوں:

(1)۔  ابھی جبکہ میں زندہ ہوں ، حقیقت سے بعید کچھ باتیں مجھ سے منسوب کی جاتی ہیں اور ممکن ہے کہ میرے بعد اس  مقدار میں اضافہ ہو جائے؛ لہذا عرض کرتا ہوں کہ جو کچھ مجھ سے منسوب کیا جاتا ہے میں اس کی تصدیق نہیں کرتا مگر یہ کہ اس حوالے سے میری آواز یا ماہرین کی تصدیق کے ساتھ میرے دستخط کے ساتھ میری تحریر ہو؛ یا جمہوری اسلامی ایران کے سرکاری ٹی وی پر کچھ کہا ہو۔

(2)۔ کچھ لوگوں کا دعوی ہے کہ وہ  میرے بیانات لکھتے تھے۔ میں اس بات کی پوری شدت کے ساتھ تکذیب کرتا ہوں ، ابھی تک میرے بیانات کو میرے بغیر  کسی اور نے نہیں لکھے ہیں۔

(3)۔ میں نے نہضت  اور  انقلاب کے دوران بعض سالوسی اور اسلام نما افراد کا نام لیا اور ان کی تعریف کی ہے اور بعد میں سمجھ گیا کہ میں ان کی دغل بازیوں سے اغفال ہوا تھا۔وہ سبھی تمجید اس وقت تھی جب  وہ اپنے آپ کو اسلامی جمہوریہ کے  عہد و پیمان کےوفادارہونے کا دعوی کرتے تھے اور ان مسائل سے غلط استفادہ نہیں کیا جانا چاہئے ؛ اور ہر کسی کا میزان اس کا  فعلی حال  ہے۔

روح‌الله الموسوی الخمینی

 

تبصرے (۰)
ابھی کوئی تبصرہ درج نہیں ہوا ہے

اپنا تبصرہ ارسال کریں

ارسال نظر آزاد است، اما اگر قبلا در بیان ثبت نام کرده اید می توانید ابتدا وارد شوید.
شما میتوانید از این تگهای html استفاده کنید:
<b> یا <strong>، <em> یا <i>، <u>، <strike> یا <s>، <sup>، <sub>، <blockquote>، <code>، <pre>، <hr>، <br>، <p>، <a href="" title="">، <span style="">، <div align="">
تجدید کد امنیتی